ڈاکٹر سلیم خان
وزیر اعظم مودی نے اپنے بچپن کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہیں لکھا ہے کہ وہ ابھی نیتا (اداکار) بننا چاہتے تھے ۔ پچھلے دنوں ایوان بالا میں ان کی تقریر کو دیکھ اور سن کر وہ طفلانہ خواہش یاد آگئی۔ کانگریس کے رہنما غلام نبی آزاد کو الوداع کہتے ہوئے انہوں نے اپنے فن کا خوب مظاہرہ کیا ۔ گلیسرین کے بغیر اس طرح آنسو بہانہ معمولی بات نہیں ہے۔ اس ویڈیو کو دیکھ کر ایسا لگا کہ وہ پانی پی پی کر رلانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن جو لوگ پردھان جی کے ماضی سے واقف ہیں ان کو ان مضحکہ خیز مناظر پر ہنسی آرہی تھی۔ تین دیگر ارکان کے ساتھ غلام نبی آزاد کا راجیہ سبھا سے سبکدوش ہونا کوئی ایسی غیر معمولی بات نہیں ہے جس پر اس طرح رونے دھونے کی ضرورت تھی۔ ایوان پارلیمان میں لوگوں کا آنا جانا لگا ہتاہے اور پھر راحت اندوری تو پہلے ہی کہہ چکے ہیں؎
جو آج صاحبِ مسند ہیں کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے
مودی جی نے بڑی بے دردی سے اپنے گرو لال کرشن اڈوانی کا ٹکٹ کاٹ کر اسے اپنے چیلے امیت شاہ کو پکڑا دیا ۔ شاہجہاں کی مانند گروجی کو مارگ درشن میں پہنچا دیا لیکن اس پر وزیر اعظم تو دور بی جے پی کے کسی فرد نے آنسو بہانے کی زحمت نہیں کی ۔ اڈوانی سے لاکھ اختلاف کے باوجود اس بات کو تسلیم کیے بغیر چارۂ کار نہیں ہے کہ ایوان کے اندر ان کی خدمات آزاد سے زیادہ تھیں ۔ وزیر اعظم مودی نے غلام نبی آزاد کی تعریف میں کئی ایسی باتیں کہہ دیں کہ جو ان کے اپنے خلاف پڑتی ہے۔ انہوں نے کہا جو شخص غلام نبی آزاد کی کے ذریعہ خالی کیے جانے والے (قائد حزب اختلاف ) کے عہدے کو سنبھا لے گا اسے اپنا کام کرنے میں کافی دشواری ہوگی، کیونکہ غلام نبی آزاد نہ صرف اپنی پارٹی بلکہ ملک اور ایوان کے بارے میں بھی فکر مند رہتے تھے۔
اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ ان کے بعد آنے والے سے متعلق وزیر اعظم کو یہ اندیشہ لاحق ہے کہ وہ پارٹی کے علاوہ ملک اور ایوان کے وقار کا خیال نہیں رکھ سکے گا؟ اس کے ساتھ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ خود ان کی پارٹی کے رہنما اور وہ خود اپنی پارٹی کے مفاد سے اٹھ کر کیا کبھی ایوان اور ملک کا خیال کرتے ہیں۔ بی جے پی اگر ایسا کرتی تو آج کسانوں کی اتنی بڑی تحریک نہیں برپا ہوتی ۔ ایوان بالا جس سے غلام نبی آزاد سبکدوش ہوئے ہیں اس میں ہنوز بی جے پی اقلیت میں ہے۔ اس کو وہاں پر قانون سازی کے لیے علاقائی جماعتوں کو اعتماد میں لینا پڑتا ہے۔ کسانوں کے متعلق قانون بناتے وقت اس نے یہ ایسا نہیں کیا۔ اس لیے امکان تھا کہ اگر رائے شماری ہوتی تو بی جے پی اپنے مقصد میں ناکام ہوجاتی ۔ ایوان بالا کا یہ ضابطہ ہے کہ اگر ایک بھی رکن رائے شماری کا مطالبہ کرے تو وہ لازم ہوجاتی لیکن دو ارکان کے مطالبے کے باوجود بغیر رائے شماری کے آواز سے یہ قانون منظور ہوگیا ۔
غلام نبی آزاد کی خوبی کا اعتراف کرنےکے بعدخوداس کو پامال کرنا صریح منافقت نہیں تو کیا ہے؟ ایوان کے اندر کی جانے والی اس دھاندلی پر ملک بھر کا کسان آنسو بہا رہا ہے ۔ پہلے دن وزیر اعظم ایوان میں کھڑے ہوکر کاانوں کا تمسخر اڑا تے ہیں ۔ ان کو آندلن جیوی جیسے برے القاب سے نوازتے ہیں اور اگلے دن پینترا بدل ایوان کے وقار کی بات کرتے ہیں ۔ اب اس پاکھنڈ کو اداکاری نہیں تو کیا کہا جائے؟ وزیر اعظم مودی نے غلام نبی آزاد کا ایک واقعہ یاد دلایا کہ کورونا کے دوران میں ان کو کسی میٹنگ میں غلام نبی آزاد نے فون کرکے تمام جماعتوں کے رہنماؤں کی میٹنگ طلب کر نے کا مشور ہ دیا جس پر عمل کرتے ہوئے انہوں نے کل جماعتی اجلاس طلب کیا۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ ایک عالمی آفت کا مقابلہ کرتے ہوئے بھی ملک کے وزیر اعظم کو اس بات کا خیال نہیں آئے کہ اسے دیگر جماعت کے رہنماوں سے اس پر گفت و شنید کرنی چاہیے ۔ اس کی اپنی پارٹی کا کوئی رکن اسے توجہ دلانے کی جرأت بھی نہیں کرے کیونکہ مودی جی خود اور پارٹی کے اندھے بھکت ان کو عقلِ کلُ سمجھتے ہیں۔ یہ مطلق العنانیت کی انتہا ہے جس کو وزیراعظم نے بلا واسطہ تسلیم کرلیا ۔
