کبیرہ اور صغیرہ گناہ

0
1221

تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں

https://chat.whatsapp.com/9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B

https://www.facebook.com/urduavadhnama?mibextid=ZbWKwL


اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

[email protected] 

9807694588(موسی رضا)


مضمون نگار: محمد اختر عادل گیلانی

انسان سے گناہوں کا صدور ہو جانا اس کی فطرت میں شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ کے منع کرنے کے باوجود ابلیس کے بہکاوے میں آکر حضرت آدم علیہ السلام سے گناہ کا ارتکاب ہوگیا، لیکن جیسے ہی انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا فوراً اللہ سے معافی مانگ لی، لیکن ابلیس تکبر میں پڑ کر اللہ کی نافرمانی کر بیٹھا۔ اس سے معلوم یہ ہوا کہ انسان سے غلطی اور گناہ ہو جا سکتا ہے، لیکن اس پر ڈھیٹ نہیں بننا چاہیے اور نہ عادت بنا لینا چاہیے،‌ بلکہ جیسے ہی احساس ہو جائے توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔ عام بول چال میں توبہ و استغفار کو ایک ہی معانی میں بولا اور سمجھا جاتا ہے، حالانکہ دونوں میں بنیادی فرق ہے۔ استغفار یہ ہے کہ جو گناہ ہو گیا ہے اس کی اللہ سے معافی مانگ لی جائے، جبکہ توبہ میں یہ بات شامل ہے کہ آدمی گناہوں پر نادم و شرمندہ ہو، اللہ سے گڑگڑا گڑگڑا کر گناہوں کی معافی مانگی جائے اور یہ عہد کیا جائے کہ یہ گناہ دوبارہ نہیں کریں گے، اور توبہ کےبعد اس کی زندگی میں سدھار نظر آئے۔

