اسرائیل ایک دہشت گرد ریاست ہے-Israel is a terrorist state

0
97

Israel is a terrorist state

ڈاکٹر سلیم خان
اسرائیل سے نرم گوشہ رکھنے والا عالمی میڈیا جس کی صفوں میں ہندوستان کے کئی اخبارات و چینلس بھی شامل ہوگئے ہیں حالیہ تصادم کے لیے حماس کے راکٹ حملے کو ذمہ دار ٹھہراتےہیں ۔اس کے برعکس حماس کا دعویٰ ہے کہ یہ کارروائی بیت المقدس میں مسلمانوں کی مقدس مسجد اقصیٰ پر ’اسرائیل کی جارحیت اور دہشت گردی‘ کا انتقام ہے ۔ بیت المقدس میں اسرائیلی پولیس اور فلسطینی شہریوں میں تازہ جھڑپوں کی ابتدا اس وقت ہوئی تھی جب مشرقی بیت المقدس میں یہودی آبادکاروں کی جانب سے وہاں بسنے والے فلسطینی خاندانوں کو بیدخل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس طرح مسلمانوں کی قبلۂ اول یعنی مسجدِ اقصیٰ اور اس کے قرب و جوار کا علاقہ ماہِ رمضان میں پرتشدد جھڑپوں کا مرکز بن گیا۔ مشرقی بیت المقدس کے علاقے شیخ جراح میں کئی دنوں سے جاری مزاحمت کا یہ تسلسل تھا۔ یہاں آباد فلسطینی خاندانوں کو یہودی آبادکاروں کی جانب سے جبری بےدخلی کا سامنا ہے اور فلسطینی چونکہ مسلسل احتجاج کررہے ہیں جس کوحفاظتی دستے کچلنے یا منتشر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس لیے حالات کشیدہ ہیں۔
حماس کے راکٹ داغے جانے سے 27 دن قبل 13 ؍ اپریل کو اسرائیل کا قومی یادگار دن تھا۔ یہ ملک بنانے کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے فوجیوں کی یاد میں منایا جاتا ہے ۔ اس موقع پر اسرائیل کے صدر ریوون رولن پولس کے ساتھ مسجد اقصیٰ میں داخل ہوگئے۔ رمضان المبارک کی ابتداء میں یہ مسلمانوں کو اشتعال دلانے کی ایک مذموم کوشش تھی۔ اس پر وہاں موجود لوگوں نے احتجاج کیا اور بحث و مباحثہ ہوگیا ۔ بات جب مارپیٹ تک پہنچ گئی تو پولس نے لاوڈ اسپیکر کے سارے تار کاٹ دیئے۔ اس کے بعد انتہاپسند قوم پرست یہودیوں نے یوم ِیروشلم کے موقع پر جلوس نکال کر مسجد اقصیٰ میں آکر مذہبی رسوم ادا کرنے کا اعلان کیا ۔ اس دن یروشلم کے غاصبانہ قبضے کا جشن منایا جاتا ہے۔ مسلمانوں نے ان کو روکنے کا فیصلہ کیا ۔ حکومت نے پہلے تو یہودیوں کو سمجھایا کہ وہ مسلم محلوں میں نہ جائیں یا اپنی تعداد کم کریں لیکن وہ نہیں مانے تو اس کے تین دن قبل جمعتہ الوداع کو نہتے مسلمان نمازیوں پر ربر اور چھرےّ کی گولیاں برسا کر 180لوگوں کو زخمی کردیا ۔ اسرائیل کو توقع تھی کہ اگر مسجد پر حفاظتی دستے تعینات کردیئے جائیں تو مسلمان گھروں میں دبک کر بیٹھ جائیں گے اور جلوس اپنی من مانی کرسکے گا لیکن حماس نے ان دستوں کو ہٹانے کے لیے ۶ بجے تک کا وقت دیا اور اس کے پورا ہونے پر راکٹ برسائے تو کیا غلط کیا ؟ اور اس کے لیے اصل ذمہ دار کون ہے ؟
