۲۰۲۰:سیاسی سرگرمیوں پر لاک ڈاون کا تالہ نہیں لگا

0
2891

ڈاکٹر سلیم خان
کورونا کے لاک ڈاون سے عام آدمی کی زندگی مفلوج ہوکرگئی لیکن سیاستدانوں کے شیطانی دماغ پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ عوام پریشان تھے کہ آخر ان حکمرانوں کو ہم پر رحم کیوں نہیں آتا لیکن وہ تو اس آفت میں بھی سیاسی مواقع تلاش کرنے میں مگن تھے۔ ایےہ میں عوام کا خیال کیسے آتا ؟ لاک ڈاون کے دوران سیاست بدک تو نہیں ہوئی لیکن انداز بدل گیا۔ کورونا کے بہانے تالی ، تھالی اور دیا بتی بھی دراصل سیاست کا بدلی ہوئی شکل تھی ۔ یہ ڈرامہ بازی ۵ اگست کو ایودھیا میں مندر کے سنگ بنیاد کے ساتھ اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ ملک میں کھلے عام سیاسی سرگرمیوں میں کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وزیر داخلہ بیمار ہوگئے لیکن خدا کا کرنا یہ ہوا کہ جیسے جیسے کورونا کا اثر ات کم ہوتے گئے وہ صحت یاب ہوتے چلے گئے۔
ویسے جس وقت ماہ اپریل میں کورونا لاک ڈاون بام عروج پر تھا اس کے باوجود مہاراشٹر کے پالگھر کے اندردو سادھووں کی ہجومی تشدد میں موت کا بہا نہ بناکر ارنب گوسوامی نے ایسا بڑا ہنگامہ کھڑا کیا کہ یکبارگی لگا اب ریاستی حکومت چند دنوں کی مہمان ہے۔ اس کے بعد سشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی کے ذریعہ بھی ادھو ٹھاکرے پر دباو بنایا گیا اور سرکار کو گرانے کی مذموم کوشش کی گئی لیکن وہ ناکام رہی۔ مدھیہ پردیش میں کمل ناتھ حکومت کا تختہ پلٹنے کے بعد شاہ جی کی زبان کو جو خون لگ گیا تھا وہ انہیں کورونا کی وبا کے باوجود چین نہیں لینے دیتا تھااور مدھیہ پردیش کی مانند راجستھان میں بھی بی جے پی اور کانگریس کے درمیان بہت زیادہ فرق نہیں ہے اس لیے وہاں بھی بغاوت کروانے کی سعی کی گئی ۔
ماہِ جولائی میں سچن پائلٹ کو اپنا آلۂ کار بناکر ان سے جیوتردیتیہ سندھیا والا کام لینے کی کوشش کی گئی لیکن اس راستے میں جیوتردیتیہ کی خالہ وسندھرا راجے سندھیا آڑے آگئیں۔ اس طرح کانگریس پارٹی سے بڑا شگاف تو خود بی جے پی میں نظر آنے لگا۔ اشوک گہلوت نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور یہ ثابت کردیا کہ امیت شاہ کو دھول چٹانے کا فن شرد پوار کے علاوہ وہ بھی خوب جانتے ہیں ۔ بہار سے فارغ ہوئے تو ستمبر کے اندر بہار کے صوبائی اناخابات کا اعلان کردیاگیا ۔اس میں شک نہیں بہار کی انتخابی مہم میں خود وزیر داخلہ اپنی علالت کے سبب بنفس نفیس حصہ نہیں لیا لیکن وزیر اعظم نے ہر مرحلے کی ووٹنگ سے قبل دورہ کرکےچار دنوں تین تین یعنی جملہ ۱۲ جلسوں سے خطاب کیا۔ ان کے علاوہ بی جے پی کے کئی رہنما ۳۱ ہیلی کاپٹرس پر سوار ہو کر اکتوبر کے مہینے میں ریاست کے چپے چپے کی خاک چھانتے رہے ۔
بی جے پی کی خاص بات یہ ہے کہ ہمیشہ وہ ایجنڈا طے کرتی ہے اور دیگر لوگ اس پر ردعمل کا اظہار کرتے ہیں ۔ اس بار الٹا ہوگیا مودی جی نے رام مندر اور کشمیر کا روایتی راگ چھیڑا مگر تیجسوی یادو نے ان کو روزگار اور تعلیم جیسے بنیادی مسائل پر بولنے کے لیے مجبور کردیا ۔ چار لاکھ ملازمت کو ناممکن بتانے والے دس لاکھ کا وعدہ کرنے کے لیے مجبور ہوگئے ۔ تیجسوی یادو کو ملنے والی نوجوانوں کی حمایت نے نتیش کمار کے دماغ اور زبان کا توازن بگاڑ دیا ۔ انہوں نے بوکھلاہٹ میں نہ صرف لالو کےبچوں کی تعداد پر طنز کسا بلکہ اس انتخاب کو آخری موقع قرار دے کر اپنی سبکدوشی کا اعلان کردیا ۔ خیر بی جے پی اپنے خفیہ منصوبے کے مطابق نہ تو چراغ پاسوان کے ذریعہ اپنا وزیر اعلیٰ بناسکی اور نہ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ۔ آج اگر نتیش کمار الگ ہو کر حزب اختلاف میں بیٹھنے کا فیصلہ کرلیں تب بھی این ڈی اے اقلیت میں چلا جائے گا اورتیجسوی یادو وزیر اعلیٰ بن جائیں گے ۔
نومبر میں بہار کے انتخابی نتائج آئے اور اسی ماہ حیدرآباد شہر کے میونسپل الیکشن میں بی جے پی لنگوٹ باندھ کر کود پڑی ۔ ایک شہر کی میونسپلٹی کے لیے وزیرداخلہ نے روڈ شو کرکے اعلان کیا کہ اس بار حیدر آباد میں بی جے پی کا میئر ہوگا۔ پارٹی کے قومی صدر نے حیدرآباد شہر کے گلیوں کی خاک چھانی اور ان کی موجودگی میں سرجیکل اسٹرائیک تک کی دھمکی دی گئی۔ یوگی ادیتیہ ناتھ نے حیدر آباد میں جاکر شہر کا نام بدلنے کا شوشہ چھوڑ دیا اور اویسی برادران کو دوسرا جناح قرار دیا گیا لیکن ان کے سارے خواب مٹی میں مل گئے ۔ ان تما م کوششوں کے باوجود بی جے پی کا میئر تو خیر نہیں بنا مگر ایم آئی ایم کنگ میکر ضرور بن گئی۔ اس سے قبل ٹی آر ایس کو اپنے بل بوتے پر زبردست اکثریت حاصل تھی اب وہ ایم آئی ایم کے دستِ نگر ہوگئی۔ اس طرح یہ لوگ جس کا نقصان کرنے کے لیے گئے تھے اس کو فائدہ پہنچا کر ناکام نامراد لوٹ آئے۔
ماہ نومبر کے اندر ہی مہاراشٹر کے اندرقانون ساز کونسل کے ضمنی انتخابات کا اعلان ہوا ۔ یہ اساتذہ اور گریجویٹ حلقہ ٔ انتخاب کے الیکشن تھے ۔ اس نے بی جے پی کے بارے میں اس غلط فہمی کو دور کردیا کہ یہ شہروں کے پڑھے لکھے لوگوں کی پارٹی ہے۔ مہاراشٹر کی ثقافتی راجدھانی پونے ہے اور وہ برہمنوں کی پیشوائی کا گڑھ بھی ہے۔ وہاں سے بی جے پی کے امیدوار کا بری طرح ہارنا معمولی بات نہیں ہے۔ اورنگ آباد میں بھی یہی کہانی دوہرائی گئی۔ خود کو ودربھ کا بے تاج بادشاہ سمجھنے والی بی جے پی کو ایوت محل میں بھی کامیابی نصیب نہیں ہوئی ۔ اور تو اور ناگپور بی جے پی کے ہاتھ سے نکل گیا جہاں آر ایس ایس کا مرکز ہے ۔مرکزی وزیر نتن گڈکری اورہ سابق وزیر اعلیٰ دیویندر فردنویس ا سی شہر سے آتے ہیں ۔ وہاں کے میئر کو کامیاب کرنے کے لیے دیویندر فردنویس نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر ناکام رہے۔ اس طرح صرف نندوربار کے باغی کانگریسی کی فتح پر بی جے پی کو اکتفاء کرنا پڑا۔