یہ بھی پڑھیں

نو جوان نسل میں تمباکواور دیگر منشیات کا بڑھتا رجحان

گناہ دو طرح کے ہوتے ہیں ایک کبیرہ(بڑے) اور دوسرے صغیرہ(چھوٹے)۔ جن کاموں کو کرنے سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے منع کیا اور بچنے کے لیے کہا ہے،‌ ان کو جان بوجھ کر کرنا کبیرہ گناہ ہے، یعنی ہر وہ فعل گناہِ کبیرہ ہے جسے کتاب و سنت نے حرام قرار دیا ہے، یا جس کے لیے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے دنیا میں کوئی سزا مقرر کی ہو، یا اس پر آخرت میں عذاب کی وعید سنائی ہو، یا ان پر لعنت کی ہو، یا اس کے لیے نزولِ عذاب کی خبر دی ہو۔ ان کے علاوہ جو بھی گناہ ہیں وہ ” صغیرہ ” کی تعریف میں آتے ہیں۔ لیکن ہوشیار رہنا چاہیے کہ گناہ صغیرہ بھی ان حالتوں میں کبیرہ گناہ بن جاتے ہیں جب قرآن و سنت کو کوئی اہمیت اور وزن نہ دیا جائے، بلکہ الٹے کھیل تماشہ اور ‌مذاق بنا لیا جائے، جان بوجھ کر اور عادتاً گناہ پر گناہ کیے جائیں۔ نماز،‌ روزہ، حج، انفاق، نیکی و بھلائی کے کاموں اور قرآن و سنت پر عمل کرنے سے صغیرہ گناہ مٹ جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے(ترجمہ): (‌جو کبیرہ گناہوں سے) توبہ کر چکا ہو اور ایمان لاکر عمل صالح کرنے لگا ہو، ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا۔ (الأعراف:70) ،‌ لیکن کبیرہ گناہ توبہ کے‌ بغیر معاف نہیں ہوتے ہیں، کبیرہ گناہ کا مرتکب اگر توبہ کیے بغیر مر جائے تو اس کی سزا جہنم ہے۔
نوعیت کے اعتبار سے کبیرہ گناہ دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ گناہ جن کا تعلق ” حقوق اللہ” سے ہو،‌ یعنی نماز، روزہ وغیرہ، یہ استغفار اور سچی توبہ سے معاف ہو جاتے ہیں، بشرطیکہ آدمی توبہ کرنے کے‌ بعد اس پر قائم‌ رہے اور اس کی زندگی میں سدھار نظر آئے۔ دوسرے گناہ وہ ہیں جن کا سیدھا تعلق ” حقوق العباد” یعنی بندوں کے حقوق سے ہے، مثلاً کسی کو گالی دی، تکلیف پہنچایا، ظلم کیا، مال یا زمین ہڑپ لیا یا اس کا واجب حق ادا نہیں کیا۔ یہ گناہ صرف اللہ سے معافی مانگ لینے سے معاف نہیں ہوتے جب تک کہ مظلوم و محروم بندہ معاف نہ کردے۔ اگر بندوں کے حقوق کو زندگی میں ادا کرنے میں کوتاہی برتی تو آخرت میں ساری نیکیاں برباد ہو جائیں گی، بلکہ الٹے عذاب ہوگا۔ اس لیے حقوق العباد کے معاملے میں ہوشیار اور محتاط رہنا چاہیے۔
کبیرہ گناہ کی تفصیل:
قرآن مجید کی سورہ البقرہ، النساء، المائدہ، الانعام، بنی اسرائیل، الحجرات اور دوسری سورتوں میں کبیرہ گناہوں کا ذکر تفصیل سے آیا ہے۔ ان کے علاوہ مستند احادیث میں بھی اس کی تفصیل مل جائے گی۔ ویسے قرآن ‌‌‌‌‌و‌ سنت کی روشنی میں اہم اور سنگین قسم کے کبیرہ گناہوں کی تفصیل دی جا رہی ہیں:
* اللہ کے ساتھ شرک کرنا، * والدین کی نا فرمانی کرنا، * ناحق قتل کرنا، * جھوٹ بولنا، * قصداً نماز چھوڑنا، * استطاعت کے باوجود زکوٰۃ ادا نہ کرنا اور حج نہ کرنا، * میدانِ کارزار سے بھاگ جانا، * پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا،
* قطع رحمی یعنی آپسی تعلقات کو کاٹنا، * زنا کرنا، * عملِ قوم لوط (ہم جنس پرستی) میں مبتلا ہونا، * جادو کرنا اور کروانا، * سود لینا، دینا اور اس کا کاروبار کرنا، * تکبر و غرور کرنا، * یتیم کا مال کھانا، * جھوٹی گواہی دینا،
* جھوٹی قسم کھانا، * کسی کو دھوکہ و فریب دینا، * شراب پینا، * امانت میں خیانت کرنا، * چوری کرنا، * ڈاکہ ڈالنا، * جوا کھیلنا، * ظلم کرنا، *رشوت لینا، *حرام مال کمانا اور کھانا، * کسی پر لعنت کرنا، * وعدہ خلافی کرنا، * پڑوسی کو تکلیف دینا، * عام مسلمانوں کو تکلیف پہچانا، * غیر اللہ کے نام پر جانوروں کو ذبح کرنا، * ریا اور نمائش سے کام لینا، * ناحق لڑائی جھگڑا کرنا، * ناپ تول میں کمی کرنا، * لوگوں کا ہنسی مذاق ‌‌‌اڑانا،* فخر و غرور کے لیے تہبند( پاجاما، پینٹ، لنگی) کو ٹخنہ سے اوپر رکھنا، *غیر شرعی وصیت کرنا، * کتاب و سنت کے خلاف فیصلہ کرنا، * اصحابِ رسول ﷺ کو گالی دینا، * اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے نام جھوٹی بات منسوب کرنا، * شوہر سے بیوی کا بداخلاقی سے پیش آنا، * بیوی، غلام اور باندی(دائی، نوکر چاکر) سے بد سلوکی کرنا، * مردوں اور عورتوں کا ایک دوسرے کی نقالی کرنا، * مَردوں کو ریشمی کپڑے پہننا، اور اپنی ضرورت سے زیادہ پانی ہونے کے باوجود دوسرے کو لینے نہ دینا۔

رابطہ:9852039746

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here