مفكر اسلام حضرت مولانا سيد ابو الحسن علی حسنی ندویؒ

0
190

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

حافظ مولانا ڈاكٹر سليم الرحمٰن خان ندوي
پروفيسر چوؤ يونيورسٹي، ٹوكيو۔جاپان

 

الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه أجمعين.
أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ، بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيْمِ:”مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا ﴿٢٣﴾”. (سُورَةُ الْأَحْزَابِ: ٣٣، اَلْآيَةُ:٢٣).
(ترجمہ) مومنوں میں (ایسے) لوگ بھی ہیں جنہوں نے جو عہد اللہ تعالیٰ سے کیا تھا انہیں سچا کر دکھایا، بعض نے تو اپنا عہد پورا کردیا اور بعض (موقعہ کے) منتظر ہیں اور انہوں نے کوئی تبدیلی نہیں کی۔
سب سے قبل ميں آل انڈيا مسلم انٹليكچول سوسائٹي كے جرنل سيكرٹري ڈاكٹر عمار انيس نگرامى صاحب اور ان كے تمام معاونين كا مشكور وممنون ہوں جنہوں نے انٹرنيشنل ويبينار بعنوان “حضرت مولانا سيد ابو الحسن علی حسنی ندویؒكى ايک عظيم شخصيت” زير سرپرستى حضرت مولانا سيد محمد رابع حسنى ندوي مدظلہ العالي وزير صدارت حضرت مولانا ڈاكٹر سعيد الرحمن اعظمي ندوي مدظله العالي كو شب اتوار 27 دسمبر 2020ء آن لائن منعقد كيا جوكہ اس وقت كى اہم ضرورت ہے۔
مفكر اسلام حضرت مولانا سيد ابو الحسن علی حسنی ندویؒ جوكہ مولانا علی میاںؒ كے نام سے مشہور ہيں۔ آپؒ مفكر اسلام، عالم دین، خطيب ومقرر، مصنف ومؤلف، عابد ومتقي، قرآن كريم،سنت شريفہ اور سلف صالحين كے طريقہ پر چلنے والے اور اس ہى كى طرف دعوت دينے والے تھے، آپؒ عالم اسلام کی وہ عظیم شخصیت ہیں جن کی علمی وادبی تحقیقی اورتصنیفی خدمات اورعظمت کا لوہا عرب وعجم میں مانا جاتا ہے، آپؒ کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار خوبیوں اور صفات حسنہ سے نوازا تھا۔

