How much truth in these claims?- ان دعووں میں کتنی سچائی؟

0
118

How much truth in these claims?

سہیل انجم
اس وقت کسانوں کی تحریک نے پوری دنیا میں ہلچل مچا رکھی ہے۔ عالمی شہرت یافتہ شخصیات کی جانب سے کسانوں کے پر امن احتجاج کی حمایت اور پھر حکومت ہند کی جانب سے اس پر شدید رد عمل نے اس تحریک کو بین الاقوامی رنگ دے دیا ہے۔ دہلی کی سرحدوں سنگھو، ٹیکری اور غازی پور میں پولیس کی جانب سے غیر معمولی قسم کی رکاوٹیں کھڑی کرنے اور کیل کانٹے بچھا دیے جانے کے جواب میں غازی پور بارڈر پر کسانوں کی جانب سے پھول اگانے کے عمل نے احتجاج کو ایک نیا اور خوشگوار تیور دے دیا۔ رکاوٹیں کھڑی کرنے کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ خدمات کی معطلی یعنی اطلاعات تک بلا روک ٹوک رسائی کے بنیادی حق پر پابندی کی وجہ سے یہ معاملہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا معاملہ بھی بنتا جا رہا ہے۔ حالانکہ پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے 26 جنوری کو ہونے والے تشدد کے پیش نظر پیش بندی کے طور پر ایسے اقدامات اٹھائے ہیں۔ دریں اثنا غیر ملکی شخصیات اور بالخصوص تبدیلی آب و ہوا کے میدان میں کام کرنے والی سویڈن کی طالبہ گریٹا تھنبرگ کی جانب سے ’’ٹول کٹ‘‘ ٹوئٹ کرنے اور پھر اسے ڈلیٹ کرنے کے سلسلے میں دہلی پولیس نے ایف آئی آر درج کی ہے اور وہ اس کی جانچ کر رہی ہے کہ یہ ٹول کٹ کس نے تیار کیا تھا۔ اس سلسلے میں وہ سرچ انجن گوگل کے ذمہ داروں سے رابطہ کر رہی ہے۔ پولیس کی جانب سے ایسا شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس کے پس پشت خالصتانی تحریک کے لوگ ہیں۔ وہ لوگ کسان احتجاج کی آڑ میں ہندوستان میں بدامنی پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ غیر ملکی شخصیات کی جانب سے کسان تحریک کی حمایت کے جواب میں ہندوستان کی کئی شہرت یافتہ شخصیات سامنے آئیں اور انھوں نے عالمی شخصیات کے رد عمل کی مذمت کی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ملک دشمن طاقتیں کسان احتجاج کے پیچھے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ کسانوں کو خالصتانی اور دہشت گرد بھی کہا جا رہا ہے۔ بعض حلقوں کی جانب سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جو لوگ احتجاج کر رہے ہیں وہ دراصل محب وطن نہیں ہیں۔ ایسا دعویٰ کرنے والوں کی نفسیات کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس کا ایک پہلو یہ نکلتا ہے کہ حب الوطنی کا جذبہ دراصل صرف ایک مخصوص نظریے کے ماننے والوں کا خاصہ ہے۔ باقی جتنے بھی لوگ ہیں وہ محب وطن نہیں ہو سکتے یا موقع ملے تو وہ ملک مخالف اقدامات سے گریز نہیں کریں گے۔ اس نفسیات کے پس پردہ دراصل احساس کمتری ہے۔ چونکہ اس مخصوص نظریے کے ماننے والوں میں کوئی ایسی بڑی شخصیت نہیں ہے جس نے جنگ آزادی میں حصہ لیا ہو اسی لیے وہ لوگ کبھی سردار پٹیل کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں تو کبھی گاندھی جی کی ستائش کرکے محبان وطن کی صفوں میں خود کو شامل کروانا چاہتے ہیں۔ حالانکہ اسی کے ساتھ ساتھ وہ گاندھی جی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کو پکا محب وطن بھی مانتے ہیں۔ اسی احساس کمتری اور ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت بھی ان کے لبوں پر کبھی مسلم مجاہدین آزادی کا نام نہیں آتا۔ وہ بمشکل اگر کسی کا نام لیتے ہیں تو مولانا آزاد کا، وہ بھی بدرجۂ مجبوری۔ عام آدمی پارٹی کے رکن راجیہ سبھا سنجے سنگھ نے چند روز قبل پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے بی جے پی ممبران کو آڑے ہاتھوں لیا اور ایوان کے چیئرمین ایم وینکیا نائڈو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ تو مسلمانوں کی داڑھی سے بھی جلتے ہیں جبکہ داڑھی والے لاکھوں علما نے جنگ آزادی میں شہادت دی ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس والوں کے پاس ان باتوں کا کوئی جواب نہیں ہوتا اسی لیے وہ کسی نہ کسی بہانے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہی لوگ محب وطن ہیں، باقیوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
اس حوالے سے آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے اس بیان کا جائزہ لیا جا سکتا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ہندو عقیدے کے ساتھ پیدا ہونے والا شخص فطری طور پر دیش بھکت ہوتا ہے وہ ہند مخالف ہو ہی نہیں سکتا۔ انھوں نے یہ دعویٰ یکم جنوری کو جے کے بجاج او رایم ڈی سری نواس کی کتاب ’میکنگ آف ہندو پیٹری یاٹ: بیک گراونڈ آف گاندھی جیز ہندو سوراج‘ کے اجرا کے موقع پر کیا ۔ انھوں نے کہا کہ اگر کوئی ہندو ہے تو وہ محب وطن ہی ہوگا۔ وہی اس کا بنیادی اور فطری کردار ہے۔ حالانکہ اس پر بارہا لکھا جا چکا ہے کہ کس طرح متعدد ہندوستانی شہریوں نے ہندوستان کے راز ملک دشمنوں کو فراہم کیے ہیں اور ان میں اکثریت غیر مسلموں کی رہی ہے۔ تاہم ایک بار پھر اسے یاد دلانے کی ضرورت ہے۔ یہ فریضہ انجام دیا ہے معروف ماہر قانون اور نلسار لا یونیورسٹی حیدرآباد کے وائس چانسلر پروفیسر فیضان مصطفیٰ نے۔ انھوں نے 24 جنوری 2021 کو انگریزی ویب سائٹ ’دی وائر‘ کے لیے لکھے گئے ایک مضمون میں ا س کا جائزہ لیا ہے کہ حب الوطنی کے جذبے کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ انھوں نے بارہویں صدی سے لے کر آج تک کے چنیدہ واقعات کا حوالہ دے کر اسے ثابت بھی کیا ہے۔ انھوں نے آزادی کے بعد ملک مخالف طاقتوں کے لیے جاسوسی کرنے والوں کی بھی قدرے تفصیل پیش کی ہے۔ انھوں نے 1985 میں سامنے آنے والے مشہور جاسوسی کیس کمار نرائن کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کس طرح ہندوستان میں اعلیٰ دفاتر میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے ملک دشمن طاقتوں کے لیے جاسوسی کی۔ کمار نرائن نے متعدد غیر ملکی ایجنسیوں کو ہندوستان کے راز فراہم کیے۔ 2002 میں وزیر اعظم کے دفتر میں کام کرنے والے بارہ افسروں کو جاسوسی کے جرم میں دس دس سال کی سزائیں ہوئی تھیں۔ ملک کی خفیہ ایجنسی ’را‘ سے وابستہ کے وی انی کرشنن نے ایک ایئر ہوسٹس کی معرفت ایل ٹی ٹی ای کے لیے کام کیا۔ پہلے ہندوستانی فوج اور پھر ’را‘ میں کام کرنے والے ربندر سنگھ سی آئی اے کے جاسوس تھے۔ نگرانی کے باوجود وہ 2004 میں نیپال کے راستے امریکہ بھاگنے میں کامیاب ہو گئے۔ 2010 میں سفارت کار مادھوری گپتا کو پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کو ہندوستان کے حساس راز فراہم کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ برہموس میزائل سینٹر ناگپور میں کام کرنے والے نشانت اگروال کو میزائل کے راز آئی ایس آئی کو لیک کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ 2020 میںجموں و کشمیر کے ڈی ایس پی دیویندر سنگھ کو دہشت گردوں کی مدد کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ حال ہی میں ایک سابق فوجی سوربھ شرما کو ہاپوڑ اترپردیش کی پولیس کے انسداد دہشت گردی دستے نے گرفتار کیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے 2014 میں آئی ایس آئی کے لیے کام کیا تھا اور حساس معلومات فراہم کی تھیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ واقعات محض نمونے کے طور پر پیش کیے گئے ہیں۔ ورنہ اگر تحقیق کی جائے تو اور بھی ایسے معاملات سامنے آئیں گے جن میں متعدد ہندوستانی شہریوں نے غیر ملکی طاقتوں کے لیے کام کیا ہے اور ملک سے غداری کی ہے۔ اتفاق دیکھیے کہ جن واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے ان میں غیر مسلم ہی ملوث ہیں، ان میں ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔ پروفیسر فیضان مصطفیٰ نے بارہویں صدی سے لے کر اب تک کے جو واقعات بیان کیے ہیں خواہ وہ ٹیکسلہ کے راجہ امبھی کی جانب سے سکندر اعظم کا خیرمقدم کرنے کا معاملہ ہو یا قنوج کے راجہ جے چند کا معاملہ ہو، رانا سانگا کی جانب سے بابر کے پاس اپنا نمائندہ بھیجنے کا معاملہ ہو یا رانی لکشمی بائی اور تاتیہ ٹوپے کے خلاف گوالیار کے راجہ جیواجی راؤ سندھیا کے اقدامات ہوں ان تمام واقعات میں ملک دشمنی کرنے والے غیر مسلم ہی ہیں۔ البتہ انھوں نے جو تفصیل پیش کی ہے اس میں نواب سراج الدولہ کے ساتھ غداری کرنے والے میر جعفر اور ٹیپو سلطان کے خلاف انگریزوں کا ساتھ دینے والے نظام حیدرآباد کے بھی نام شامل ہے۔ اتفاق سے ملک سے غداری کرنے والوں کی اکثریت غیر مسلموں پر مشتمل ہے۔ پروفیسر فیضان مصطفیٰ نے اپنے مضمون میں یہ ثابت کیا ہے کہ حب الوطنی کے جذبے کا تعلق مذہب سے نہیں ہے۔ گویا یہ کہنا کہ جو ہندوعقیدے کے ساتھ پیدا ہوا ہے وہ ملک سے غداری کر ہی نہیں سکتا، وہ محب وطن ہی ہوتا ہے، سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔ یہ دعویٰ تاریخ اور تجربے سے درست ثابت نہیں ہوتا۔ اسی طرح پون کلکرنی کا ایک مضمون ’دی وائر‘ پر شائع ہوا ہے جس میں اس کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں کہ کس طرح آر ایس ایس کے رہنماؤں نے نہ صرف یہ کہ جنگ آزادی میں حصہ نہیں لیا بلکہ ہندوستانی شہریوں کو جدوجہد آزادی سے باز رکھنے کی کوشش بھی کی۔ یہ مضمون پہلے 17 اپریل 2017 کو اور پھر دوبارہ سات اکتوبر 2019 کو شائع کیا گیا۔
[email protected]

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here