9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
دانش کدہ،وشال سٹی،دوبگہ،لکھنؤ
ابتدائیہ
باوجود اس کے کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن کریم ہم انسانوں کے لٔے ایک گرانبہا اور بیش قیمت تحفہ وہدیۂ الٰہی ہونے کے ساتھ ساتھ پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم ترین میراث ہے۔لیکن ۔۔۔!جائے افسوس کہ امت مسلمہ نے اس الٰہی کتاب سے کما حقہ استفادہ نہ کیا!اسلامی سماج اور معاشرے میں زندگی بسر کر نے و الے مسلمانوں نے وفات نبی اکرمؐ کے بعد آنحضرتؐ کی قرآن کریم کی جانب رجوع کرنے اور اس پر عمل کرنے کی تمام تر تاکیدات کو بالائے طاق قرار دیکر آپؐ کی اس تاکید پر بھی عمل نہ کیا کہ جس میں حضور اکرم ؐ نے ثقل اصغر یعنی اہلبیت اطہار علیہم السلام سے علوم قرآن حاصل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج اسلامی معاشرہ اپنی وہ ساکھ کھو بیٹھا جس میں اسی معاشرے کو ’’انتم الاعلون ان کنتم مؤمنینــــ‘‘(۱)کی بشارت دی گئی تھی۔
اس حقیقت کا اعتراف بھی بیجا نہ ہوگا کہ اس گوہر آسمانی اور عطیۂ رحمانی سے تمام تر دوری وکنارہ گیری کے باوجود مسلمانوں نے وقتاً فوقتاً اس کے ظواہر کے بارے میں گفتگو کی ہے جو اپنی جگہ قابل ستائش ہے۔
ہم مسلمانوں کا ماننا ہے کہ قرآن کریم ایک آسمانی اور مقدس کتاب کا نام ہے جو شب قدر میں قلب پیغمبرؐ پر نازل ہوئی ہے۔ہم اپنے تئیں اس کا پاس ولحاظ بھی رکھتے ہیں اور اس کا احترام بھی کرتے ہیں۔آیات قرآنیہ کی تلاوت کرنے والا اگر غور وفکر اور تفکر وتدبر سے کام لے تو یقیناً اس کتاب میں جگہ جگہ پر اسے تازگی،رعنائی اور زیبائی کی جھلک دکھائی دیگی۔کیونکہ یہ صاحب حکمت اور قابل حمد اللہ تبارک وتعالیٰ کی نازل کردہ کتاب ہے۔
بات کہیں سے کہیں نہ پہنچ جائے اس لئے اصل موضوع کا ذکر کرتے ہوئے یہ تحریر کیا جائے کہ مقالہ کا عنوان ہے:’’قرآن کریم نہج البلاغہ کی روشنی میں‘‘۔اب دو جملے نہج البلاغہ اور خالق نہج البلاغہ حضرت علی علیہ السلام کے حوالہ سے بھی رقم کر دوں کہ نہج البلاغہ’’ اخت القرآن‘‘کے نام سے مشہور امیر المومنینؑ کے کلام کا وہ مجموعہ جو تشنگان معرفت کے لئے حقائق کا بحر ذخار ہے اور خالق نہج البلاغہ کی توصیف میں خود آپؑ کا یہ جملہ ہی کافی ہے کہ ’’ینحدر عنی السیل ولا یرقی الی الطیر‘‘(۲)
اس جملہ کے بعد یہ رقم کرنے میں مجھے کوئی دریغ نہیں کہ نہج البلاغہ میں ایک سے بڑھکر ایک گوہر آبدار موجود ہیں ۔لیکن ظاہر سی بات ہیکہ محدود صفحات میں اس وسیع موضوع سے مربوط امیر المومنینؑ کے تمام ان ارشادات وفرمودات کو جگہ نہیں دی جا سکتی جو اس عظیم سرمایہ میں موجود ہیں کیونکہ ان تمام مطالب کا کما حقہ ضبط تحریر میں لانا کم از کم مجھ جیسے طالب علم کے لئے ایک نہایت ہی سخت اور دشوار کام ہے۔پھر بھی
آب دریا را اگر نتوان کشید ھم بقدر تشنگی باید چشید
حضرت علی علیہ السلام اور قرآن کریم میں رابطہ:
اصل موضوع پر بحث اور گفتگو سے قبل اس بات کی جانب اشارہ ضروری سمجھتا ہوں کہ امیر المؤمنینؑ اور قرآن کریم میں کیا رابطہ پایا جاتا ہے؟بہر حال اس مسئلہ کی وضاحت کے لئے چند احادیث کا مطالعہ کرنا ہوگا۔
