تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں
https://chat.whatsapp.com/ 9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B
https://www.facebook.com/
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
[email protected]
9807694588(موسی رضا)
مضمون نگار: مدیحہ لشاری
کائنات کے اسرار و رموز میں معلوم اور نا معلوم کے حسین امتزاج کو فکر اور ادراک مقید کرنے کے لیے انسانی عقل نے فہم کے ساتھ ساتھ خواب و خیال کو قلبی وارداتوں کا ذریعہ بنایا۔ اپنی ذات کو نظامِ حیات کے حوالے سے تجربے او مشاہدات کی بنیاد بنایا اور نامعلوم حقیقتوں کے کھوج میں سرگرداں، اپنے نفسی و قلبی حسی جذبوں اور بے پناہ قوت تخیل کی مدد سے آشکارا کرنے کا مذہب اختیار کر لیا۔ سیفی سرونجی ایسے ساحر ہیں جو جذبوں کو لفظوں میں ڈھالنے کا ہنر جانتے ہیں۔ حسن کے ذوق نمود نے جب پہلی انگڑائی لی۔ قلب ہے رنگ کے حریم ناز، حریری پردوں میں غیر محسوس جنبش نظر آئی۔ عشق کے خاموش تاروں میں محبت کی نغمگی نے سانس لینا شروع کیا۔ تو سیفی صاحب نے اْسے فن میں بیان کرنے کا ہنر سیکھا؎
تجھ کو اگر تلاش کسی دیوتا کی ہے
محلوں کے خواب چھوڑ دے کچے مکان دیکھ
٭
سر پر نہ آ پڑے کہیں چلتے ہیں بچ کے لوگ
سیفی ترے مکان کی دیوار دیکھ کر
٭
کرتے تھے لوگ تبصرہ عنوان د یکھ کر
لکھا ہے کیا کتاب میں پڑھتا کوئی نہ تھا
٭
بدن ہو زخمی مگر شاندار ہو پوشاک
اس طرح سے میاں جھوٹی شان رکھ لینا
ادب تعمیر حیات، تنقید حیات اور تعبیر حیات ہے۔ کوئی بھی لکھاری اپنے اردگرد سے متاثر ہو کر، اپنے ماحول کے مطابق لکھتا ہے۔ زندگی میں آنیوالے حالات وواقعات، تجربات مشاہدات شاعر پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جس کا عکس اْن کی شاعری میں ہمیں نظر آتا ہے۔ سیفی سرونجی کی شاعری میں سیاسی، معاشرتی اور اجتماعی مشاہدات نظر آتے ہیں۔
مری تلاش میں کوئی نہ آنے گا یہاں
میں اپنے گاؤں کے ٹوٹے مکان میں ہوں
بھلا نہ پاؤ گے تم ذہن سے مجھے صدیوں
ورق ورق پہ ہر اک داستان میں ہوں
کسی کے ہاتھ نہ آؤں گا میں زمانے میں
میں ایک خواب ہوں اونچی اُڑان میں ہوں
سیفی سرونجی کے ہاں معاشرے کی تصویر ہے۔ وہ حسن و عشق کی بجائے معاشرے کی کمیوں پر زور دیتے ہیں۔ انھوں نے اپنی غزلوں میں شائستگی کو برقرار رکھا۔ سنجیدگی اور گہرائی کو انھوں نے سمجھا اور دلی جذبات کے ساتھ ساتھ مشاہدے کا بیان بھی کیا۔ ان کے ہاں جھوٹی اناؤں، ادھوری باتوں، سسکتی مجبوریوں ، معاشرتی نا ہموار ہوں ، معاشی ناانصافیوں پر احتجاج ملتا ہے۔ اشعار ملاحظہ ہوں :-
ہمیشہ بھیڑ میں جو اکثر گھرا رہتا تھا
عجیب بات ہے دنیا میں وہ اکیلا تھا
تمام عمر گزاری ہے ہم نے گاؤں میں
ہمارے نام کا لیکن جہاں میں چرچارہا
تمام عمر ترے در پہ کاٹ دی ہم نے
زمانہ اس کو محبت کا نام دیتا تھا
