پروفیسر ظفر الدین کے اچانک انتقال سے پوری اردو دنیا میں غم کا ماحول ہے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی نے اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر ظفر الدین مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد کے شعبۂ اردو میں درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ وہ ایک سنجیدہ اور فعال شخصیت کے مالک تھے۔ انھوں نے اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے کئی اہم اقدام کیے۔ ان کی ادارت میں نکلنے والا ششماہی ریسرچ جرنل ’ادب و ثقافت ان کی تنظیمی صلاحیت اور علم ادب کے سنجیدہ مسائل سے گہری دلچسپی کا گواہ ہے۔ ان کے چھوٹے بھائی پروفیسر شہزاد انجم، صدر شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ اور مرحوم کے دیگر تمام پسماندگان کے لیے بڑی آزمائش کا وقت ہے۔ خدا سب کو صبر عطا کرے اور مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر سید رضا حیدر نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر ظفر الدین کا غالب انسٹی ٹیوٹ سے گہرا تعلق تھا۔ ان کی ناگہانی موت سے ہم سب صدمے میں ہیں۔ اب تک اس حقیقت پر یقین کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ وہ ہمارے درمیان نہیں رہے۔ انھوں نے اردو زبان و ادب کی جو بے لوث خدمت کی وہ ہم سب کے لیے مشعل راہ ہے۔ ان کے تحقیقی مقالات اور ’ادب و ثقافت‘ کے اداریے ان کی سنجیدہ فکر اور مسائل سے گہری واقفیت کی دلیل ہیں۔ میں اپنی، غالب انسٹی ٹیوٹ کی مجلس عاملہ اور ادارے کے تمام اراکین کی جانب سے مرحوم کے پسماندگان خصوصاً پروفیسر شہزاد انجم کی خدمت میں تعزیت پیش کرتا ہوں اور بارگاہ خداوندی میں دعا گو ہوں کہ مرحوم کے درجات کو بلند فرمائے اور پسماندگان کو صبر عطا کرے۔ آزمائش کی اس گھڑی میں ادارہ ان کے غم میںبرابر کا شریک ہے۔