سماج کی سوچ با اختیار ہو تو خواتین با اختیار ہو جائیں گی-If the thinking of the society is empowered then women will be empowered

0
137
If the thinking of the society is empowered then women will be empowered
رخسار کوثر

دورجدید میں صنفی امتیاز اور صنفی برابری کی جب بات کی جاتی ہے تو عموماً عورت کو معاشی اعتبار سے مستحکم بنانے کی بات ہوتی ہے۔ اس پس منظر میں عورت پر یہ واضح کیا جاتا ہے کہ جس طرح خالق برحق نے مرد کو مختلف صلاحیتیں دی ہیں ٹھیک اسی طرح عورت کو بھی انہیں صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ آغاز تعلیم سے ہوتا ہے کہ جس طرح مرد کو تعلیم حاصل کرنے کا حق اور صلاحیت ہے ٹھیک اسی طرح مالک حقیقی نے عورت کو بھی یہ صلاحیت اور حق دیا ہے۔ برخلاف اس کے آج کا ترقی یافتہ دور اس بات کا قائل ہے کہ عورت پر یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ گھر، خاندان اور شوہر و بچوں کی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کرے۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ عورت گھر کے باہر ضروریات زندگی کے لیے ادا کی جانے والی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہے، سوائے اس کے کہ وہ خود اپنی استطاعت کی حد تک حصہ دار بننا چاہے۔
خواتین کو با اختیار بنانے کی عالمی سطح پر گوہار لگائی جارہی ہے، لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ اگر خواتین اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں تو وقت دور نہیں کہ وہ بھی با اختیار بن جائیں۔آج عالمی سطح پر کئی خواتین کئی ممالک میں حکومت کر رہی ہیں اور وطن عزیز میں اندرا گاندھی کا نام تا دیر یاد رکھا جائے گا۔خواتین کو اگر گھر اور سماج سے تعاون ملے تو ان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔اس کی مثال چار بچوں کی ماں 37 سالہ نور جان ہیں، جو اپنے بچوں کی فیس اور باقی گھر کے اخراجات کو برداشت کرتے ہوئے بااختیار خواتین کی صف میں شامل ہو چکی ہیں۔نور جان کوئی سرکاری ملازمت نہیں کرتی ہیں اور نہ ہی کسی نجی ادارے میں کام کر رہی ہیں بلکہ وہ گاڑی چلاتی ہیں اور گاؤں گاؤں جاکر اشیائے خورد و نوش فروخت کرتی ہیں۔نورجان کا کہنا ہے کہ’ہم پہلے جموں و کشمیر کے ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی کے گاؤں ڈنو گام رہتے تھے۔ 2001ء میں ہم شہر پونچھ چلے آئے، یہاں زمین خریدی اوریہیں رہنے لگے،آہستہ آہستہ جب بچے بڑے ہونے لگے اخراجات بھی بڑھنے لگے، ان کے اسکول کی فیس، ٹیوشن فیس، کالج فیس وغیرہ کا بوجھ بڑھنے لگا۔ان دنوں میرے شوہر گاڑی چلایا کرتے تھے کہ اچانک ان کو بھی دل کے دورے پڑنے لگے، جس کی وجہ سے وہ کام کرنے سے قاصر ہوگئے۔تب مجبور ہونے کے سوا کچھ نہ تھا۔