سیفی سرونجی اپنی انفرادیت ، طبیعت ، مزاج کے باعث کسی کی پیروی نہیں کرتے۔ انھوں نے اپنے فن میں تقلید سے انحراف کیا۔ نئے خیالات کو شعر کے قالب میں ڈھالا۔ ان کا کلام نئے نئے رنگ برنگے، تروتازہ پھولوں کا شگفتہ گلدستہ ہے۔ ان کے کلام میں احساسات و محسوساتکا تصور ملتا ہے۔ وہ زندگی کے کوائف کو مدغم طریقوں سے دیکھتے ہیں۔ہمیشہ بھیڑ میں جو اکثر گھرا رہتا تھا عجیب بات ہے دنیا میں وہ اکیلا تھا تمام عمر گزاری ہے لے گاؤں میں ہمارے کام کا لیکن جہاں میں پر جا رہا۔ تمام عمر ترے در پہ کاٹ دی ہم نے زمانہ اس کو محبت کا نام دیتا تھا منی سرونی اپنی انفرادیت ، طبیعت ، م.اج کے باعث کسی کی پیروی نہیں کرتے۔ انہوں نے۔ اپنے فن میں تقلید سے انحراف کیا۔ نئے خیالات کو شعر کے قالب میں ڈھالا۔ ان کا کلام نئے نئے رنگ برنگے، تروتازہ پھولوں کا شگفتہ گلدستہ ہے۔ ان کے کلام میں احساسات و محسوسات کا تصور ملتا ہے۔ وہ زندگی کے کوائف کو مدہم طریقوں سے دیکھتے ہیں۔اْن کی شاعری میں ایسے انسان کا تصو پایا جاتا ہے جو علویت نہیں رکھتا لیکن واحساس کا خیال ضرور رکھتا ہے۔اشعار ملاحظہ ہوں:
نہ ہو جو پوری وہ خواہش کبھی نہیں کرتے
ہم اپنے غم کی نمائش کبھی نہیں کرتے
خلوص ڈھونڈتے پھرتے ہیں ہم زمانے میں
کسی سے بھول کے سازش کبھی نہیں کرتے
زبان جن کی بہت تیز تیز چلتی ہے
وہ اپنے ذہن کی ورزش کبھی نہیں کرتے
جب کبھی کوئی شاعر معاشرے پہ غور و فکر کرتا ہے تو وہ معاشرتی پہلوؤں کو اپنی بصیرت سے دیکھتا ہے۔ جس طرح محسن نقوی نے کہا:’’شعر کہنا میرے لیے نہ تو فارغ وقت کا مشغلہ ہے اور نہ ہی خود نمائی کا شوق بلکہ اپنے جذبات و احساسات کے لیے، اظہار کے لیے مجھے شاعری سے بہتر موثر پیرایہ ملا ہی نہیں۔‘‘
سیفی سرونجی بھی ایسے شاعر ہیں جنھوں نے اظہارِ احساس کے لیے شاعری کو چنا،نہ کہ نام و نمود کے لیے۔ان کی شاعری میں حکومت، تخت و تاج اور دوستوں سے بے وفائی کا گلہ بھی ملتا ہے۔ اشعار ملاحظہ ہوں:
حکومتوں سے جو ٹکرا کے لوٹ جاتے ہیں
وہ تخت و تاج بھی ٹھکرا کے لوٹ جاتے ہیں
نجانے کس لئے شرما کے لوٹ جاتے ہیں
ہمارے سامنے وہ گھبرا کے لوٹ جاتے ہیں
خلوص کیا یہ سمجھانے کے لوٹ جاتے ہیں
ہمارے دوست ہیں کترا کے لوٹ جاتے ہیں
سیفی سرونچی اپنی شاعری میں ترقی پسندیت کا لہجہ رکھتے ہیں۔ ان کی غزل نشاطیہ رنگ اور طربیہ آہنگ کا بہترین مرقع ہے۔ ان کی شاعری کو پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ اس کائنات میں دھڑکنے والے دل کی ایسی دھڑکن ہے جسے ہر قاری اپنی نبض میں محسوس کر سکتا ہے۔ اپنی شاعری میں بات چیت کا ایسا لب و لہجہ اختیار کرتے ہیں جس میں سادگی پائی جائے۔ موضوعات کا ایسا انتخاب کرتے ہیں جس کو عوام و خاص پسند کریں۔ بلا جھجک ہم کہہ سکتے ہیں کہ سیفی سرونچی عہد ساز شاعر ہیں۔
( اوکاڑہ،پاکستان)
٭٭٭٭٭