[۱]رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ھٰذا علی مع القرآن والقرآن مع علی ولا یفترقا حتیٰ یرداٰ علی الحوض‘‘(۱)یہ علی قرآن کے ساتھ اور قرآن علی کے ساتھ ہیں اور یہ دونوں آپس میں جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ روز قیامت حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں۔اور پھر حضورؐ نے فرمایا:’’فأسألھما عما اختلفتم فیھما‘‘(۲)’’تمہارے درمیان پائے جانے و الے اختلافی موارد میں ان دونوں سے سوال کروں گا‘‘۔
[۲]مشہور صحابی پیغمبر اور مفسر قرآن جناب ابن مسعود فرماتے ہیں:’’نزل القرآن علیٰ سبعۃ احرف لہ ظھر وبطن وان عند علی علم القرآن ظاھرہ وباطنہ‘‘(۳)قرآن کریم سات مختل زاوئیے سے نازل ہوا ،اسکا ظاہر وباطن ہے اوع علیؑ کو اس کے ظاہر وباطن کا علم ہے۔
حبر الامۃ عالم ومفسر قرآن کریم جناب ابن عباس نے بھی یہ گواہی دی ہے۔(۴)
جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں کہ ابن سعد نے حضرت علیؑ سے روایت کی ہے ’’واللہ ما نزلت آیۃ الا وقد علمت فیم نزلت وعلیٰ من نزلت ان ربی وھب لی قلباً عقولاً ولساناً صادقاًناطقاً‘‘(۵)’’خدا کی قسم !جب بھی کوئی آیت نازل ہوتی تو مجھے معلوم ہو جاتا کہ کس کے بارے میں نازل ہوئی،کہاں نازل ہوئی اور کس طرح نازل ہوئی ۔بلا شبہہ میرے پروردگار نے عقل بینا،ذہن رسا اور سچی زبان گویا عطا کی ہے‘‘۔
اس کے علاوہ متعدد روایات ہیں جو حضرت علیؑ اور قرآن کریم کے درمیان پائے جانے والے رابطے پر بطور وضوح دلالت کرتی ہیں ۔اطالۂ کلام سے گریز کرتے ہوئے ان احادیث پر اکتفا کرتا ہوں۔
قرآن کریم کی عظمت:
عظمت قرآن کریم بیان کرنے کے لئے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ یہ کلام اللہ ہے۔
تو خدا ہے ترا جواب نہیں رحمتوں کا تری حساب نہیں
ذکر ہر خشک وتر کا اس میں ہے مثل قرآں کوئی کتاب نہیں
اس کتاب میں کل ۱۱۴ سورے اور مشہورقول کے مطابق ۶۶۶۶ ؍آیات ہیں ۔بعض سورے مکہ میں اور بعض مدینہ میں نازل ہوئے۔مکہ میں نازل ہونے والے سوروں کو مکی اور مدینہ میں نازل ہونے والے سوروں کو مدنی کہا جاتا ہے۔اس قرآن کریم کی تلاوت اس کے مفاہیم میں غور وفکر ہم تمام مسلمانوں کا فریضہ ہے۔پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا:’’صبح ومساء اس قرآن کی تلاوت سے غفلت مت برتو،کیونکہ قرآن مردہ دلوں کو زندہ کرتا ہے اور انسانوں کو برائیوں سے دوررکھتا ہے‘‘۔(۶)
حضرت علی علیہ السلام نے متعدد مقامات پر آیات قرآن کریم کا ذکر کیا جسے نہج البلاغہ میں موجود آپؑ کے ارشادات وفرامیں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔بعض اہل تحقیق کے اعتبار سے خود لفظ قرآن ۱۸ مرتبہ نہج البلاغہ میں موجود ہے۔(۷)جب کہ اسکی توصیف میں’’ کتاب اللہ‘‘ اور’’ کتاب ‘‘جیسے کلمات بیشمار مرتبہ استعمال ہوئے ہیں۔
امیر المؤمنینؑ نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر ایک میں ’’قرآن کریم اور احکام شرعیہ‘‘کے عنوان سے فرماتے ہیں:’’کتاب ربکم فیکم،مبیناً حلالہ وحرامہ ،وفرائضہ وفضائلہ،وناسخہ ومنسوخہ،ورخصہ وعزائمہ،وخاصہ وعامہ،وعبرہ وأمثالہ،ومرسلہ ومحدودہ،ومحکمہ ومتشابھہ،مفسراٍ مجملہ ومبیناً غوامضہ،بین مأخوذ میثاق علمہ،وموسع علیٰ العباد فی جھلہ،وبین مثبت فی الکتاب فرضہ،ومعلوم فی السنۃ نسخہ،وواجب فی السنۃ أخذہ ومرخص فی الکتاب ترکہ،وبین واجب بوقتہ،وزائل فی مستقبلہ،ومباین بین محارمہ من کبر أوعد علیہ نیرانہ،أو صغیر أرصد لہغفرانہ وبین مقبول فی ادناہ موسع فی أقصاہ ‘‘(۸)’’پیغمبرؐ نے تمہارے پروردگار کی کتاب تم میں چھوڑی ہے اس حالت میں کہ انہوں نے کتاب کے حلال وحرام ،واجبات ومستحبات،ناسخ ومنسوخ،رخص وعزائم،خاص وعام،عبر وامثال،مقید ومطلق،محکم ومتشابہ کو واضح طور سے بیان کر دیا۔