یہ تو خیر عارضی وجوہات ہیں لیکن اصل میں اس فساد کی بنیادی وجہ مشرق وسطیٰ میں ناجائز طریقہ پر ریاستِ اسرائیل کا قیام ہے ۔ اس کا دوسرا سبب سنہ 1967 میں ہونے والی چھ روزہ جنگ کے بعد سے مشرقی بیت المقدس پر اسرائیل کا ناجائز قبضہ ہے ۔ اسرائیل کے اس اقدام کو عالمی برادری کی اکثریت نے تسلیم نہیں کیا ہے اور اقوام متحدہ کی کئی قراردادیں اس عمل کو غیر قانونی قرار دیتی ہیں تاہم اسرائیل کی یہ ہٹ دھرمی ہے کہ وہ یروشلم کو اپنا دارالحکومت کہتا ہے ۔اسرائیل کی اس دھاندلی کو مسلمانوں نے کبھی بھی تسلیم نہیں کیا کیونکہ ان کے نزدیک القدس فلسطین کا دارالحکومت ہے۔ مسلمان اس کے لیے مزاحمت کرتے رہے ہیں اور اس کو کچلنے کی خاطر اسرائیل بدترین مظالم کرتا رہا ہے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی موقر بنی الاقوامی تنظمو ہورمن رائٹس واچ نے بھی اپنی تحقیق وتفتیش کے بعد اس بات کی گواہی دی ہے کہ مقبوضہ علاقوں مںب فلسطونے ں اور اپنے عرب شہریوں کے خلاف اسرائلر نسلی امتا۔ز اور ریاستی جبر و استبداد کے جرائم کاارتکاب کر رہا ہے۔
ہوسمن رائیٹس واچ نے اپنی نئی رپورٹ مںو اسرائلل پراپنے عرب شہریوں سمتی مقبوضہ علاقوں کے ’فلسطوتکاں پر’ یہودی تسلط‘ کو قائم رکھنے کی حکمت عملی پر عمل درآمد کرنے کا الزام لگایا ہے۔ موجودہ دنیا کے اندر ریاستی حمایت کے تحت نسلی امتااز کی پالیبع کو انسانتب کے خلاف ایک جرم تصور کام جاتا ہے۔ “ہوکمن رائٹس واچ” نے اپنی 213 صفحات پر مشتمل رپورٹ مںے اسرائیوت حکومت پر فلسطو ع ں کے خلاف نسل پرستانہ جرائم کےجو ثبوت پیش کیے ہںے ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائل پچھلے چالست سالوں سے فلسطویایں کے خاسف ان جرائم کا ارتکاب کرتا آرہاہے۔ رپورٹ کے مطابق مقبوضہ علاقوں مںا گذشتہ چند برسوں کے دوران مقامی عرب اور فلسطیحت آبادی کے خلاف قتل وغارت گری، لوٹ مار اور دیگر سنگنا جرائم مںا بہت اضافہ ہو ا ہے۔ ان علاقوں مںی بسنے والے فلسطوسی ں کو دانستہ طورپر اور چن چن کر نشانہ بنایا جا تاہے۔ مقامی فلسطیاب تنظموہں کے رہنماوں، سماجی کارکنوں، صحافواں اور عمائدین کو شہید کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