مولانا علی میاں ندوی ۔ شخصیت اور فکر کے چار بنیادی عناصر | FikroKhabar

مفكر اسلام حضرت مولانا سيد ابو الحسن علی حسنی ندویؒ

آپؒ رائے بریلی،يوپي،ہندوستان میںبروز جمعہ مبارک6 محرم الحرام 1332ھ مطابق5 دسمبر 1913ء پیداہوئے، ابتدائی تعلیم گھرپرحاصل کی،پھرلکھنؤ یونیورسٹی میں داخلہ لیااورادبِ عربی کی تعلیم شیخ خلیل بن محمد یمانیؒسے حاصل کی، پھر دارالعلوم ندوۃ العلماء میں داخلہ ليکرشیخ تقی الدین ہلالیؒ سے حصولِ علم کیا،کچھ مدت دارالعلوم دیوبند میں بھی تعلیم حاصل کی۔ آپؒ صرف 20 سال کی عمر میںدار العلوم ندوة العلماءلکھنؤمیں تفسیر وحدیث اورعربی ادب کے استاد کے منصب پر فائز ہوئے،اس دوران مصر اور دیگر ممالک سے شائع ہونے والے نامور رسائل وجرائد میں آپؒ کے عربی زبان میں مضامین شائع ہوئے، آپؒ نے سینکڑوں علمی وادبی اور تاریخی کتب تصنیف کیں۔ آپؒ نے’’الندوة‘‘ میں اپنے دوست ورفیق عبدالسلام قدوائی ندویؒ کی معیت میں ادارتی ذمہ داری سنبھالی،لکھنؤ سے مولاناعبدالسلام قدوائی ندویؒ کی مشارت میں ’’تعمیر‘‘ رسالہ نکالا، 1962ء تک ندوة میں تدریسی خدمات انجام دیںاور جب ناظمِ ندوۃ العلماء ڈاکٹرسيدعبدالعلی حسنیؒ کی وفات ہوگئی توآپؒ ندوة العلماء کے ناظمِ منتخب ہوئے۔
آپؒ نے شاعر اسلام علامہ محمد اقبالؒ کوعرب دنیا میں متعارف کرايا، جس كى وجہ سے عرب دنیا بھی علامہ اقبالؒ کی گرویدہ ہوگئی۔ آپؒ نے تبليغي جماعت كى محنت كو بھى عالم عرب ميں متعارف كرايا، بارہا تبليغي جماعت كى محنت پر وہاںكے علماء سے گفتگو كرتے ہوئے ديكھا۔
مفكر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کی اعلیٰ کونسل کی دائمی رکن،رابطۂ عالمِ اسلامی، مكہ مكرمہ کی مجلسِ تاسیسی کی دائمی رکن،دمشق کی عربی وعلمی اکیڈمی کے دائمی ممبر،آكسفورڈ يونيورسٹي كي اسلامي چيئركے ذمہ داراور ان كے علاوه آپؒدنيا كے تعليمي وديني درجنوں تنظیموں اور اداروں کے ممبر و سرپرست تھے، آپؒ اسلامی ادیبوں کی انٹرنيشنل تنظیم “عالمی رابطہ ادب اسلامی” کے بانی و سرپرست بھی تھے جوکہ پوری دنیا میں اسلامی ادب کے فروغ اورمسلم ادیبوں کو اس پلیٹ فارم پر متحد ومنظم کرنے کیلئے سرگرم عمل ہے۔
مفكر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ كا ہمارے خاندان سے بہت گہرا تعلق تھا، مولانامحمد عمران خان ندوى ازہريؒ، مولانا محمد عرفان خان ندويؒ، مولانا محمد نعمان خان ندويؒ، مولانا محمد سلمان خان ندويؒ (ميرے والد صاحب مرحوم) اور مولانا محمدلقمان خان ندوي ازہرىؒ سب بھائى ندوي تھے اورمفكر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ سے بہت زياده تعلق ركھتے تھے،ہمارى پھوپھىؒجوكہ حافظہ اور عالمہ تہيں ، كسى موقعہ پر فرمانے لگيں كہ حضرت مولانا علي مياںؒہمارے خاندان ميں ہر فرد كے نزديک بہت ہى محترم ومكرم شخصيت شمار كئے جاتے تھے۔ آپؒ كو شيخ محمد يعقوب مجدديؒ سے بھى بڑي عقيدت تھى، اور آپؒ كے رشتہ دار بھوپال ميں تھے، جن سے آپؒ ملاقات كے لئے ضرور تشريف ليجاتے جو ہمارے گھر سے بهت قريب رہتے تھے ۔
جب خاكسار جامعة الامام محمد بن سعود الاسلاميه، الرياض ميں ايم ائے كے طالب كى حيثيت سے كلاس ميں بيٹھاہوا تھا تو ڈاكٹر مناع القطانؒ جوكہ علوم القرآن كے ماہر استاد تھے اور ہم لوگوں كو قصص القرآن پڑھا رہے تھے، انہوں نے پہلے دن كلاس كا سبق شروع كرتے ہوئے فرمايا كہ: “سب سے بہترين كتاب قصص الانبياء كے موضوع پرشيخ سيد ابو الحسن علی حسنی ندویؒ كى كتاب “قصص النبيين” ہے، آپ سب لوگ اس كتاب كا ضرور مطالعہ كريں” ۔
سماحة الشيخ عبد العزيز بن بازؒ جوكہ سعودى عرب كے مشہور عالم ومفتى تھے، خواص عوام ميں ان كى بہت زياده مقبوليت تھى،جس وقت معلوم ہوتا كہ شيخ سيد ابو الحسن علی حسنی ندویؒ سعودي عرب تشريف لائے ہيں تو فورا ملاقات كے لئے تشريف لاتے اور امت مسلمہ كے معاملات پر طويل گفتگو ہوتى، اور دونوں ميں ايك دوسرے كابڑا احترام تھا ۔