مجمل آیتوں کی تفسیر کر دی۔اس کی گتھیوں کو سلجھا دیا۔اس میں کچھ آیتیں وہ ہیں جن کے جاننے کی پابندی عائد کی گئی ہیاور کچھ وہ ہیں کہ اگر اس کے بندے ان سے ناواقف رہیں تو مضائقہ نہیں ،کچھ احکام ایسے ہیں جن کا وجوب کتاب سے ثابت ہے اور حدیث سے ان کے منسوخ ہونے کا پتہ چلتا ہے اور کچھ احکام ایسے ہیں جن پر عمل کرنا حدیث کی رو سے واجب ہے۔لیکن کتاب میں انکے ترک کی اجازت ہے۔اس کتاب میں بعض واجبات ایسے ہیں جن کا وجوب وقت سے وابستہ ہے اور زمانۂ آئندہ میں ان کا وجوب برطرف ہو جاتا ہے۔قرآن کے محرمات میں بھی تفریق ہے۔کچھ کبیرہ ہیں جن کے لئے آتش جہنم کی دھمکیاں ہیںاور کچھ صغیرہ ہیں جن کے لئے مغفرت کے توقعات پیدا کئے ہیں۔کچھ اعمال ایسے ہیں جنکا تھوڑا سا حصہ بھی مقبول ہے اور زیادہ سے زیادہ اضافی کی گنجائش رکھی ہے‘‘۔
قرآن کریم اور نہج البلاغہ میں رابطہ:
قرآن کریم اور نہج البلاغہ میں موجود رابطہ بیان کرنے کے لئے چار موضوعات مد نظر ہیں:
[۱]معنی ومفہوم کے اعتبار سے قرآن کریم اور نہج البلاغہ میں ایک خاص رابطہ پایا جاتا ہے۔امیر بیان وسخن کے فرامین پڑھنے والا قاری یہ بات محسوس کر سکتا ہے کہ گویا اس کتاب میں کلام اللہ اور آیات قرآنی جلوہ افروز ہوں۔
[۲]نہج البلاغہ میں بعض جگہوں پر آیات قرآن کریم کی تفسیر بیان کی گئی ہے۔
[۳]نہج البلاغہ میں متعدد مقامات پر قرآن کریم کی توصیف ،کتاب خدا یا پھر قرآن کے عنوان سے بیان ہوئی ہے۔
[۴]بعض محققین کی تحقیق کے مطابق ۱۲۲ آیات قرآن کریم ،نہج البلاغہ میں پائی جاتی ہیں۔جنہیں مولیٰ نے مختلف مواقع پر ارشاد فرمائیں اور اپنی بات کی تائید کے لئے ان آیات سے استناد فرمایا۔
بہر حال گذشتہ گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ حضور اکرمؐ کے بعد حضرت علیؑ سے زیادہ کوئی بھی شخص قرآن کریم سے مانوس نہیں تھا۔گویا خود امیر المومنینؑ نے قرآن کریم تالیف کیا ہو اور آپکو اس کے تمام اطراف و جوانب پر مکمل علم تھا۔اور قرآن کریم کی دلنشین گفتگو امیر بیان و سخن کی گفتگو کا جزء لا ینفک قرار پایا۔
قرآن کریم،انسانوں کے پاس موجود تنہا آسمانی کتاب:
اما م علی علیہ السلام خطبہ نمبر ۱۳۳؍ میں ارشاد فرماتے ہیں:’’و کتاب اللہ بین اظھرکم ناطق لا یعییٰ لسانہ ‘‘’’اللہ کی کتاب تمہارے سامنے اس طرح (کھل کر)بولنے والی ہے کہ اس کی زبان کہیں لڑکھڑاتی نہیں ‘‘۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ گذشتہ امتوں میں بالخصوص بنی اسرائیل کے یہود یوں کے درمیان کتاب مقدس نہیں تھی ؛بلکہ صرف چند ایک توریت کے نسخے علمائے یہود کے پاس موجود تھے اور عام افراد کے لئے توریت تک دسترسی ممکن نہ تھی۔حضرت عیسیٰ علیٰ نبینا وآلہ وعلیہ السلام کی کتاب کے بارے میں حالت اس سے بھی بدتر نظر آتی ہے؛کیونکہ انجیل نامی جو کتاب عیسائیوں کے درمیان آج پائی جاتی ہے وہ کتاب نہیں جو حضرت عیسیٰ مسیحؑ پر نازل ہوئی تھی ؛بلکہ اس میں موجود مطالب وہ ہیں جو بعض افراد نے جمع کیا اور ’’اناجیل اربعہ ‘‘کے نام سے مشہور ہو گئی ہے۔