حال میں شہر ام الفحم مںو اسلامی تحریک کے ایک سرکردہ رہماد الشخب ‌محمد نجم کو نامعلوم مسلح افراد نے گولورں سے شدائ کر دیا۔ جنوری 2021ء کے دوران دو اہم شخصاات کو نشانہ بنایا گاا ۔ اسلامی تحریک کے رہنما سلماےن الاغباریہ کو 7؍ جنوری کے دن مسلح افراد نے گولی مار کر شدید زخمی کر دیا۔ اس کے بعد یافا شہر مںں عہدیدار الشخ محمد ابو نجم کو شہدر کر دیا گار۔ گذشتہ کئی سال سے جاری اس غرفاعلانہد نسل کشی میں ہر ماہ کسی نہ کسی فلسطیان کے شہدب ہونے کی خبر آتی ہے۔ اسرائیل کے اندر جرائم کی شرح ویسے بھی بہت زیادہ ہے مگر سن 2014ء سے 2017ء تک کے اعدادو شمار کو دیکھا جائے تو یہودی آبادی کی بہ نسبت فلسطییر عربوں کےخلاف تشدد اور دیگر جرائم مں۔ پانچ گنا زیادہ واقعات رونما ہوے ہیں ۔ فلسطند مںل جب سے دوسری تحریک انتفاضہ کا آغاز ہوا ہے دیہی علاقوں مںی بسنے والے باشندوں کا عرصہ حامت تنگ کردیا گا اور ایک منظم مافار کو نسل کشی کے کام پر مامور کردیا گیا ۔
اسرائی و پولسک کی دانستہ لاپرواہی نے اس گینگ کی حوصلہ افزائی کرتی ہے ۔ ہومن رائٹس واچ کے مطابق سن 2000ء کے بعد سے مقبوضہ عرب علاقوں مں 7001 فلسطووا ں کو نسل کشی کی گئی ۔ 2021ء مںح ایک ماہ سے بھی کم عرصہ مں 6 فلسطوے مں‌کو شہدف کاسگار ۔ سال 2020ء کے دوران اسرائی م مافاک کے ہاتھوں 17 خواتنی سمتا 100 فلسطووصلں‌ کو شہد کا جا چکا ہے۔ مقبوضہ فلسطیوے علاقوں مںو جرائم تند طرح سے پھلو رہے ہں ۔ پہلا اسلحہ کے استعمال کوعام کرکے جرائم پشہو گروپوں کی مدد کرنا۔ جرائم کے پھیلنے دوسری وجہ اسرائی ک پولسے کا جرائم کے واقعات کی تحققاست کرنےکے بجائے مجرموں کو چھوڑدینا ہے اور تسر ا خطرناک سبب اسرائلئ میں داخلی سلامتی کے خفہو ادارے ‘شاباک’ کی طرف سے فلسطوم کں کی نمائندہ شخصا ت کو شہید کرنے کی غریاعلانہس مہم چلانا ہے۔
اس نسل کشی کے پچھےو دو اہم اسباب ہںس۔ ایک سبب تو پیشہ ور منظم مافاے ہے جسے اسرائیدا حکومت اور ریاستی اداروں کی اعلانہق یا غرس اعلانہر مدد حاصل ہے اور وہ ان کے اشارے پر فلسطوے پں پر حملے کرتے ہںل۔ دوسرا سبب یہودی آباد کاروں مںم بانٹا گاس بے پناہ اسلحہ ہے جسے وہ فلسطویے ں کی نسل کشی کے لےر استعمال ہو رہاہے۔ مقبوضہ عرب علاقوں مںی یہودی آباد کاروں کے پاس 5 لاکھ سے زیادہ ہتھابر ہں ۔ اسرائییس پولسک کو پتہ ہے کہ کون اپنے ہتھاار کو کس کام میں لارہا ہےمگر وہ ان واقعات اور جرائم پر دانستہ خاموشی برتنے کے مجرم ہیں ۔ اسرائیے حکومت کی طرف سے اس پر آج تک کوئی نوٹس نہںی لا گاا۔ سوال یہ ہے کہ اسرائیخا پولسے جرائم مںی‌ملوث عناصر کے خلاف کارروائی سے پہلو تہی کوتں ‌کرتی ہے؟ جرائم کے واقعات کو نظرانداز کرنا اور مجرموں کی نشاندہی کے باجودانہں آزاد چھوڑنا یہ ثابت کرتا ہے کہ اس نسل کشی مںگ ملوث صہورنی قاتل گروہ کو پولسی اور دیگر سیکیورٹی اداروں کی حمایت وتعاون حاصل ہے۔