جس وقت مفكر اسلام حضرت مولانا سيد ابو الحسن علی حسنی ندویؒ كى رحلت بروز جمعہ مبارك 22 رمضان المبارک 1420ھ مطابق 31 دسمبر 1999ء کورائے بریلی میں ہوئي، الله تعالىٰ آپؒ كى مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس ميں اعلا مقام نصيب فرمائے۔ خاكسار اس دن مدينہ منوره ميں تھا، رمضان المبارک كا مہينہ تھا، اس ہى دن كسي نماز(شايد عشاء كى نماز) كے بعد خادم الحرمين الشريفين الملك فهد بن عبد العزيزؒ كى طرف سے مفكر اسلام حضرت مولانا سيد ابو الحسن علی حسنی ندويؒ كى غائبانہ نماز جنازه كا اعلان ہوا اور اس اعلان سے مجھے اس حادثہ كى خبر موصول ہوئى، اور الله تعالىٰ نے خاكسار كو غائبانہ نماز جنازه كى مسجد نبوي ميں ادا كرنے كى توفيق عطافرمائي،آپؒ كى الله تعالىٰ كے يہاں مقبوليت كا اندازه اس سے بخوبى كيا جاسكتا ہے كہ آپ كى غائبانہ نماز جنازه اس ہى دن حرمين شريفين (بيت الله شريف اور مسجد نبوي) ميں ادا كى گئي۔
مفكر اسلام حضرت مولانا سيد ابو الحسن علی حسنی ندویؒ کو بڑے بڑے اعزازات اور ایوارڈوں سے نوازا گیا، بے شمار ممالک کے دورے کئے، آپؒ جس ملک میں بھی جاتے وہاں کی علمی شخصیات کے علاوہ سربراہان مملکت بھی آپؒ کے ساتھ ملاقات کو اپنے لئے باعث سعادت اور فخر سمجھتے ۔
چند اعزازات كا يہاں ذكر كيا جاتا ہے :
1951ء: میں دوسرے حج کے دوران میں کلید بردار کعبہ شريف نے دو دن کعبہ شريف کا دروازہ کھولا او ر مفكر اسلام حضرت مولانا سيد ابو الحسن علی حسنی ندویؒ کو اپنے رفقا کے ساتھ اندر جانے کی اجازت دی۔
1962ء: رابطہ عالم اسلامی، مکہ مكرمہ کے قیام کے موقع پر افتتاحی نشست کے سیکریٹری منتخب ہوئے۔
1980ء: بین الاقوامی شاہ فیصل اعزاز برائے خدمات اسلام نوازا گيا۔
1980ء: آکسفرڈ سینٹر برائے اسلامک اسٹڈیز کے صدر منتخب ہوئے۔
1984ء: رابطہ ادب اسلامی کے صد ر منتخب ہوئے۔
1999ء: متحدہ عرب امارات كے محمد بن راشد آل مکتوم کی جانب سے قائم کردہ ایوارڈ اسلامی شخصیت ایوارڈ سے نوازا گيا۔
مفكر اسلام حضرت مولانا سيد ابو الحسن علی حسنی ندویؒبہت سى کتابوں كے مصنف ہيں جوكہ عربی اوراردوميں ہيں، اس کے ساتھ ساتھ سمیناوروں میں پیش کردہ ہزاروں مضامین اورتقاریر بھی موجود ہیں، آپؒ کی ایک انتہائی مشہور عربی تصنیف “ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمين” ہے جس کے متعدد زبانوں میں تراجم ہوئے، اردو میں ا س کا ترجمہ”انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر” کے نام سے شائع ہوئى ہے،آپؒ كى بہت سى كتابيں دوسری زبانوں میں بھي ترجمہ ہوچكي ہيں اورالحمد لله لوگ فائده اٹھارہے ہيں۔
ذیل میں چند مشہور کتابيں درج ہيں:
عالم عربی کا المیہ۔ المرتضیٰ۔ دریائے کابل سے دریائے یرموک تک- دستور حیات- بارہ دن ریاست میسور میں- دعوت فکر وعمل- حیات عبد الحی- ہندوستانی مسلمان ایک تاریخی جائزہ- انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر- کاروان مدینہ- کاروان زندگی- کاروان ایمان و عزیمت- مدارس اسلامیہ۔ مغرب سے کچھ صاف صاف باتیں۔ مطالعۂ قرآن کے اصول و مبادی۔ نقوش اقبال۔ نئی دنیا امریکا میں صاف صاف باتیں۔ قادیانیت تحلیل و تجزیہ۔ پرانے چراغ۔ پاجا سراغ زندگی۔ قرانی افادات۔ سیرت رسول اکرم۔ سوانح حضرت مولانا عبد القادر رائے پوری۔ سیرت سید احمد شہید۔ صحبتے با اہل دل۔ شرق اوسط کی ڈائری۔ طالبان علوم نبوت کا مقام۔ تاریخ دعوت وعزیمت۔ علما کا مقام اور ان کی ذمہ داریاں۔ وغيره وغيره ۔
مفكر اسلام حضرت مولانا سيد ابو الحسن علی حسنی ندویؒ كى ندوة العلماء كى نظامت 1962ء سے 1999ء تک، آل انڈيا مسلم پرسنل لا كى صدارت، آل انڈيا مجلس مشاورت كى سرگرمياں، اور پيام انسانيت كى پرسوز دعوت ہم سب لوگوں كى نظروں كے سامنے ہے۔آپؒ كى زندگي جس ميں الله تعالىٰ سے تعلق، دنيا سے بے تعلقى، امت مسلمہ كے اتحادواتفاق، اصلاح وتربيت كى فكر اور اجماع امت كے مسائل كو عوام كے سامنے پيش كرنے كى ترغيب، اختلافى مسائل سے اجتناب،يہ سب ہى آپ كى تصانيف وتاليفات، تقارير ومحاضرات ميں پڑھا جاسكتا ہے، جس كے مطالعہ كى اشد ضرورت ہے اور آپ كے افكاروخيالات كو موجوه ملک كے حالات اور پورى دنيا كے ماحول ميںدوسروں تک پہچانا ہم سب كا فريضہ بنتا ہے ۔
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين ۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here