لہٰذا گذشتہ امتیں ان آسمانی کتب تک دسترسی سے محروم رہیں۔لیکن قرآن کریم کا مسئلہ ان کتب کے برخلاف ہے کیونکہ حضور اکرمؐ نے نزول قرآن کریم کی کیفیت،قرائت اور اس کی تعلیم اس طرح بیان فرمائی کہ لوگ اس سے درس لے سکیں اور اسے حفظ کر سکیں اور مکمل طریقے سے یہ ہدیۂ الٰہی انکی دسترس میں رہے۔اس کتاب کی ایک دوسری بارز صفت یہ ہے کہ خدا وند کریم نے ہر قسم کی تحریفات سے اسے محفوظ ومصون رکھنے کا ذمہ خود لیا ہے۔حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:’’کتاب اللہ بین اظھرکم‘‘۔’’کتاب خدا تمہارے سامنے ہے ،تمہاری دسترس میں ہے‘‘۔’’ناطق لا یعییٰ لسانہ‘‘۔بجا ہوگا کہ اس جملہ پر زیادہ غور کیا جائے۔حضرت فرماتے ہیں:’’اس کی زبان کہیں لڑکھڑاتی نہیں اور ایسا گھر ہے جس کے کھمبے سرنگوں نہیں ہوتے اور ایسی عزت ہے کہ اس کے معاون شکست نہیں کھاتے‘‘۔
قرآن کریم کا گفتگو کرنا:
مندرجہ بالا سطور میں امیر کائناتؑ کا وہ جملہ نقل کیا گیا جس میں آپ نے فرمایا:’’ناطق لا یعییٰ‘‘۔لیکن اس کے برخلاف ایک دوسری جگہ پر آپ فرماتے ہیں:’’صامت ناطق‘‘(۹)’’قرآن کریم ساکت ہے‘‘۔اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ دو الگ الگ تعبیر امیر بیان و سخن نے کیوں استعمال کیں؟!علیٰ الطاہر جو بات ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ کہ یہ دونوں جداگانہ تعبیریں اس آسمانی کتاب کی بنسبت دو الگ پہلوئوں پر دلالت کرتی ہیں۔[۱]قرآن کریم ایک مقدس کتاب ہونے کے ساتھ خاموشی سے ایک گوشہ وکنار میں ہے اور کسی سے گفتگو نہیں کرتی اور کسی کا اس سے کوئی رابطہ نہیں ہے ۔[۲]قرآن کریم ایک ایسی کتاب کہ جس نے تمام انسانوں کو اپنا مخاطب قرار دیا ہے اور انہیں اپنی اتباع کا حکم دیا اور اپنے پیروکاروں کو سعادت وخوشبختی کی نوید سنائی ہے۔
واضح سی بات ہے کہ ایسا قرآن کریم کہ جس کی صفت صرف اور صرف قداست ہو ،تو وہ جملات ،کلمات اور آیات ہیں کہ جو کاغذ پر منقوش ہیں اور اہل اسلام اس کا احترام کرتے ہیں ،اسے آنکھوں سے لگاتے ہیں اور اسے اپنے گھر کی بہترین جگہ پر قرار دیتے ہیں اور بسا اوقات اس کے معنی و مفہوم پر غور و فکر کئے بغیر اس کی تلاوت کرتے ہیں ۔اگر اس زاویہ سے قرآن کریم دیکھا جائے ،تو یہ ایک ایسی کتاب ہے جو صامت ہے اور با آواز محسوس طریقے سے گفتگو نہیں کرتی ۔جو شخص اس اعتبار سے قرآن کریم دیکھے وہ کبھی بھی اس کی گفتگو نہیں سن سکتا اور قرآن کریم بھی اس کی مشکل کا راہ حل بیان نہیں کر سکتا۔
لہٰذا اب ہمارا فریضہ ہے کہ ہم دوسرے پہلو پر غور وفکر کریں یعنی قرآن کریم کو’’ کتاب زندگی‘‘جانیں اور فرامین خدا وند عالم کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کرنے کے لئے قرآن کریم کی گفتگو سنیں ۔ایسی صورت میں یہ کتاب ناطق اور متکلم ہوگی اور اب یہ زندگی کے تمام شعبوں میں ہماری معین ومددگار اور راہنما ہوگی۔
پیغمبر اعظم اور تبیین قرآن کریم:
امت مسلمہ کی بنسبت پیغمبر اعظمؐ کا فریضہ آیات الٰہی کی تبیین ہے۔قرآن کریم آنحضرتؐ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے:’’وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیھم‘‘(۱۰)’’اور آپ کی طرف بھی ذکر کو(قرآن)نازل کیا ہے تا کہ ان کے لئے ان احکام کو واضح کردیں جو انکی طرف نازل کئے گئے ہیں ‘‘۔چونکہ قرآن کریم کے معارف اور اسکے مفاہیم اس قدر عمیق ہیں کہ ہم جیسے انسانوں کے لئے انکا درک کرنا آسان نہیں لہٰذا ہمارے لئے خود ہماری بنسبت یہ کتاب الٰہی صامت اور ساکت ہے اور اس کی تبیین و توضیح کے لئے پیغمبر اکرم ؐ اور ائمہ اطہار ؑ کی ضرورت ہے۔اسی لئے پروردگار عالم نبی اکرمؐ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے:’’اور آپ کی طرف بھی ذکر کو(قرآن)نازل کیا ہے تا کہ ان کے لئے ان احکام کو واضح کردیں ‘‘۔خطبہ نمبر ۱۵۶ میں قرآن کریم کی توصیف بیان کرتے ہوئے امیر المومنین ؑ ارشاد فرماتے ہیں:’’ذٰلک القرآن فاستنطقوہ ولن ینطق ولٰکن اخبرکم عنہ ۔ألاان فیہ علم ما یاتی والحدیث عن الماضی ودواء دائکم ونظم ما بینکم ‘‘(۱۱)’’یہ قرآن کریم ہے اس سے اپنے لئے گفتگو چاہو جبکہ یہ(پیغمبرؐ اور ائمہ اطہارؑ کی تبیین کے بغیر)گفتگو نہیں کر سکتا۔اس کی طرف سے خبر دیتا ہوں کہ اس میں آئندہ کے معلومات ،گذشتہ واقعات اور تمہاری بیماریوں کا چارہ اور تمہارے باہمی تعلقات کی شیرازہ بندی ہے‘‘۔یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن کریم ایک ایسی کتاب کا نام ہے جسمیں معارف و علوم کے بحر ذخار موجزن ہیں ۔اب چونکہ ان مطالب کا ادراک ہر انسان کے بس کی بات نہیں لہٰذا نبیؐ وآل نبیؐ ہی ان معارف کی تعلیم دے سکتے ہیں کیونکہ علوم قرآن کا اصل مرکز ومحور یہی عظیم ہستیاں ہیں۔نتیجہ میں انکی گفتگو قرآنی آیات کی زبانی ہوتی ہے اور چونکہ یہ ایسے ہیں لہٰذا یہی قرآن ناطق ہیں ۔
انسانی زندگی میں قرآن کریم کا کردار:
حضرت علی علیہ السلام تمام مشکلات کا حل قرآن کریم قرار دیتے ہوئے اس کی توصیف میں فرماتے ہیں:’’ودواء دائکم ونظم ما بینکم‘‘(۱۲)’’قرآن کریم تمہارے امراض کی دوا اور تم میں نطم وضبط پیدا کرنے کا ذریعہ ہے‘‘۔قرآن کریم ایک ایسی شفا بخش دوا کا نام ہے جس سے امراض جاتے رہیں اور مصائب ومشکلات کا خاتمہ ہوتا رہے۔اس نسخہ کا عمیق مطالعہ کرنا چاہئے اور اجتماعی وفردی دونوں قسم کی مشکلات کا علاج پہچاننا چاہئے۔لیکن علاج سے پہلے خود مرض کا پہچاننا ضروری ہے تا کہ صحیح انداز میں معالجہ ہو سکے۔ایک دوسرے مقام پر امیر سخن بیان فرماتے ہیں:’’ودوائً لیس بعدہ داء ‘‘(۱۳)’’قرآن کریم ایسی دوا کا نام ہے جس کے بعد کوئی بھی مرض باقی نہیں رہ جاتا‘‘۔ہمیں اس بات پر یقین رکھنا ہوگا کہ امیر المومنینؑ کے بقول تمام امراض کی دوا قرآن کریم میں ہے۔
اجتماعی امور کی تنظیم اورقرآن کریم :
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:’’ألا ان فیہ علم ما یأتی والحدیث عن الماضی ودواء دائکم ونظم ما بینکم‘‘(۱۴)حضرت اس بات کو بیان کرنے کے بعد کہ قرآن کریم میں گذشتہ وآئندہ کا علم ہے اور اس میں تمام امراض کی دوا و شفا ہے ایک اہم نکتہ کی جانب ہماری توجہات مبذول کراتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ونظم ما بینکم‘‘تم مسلمانوں کا آپسی ارتباط اور اس میں نظم وانضباط پیدا کرنا قرآن کریم میں مضمر ہے۔اس جملہ کی وضاحت کے لئے شاید یہ جملہ ہی کافی ہو کہ ہر معاشرے اور سماج میں نظم وامنیت ایک خاص اہمیت کی حامل ہے۔اسی وجہ سے ہر نظام اور ہر حکومت میں امنیت برقرار کرنے کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔
قرآن کریم کی پیروی کا نتیجہ بے نیازی :
حضرت علی علیہ السلام خطبہ نمبر ۱۷۵ ؍میںقرآن کریم کے سلسلہ میں فرماتے ہیں:’’واعلموا ان ھٰذا القرآن ھو الناصح الذی لا یغش،والھادی الذی لا یضل والمحدث الذی لا یکذ ب وماجالس ھٰذا القرآن احد الا قام عنہ بزیادۃ او نقصان من عمیً ‘‘۔’’یاد رکھو کہ یہ قرآن ایسا نصیحت کرنے والا ہے جو فریب نہیں دیتا اور ایسا بیان کرنے والا ہے جو جھوٹ نہیں بولتا ۔جو بھی اس قرآن کا ہمنشین ہوا وہ ہدایت کو بڑھا کر اور گمراہی وضلالت کو گھٹا کر اس سے الگ ہوا۔‘‘اس کے بعد حضرتؑ فرماتے ہیں’’واعلموا انہ لیس علیٰ احد بعد القرآن من فاقۃ ،ولا لأحد قبل القرآن من غنیً فاستشفوہ من ادوائکم واستعینوا بہ علیٰ الاوائکم فان فیہ شفاء من اکبر الداء وھو الکفر والنفاق والغی والضلال‘‘۔’’جان لو !کسی کو قرآن (کی تعلیمات)کے بعد(کسی اور لائحۂ عمل کی)احتیاج نہیں رہتی اور نہ کوئی قرآن سے (کچھ سیکھنے سے) پہلے اس سے بے نیاز ہو سکتا ہے اس سے اپنی بیماریوں کی شفا چاہو اور اپنی مصیبتوں پر اس سے مدد مانگو۔اس میں کفر ونفاق اور ہلاکت وگمراہی جیسے بڑے بڑے مرضوں کی شفا پائی جاتی ہے ‘‘۔
اس کے علاوہ حضرت قرآن کریم سے جدائی اور اس سے دوری اختیار کرنے کی صورت میں ملنے والے نقصان اور اس کے خطر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ولا لأحد قبل القرآن من غنیً‘‘’’اورنہ کوئی قرآن سیکھنے سے پہلے اس سے بے نیاز ہو سکتا ہے‘‘۔یعنی اسلامی،اخلاقی اور عدل وعدالت کے محور پر پائے جا نے و الے معاشرے اور سماج کے لئے اگر تمام علوم اور تجربیات بشری سے استفادہ کر بھی لیا جائے تو بھی بغیر قرآن کریم کے یہ ممکن نہیں۔کیونکہ قرآن کریم کے بغیر بے نیازی و نیازمندی حاصل ہونے والا نہیں ہے۔اس بنا پر حضرت فرماتے ہیں:’’فاستشفوہ من ادوائکم واستعینوا بہ علیٰ لأوائکم‘‘۔لہٰذا اصل قوانین قرآن کریم سے حاصل کرنے چاہئے اور تجربیات کے ساتھ ساتھ تفکر وتدبر اور چارہ اندیشی کے ذریعہ مشکلات کا راہ حل تلاش کرنا چاہئے۔اگر اس نقطۂ نگاہ سے ہم مشکلات کا حل تلاش کریں تو یقیناً ہماری مشکلات کا حل نکلے گا کیونکہ خدا وند عالم کا وعدہ ہے:’’ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا‘‘(۱۵)’’اور جو بھی اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لئے نجات کی راہ پیدا کر دیتا ہے ‘‘۔
قرآن کریم،نور حقیقی:
خدا وند عالم خود کو نور سے تشبیہ دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:’’اللہ نور السمٰوات والأرض‘‘(۱۶)’’اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے‘‘۔یہ پروردگار عالم کا نور وجودہے جس نے متجلی ہو کر آسمانوں کا شامیانہ اور زمین کا فرش بچھایا۔بعض جگہوں پر کلام خدا کو بھی نور سے تعبیر کیا گیا ہے۔کیونکہ نور ہی کی مدد سے انسان اپنی منزلیں طے کرتا ہے اور کجروی وگمرہی سے نجات حاصل کرتا ہے۔اسی بنا پر خدا وند عالم نے قرآن کریم کونور سے تعبیر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’قد جائکم من اللہ نور وکتاب مبین‘‘(۱۷)’’تمہارے پاس خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے‘‘۔اب یہاں پر امیر المومنینؑ کے بیان سے استفادہ کریں گے۔آپؑ خطبہ نمبر ۱۹۸ میں اسلام اور پیغمبر اکرمؐ کی توصیف بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:’’ثم انزل علیہ الکتاب نوراً لا تطفأ مصابیحہ وسراجاً لا یخبو توقدہ ،وبحراً لا یدرک قعرہ‘‘۔’ ’پھر آپؐ پر ایک ایسی کتاب نازل فرمائی جو(سراپا)نور ہے جس کی قندیلیں بھی نہیں ہوتیں ۔ایسا چراغ ہے جس کی لو خاموش نہیں ہوتی ۔ایسا دریا ہے جس کی تہہ کا علم نہیں لگایا جا سکتا ہے ‘‘۔امیر المومنینؑ نے اس خطبہ میں قرآن کریم کی توصیف بیان کرتے ہوئے تین نہایت ہی خوبصورت تشبیہات سے استفادہ کیا ہے۔سب سے پہلے نور:’’انزل علیہ الکتاب نوراً لا تطفأ مصابیحہ‘‘۔اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن کریم کی مثال الکٹرک جیسی ہے کہ جس طرح بجلی کے تار راستوں میں روشنی کا کام انجام دیتے ہیں اور اصل راستہ کو دیگر راہوں سے مشخص کر دیتے ہیں تا کہ انسان اپنے ہدف اور اپنی منزل مقصود تک با آسانی پہنچ سکے اسی طرح قرآن کریم بھی سعادت وخوشبختی کے متلاشی افراد کے لئے راہنمائی کا کام انجا م دیتا ہے۔بس فرق اتنا ہے کہ جو لوگ اس چشمۂ فیض سے نور حاصل کرتے ہیں انکی زندگی میں کبھی بھی ،کہیں پر بھی ظلمت وتاریکی کا گزر نہیں ہوتا اور راہ مستقیم ہمیشہ روشن ومنور ہتا ہے۔
روز قیامت اہل قرآن کی کامیابی:
جیسا کہ یہ بات کسی بھی صاحب خرد سے پوشیدہ نہیں کہ ہماری ساری کوشش اخروی اور ابدی سعادت کی تلاش میں صرف ہونی چاہئے۔کیونکہ یہ زندگی تو اس حقیقی زندگی کا پیش خیمہ ہے۔انسان کی مثال اس دنیا میں اس مسافر جیسی ہے جو کسی دوسرے شہر ،عالم غربت میں ذریعۂ معاش کے لئے زندگی بسر کرتا ہے اور محنت ومزدوری کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی رقم اپنے اہل وعیال پر خرچ کرتا ہے اور انکی تا حد امکان مدد کرتا ہے صرف اس لئے تا کہ وطن واپسی کے بعدنسبتاً چین و سکون کی زندگی بسر کر سکے؛بس صرف فرق اتنا ہے کہ اخروی زندگی ابدی اور دائمی ہے۔اس دنیا میں انجام دئے جانے والے ہمارے اعمال آخرت کے لئے ذخیرہ ہو رہے ہیں ۔حدیث نبوی اسی جانب اشارہ ہے:’’الدنیا مزرعۃ الآخرۃ‘‘۔حضرت علی علیہ السلام اسی بات کو بہت ہی خوبصورت انداز میں یوں بیان فرماتے ہیں:’’فاسئلوا اللہ بہ وتوجھوا الیہ بحبہ ولا تسئلوا بہ خلقہ انہ ما توجہ العباد الیٰ اللہ بمثلہ واعلموا انہ شافع ومشفع ومصدق وانہ من شفع لہ القرآن یوم القیامۃ شفع فیہ ومن محل بہ القرآن یوم القیامۃ صدق علیہ‘‘(۱۸)’’اس کے وسیلہ سے اللہ سے مانگو اور اس کی دوستی کو لئے ہوئے اس کا رخ کرو ۔اور اسے لوگوں کے مانگنے کا ذریعہ نہ بنائو۔یقیناً بندوں کے لئے اللہ کی طرف متوجہ ہونے کا اس جیسا کوئی ذریعہ نہیں ۔تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ قرآن کریم ایسا شفاعت کرنے والا ہے جس کی شفاعت مقبول اور ایسا کلام کرنے والا ہے (جس کی ہر بات)تصدیق شدہ ہے۔قیامت کے دن جس کی یہ شفاعت کریگا ،وہ اس کے حق میں مانی جائیں گی اور اس روز جس کے عیوب بتائے گا تو اس کے بارے میں بھی اس کے قول کی تصدیق کی جائے گی۔‘‘اب اس جگہ پر مولیٰ لوگوں کی قرآن کریم سے جدائی کے نقصانات کی جانب اشارہ کرتے ہیں اور پھر لوگوں کو اسکی جانب ترغیب دلاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:’’ینادیٰ مناد یوم القیامۃ ألا ان کل حارث مبتلیٰ فی حرثہ وعاقبۃ عملہ غیر حرثۃ القرآن فکونوا من حرثتہ واتباعہ واستدلوہ علیٰ ربکم واستنصحوہ علیٰ انفسکم واتھموا علیہ آرائکم واستغشوا فیہ اھوائکم‘‘(۱۹)’’قیامت کے دن ایک ایک ندا دینے والا پکار کر کہے گا کہ دیکھو قرآن کی کھیتی بونے والوں کے علاوہ ہر بونے و الا اپنی کھیتی اور اپنے اعمال کے نتیجہ میں مبتلا ہے ۔لہٰذا تم قرآن کی کھیتی بونے والے اور اس کے پیروکار بنو،اور اپنے پروردگار تک پہنچنے کے لئے اسے دلیل راہ بنائو اور اپنے نفسوں کے لئے اس سے پند ونصیحت چاہواور اس کے مقابلہ میں اپنی خواہشوں کو غلط اور فریب خوردہ سمجھو ‘‘۔
حسن ختام:
صفحات کی محدودیت مد نظر رکھتے ہوئے قرآن کریم کے بارے میں خاص اہتمام برتنے کے لئے امیر بیان وسخن حضرت علی علیہ السلام کی بعض احادیث حسن ختام کے طور پر نقل کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔
[۱]’’تعلموا القرآن فانہ احسن الحدیث وتفقھوا فیہ ؛فانہ ربیع القلوب واستشفوا بنورہ؛فانہ شفاء الصدور واحسنوا تلاوتہ؛فانہ احسن القصص ‘‘(۲۰)’’قرآن کریم کا علم حاصل کرو کہ وہ بہترین کلام ہے اور اس میں غور وفکر کرو کہ یہ دلوں کی بہار ہے اور اس کے نور سے شفا حاصل کرو کہ سینوں(کے اندر چھپی ہوئی بیماریوں)کے لئے شفا ہے اور اس کی خوبی کے ساتھ تلاوت کرو کہ اس کے واقعات تمام واقعات سے زیادہ فائدہ رساں ہیں‘‘۔
[۲]’’احیائہ (القرآن)الاجتماع علیہ واماتتہ الافتراق عنہ‘‘(۲۱)’’احیائے قرآن سے مراد یہ ہے کہ آپس میں اتحاد واتفاق پیدا کریں اور اس پر عمل پیرا ہوں اور اس کو مارنے کا مطلب ،انتشار واختلاف ہے‘‘۔
[۳]’’والعصمۃ للمتمسک والنجاۃ للمتعلق‘‘(۲۲)’’(یہ قرآن)تمسک کرنے و الے کے لئے سامان حفاظت اور وابستہ رہنے والے کے لئے نجات ہے ‘‘۔
[۴]’’ان اللہ سبحانہ لم یعظ احدا ً بمثل ھٰذا القرآن ۔۔۔وما للقلب جلاء غیرہ‘‘(۲۳)’’بلا شبہہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے کسی کو ایسی نصیحت نہیں کی جو اس قرآن کے مانند ہو۔کیونکہ یہ اللہ کی مضبوط رسی اور امانتدار وسیلہ ہے۔اسی میں دل کی بہار اور علم کے سرچشمے ہیں اور اسی سے (آئینہ)قلب پر جلا ہوتی ہے ‘‘۔
[۵]’’واللہ اللہ فی القرآن،لا یسبقکم بالعمل بہ غیرکم‘‘(۲۴)’’قرآن کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا ایسا نہ ہو کہ دوسرے اس پر عمل کرنے میں تم پر سبقت لے جائیں‘‘۔
[۶]’’حق الولد علیٰ الوالد أن یحسن اسمہ ویحسن ادبہ ویعلمہ القرآن‘‘(۲۵)’’فرزند کا باپ پر یہ حق ہے کہ اس کا نام اچھا تجویز کرے ،اچھے اخلاق وآداب سے آراستہ کرے اور قرآن کریم کی اسے تعلیم دے‘‘۔
ان احادیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ شاعر نے بجا کہا ہے کہ ؎
اگر تو میخواھی مسلمان زیستن نیست ممکن جز بقرآن زیستن
رب کریم کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں مالک!ہم سبکو قرآن کریم سمجھ کر پڑھنے کی توفیق عطا فرما اور اسے اپنی زندگی میں مشعل راہ قرار دینے کا ہنر کرامت فرما۔
آمین بحق آل طٰہٰ و یٓس
حوالہ جات
(۱) تفسیر برہان،ج۱،ص۹
(۲)ایضاً
(۳)ینابیع المودۃ،باب ۱۴
(۴)ایضاً،باب ۶۵
(۵)تاریخ الخلفاء،ص۱۸۵
(۶)تفسیر برہان،ج۱،ص۹
(۷)نہج البلاغہ،صبحی صالح،ص۷۵۷
(۸)نہج البلاغہ،خطبہ۱
(۹)ایضاً،خطبہ ۱۴۷
(۱۰)سورۂ نحل،آیت ۴۴
(۱۱)نہج البلاغہ۔خطبہ۱۵۶
(۱۲)ایضاً،خطبہ۱۵۷
(۱۳)ایضاً،خطبہ۱۸۹
(۱۴)ایضاً،خطبہ۱۵۷
(۱۵)سورۂ طلاق،آیت۲
(۱۶)سورۂ نور،آیت۳۵
(۱۷)سورۂ مائدہ،آیت۱۵
(۱۸)نہج البلاغہ،خطبہ۱۷۵
(۱۹)ایضاً
(۲۰)ایضاً،خطبہ۱۱۰
(۲۱)ایضاً،خطبہ۱۲۷
(۲۲)ایضاً،خطبہ۱۵۶
(۲۳)ایضاً،خطبہ۱۷۶
(۲۴)ایضاً،مکتوب۴۷
(۲۵)ایضاً،حکمت ۳۹۹