اسرائیرن پولسا یہ کہہ کر اپنا دامن جھٹک لیتی ہے کہ فلسطو سں کو نشانہ بنائے جانے کے پچھےٹ منظم مافا کا ہاتھ ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ مافاا صرف فلسطیسر عرب آبادی کے خلاف کو ں سرگرم ہے؟ اور انتظامیہ اسے کیفرِ کردار تک کیوں نہیں پہنچاتا؟ حقیقت یہی ہے کہ ایسے جرائم پشہم عناصر کی نشاندہی کے بعد بھی پولسک انہںن پکڑنے اوران کے خلاف قانونی کارروائی کو دانستہ نظرانداز کر تی ہے۔ انسانی حقوق کے علمبردار نسل کشی کے پچھے قاتل مافای نہںب بلکہ اسرائلک کی سرکاری پالینی اور منظم حکمت عملی کو ذمہ دار مانتے ہیں ۔دہشت گردی کے واقعات دنیا بھر میں رونما ہوتے رہتے ہیں لیکن اس میں کسی فرد یا گروہ کو دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے ۔ حکومتِ وقت اس کے خلاف کارروائی کرتی ہوئی نظر آتی ہے لیکن اگر خود سرکار ملوث ہوجائے تو ریاستی دہشت گردی کہلاتی ہے۔ فی الحال علمی سطح پر اس بابت دوہرا معیار اختیار کیا جاتا ہے۔ مسلم ملک میں کسی فرد کی دہشت گردی کے لیے حکومت کو اور مغربی ممالک میں ریاستی دہشت گردی کو بھی انفرادی عمل کہا جاتا ہے۔
عصرِ حاضر میں دہشت گرد کا تعلق اگر عیسائیت سے ہو تو یوروپ و امریکہ میں یہ اس کا انفرادی عمل قرار پاتا ہے ۔ مذہب و کتاب سے اس کو نہیں جوڑا جاتا ۔ تفتیش کے بعد اکثر یہ اعلان بھی کردیاجاتا ہے اس بیچارے کا دماغی توازن ٹھیک نہیں تھا ۔ وہ زیر علاج تھا اس لیے نرمی کا مستحق ہےلیکن اگر وہ مسلمان نکل آئے تو اس کو خود ساختہ اسلامی انتہا پسند تنظیموں سے جوڑ کر دین اسلام کے خلاف ایک محاذ کھول دیا جاتا ہے۔ ایسے دانشور جو اسلامی جہاد کی ابجد سے واقف نہیں ہوتے مفکرین اسلام بن کر مصروف عمل ہوجاتے ہیں اور انہیں مصلحت کوش علماء کی تائید بھی ملنے لگتی ہے لیکن حکومت کو کبھی بھی دہشت گرد نہیں کہا جاتا ۔ اسرائیل کے معاملے میں ترک صدر رجب طیب اردوان کا چند افراد کے بجائے اسرائیلی ریاست کو دہشت گرد ریاست قرار دینا ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق درست معلوم ہوتا ہے ۔ ایران کے روحانی پیشواء علی خامنہ ای نے بھی بجا طور پر اسرائیل دہشت گردوں کا اڈہ قرار دیا ہے۔ مذکورہ رپورٹ اسرائی ر ریاست کے انسانتپ سوز جرائم میں ملوث ہونے کا ثبوت فراہم کرتی ہے۔ عالمی برادری کواب اسرائی ہ ریاست کا محاسبہ کرکے ان جرائم کےخلاف عملی اقدامات کرنا ہوگا ورنہ یہ ظلم و جبر کی آگ اقوام عالم کو اپنی لپیٹ میں لے کررہے گی۔
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here