سوال تھا کہ اب میں کیا کروں؟ کیسے گھر کا خرچہ چلے گا؟ مجھے یہ گوارا نہیں تھا کہ میں لوگوں کے گھر میں جاکر بھیک مانگ کے لاؤں!!! پھر ایک دن میں نے شوہر سے دریافت کیا کہ کیوں نہ میں کرانہ کی ایک دکان کھول لوں اور اس میں کپڑے بھی سلائی کیا کروں گی۔ جب یہ کام میں نے شروع کیا تو کچھ دنوں تک سب ٹھیک چل رہا تھا لیکن وہ کامیاب نہ ہوئی،بہت کم سیل ہوتی تھی۔میں نے ہمت نہ ہاری اور ایک دن میں نے اپنے شوہر سے مشورہ کیا کہ کیوں نہ میں گاڑی چلانا سیکھوں؟ اور اس پر سامان رکھ کے گاؤں جاکر بیچ آیا کروں گی۔ میرے شوہر نے مجھے انکار نہیں کیا اور مجھے گاڑی چلانا سکھایا۔ یہ 2016ء کی بات ہے جب میں نے گاڑی چلانا سیکھی اور میرے شوہر نے ایک ایکو گاڑی لے کے دی لیکن قسمت نے ساتھ نہ دیا، ٹریفک انتظامیہ نے کہا کہ اس گاڑی پر سامان کی اجازت نہیں ہے، آپ اس سے بڑی گاڑی لیں۔پھر میرے سرتاج،میرے شوہر نے سامان والی گاڑی لے کر دی۔ تب سے لے کر آج تک میں گاؤں جاتی ہوں۔جہاں پر دوکانیں ہوتی ہیں وہاں سامان فروخت کر آتی ہوں۔ اب الحمدللہ میں نے مکان بھی بنا لیا ہے اور میرے چاروں بچے پڑھائی بھی کر رہے ہیں۔
نور جان نے مزید بتایا کہ میرا ایک بیٹا کالج میں پڑھائی کرتا ہے، ایک بیٹی دسویں جماعت میں ہے، اس سے چھوٹی بیٹی آٹھویں جماعت میں ہے اور سب سے چھوٹا بیٹا چھٹی جماعت میں ہے۔میں سوچتی ہوں اگر ہر عورت کو گھر سے تعاون ملے تو سماج کبھی بھی یہ بات نہیں کہے گا لڑکیوں کو یہ کام نہیں کرنا چاہیے۔نور جان کی بیٹی مریم کو ثر جو دسویں جماعت کی طالبہ ہے،نے کہا کہ میں خود کو بہت خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ میری امی بہت بہادر ہیں، بہت ہمت والی ہیں، آج ان کی بہادری کی وجہ سے مجھے یہ نہیں سننا پڑتا کہ میری ماں نے کسی کے گھر سے مانگ کے ہمیں پالا بلکہ لوگ تعریف کرتے ہیں۔نور جان کے شوہر عبدالعزیز کہتے ہیں کہ جب میری بیوی نے یہ خواہش کی کہ مجھے گاڑی چلانا سکھاؤ میں گاؤں جا کر سامان بیچو ں گی۔ پہلے میں سوچ میں پڑ گیا کہ نہیں کر پائے گی، پھر میں نے سوچا کہ اگر اس کی خواہش ہے تو میں پوری کر دیتا ہوں۔ آج مجھے اپنی بیوی پر فخر محسوس ہوتا ہے کہ جب میں بیمار ہوگیا تو میری بیوی نے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے، خود محنت کرنے لگی اور آج ہمیں کسی چیز کی کوئی کمی نہیں ہے اور خواتین با اختیار بن سکتی ہیں بس سماج کی سوچ با اختیار ہونی چاہیے۔
اسی حوالے سے جموں شہر کی رہنے والی اور فقط دس ہزار روپے سے اپناکاروبار شروع کرنے والی آسیہ چودھری بھی ایک بہترین مثال ہے۔25سال کی آسیہ چودھری نے یہ ثابت کر دیا کہ یہ معنی نہیں رکھتاکہ آپ کے کاروبار میں کتنا پیسہ لگایا جا رہا ہے بلکہ آپ کا یقین، آپ کا جذبہ، آپ کے کاروبار میں آپ کا اعتماد ہونا ضروری ہے۔ آسیہ چودھری جموں وکشمیر کی سرمائی راجدھانی جموں کے گجر نگر (جموں)کی رہنے والی ہیں۔آسیہ اپنے کاروبار کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ 2017ء میں میں نے کاروبار شروع کیا تھا، تب بی ایس سی میں میرا آخری سال تھا۔میں نے سوچا کہ بیٹھنے سے اچھا ہے میں کوئی کاروبار شروع کروں جس سے کچھ گھر میں بھی مدد ہو جائے گی۔ پہلے مجھے بہت ڈر تھا، میں گھر پر بات کرنے سے بہت کترا رہی تھی کیونکہ میں چودھری طبقہ سے ہو ں اور ہمارے خاندان میں بہت روک ٹوک لگائی جاتی ہے لیکن جب میں نے ہمت کر کے اپنی والدہ سے بات کی تو انہوں نے میرے والد صاحب سے بات کی اور انہوں نے انکار نہیں کیا۔جب میں نے یہ کاروبار شروع کیا تھا میرے پاس صرف دس ہزار روپے تھے اور وہ بھی میں نے جو اپنے اخراجات سے بچا کے رکھے تھے۔
