لکھنؤ۔25/دسمبر۔معتبر نظریہ ساز ناقد اور” کئی چاند تھے سر آسماں”جیسے شہرۂ آفاق ناول کے تخلیق کار شمس الرحمان فاروقی کے انتقال پرعالمی بزم
ارباب ذوق کے زیر اہتمام ڈاکٹر عبدالوہاب سخن کی صدارت میں تعزیتی جلسہ کا انعقاد کیا گیا۔تعزیتی جلسہ میں شمس الرحمن فارقی کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتےہوئے فاروقی کو اردو کے خورشید تاباں سے تعبیر کیاگیا ۔ڈاکٹر عبدالوہاب سخن نے کہا کہ شمس الرحمن فاروقی اردو تنقید کی ایک نابغہ شخصیت تھے۔ان جیسے دانشور صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔وہ نہ صرف ایک بڑے ادیب اور نقاد تھے بلکہ ایک بہت اچھے انسان تھے ۔یہی وجہ ہے کہ نظریاتی طور پر ان سے سخت اختلاف رکھنے والے ادیب و ناقدین بھی ان سے محبت کرتے تھےاور انھیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ان کی رحلت سے اردو دنیا کو جو خسارہ ہوا ہے وہ نہ صرف نا قابلِ تلافی بلکہ تشویش کا باعث بھی ہے کہ اردو ادب میں کوئی ان جیسا قدآور و ہمسر ہونا مشکل ہی ہے۔ ڈاکٹر ہارون رشید نے کہا کہ شمس الرحمن فاروقی نے نہ صرف نظریاتی اور عملی تنقید میں انمٹ نقوش ثبت کئے بلکہ تحقیق اور تخلیق کے میدان میں بھی ان کی بے پایاں خدمات ہیں۔جنھیں صدیوں تک یاد رکھا جائے گا۔انھوں نے اردو کی تمام اصناف پر لکھا خواہ شاعری ہو یا افسانہ۔داستان ہو یا ناول۔ان کی تنقید میں بھی تخلیقیت کے عنصر نمایاں تھے۔صبغت اللہ عاصی بیاروی نے کہا کہ شمس الرحمان فاروقی ان دانشوروں میں ہیں جنھوں نے کئی صنم توڑے ہیں۔ترقی پسندی کے بڑھتے پرو پگینڈے اور شدت پسندی کے زیر اثر ادب میںدر آئی نعرے بازی کے خلاف وہ کھڑے ہوئے اور ادب میں ادبیت کے پہلو کو لازمی قرار دیا ۔اسے جدیدیت کا نام دیا گیا یہ الگ بات ہے کہ بعد میں جدیدیت بھی شدت پسندی کا شکار ہو گئی۔ فاروقی سے پہلے اردو تنقید اس بلندی پر نہیں تھی کہ وہ عالمی ادب کی تنقید سے آنکھیں ملا سکے۔بلاشبہ ان کا انتقال ایسا نقصان ہے جس کی تلافی کا ساماں دور دور تک نظر نہیں آتا۔
ان کے علاوہ فرزانہ فرحت (لندن)اعجاز قریشی(پاکستان)عامر قدوائی(کویت)ذکی انجم صدیقی،سراج الدین سیف، آلوک کمار شاذ،فیاض لکھنوی وغیرہ نے بھی اظہار خیال کرتے ہوئے شمس الرحمن فاروقی کے انتقال کو اردو ادب کا عظیم خسارہ قرار دیا۔مرحوم کے لئے مغفرت اور پسماندگان کے لئے صبر جمیل کی دعا کے ساتھ جلسہ کا اختتام ہوا۔