سابق وزیر اعلیٰ دیویندر فردنویس نے اس شکست کے بعد تسلیم کیا کہ انہوں نے مہاوکاس اگھاڑی کی طاقت کا غلط اندازہ لگایا تھا ۔ یہ دراصل دیویندر فردنویس کی نہیں بلکہ نریندر مودی کے تئیں کے عوام کی ناراضگی کا اظہار تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ وارانسی میں جاکر دیو دیپاولی منانے والے نریندر مودی کے ۶ لاکھ چراغوں کو ان کے رائے دہندگان نے بجھا دیا اور وہاں پر اساتذہ اور گریجویٹ دونوں ہی حلقۂ انتخاب سے بی جے پی امیدواروں کو دھول چٹا دی ۔ اساتذہ میں دو مرتبہ سے کامیاب ہونے والا امیدوار ہارا اور گریجویٹس کے حلقہ انتخاب میں بی جے پی امیدوار تیسرے نمبر پر چلا گیا ۔ سنگھ پریوار اور آر ایس ایس بنارس ہندو یونیورسٹی کو اپنا گڑھ سمجھتے ہیں لیکن اسی یونیورسٹی کے شہر میں گریجویٹس نے بی جے پی کو ہرا کر یوگی کے گال پر زور دار طمانچہ رسید کردیا جس کو وہ دیر تک سہلاتے رہے ۔
نومبر کے اواخر میں راجستھان کے ۵۰ ضلعوں میں مقامی انتخابات ہوئے ۔ اس میں بی جے پی نے اپنی شکست کے امکان کو دیکھ کر پہلے ہی ہتھیار ڈال دیئے۔ حیدر آباد کا طویل سفر کرنے والی شاہ، نڈا اور یوگی کی تگڑی جے پور اور اس کے اطراف نہیں پھٹکی ۔ اس انتخاب کے نتائج بی جے پی کی توقع کے مطابق تھے ۔ اس کے کامیاب امیدواروں کی تعداد کانگریس تو دور آزاد امیدواروں سے بھی کم تھی۔ جئے پور شہر جو کسی زمانے میں ناگپور کی مانند کمل کا گڑھ مانا جاتا تھا اس کے ہاتھ سے نکل گیا ۔ بی جے پی کو کانگریسی سرکار گرانے کی سعی کا یہ پھل ملا کہ اس کے صرف ۱۲ اور کانگریس کے ۳۶ چیرمین بن گئے ۔ بی جے پی کواب اس سے سبق لے کر مخالفین کی سرکاروں میں عدم استحکام پیدا کرنے سے باز آجانا چاہیے ورنہ ملک کےعوام اس کمل کے پھول کو صحرا میں لے جاکر گاڑ دیں گے یا بحیرہ عرب میں پھینک دیں گے۔
راجستھان کے بعد بی جے پی کے ایک اور قلعہ میں ارتعاش شروع ہوگیا۔ یہ دراصل کسان تحریک کی بدولت تھا۔ پنجاب میں تو خیر بی جے پی کا پوری طرح صفایہ ہی ہوچکا ہے مگر ہریانہ کے تین ایسے شہروں سے میونسپلٹی کے انتخابی نتائج سامنے آئےجو بی جے پی کاگڑھ سمجھے جاتےہںے ۔ ان میں سے ایک تو وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر کا حلقۂ انتخاب بھی ہے۔ ہریانہ کے اندر امبالہ، سونی پت اور پنچ کولا میں اس بار بھی براہ راست میئر کاالیکشن ہوا یعنی اس میں رائے دہندگان نے خود اپنے ووٹ سے انہیں کا میاب کیا۔ ان میں صرف پنچکولا کے اندر بی جے پی محض ۲۰۵۷ ووٹ کے معمولی فرق سے کامیاب ہو سکی جبکہ سونی پت کی سیٹ کانگریس نے ۱۳۸۱۸ ووٹ سے جیت لی ۔ امبالا وزیر اعلیٰ کا علاقہ ہے وہاں کانگریس کے الحاق میں شامل جن چیتنا پارٹی کی امیدوار شکتی رانی کامیاب ہوگئیں۔ ہریانہ کے اندر بی جے پی کے ساتھ ساتھ اس کی حلیف جے جے پی کی ناو بھی ہچکولے کھانے لگی ہے ۔ یعنی اب یہ حال ہے ’ہم تو دوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here