جن آنسووں کا ذرائع ابلاغ مںک چرچا ہے وہ غلام نبی آزاد کی جدائی پر نہیں بلکہ عسکریت پسندوں کے ذریعہ ۸ گجراتی سیاحوں کی موت پر بہائے گئے ۔ مودی کے بقول حملے کے بعد غلام نبی آزاد نے فون پر اطلاع دی تو ان کے آنسو نہیں تھم رہے تھے۔ وزیر اعظم کے مطابق غلام نبی آزاد اس طرح فکرمند تھے جیسے کوئی اپنے کنبے کے فرد کے لیے ہوتا ہے۔ غلام نبی آزاد کی درد مندی اپنی جگہ لیکن دفع 370 ختم کیے جانے کے بعد ملک بھر میں کشمیری طلباء اور نوجوان ہندو دہشت گردوں کے ظلم و جبر کا شکار ہوئے ۔ اس وقت مودی جی وزیر اعظم تھے ۔ کیا انہوں نے کشمیری نوجوانوں کو اپنے کنبے کا رکن سمجھ کر غلام نبی آزاد یا محبوبہ مفتی کو فون کیا ؟ غلام نبی آزاد کے فون کی تعریف کرنے والے مودی نے گجرات فساد کے دوران اپنے شہر کے رکن پارلیمان احسان جعفری کو فون کرنا تو دور فون لینے کی زحمت تک نہیں کی ۔
گجرات کے فساد زدگان کی بابت جو الفاظ وزیر اعظم نے کہے ان کو لکھتے ہوئے شرم آتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت یہ سارے آنسو کہاں چلے گئے جب عشرت جہاں کے قاتل پولس افسران کو قانون کے چنگل سے چھڑاکر ترقی کے ساتھ ان کے عہدے پر بحال کیا گیا۔ دوسروں کے اندر اچھی صفات کے اعتراف سے اہم یہ ہے کہ ان کو اپنے اندر پیدا کیا جائے۔ پی ایم مودی کا غلام نبی آزاد کے تئیں قربت کا اظہار کرکے یہ کہہ دینا کہ آگے جو بھی عہدہ سنبھالیں گے، احسن طریقہ سے اپنے فرائض کو انجام دیں گےنیز اس توقع کا اظہار کہ ان کا تجربہ حاصل ہوتا رہے گا یہ اندیشہ پیدا کرتا ہے کہ کہیں آزاد آگے چل بی جے پی کے بندۂ بے دام نہ ہوجائیں ؟ مودی جی کے بچپن کا ایک واقعہ بہت مشہور ہے۔ وہ اپنے گاوں کے تالاب سے ایک مرتبہ مگر مچھ کا بچہ اٹھا لائے ۔ ان کی ماں نے کہا کہ دیکھ اس کی ماں اپنے بچے سے جدا ہوکر اسی طرح اداس ہوگئی ہوگی جس طرح میں تجھ سے دور ہوکر ہوجاتی ہوں ۔ یہ سن کر مودی جی نے مگر مچھ کے بچے کو دوبارہ تالاب میں لے جاکر چھوڑ دیا ۔
غالب گمان یہ ہے اسی لانے لے جانے کے دوران وزیر اعظم مگر مچھ کے بچے سے آنسو بہانے کا فن سیکھ لیا؟ محمد بلال غوری نے اپنے ایک مضمون میں مگر مچھ کے آنسووں سے متعلق یہ دلچسپ انکشاف کیا ہے کہ :’’مگر مچھ کے آنسو بہانا اردو کا بہت مشہور محاورہ ہے اور اس کا تناظر یہ ہے کہ جب مگر مچھ کسی جانور کو شکار کرنے کے بعد نگل رہا ہوتا ہے تو اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے ہوتے ہیں ۔ان آنسوئوں کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ مگر مچھ کواپنے کئے پر کوئی پشیمانی ہے یا پھر اسے شکار ہونے والے جانور کے انجام پر رونا آرہا ہے بلکہ یہ ایک فطری اور اضطراری عمل ہوتا ہے ۔ایک گلینڈ کے زیر اثر اس کی آنکھوں سے چند قطرے ٹپکتے ہیں جو جراثیم کش ہوتے ہیں ۔دیکھنے والے کو یوں لگتا ہے جیسے مگر مچھ افسردہ ہے‘‘۔ غلام نبی آزاد کو نگلنے کی تیاری میں بہائے جانے والے مودی جی کے آنسووں پر یہ اقتباس صد فیصد صادق آتا ہے۔غلام نبی آزاد آگے چل کر کیا کریں گے اس پر کوئی پیشنگوئی کرنا مشکل ہے ویسے بقول غالب ؎
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا