جرمنی میں اردو ذاتی تجربات کی روشنی میں-In the light of Urdu personal experiences in Germany

0
450
In the light of Urdu personal experiences in Germany
عارف نقوی (برلن)

اردو کے مایہ ناز شاعر جگر مرادآبادی نے کہا تھا: ’’
’’۔۔۔ میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے۔‘‘
اس پیغام کی نمائندہ اردو زبان کے شیدائی جرمنی کے سبھی شہروں میں موجود ہیں۔ جگہ بہ جگہ ہمیں صحرا میں بھی نخلستان نظر آتے اورطائر خوش گو کی مدھرآوازیں سننے کو مل جاتی ہیں جسے میں ہر حالت میں قابلِ تسکین سمجھتا ہوں اور ہراُس پروانے کا خیرمقدم کرتا ہوں ، جواردو کی شمع کے گرد منڈلارہاہے ۔ اسے اپنے سینے سے لگائے ہے ۔ شاعر، افسانہ نگار،نقاد ہونے کا دعویٰ کرتا ہے یا کم سے کم اس زبان و ادب کے حسن اور اہمیت کا اعتراف کرتا ہے اور اردو زبان و ادب کی کچھ نہ کچھ خدمت کر رہا ہے۔
اس موقع پر میں اس بات پرزور دینا چاہوں گا کہ جرمنی میں اردو ادب کے فروغ کا کام میرے جیسے صرف چند لوگ ہی نہیں کر رہے ہیں، بلکہ برلن، بون، ہمبرگ، فرانک فورٹ یہاں تک کہ بہت سے چھوٹے چھوٹے قصبوں میں بھی اردو کے شیدائی اپنی زبان و ادب کو مقبول بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔ اور جب سے پناہگزینوںکی تعداد بڑھی ہے سرکاری حلقوں میں بھی اردو زبان کی جانکاری کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے اور ترجمان کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ جرمنی کے مختلف حصوں میں چھوٹی بڑی تنظیمیں اور گروپ جیسے اردو انجمن برلن، بزم ادب، ہیومن ویلفئیرفورم، رھائن سندھ فورم وغیرہ اردوکے فروغ کے کاموں میں مصروف ہیں۔ اردو انجمن برلن جسے میں نے محترمہ ڈاکٹر بٹینا روبتکا ، محترمہ کشور روبتکا، مستعین خان وغیرہ کی مدد سے ۱۹۹۶ء میں برلن میں قائم کیا تھا۔ میں اس کا تب سے صدر ہوں ۔ بٹتینا روبتکا ابتداء میں اس کی نائب صدر تھیں اور کشور مصطفی جنرل سکریٹری ۔ ان دونوں کے برلن سے جانے کے بعد انور ظہیر نائب صدر اور ا’ووے فائلباخ جنرل سکریٹری ہوئے۔ اردو انجمن برلن جرمنی کی پہلی سرکاری طور پر رجسٹر شدہ اور ٹیکس فری اردو تنظیم ہے۔ فرانکفورٹ میں ہیومن ویلفئر سوسائٹی کے صدر محترم اقبال حیدر ہیں۔ دوسرے عہدیداروں کے بارے میں مجھے کوئی علم نہیں ہے۔ بون میں رھائن انڈس فورم کے صدر پروفیسر اسلم سید اور جنرل سکریٹری محترمہ کشور مصطفیٰ ہیں۔ایک دوسری سرگرم انجمن بزم ادب ہے جس کے صدر علی حیدر وفا ہیں جو پہلے انجمن جعفریہ کے روح رواں تھے۔ ان کے ساتھ سرور ظہیر اس کے سکریٹری ہیں۔ ہمبرگ میں محترمہ طاہرہ رباب اچھی صوفیانہ شاعری کر رہی ہیں اور اکثر مشاعرے کرتی رہتی ہیں ۔ جبکہ جنوبی جرمنی میں اسحق ساجد صاحب خوبصورت گیت لکھتے ہیں اور کچھ عرصہ ایک رسالہ سمندر بھی نکالتے رہے ہیں۔ خدا کرے اس کی اشاعت پھر شروع ہو۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے بھی خوشی ہو رہی ہے کہ ہمارے جلسوں، سیمیناروں اورمشاعروں میں سبھی مذاہب، ملتوں ، قومیتوں اور رنگ و نسل کے لوگ آتے ہیں اور اردو زبان کی خوبصورتی اور چاشنی سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور اپنی اپنی زبانوں میںاردو ترجمہ کے ساتھ میں کلام بھی پیش کرتے ہیں۔
ہمارے جلسوں میں شرکت کے لئے ہندوستان سے ڈاکٹر عمّار رضوی، علی احمد فاطمی، پروفیسر راجم پلّے، پروفیسر خالد علوی، محترم ساگر ترپا ٹھی، پروفیسر اسلم جمشید پوری، ڈاکٹر عشرت ناہید اور بہت سے دیگر دانشور اور ادیب تشریف لا چکے ہیں۔
نومبر ۱۹۶۱ء میں جب میں جرمنی آیا تو مجھے یہ دیکھ کر افسوس ہوا تھا کہ یہاں کے دانشور حلقوں میں بہت کم لوگ اردو کے بارے میں جانتے تھے۔ برلن کی ہمبولٹ یونیورسٹی میں صرف سنسکرت پڑھائی جاتی تھی، کیونکہ اس کی یہاں پر پرانی روائت ہے میں۔ کچھ تھوڑی بہت بنگالی اور ہندی کی تعلیم کا بھی بندوبست تھا۔ اردو کی کوئی لابی نہیں تھی۔ہندوستان کے ایک مشہور عالم ڈاکٹر کے ایم اشرف یہاں پروزیٹنگ پروفیسر تھے لیکن صرف تاریخ پڑھانے کے لئے۔۱۹۶۲ء میں جب لائپزگ میں جرمن سیکھ لینے کے بعد میں برلن کی ہمبولٹ یونیورسٹی میں جرمن ڈرامے پر تحقیق کے لئے آیا تو اس یونیورسٹی میں اردو کی تعلیم شروع کی گئی اور مجھے پارٹ ٹائم اردو پڑھانے کا کام سونپا گیا پھر بعد میںمجھے فُل ٹائم لکچرر شپ (اسسٹنٹ پروفیسر) کی ملازمت پیش کی گئی ۔ اور اردو پڑھانے کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوا۔ میرا زور جرمنوں کو اردو پڑھانا اور اردو ادب کو جرمنی میں مقبول بنا نا تھا۔
تقریباً اسی زمانے میں پاکستان سے محترم منیر الدین احمد صاحب جرمنی کے شمالی شہر ہمبرگ میں تعلیم کی غرض سے آئے اور ۱۹۶۷ء میں انہوں نے ہمبرگ کے اورینٹ انسٹی ٹیوٹ میں کام کرنا شروع کیا۔ منیر صاحب نے نہ صرف خود کہانیاں لکھیں بلکہ لا تعداد جرمن کہانیوں، نظموں وغیرہ کے اردو میں ترجمے کر کے پاکستان کے رسالوں میں اور کتابوں کی شکل میں شائع کروائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جرمن ادب کو بر صغیر میں اردو حلقوں میںمتعارف کرانے میں انہوں نے جو بیش بہا خدمات انجام دی ہیں وہ بے مثال اور قابلِ ستائش ہیں۔ ورنہ میں نے تو یہ دیکھا ہے ،کہ اکثر مختلف ممالک کے سفارتخانے اپنے کلچرل فنڈ میں سے رقمیں دے کر اپنے ملک کے ادب کا ترجمہ کرواتے ہیں ، جو زیادہ تر انگریزی ترجمے سے ہوتا ہے اور اس میں کشش کی کمی ہوتی ہے
