تقدیس فاطمہ(پراپرائٹر اودھ نامہ)
فیض آباد کے نامی وکیل سید آفتاب رضا کی سات بیٹیاں اور دو بیٹے ہوئے میں ان میں پانچویں نمبر کی بیٹی ہوں میری شادی 1997 میں سید وقار مہدی رضوی سے ہوئی۔ جب میری شادی ہوئی تو وقار ایک ہفتہ وار ہندی اخبار ’’بدلتے دن‘‘ نکالتے تھے ۔ پھر انہوں نے ایک روزنامہ اخبار اودھ نامہ نکالا اور اُن کی دن رات کی محنت سے کچھ ہی دن میں اودھ نامہ عوام میں کافی مقبول ہوا، وہ ہمیشہ اسی کوشش میں رہتے کہ کیسے پیپر کو اور اچھا بنایا جائے ان کے دل میں ہمیشہ قوم کی ترقی کا جذبہ رہتا ، جس کے لئے انہوں نے سنی- شیعہ دونوں کو اپنے اخبار سے جوڑا ۔جہاں ایک طرف حفیظ نعمانی صاحب لکھتے تھے وہیں عالم نقوی صاحب کی تحریر بھی اخبار کو زینت بخشتی تھی۔ اپنے اسی مشن کے لئے وہ ہمیشہ کوئی نہ کوئی پروگرام کراتے تھے جس میں مختلف نظرو فکر کے لوگ آپس میں ملیں اور ملک و قوم کو آگے بڑھانے کی منصوبہ سازی کریں۔ اس کے لئے انھوں نےغیر معمولی خدمات انجام دے رہے حضرات کی خدمت میں ایوارڈز بھی پیش کئے۔
میں نے ان کو آرام کرتے بہت کم دیکھا۔ اگر کبھی ہم لوگوں کو دن میں لیٹے دیکھ لیا تو پوچھتے کیا طبیعت خراب ہے؟ اتنی مصروف زندگی کے باوجود شادی کے بعدسے آخری عمر تک میں نے نہیں دیکھا کہ ان کی نماز یا روزہ کبھی چھوٹا ہو مجھ سے کہتے کہ ”روزی“ چاہے جتنا تھکا ہوں مجھے لگتا ہے چار بجے میرے کان میں کوئی اذان دینے لگتا ہے۔ ان کو اپنی آخرت کی بہت فکر رہتی تھی۔وہ خدا کی عبادت اور اس کی مخلوق سے محبت میں اپنی جانب سے کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ دوسروں کی مدد کے لئے ہمیشہ تیار رہتے تھےاورکہتے اللہ کا شکر ادا کرو کہ اس نے مجھے دوسروں کا مددگار بنایاہے۔
مذہب کو دیکھنے کا طریقہ اُن کا الگ تھا۔ وہ مذہب کوصرف ایک رسم نہیں مانتے بلکہ اس کے مقصد پر زور دیتے۔ ہمارے یہاں کی مجلس میں سبھی مذاہب کے لوگوں کو بلاتے تھے اور اس کے ذریعہ ایک میسج دیتے کہ مذہب آپس میںنفرت پھیلانے کا نام نہیں بلکہ مذہب کے دو خاص پہلو ہیں پہلا اپنے واجبات ادا کرنا دوسرا مجبور ، بے سہارا ، غریب انسان کی مدد کرناچاہے وہ کسی بھی دھرم کا ماننے والا ہو۔
’اِن‘ کے گورنر رام نائک جی سے بھی بہت اچھے تعلقات تھے۔ وہ آر ایس ایس سے جڑے ہوئے ہیں لیکن ایک بہت اچھے انسان ہیں۔ انسان چاہے کسی بھی مذہب یا فکر کا ہو پر وہ اپنے اخلاق سے سب کا دل جیت لیتا ہے۔ میری نظر میں وہ ایک بہت اچھے انسان ہیں ۔اِن کے انتقال کے بعد بھی انہوں نے اپنا رشتہ بنائے رکھا اور جب بھی میں نے جناب رام نائک جی کو میسیج کیا انہوں نے رِپلائی کیا اور جب لکھنؤ تشریف لائے تو مجھ سے مل کر مجھے تسلی بھی دی۔ اللہ نے زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی میرے شوہر کو بہت عزت بخشی۔ ان کے انتقال کے بعد جب کسی سے ملاقات ہوتی تو ہرکوئی دل سے ان کے انتقال کا افسوس کرتا اور کہتا کہ ایسے لوگ کم پیدا ہوتے ہیںجن کے رخصت ہونے کے بعد بھی ان سے محبت کم نہیں ہوتی۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔کبھی کسی نے ایک لفظ بھی غلط نہیں کہا۔ موت تو برحق ہے پھر بھی ایک کسک دل میں ضرور ہے کہ مجھ کو اِن سے ایک مہینے پہلے ہی جدا کردیا۔ ایسا زندہ دل، محنتی ہردلعزیزشخص اس طرح سےچلا گیا۔یہ تکلیف میرے دل سے نہیں نکلتی۔ ان کے بغیر زندگی میں کوئی رنگ ہی نہیں رہ گیا کیونکہ انہوں نے اتنی بھرپور زندگی مجھے بخشی جو شاید کسی کو لمبی عمر ملتی تو بھی ایسی زندگی نہ جی پاتا۔ مجھے پوری دنیا گھمادی حج وزیارات کرا دیںجیسے لگتا ہے کہ ان کو اپنی موت کی خبر تھی، تب ہی کوئی حسرت باقی نہ رکھی۔ یقین ہی نہیں ہوتا کہ آج ان سے جدا ہوئے پورے دو سال گزر گئے۔مجھے لگتا ہے اب مجھے ان کے پاس جاکر ہی سکون ملے گا بس یہی لگتا ہے۔
رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی
یہ بھی اللہ کا شکر ہے کہ جاتے جاتے یہ کچھ ایسے لوگوں کو میری زندگی میں شامل کرگئے جنہوں نے ہر موقع پر میرا ساتھ دیااور دے رہے ہیں ۔اُن حضرات کی موجودگی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس بھیڑ میںکچھ میرے اپنے اورہمدرد بھی ہیں۔ جس میں شارب صاحب ، عمار صاحب ، صابرہ باجی اور ڈاکٹر اسد عباس صاحب وغیرہ سر فہرست ہیں۔ میں ان سب کی تہہ دل سےشکر گذار ہوں اوراللہ سے اُن کی لمبی عمر اور صحت کی دعا کرتی ہوں۔