سب سے پہلے میں نے فیبرک خریدی، اس پر خود ڈیزائن کرنے لگی، انسٹاگرام اکاؤنٹ بنایا اوراس میں پوسٹ کرتی رہی، آہستہ آہستہ فالورز بڑھنے لگے، آرڈربھی آنے لگے۔ میں نے فری ڈلیوری سروس رکھی تھی جس میں کسٹمر کو کوئی شپنگ نہیں دینی پڑتی ہے۔میں خود پے کرتی تھی اور آج میرے تین اسٹور ہیں۔ ایک جموں کے بٹھنڈی میں،ایک جموں یونیورسٹی کے سامنے اور ایک ضلع راجوری میں ہے۔ آسیہ کا کہنا ہے کہ مجھے خود بھی یقین نہیں ہوتا کہ میرے دس ہزار روپے سے شروع ہونے والا کاروبار آج تین ضلعی سطح پر مشہور ہیں اور میں صرف بیٹھنے کا کام کرتی ہو ں،مجھے نگرانی کے علاوہ کوئی کام نہیں کرنا ہوتا۔ آج بہت خوشی محسوس ہوتی ہے کہ اس وقت میں نے کوئی قدم اٹھایا جو آج کئی لوگوں کو روزگار دے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر لڑکی کو کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے اور ان کو گھریلو تعاون بھی ملنا چاہیے۔آسیہ نے کہا کہ لڑکیوں کو ہمت نہیں ہارنی چاہیے اور تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا چاہئے،پھر سب تعاون بھی کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ میری شادی کو ابھی چھ ماں ہوئے ہیں اور میرے شوہر میرے کاروبار میں بہت مدد کرتے ہیں۔
ان کے شوہر مدثر کے مطابق ” مجھے بہت فخر محسوس ہوتا ہے اپنی بیوی پر کیوں کہ انہوں نے اتنی محنت کی اور اپنے کاروبار کو اس مقام پر پہنچایا۔مجھے اپنی بیوی کے حوالے سے کبھی بھی کوئی فکر نہیں ہوتی کیونکہ مجھے اتنا بھروسہ ہے ان پر،یہ اتنی ہمت والی ہیں کہ وہ ہر پریشانی کا سامنا اچھے سے کرنا جانتی ہیں۔ میں یہی کہنا چاہوں گا کہ ہر عورت کے اندر ہمت ہونی چاہیے، اپنے ماں باپ کے سامنے اپنی جائز بات رکھنے کی اور سماج کے بارے میں نہ سوچ کر اپنے کیریئر کی طرف توجہ دینے کی اور ہر شوہر اور ہر ماں باپ کو بھی یہ چاہیے کہ وہ اپنی بیوی اور اپنی بچی کی پوری طرح سے تعاون کریں اگر ہم ان کا تعاون کریں گے تو سماج میں ان کو کوئی بھی طعنہ تاشی نہیں کرے گا”۔
بہرحال نور جان اور آسیہ چودھری کی ہمت اوران کا حوصلہ بہت ساری لڑکیوں اور انکے والدین کے لئے ترغیب ثابت ہوگا۔ یہ ان لوگوں کے لئے بھی ایک پیغام ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ لڑکیاں صرف گھر کی دہلیز کے اندر ہی کام کر سکتی ہیں، وہ گھر کے باہر کمزور ہیں۔ خاص کر ان لوگوں کے لئے جو پردے کے نام پر لڑکیوں کے پیروں میں زنجیریں ڈال دینا چاہتے ہیں حالانکہ مذہب انہں پردے میں رہ کر نہ صرف جینے بلکہ تعلیم حاصل کرنے اورکام کرنے کی اجازت بھی دیتا ہے۔ ایسے میں یہ بہت ضروری ہو جاتا ہے کہ اگر سماج کی سوچ با اختیار ہو تو خواتین خود بہ خود با اختیار ہو جائیں گی۔ (یہ مضمون سنجوئے گھوش میڈیا ایوارڈ 2020کے تحت لکھا گیا ہے)
ژژژژ

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here