9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
کم وبیش دو برس ہوئے ہوں گے کہ لکھنؤ کی ایک ادبی محفل میں ایک صاحب لوگوں سے بڑے والہانہ انداز میں ملاقات کررہے تھے اور لوگ بھی اسی اپنائیت اور محبت سے مل رہے تھے ۔لمبے ڈ یل ڈول اور مسکراتا ہوا چہرہ نظروں میں گھوم گیا۔میں ان سے واقف نہیں تھا اسی لیے ان کا نام کسی سے معلوم کیا ۔بات آئی گئی گذر گئی کہ ایک روز جناب پرویز ملک زادہ نے ان کا ذکر کیا ۔ذکر میں بہت اپنائیت اور خلوص تھا ۔بات سعودی عرب کے مشاعروں سے ہوتی ہوئی علی گڑھ تک پہنچ گئی اور اس طرح وجاہت فاروقی سے یہ باقاعدہ تعارف ہوا ۔چند روز پہلے جب ان کی بیماری کی اطلاع ملی تو بار بار یہی دعا کرتا رہا کہ اللہ پاک انھیں دوبارہ صحت و تندستی سے نواز دے وہ اچھے ہوجائیں مگر قادر مطلق کو جومنظور تھا وہی ہوا اورکل شام (۱۱،اپریل ۲۰۲۱)وجاہت فاروقی وہاں چلے گئے جہاں سے کوئی لوٹ کر نہیں آتا ۔
بہت کم عرصہ میں وجاہت فاروقی میرے لیے ایک جانا پہچانا نام اور چہرہ بن گئے ۔اپنی محبتوں اور خلوص سے وہ مجھے بھی سرشار کرنے لگے ۔لکھنو کے اکثرادبی پروگراموں میں ملاقات ہونے لگی ۔آخری ملاقات غالباً کیفی اعظمی اکیڈ می ہال میں ہوئی جہاں حفیظ نعمانی سے متعلق جناب اویس سنبھلی اور عزیزی اطہر حسین کی کتابوں کی رسم رونمائی تھی ۔وجاہت فاروقی صاحب حسب روایت بہت خلوص اور محبت سے ملے ۔اس روز میں بھی کچھ مصرو ف تھا اور فاروقی صاحب کے بھی ملنے والوں کی تعداد کم نہیں ہوتی تھی اس لیے بہت زیادہ گفتگو نہیں ہوسکی ۔
وجاہت فاروقی نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے تعلیم حاصل کی تھی ۔یہاں کی روایات اور طرز بود و باش کے وہ نہ صرف امین تھے بلکہ طالب علمانہ زندگی کا ذکر بہت والہانہ اندازمیں کرتے تھے ۔علی گڑھ ان کی سانسوں میں بسا ہوا تھا ۔وہ اردو ادب کے طالب علم نہیں تھے مگر وہاں کی تربیت نے شعرو ادب سے ایک گہرا تعلق قائم کردیا تھا ۔اشعارسناتے۔ اپنے ز مانے کے علی گڑھ کے شعرااور مشاعروں کا ذکر لطف لے کر کرتے تھے ۔علی سردار جعفری سے خاصے متاثر تھے اور متعدد بار ان کی بلند آہنگ نظموں کو پڑھ کر سناتے اور اپنے تاثرات کا اظہار بھی کرتے ۔تعلیم سے فراغت کے بعد1986میںوہ سعودی عرب چلے گئے اور ایک لمبی مدت وہاں برسرکار رہے ۔نوکری کے ساتھ علیگ برادری کا ایک حلقہ تھا جس کی مصروفیات میں ادبی وشعری سرگرمیاں بھی شامل تھیں ۔ خلیج کے اہم مشاعروں میں نہ صرف سرگرم کردار ادا کیا بلکہ شاعروں اور ادیبوں سے ایک ایسا ربط و تعلق قائم ہوا کہ اس کا ذکر بھی وہ خوب کرتے تھے ۔احمد فراز،حمایت علی شاعراور منیر نیازی وغیرہ کے و اقعات ان کے ماضی کا روشن حصہ تھے۔ان کی انسانی دوستی ،ہمدردی اوران کے بہت سے انسانی اوصاف کا بطور خاص ذکر کرتے ۔ان کا خیال تھا کہ مشاعرہ کے اسٹیج جن شعرا کی وجہ سے بہت باوقار تھے ان کے نمایاں ناموں میں ان کا شمار کیا جائے گا ۔
ہندستان کے شعرا میں پروفیسر ملک زادہ منظور احمد کا ذکر بہت عزت اور احترام کے ساتھ کرتے تھے ۔ان کا خیال تھا کہ ڈ اکٹر صاحب بہت بلند اخلاق انسانی رویوں کے حامل تھے اور اپنی دلچسپ ادبی شخصیت کی وجہ سے ہر محفل میں باغ و بہاربنے رہتے تھے ۔ملک زادہ صاحب کے بارے میں وہ یہ بات ضرور کہتے تھے کہ جس طرح سے وہ ہم چھوٹوںکا ذکر کرتے تھے اور جس اپنائیت او رمحبت سے ملتے تھے اس کی وجہ سے ہمارا ان سے ایک جنونی تعلق قائم ہوگیاتھا ۔ان کا خیال اور ان کی باتیں بار بار یاد آتی ہیں ۔گلزار دہلوی سے بہت متاثر تھے ۔ان کے سلسلے میں ایک جشن بھی برپا کیا تھا۔گلزار کے انتقال کے بعد انھوں نے ایک مضمون بھی لکھا تھا جس میں ان کی شاعری کے ساتھ ساتھ اپنے تعلق اور ان سے عقیدت و محبت کا اظہار بھی کیا ۔ پاپولر میرٹھی کے مداح اور ان کے طنزیہ کلام کو بہت پسند کرتے تھے۔ ان سے ایک خاص انس و محبت اور تعلق کا اظہار کرتے تھے ۔اس کے علاوہ انھوں نے اپنی بعض مجلسوں میں ڈاکٹر طارق قمر اور حسن کاظمی کا ذکر کیا اور کہاکہ ان کی محبتیں اور تعلق میرے لیے یاد گار ہیں ۔
ہندستان آنے کے بعد انھوں نے لکھنؤ کو اپنا مسکن بنایا اور رفتہ رفتہ ادبی سرگرمیوں کا سلسلہ شروع کیا ۔حالانکہ وہ جس وقت ہندستان آئے حالات اچھے نہیں تھے ۔اس کے بعد انھوں نے لاک ڈ اک ڈاؤن کا صدمہ بھی جھیلا مگر یہ عرصہ انھوں نے انسانی خدمت کے تحت گذار ا اور واقعی ان کی کوششوںپر رشک آتا ہے ۔لاک ڈاؤن کے زمانے میں بعض مستحقین کی امداد کے بارے میں کہا تو فوراً تیار ہوگئے ۔غریب اور نادار بچوں کے سلسلے میں بھی انھوں نے اپنے بعض دوستوں کے ساتھ مل کر ایک اسکالرشپ کا سلسلہ شروع کررکھا تھا ۔اس کے بارے میں فکر مند بھی رہتے کہ کس طرح مستحقین تک مدد پہنچے اور جولوگ واقعتا مستحق ہیں ان کے لیے کیا شکل بنائی جائے کہ ان کی مدد ہوجائے ۔اپنی چھوٹی سی کوشش میں بھی وہ ایک پڑھے لکھے سماج کے لیے کوشاں رہتے تھے ۔شعرااور ادبا شاید یہی جانتے تھے کہ وہ اچھے مشاعروں کا اہتمام کرتے ہیں لیکن کم لوگوں کے علم میں یہ بات رہی ہوگی کہ ان کے یہاں ادب کا کوئی تصور کے سماج کے بغیر تھا ہی نہیں اور اسی لیے وہ سماجی خدمت میں بھی سرگرم تھے ۔وجاہت صاحب سے فون پر بات ہوتی رہتی تھی۔ایک دو بار تو بہت لمبی گفتگو بھی ہوئی کیونکہ وہ بعض شاعروں کے سلسلے میں میری رائے جاننا چاہتے تھے۔ لکھنؤ میں ہم لوگ تقریباً پڑوسی تھے اس لیے متعدد بار ان کے گھر جانے کا اتفاق ہوا بڑی محبت اور خلوص سے ملتے تھے ۔لکھنؤ کے معروف سماجی کارکن جناب معراج حیدر سے وجاہت فاروقی کے دولت کدے پر ہی میری پہلی ملاقات ہوئی ۔بلکہ انھوں نے دونوں کو اس سلیقے سے متعارف کرایا کہ وہ پہلی ملاقات نہ صرف جان پہچان میںتبدیل ہوئی بلکہ ہم ایک دوسرے کے بہت قریب آگئے ۔گھر پر آخری ملاقات کئی گھنٹوں پر مشتمل تھی اور اس ملاقات میں مولانا ابوالکلام آزاد سے متعلق زیادہ باتیں ہوتی رہیں ۔دوقومی نظریے اور آزادی کے بعد کی صورت حال پروہ مولاناآزاد کے موقف کے سلسلے میں میری رائے جاننا چاہتے تھے ۔اس پوری گفتگو میں ان کا رویہ طلب علم کا تھا۔ مولناآزاد کی متعدد کتابوں کا انھوں نے حوالہ بھی دیا اور کہا کہ وہ بلا شبہ ایک عبقری شخصیت کے مالک تھے ۔اس پوری گفتگو کے دوران ان کا لہجہ انتہائی شائستہ اور شگفتہ تھا ۔