جرمنی میں میرے آنے کے بعد ، جہاںبرلن کی ہمبولٹ یونیورسٹی میں اردو پڑھانے کا باقاعدہ بندوبست کیا گیا تھا، جس نے اردو کے فروغ میں اہم رول ادا کیا، وہیں ہائڈلبرگ کی یونیورسٹی نے بھی اردو کی تعلیم میں پچھلی چند دہائیوں میں کافی اہم رول ادا کیا ہے ۔خاص طور سے اقبال چیر قائم ہونے کے بعد سے جس کے وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے پروفیسر فتح محمد ملک کئی برس وہاں قیام کر چکے ہیں وہ ہماری اردو انجمن کے سیمینار ’یاد غالب ‘ میں شرکت کے لئے ۱۹۹۶ء میں برلن بھی تشریف لائے تھے۔ اسی طرح میں شہر ایرفورٹ کی یونیورسٹی کا حوالہ دینا چاہوں گا جہاں میں نے خود تین برس شعبہء اسلامیات میں اردو کی تعلیم دی تھی۔
میں پاکستان کے محترم ڈاکٹر اقبال صدیقی کا بھی حوالہ دینا چاہوں گا، جنہوں نے جرمن اردو لغت تیار کر کے کچھ حد تک ایک اہم ضرورت کو پورا کیا ہے۔ جسے اسلام آباد سے ’ مقتدرہ قومی زبان‘ نے شائع کیا ہے۔
ایک دوسری شخصیت جس کے بغیر میں اپنی بات مکمل نہیں کر سکتا وہ پرو فیسر اَنے ماری شِمِل کی ہے ، جنہیں اقبال سے والہانہ عشق تھا اور اپنے تراجم کے ذریعے انہوں نے عظیم شعراء کی مشکل شاعری میں بھی جرمن اسکالروں کے لئے دلچسپی کے پہلو نکالے تھے۔ شاید ان کی کامیابی کے راز ان کا مزاج اوراسلامیات پر ان کی مہارت بھی تھی۔ میری ان سے آخری بار ملاقات برلن میں ہوئی تھی۔ افسوس کہ ان کی زندگی نے زیادہ دن ساتھ نہ دیا۔ مجھے پروفیسرکرسٹینا اوسٹر ہیلڈ کا ذکر کرتے ہوئے بھی فخر محسوس ہو رہا ہے ۔ وہ اور ایک دوسری اسکالر کارین فریڈل ہمبولٹ یونیورسٹی میں میری بہترین طالبات تھیں۔ کارین فریڈل نے تو بعد میں ایک انڈونیشین تجار سے شادی کر کے اردو سے قطع تعلق کر لیا لیکن کرسٹینا نے ثابت قدمی اور محنت سے قرۃلعین حیدر پر ریسرچ کی اور ہندوستا ن و پاکستان جاکر اپنی اردو کو اور زیادہ مانجھا اور ہائیڈل برگ کی یونیورسٹی میں اردو کی پروفسر اور صدر شعبہ بن کر تعلیم کے میدان میں اردو کو کافی فروغ دیا۔ جس پر ہم فخر کر سکتے ہیں۔ ا۔
غرضیکہ بتانے کے لئے بہت کچھ ہے۔اور بھی بہت سے نام گنائے جا سکتے ہیِ۔ برصغیر سے آنے والے اردو اسکالروں، مصنفوں اورشاعروں کی آمد سے بھی ہمیں اردو کو مقبول بنانے میں بہت مدد ملی ہے ، جو ہمارے جلسوں، سیمیناروں اور مشاعروں کی شان بنے اورجرمن دانشوروں سے ان کے رابطہ نے ہمارے لئے اردو کے فروغ کے امکانات میں اضافہ کیا۔