کیا جنگ سے فیصلہ ممکن ہے-Is the decision possible by war?

0
261

Is the decision possible by war?

اسرائیل اور فلسطین کے درمیان چل رہی لڑائی کو جھڑپ کا نام اس لئے دیا گیا ہے کہ یہ ج نگ ہے ہی نہیں۔اور ہو بھی نہیں سکتی ہے۔اسرائیل کی دادا گیری اس لئے جاری ہے کہ اسے بہترین جنگی سامان اور فوج اور بہترین جنگی تربیت حاصل ہے۔فلسطین کی طرف سے مزاحمی گروپ الحماس کے کے پاس اسرائیل کے مقابلہ کے لئے صرف اور صرف حوصلہ اور جذبات ہیں۔بے شک جنگ کے لئے حوصلہ ضروری ہے لیکن صرف حوصلوں سے کوئی جنگ نہیں لڑی جا سکتی۔اب یہاں اگر کوئی جنگ بدر کا حوالہ دے تو اس کی عقل پر صرف افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔لیکن لڑائی بہر جاری ہے اور تباہیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ہزارون میل دور سے ہم تک جو خبریں پ ہنچ رہی ہیں وہ صد فیصد درست بھی ہیں ایسا نہیں کہا جا سکتا۔کیونکہ فلسطین سے ہمدردی رکھنے والا میڈیاسوشل میڈیا سمیت حماس کے کارناموں کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے جو عقل میں آنے والے نہیں ہیں تو دوسری طرف اسرائیل کے حوالے سے جو خبریں آ رہی ہیں ان پر بھی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔سوال یہ ہے کہ پھر سچ کا پتہ کیسے چلے تو اس کی ایک ہی صورت ہے کہ دونوں طر ف کی خبروں میں سے سچ نکالنے کے لئے مشاہدہ اور صحافتی تجربہ کو کام میں لیتے ہوئے تجزیہ کرنا ہو گا ۔تبھی کسی نتیجہ پر پہونچا جاسکتا ہے۔
اسرائیلی فوج نے کہا کہ ’’ہمارے لڑاکو طیاروں نے رات 9.3 میل دور تک حماس کے ’میٹرو‘ شدت پسند سرنگ نظام کو تبادہ کر دیا۔ یہ 9.3 میل کی جگہ اب شدت پسندی کے لئے استعمال نہیں کی جاسکتی‘ اسرائیلی فوج نے غزہ پٹی میں حماس کے ٹھکانوں پر حملے کا تیرا سلسلہ شروع کیا اور 15 کلو میٹر تک زیر زمیں ڈھانچے کو تباہ کردیا۔ اسرائیلی سیکورٹی دستوں نے پیر کو ٹوئٹ کرکے یہ اطلاع دی۔ اسرائیلی فوج نے کہا کہ ’’ہمارے لڑاکو طیاروں نے رات و رات 9.3 میل دور تک حماس کے ’میٹرو‘ شدت پسند سرنگ نظام کو تبادہ کر دیا۔ یہ 9.3 میل کی جگہ اب شدت پسندی کے لئے استعمال نہیں کی جاسکتی‘‘۔ اسرائیلی فوج نے مزید کہا کہ یہ حملہ شمالی غزہ پٹی میں کیے گے اور ان میں 54 لڑاکو طیاروں نے 35 ٹھکانوں کو ہدف بنایا۔
دوسری طرف عرب دنیا کے ممتاز صحافی عبد الباری عطوان نے لندن سے شائع ہونے والے اخبار رای الیوم میں اپنے ایک کالم میں فلسطین کے حالات کا تازہ ترین جائزہ پیش کیا ہے وہ کچھ اس طرح ہے۔آج کل ہمیں ، غزہ میں اہداف کو نشانہ بنانے کے بارے میں اسرائيلی ترجمانوں کے بیانات پر خوب ہنسی آتی ہے کیونکہ گزشتہ چار دنوں کے بعد اب پتہ چلا کہ غزہ کے یہ اہم ” ٹارگٹ ” جس کی اسرائيلی فوجی ترجمان بڑھ چڑھ کر باتیں کر رہے تھے ، در اصل رہائشی عمارتیں ، اسکول اور بوڑھوں اور بیماروں کے لئے پناہ گاہیں تھیں ۔گزشتہ چار دنوں کے دوران جو کچھ ہوا ہے اس سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ خود اسرائيلی بھی پھنسے ہيں اور ادھر ادھر بھاگ رہے ہيں جس کا ایک واضح ثبوت ” ایلات” ائیرپورٹ کو بند کرنا ہے جس کے بارے میں یہ سمجھا جا رہا ہے کہ وہ استقامتی محاذ کے راکٹوں سے محفوظ نہيں ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ” ایلات” ایئرپورٹ کے متبادل کے طور پر رامون ہوائي اڈے کو استعمال کیا گيا اور طیاروں کو صحرائے نقب میں موجود اس ایئر پورٹ میں بظاہر محفوظ کر دیا گيا مگر ساری تدبیريں الٹی پڑ گئيں کیونکہ استقامتی محاذ کے ”ایاش 250 ” ماڈل کے میزائيلوں نے وہاں تباہی مچا دی جس کی وجہ سے کچھ ہی گھنٹوں میں رامون ایئر پورٹ بھی بند ہو گيا ہے اور بڑے بڑے دعوے کرنے والا اسرائيل پوری دنیا سے کٹ کر رہ گیا اور یہ یقینی طور پر اسرائيل کے خفیہ اداروں کی بڑی ناکامی ہے جو استقامتی محاذ کے میزائیلوں کی رینج اور طاقت کا اندازہ ہی نہیں لگا پائے اس کے ساتھ یہ بھی واضح ہو گيا ہے جس ” طاقتور اسرائيل ” کا نیتن یاہو گُن گاتے ہيں در اصل وہ طاقتور نہيں ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہمارے ذرائع نے اندر کی خبر یہ دی ہے کہ نیتن یاہو نے قاہرہ و دوحہ سے رابطہ کرکے ثالثی کی اپیل کی ہے اور جلد از جلد جنگ بندی کی خواہش ظاہر کی ہے جبکہ حماس اور اسلامی جہاد تنظیموں نے جنگ بندی کی پیش کش ٹھکرا دی ہے وہ یہ بھی خوش کرنے ولای بات لکھتے ہیں کہ” ایاش ۔ 250″ ماڈل کے میزائیلوں نے آئرن ڈوم کا حصار توڑ کر جنوبی فلسطین کے صحرائے نقب میں موجود رامون ایئرپورٹ تک پہنچ کر اسرائیلی سیاسی و عسکری قیادت کی نیند اڑا دی ہے ۔
ظاہر ہے کہ یہ تجزیہ پوری طرح سے سچ نہیں ہو سکتا ۔لیکن پوری طرح سے جھوٹ بھی نہیں ہو سکتا ۔ظاہری اعتبار سے حماس اور اسرائیل کا کوئی مقابلہ ہی نہیں۔اسرائیل کی جارحیت اور ظالمانہ کاروائیں بھی جگ ظاہر ہیں۔یہ لڑائی جب تک چلے گی نقصان دونوں طرف سے ہوتے رہیں گے۔عمارتیں گرتی رہیں گی۔بوڑھے بچے مردوعورت مرتے رہیں گے۔اسے اگر چلنے دیا گیا تو ممکن ہے کہ دوسرے ممالک بلاواسطہ یا بالواسطہ اس میں ملوث ہو جائیں اگر ایسا ہوا تو ایک عالمی جنگ بھی شروع ہو سکتی ہے۔اس لئے بہتر ہے کہ اقوام متحدہ فوری طور پر اس جنگ کو بند کرائے اور آئندہ کے لئے کوئی حتمی حل بھی نکالے۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here