یہی وجہ ہے کہ انھو ںنے تاریخ پر کسی الزام کے بجائے تاریخ کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کی اور کہاکہ سب کو اپنے اپنے حصے کا کام کرنا چاہیے اس کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا ۔الز ام درالزام کسی بھی معقول انسان کا شیوہ نہیں ہوسکتا ۔ان کا خیال تھا کہ علی گڑھ سے ہم نے کیا حاصل کیا یہ تو نہیں معلوم لیکن کام کرنے کا ایک جذبہ تھا اور شکر ہے کہ یہ جذبہ اب بھی قائم ہے اور یہی زندگی کا حاصل ہے ۔اکثر ملاقاتوں میں بہت سے شعرا کا ذکر کرتے اور کبھی کبھی ان سے متعلق بعض دلچسپ اور یادگار واقعات بھی سناتے مگر ان ملاقاتوں میں ان کا تبصرہ عمومی ہوتا ۔یہ نہیں کہ کسی شاعر یا ادیب کو کبھی انھوں نے ہدف بنایا ہو البتہ لکھنو میں برپا ہونے والے بعض مشاعروں کے سلسلے میں اپنی پریشانی کا ذکر کرتے اور کہتے کہ شعرا کی فہرست بنانا ایک سخت امتحان ہے کس کو مدعو کیاجائے اور کسے نہ کیا جائے یہ میرے لیے ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے ۔دوستوں اور احباب سے تعلق کی رواداری ہی تھی کہ وہ پرانے تعلقات کا ذکر کرتے اور اس کو برقرار رکھتے ۔اور اسی سبب سے ان کے مشاعروں میں شاعروں کی فہرست طویل ہوجاتی تھی ۔
اپنے دوستوں اور حلقۂ احباب کے لیے وجاہت فاروقی بہت کشادہ دل واقع ہوئے تھے ۔حالیہ چند برسوں کے دوران لکھنؤمیںانھوں نے متعدد مشاعروں کا اہتمام کیا اور اس میں بھی اپنے دوستوں کا خاص خیال رکھا ۔جدہ میں ان کے حلقہ احباب میںصاحب دیوان شاعر نعیم حامد علی الحامد تھے ۔نعیم صاحب شاعری کے ساتھ ساتھ بیدل شناسی کے حوالے سے بھی شہرت رکھتے ہیں ۔ایک برس پہلے وہ لکھنؤ تشریف لائے تو وجاہت فاروقی نے ان کے لیے خاص اہتمام کیا اور ایک عظیم الشان مشاعرہ ان کے اعزاز میں منعقد کیا ۔لاک ڈاؤن کے بادل کچھ چھٹے تو ان کی سرگرمیاں دوبارہ بحال ہوئیں ۔مشاعروں اور ادبی محفلوں کا سلسلہ شروع ہوا ۔ان کا گھر بھی ایک ادبی محفل کی طرح تھا جہاں اکثر ادب اور مشاعرہ زیر بحث رہتے تھے ۔نہ جانے کتنے ادیبوں ،شاعروںاور قلم کاروں سے وہ ملاقات کرتے اور اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھتے ۔
وجاہت فاروقی ایک علمی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے ۔خود علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے اعلی تعلیم حاصل کی تھی ۔علی گڑھ کی ذہانت اور لکھنؤ کی شرافت سے وجاہت فاروقی کی شخصیت قائم و دائم تھی ۔انھوں نے ان دونوں کا بھرم ہمیشہ قائم رکھا ۔ لکھنؤ سے متصل ضلع ہردوئی کے قصبہ ملّاوا سے ان کا تعلق تھا ۔بے پناہ خلوص اور انسانی ہمدردی سے لبریز وجاہت فاروقی کا جانا ایک دراصل ایک اردو دوست ،انسانیت نواز اور تعلیم وسماج کے لیے سرگرم ایک انسان کاجانا ہے اور اسی لیے وہ ہمیں دیر تک یاد آتے رہیں گے ۔اپنی دلنواز گفتگو اور خلوص ومحبت کے پیکر کی صورت میں وہ یادآتے رہیں گے ۔
اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو
مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی ۔لکھنؤ کیمپس
ضضض