ایسے مہمانوں میں ہم فیض احمد فیض، سجاد ظہیر، کرشن چندر، خواجہ احمد عباس ، سردار جعفری، فتح محمد ملک، انتظار حسین، افتخار عارف، احمد فراز، فہمیدہ ریاض، جمیل الدین عالی، مستنصر حسین تارڑ، خلیق حارث، عثمان پیرزادہ وغیرہ کے نام مجھے یاد آرہے ہیں ، جن سے مجھے خود یہاں ملنے کا موقع ملا تھا۔افتخار عارف تو کیونکہ عرسہء دراز تک لندن میں رہ چکے تھے اور یوروپین مزاج کو پہچانتے تھے اس لئے ان کے لئے جو خاص جلسہ کیا گیا اس میں اور بعد میں جرمن دانشوروں کے درمیان وہ اردو کی خوبصورتی اور اہمیت کو بہت اچھی طرح سمجھا سکے۔ اسی طرح فیض احمد فیض (فیض بھائی) نے جب وہ یہاںمیرے گھر پر آئے تو جرمن ریڈیو کے لئے ترقی پسند تحریک اور ادب کے بارے میں مجھے ایک خاص انٹرویو دیا ، جو بہت پسند کیا گیا۔ایسی ہی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔
لیکن یہ سب اتنا آسان نہیں جتنا دور سے نظر آتا ہے۔ میں اس موقع پر جرمنی میں اپنے نصف صدی کے قیام کے سبھی تجربات پیش کروں گا تو آپ کا بہت وقت ضائع ہو گا۔ پھر بھی مجھے اجازت دیجئے کہ ایک دو مثالیں اور پیش کروں۔
جن دنوں میں برلن کی ہمبولٹ یونیورسٹی میں اردو پڑھاتا تھا، ایک جرمن میرے کلاس میں اردوپڑھنے کے لئے آیا۔ دیکھنے سے ایسا لگتا تھا جیسے کارل مارکس چلے آئے ہوں۔ معلوم ہوا کہ وہ مجھ سے عمر میں صرف ایک مہینہ چھوٹا ہے اور فارسی اور عربی پر عبور رکھتا ہے۔ بعد میں اسے اردو سے اتنی رغبت ہوئی کہ وہ ہماری اردو انجمن کا رکن بن گیا اور اب اس کا جنرل سکریٹری ہے۔ اور جو بھی مہمان بر صغیرسے ہمارے جلسوں میں شرکت کے لئے آتا ہے اس کی تقریروں کا جرمن زبان میں ترجمہ کر نے میں مدد دیتا ہے۔اس کا نام اُووے فائکباخ ہے۔
اسی طرح ایک جرمن نوجوان یونیورسٹی میں میرے پاس اردو پڑھنے کے لئے آیا۔معلوم ہوا کہ فری یونیورسٹی سے اس کو اردو سیکھنے کے لئے ہمبولٹ یونیورسٹی میں بھیجا گیا ہے۔ وہ بھی کافی ذہین تھا اور ستار بجانے کا شوقین بھی تھا۔ میں نے اسے اردو شعر و شاعری کے بارے میں بھی کچھ باتیں بتائیں اور اردو انجمن کے ایک مشاعرے میں شرکت کی دعوت دی۔ کچھ دن بعد اس کا
فون میرے پاس آیا ۔ کہنے لگا میں نے بھی ایک غزل لکھی ہے دیکھ لیجئے ٹھیک ہے یا نہیں۔ بہر حال میں نے اس کی ہمت کی داد دی۔ یہ اس کی اب تک پہلی اور آخری غزل تھی۔ اب وہ ہماری اردو انجمن کا ممبر ہے اور پروگراموں میں ستار بجاتا ہے۔
ایک دوسری دلچسپ شخصیت ایک اٹیلین خاتون کاتھرینا پِنٹو کی ہے۔ اسے اٹلی کی Neaple نیپل یونیورسٹی نے برلن کی
ہمبولٹیونیورسٹی میں اردو میں ایم اے کا کورس مکمل کرنے کے لئے بھیجا تھا اور وہ میرے پاس پڑھنے کے لئے آئی تھی۔ وہ بھی اردو زبان اور ہمارے جلسوں سے اتنی متاثر ہوئی کہ ہماری انجمن کی سر گرم ممبر بن گئی۔
اس نے میری کہانیوں اور نظموں کا اٹیلین زبان میں ترجمہ کیا اور اپنی تھیسس میرے ادبی کاموں اور اردو انجمن کی سرگرمیوں پر لکھی۔ بعد میں جب اٹلی لوٹ کروہ اپنی تھیسس کا ڈیفنس کر رہی تھی تو اس کا امتحان لینے والے پینل میں مجھے بھی نیپل یونیورسٹی نے وہاں آنے کی دعوت دی۔ کاتھرینا نے سات پروفیسروں کے پینل کے سامنے جس میں وہاں کے ڈین فیکلٹی آف آرٹس بھی تھے اور میں بھی شامل تھا نیزسو مشاہدین موجود تھے ، اپنی تھیسس کا اتنا اچھا ڈیفنس کیا، کہ اسے ۱۱۰ میں سے ۱۰۸ نمبر ملے اورلاتعداد گلدستوں کے ساتھ مباربادیں دی گئیں۔ لیکن افسوس کہ اب وہ ایک ایسے پیشے سے جڑ گئی ہے جہاں آمدنی تو خوب ہے، لیکن اردو سے اس کا تعلق نہیں رہا ہے۔ اور یہ صرف اسی کے ساتھ نہیں بلکہ اردوپڑھنے والے بہت سے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ جنھیں یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اردو پڑھنے کے بعد وہ اپنا مستقبل کیسے سنواریں؟ ایسی لاتعداد مثالیں میرے سامنے ہیں۔
بہر حال جرمنی میںاردو کے فروغ کے امکانات بہت ہیں۔ میں یہ بھی بتا دوں کہ پچھلے چند برسوں میں یہاں پر بسے ہوئے اردو داں لوگوں نے درجنوں اچھی بری کتابیں شائع کی ہیںان میں
شعری مجموعے بھی ہیں، افسانو کے مجموعے بھی ، سفرنامے اور تاریخی مضامیں اور آپ بیتیاں بھی۔ میری بھی بیس کے قریب کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ لیکن میرا اصل مقصد اپنے بارے میں ذکر کا نہیں بلکہ اردو ادب کو جرمنی میں پھیلانے کے امکانات اور مسائل کا ذکر کرنا ہے۔ جہاں تک جرمن ادب کو اردو میں منتقل کرنے کا کام ہے یہ مجھ سے بہتر دوسرے لوگ کر چکے ہیں۔میرا کام تو یہ ہے کہ میںجن لوگوں میں رہتا ہوں ان میں اردو کو مقبول بنایا جائے۔
اس سلسلے میں ہماری سب سے بڑی مجبوری تو یہ ہے کہ یوروپین مزاج کے مطابق اردو پڑھانے کی کتابیں اوردیگر مٹیریل نہیں ہیں، ناہی کوئی مستند اور نستالیق میں چھپی اردو۔ جرمن اور جرمن ۔ اردو ڈکشنریاںیورپ میں ہیں۔ہمیں اپنی زبان میں بھی اصلاحات کرنا ہوں گی اور رسم الخط کو آسان بنانا ہوگا، اگر ہم چاہتے ہیں کہ عالمی پیمانے پر اردو کو فروغ دیں۔ طلباء کو زبردستی ’ا ‘ او ر ’ع‘، یا ’ت‘ اور ’ط‘ اور ’ذ‘، ’ز‘ ، ’ض‘ اور ’ظ‘ کے گورک دھندے میں نہ الجھائیں۔ نیز انٹرنیٹ اور وھاٹس اپ وغیر میںاردو کو رومن میں کس طرح لکھا جاتا ہے ، اس کے لئے سنجیدگی سے کام کرکے اصول بنائیں۔اس وقت اردو ادب سے جرمن زبان میں ترجمے کی بہت کمی ہے۔ جرمنوں نے خود جو ترجمے کئے ہیں وہ زیادہ تر انگریزی سے ہیں۔ اگر ہم جرمن زبان سے اردو میں ترجمہ کر لیتے ہیں تو ہمیں معلوم ہے کہ وہ افسانہ یا مضمون برصغیر کے کسی رسالے میں شائع ہو جائے گا یا کتاب کی صورت میں آجائے گا۔ لیکن اردو سے جرمن میں ترجمہ کرنے کے بعد یہ نہیں معلوم ہوتا کہ اسے کون چھاپنا پسند کرے گا۔پھر یہ بھی ضروری ہے کہ ہم جن مضامین کا انتخاب کر رہے ہیں وہ جرمنوں کے مزاج سے میل کھائے اور وہ اسے آسانی سے قبول کریں۔ ہم اپنے روایتی مضامین اور انداز سے جرمنوں کا دل نہیں جیت سکتے۔ ساتھ ہی یہ کہ ترجمے کے وقت جرمنوں کے مزاج کا خیال رکھتے ہوئے اس طرح ڈوب کر ترجمہ کریں کہ وہ صرف ترجمہ نہ لگے، بلکہ یہ محسوس ہو کہ آپ جرمن قاری کے سامنے اصلی منظر اور اصلی کردار پیش کر رہے ہیں۔
مثلاً چند مثالیں ملاحظہ کیجئے۔ یہاں آنے کے بعد ۱۹۶۴ء میں میں نے اپنی ایک کہانی ’ایک سے چار‘ کا دل سے جرمن زبان میں ترجمہ کیا جو پہلے کراچی کے افکار میں شائع ہو چکی تھی۔ وہ جرمن رائٹرس یونین کے برلن سے نکلنے والے جرمن رسالے Neue Deutsche Literaturنے فوراً شائع کی اور پسند کی گئی۔ اگلے سال اسی رسالے نے میری ایک نظم جرمن میں شائع کی۔ دوسال بعد ۱۹۶۷ء میں امن کے موضوع پر نظموں کے ایک ضخیم مجموعے میں جو برلن سے Traennen und Rosen کے نام سے شائع ہوا میری نطم شائع کی گئی۔ اور بھی کئی نظمیں مختلف رسالوں میں شاائع ہوئیں۔ میں نے کرشن چندر کی کہانی ’آخری بس‘ کا جرمن میں ترجمہکیا۔ وہ جرمن رسالے Sinn und Form میں شائع ہوئی۔ کرشن چندر کے دو ڈراموں ’سرائے کے باہر‘ اور ’کتے کی موت ‘ کا میں نے ریڈیو برلن کے لئے ترجمہ کیا جو براڈ کاسٹ کئے گئے اور اتنے پسند کئے گئے کہ بار بار براڈ کاسٹ ہوئے۔اسی طرح میرے لکھے ڈرامے یہاں اسٹیج پر جرمن زبان میںکھیلے گئے اور پسند کئے گئے۔
۲۰۱۵ء میں میری نظموں کا جرمن زبان میں مجموعہ Dornen und Rosen(خار اور گُل)
کے نام سے اور ۲۰۱۶ء میں میرے افسانوں کا جرمن زبان میں مجموعہ Zum Paradies auf Erden(سوئے فردوسِ زمیں) کے نام سے شائع ہوا ۔ برلن میں ان کتابوں کی رسم اجراٗ کی تقریبات ہوئیں جن میں بڑی تعداد میں جرمنوں نے شرکت کی اور یہ کتابیں ہاتھوں ہاتھ خریدیں۔
غرضیکہ اگر ہم یوروپین مزاج اور شعور کو مد نظر رکھتے ہوئے دل سے اردو کی تخلیقات کا ترجمہ کریں، تو جرمن قاری انھیں دل سے قبول کریں گے چاہے وہ امن عالم کے متعلق ہوں ، انسانی حقوق سے یا ماحولیات اور دیگر سماجی مسائل کے متعلق۔ ہمارے سامنے امکانات کا ایک وسیع میدان ہے، ضرورت مزاج فہمی، موضوع کا انتخاب، شوق، لگن اور ہمت کی ہے۔
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here