فاروق انجینئر کا شعری مجموعہ ”کتنے سورج“- Farooq Engineer’s poetry collection “Katne Suraj”

0
105

پروفیسر محمدزماںآزرد
آج میں اپنے پڑھنے والوں کے ساتھ ایک راز Share کرنا چاہتا ہوں کہ جیسے آدمیوں کی تقدیر ہوتی ہے ویسے ہی موضوعات اور کتابوں کی بھی ہوتی ہے۔ اور چیزوں کے ذکر کا یہاں محل نہیں البتہ ایک اشارہ کرنا ضروری ہے کہ اللہ میاں نے اس کائنات کو پیدا کرتے ہی اس کو متنوع موضوعات سے بھر دیا۔ ایسا لگتا ہے جیسے موتی ہاتھ میں لے کے ہر طرف بکھیر دیے۔ خالقِ کائنات چپ چاپ دیکھ رہا ہے اور اہلِ فکر ودانش ان موتیوں کے چننے کی فکرمیں ہیں۔ مگر یہ اتنے لاتعداد ہیں کہ جتنے غور وفکر کے کام آئے ا س سے کئی گنا زیادہ اب تک کوتاہ دستی،کوتاہ نظری ، کم کوشی یا کم توجہی کے شکار ہیں۔ یہی سبب ہے کہ مباحث کے لیے روز نئے موضوعات سامنے آتے ہیں۔ بعض پر بحث ہوتی ہے،بعض زیب قرطاس ہوتے ہیں اور بعض اب بھی صحیح طور پر گرفت میں نہیں آتے۔
میں ابتداء میں عرض کرچکا ہوں کہ آدمیوں کی طرح کتابیں بھی اپنی تقدیراپنے وجود میں آنے سے پہلے لکھوا لائی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پرفاروق انجینیئر کا شعری مجموعہ ’’ کتنے سورج‘‘ میرے سامنے ہے۔ اس پر تبصرہ کرنے جارہا ہوں جسے میرے اعترافِ گناہ سے تعبیر کیا جانا چاہیے۔ اس کتاب کی قسمت دیکھئے کہ ۲جون ۲۰۱۹ء کو ڈاک سے بھیجی گئی یہ کتاب ڈاک والوں کی مہربانی سے مجھے جون ۱۹ ہی میں موصول ہوئی لیکن اگست ۱۹کی ابتداء میں ہی ہم نے اپنی شناخت اور اپنے پتہ کو کھو دیا۔ اس کے اسباب سے یہاں بحث نہیں کیوں کہ ہم اسے بھی بہت پہلے لکھی گئی ہماری تقدیر کا ایک کھیل سمجھتے ہیں ۔ اس کے بعد حضرت COVID-19 آئے، Lockdownsہوئے۔ اس کابھی زندگی کے معمولات پر بڑا اثر پڑا۔ اس درمیان میںفاروق انجینیئر صاحب کا ’’کتنے سورج‘‘ بہت لوگوں کی نظر سے گذرا جب کبھی ڈھونڈنے پر نہ ملتا تو معلوم ہوتا کہ کوئی دوست، شاگرد یا فاروق انجینیئر کا کوئی اور عاشق اپنے مطالعے کے لیے اڑا لے گیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس کا معاملہ اقبال کے اس مصرعے کی تعبیر ہے کہ ؎
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
بار باریہ مجموعہ سامنے آتا رہا۔ بارہا قلم بھی اٹھایا لیکن انجام تک پہنچنے سے پہلے ہی یا تو کسی کی آمد مانع ہوئی یا پھر رفتنیٔ خود۔ بہرحال آج میں نے تہیہ کر لیا ہے کہ محض اعتراف ِگناہ سے کام نہیں چلے گا بلکہ گناہ کا کفارہ ادا کرنے سے نجات کی امید کی جاسکتی ہے۔
فاروق انجینیئر ہمارے عہد کے ان شاعروں میں سے ہیں جو کاروبارِزندگی کو چلانے کے لیے انجینیرنگ کا پیشہ اختیار کر کے اپنے پیشہ ورانہ مضامین جیسے ریاضی، جیومیٹری، فزیکس، کیمسٹری وغیرہ کے اثر سے فرصت کے لمحات کو قابلِ برداشت بنانے کے لیے شعر کہتے رہے۔ یوں تو یونی ورسٹیوں اور کالجوں میں کام کرنے والے زبان و ادب کے اساتذہ اپنے فرائض منصبی پر مہارت کی مہر لگانے کے لیے شعروادب میںاپنے درک کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ بہت کم لوگ وہ ہیں جن کی روزی روٹی کے ساتھ شعروادب کا دور کا واسطہ نہیں مگر اپنے آپ کو محظوظ کرنے کے لیے وہ شعروادب میں اپنی دلچسپی کا اظہار کرتے رہے۔ اردو میں تو ایسے کم لوگ ملیں گے جیسے عبدالغفورنساخ، شمس الرحمن فاروقی، عبدالغفور، غ۔م۔طاؤس معدودے چند اشخاص ایسے رہے مگر اور زبانوں میں خصوصاً بنگلہ، اڑیا، کنّڑ وغیرہ میں آپ کو بہت لوگ ایسے ضرور ملیں گے۔
فاروق انجینیئر کا یہ مجموعہ یعنی ’’کتنے سورج‘‘ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ شعر پر نہ کبھی بڑھاپا آتاہے اور نہ کبھی یہ محض ماضی ہوجاتا ہے۔ شعر میں تاریخ ضروراپنا جلوہ پیش کرتی ہے لیکن تاریخ شعر کے حال کو ماضی میں نہیں بدل سکتی۔ ہمارے فاروق انجینیئر ایک ایسے شاعر ہیں جو بیک وقت دورِمتوسط اور دورِجدید کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اُن کے یہاں جوانی بڑھاپے کو سہارا دیتی ہے اور بڑھاپا جوانی کی بازیافت میں ممدہوتا ہے۔ فاروق نے کتنے ہی تاریخی حقائق کو اس طرح پیش کیا ہے کہ کل کی باتیں اور آج کی باتیں ایک دوسرے سے آنکھ مچولی کھیلتی نظر آتی ہیں۔ اب آپ سوچیے یہ شعر جاگیردارانہ نظام کی تصویر ہے یا ہمارے دورِ جمہور کا آئینہ ؎
خامشی اچھی ہے لیکن اس قدر
کچھ تو بولیں آپ اس کہرام پر
فارسی والے کہتے ہیں’اے روشنی ٔطبع تو برمن بلا شدی‘ ۔ تاریخ نے اس قول کی ہر زمانے میں کوئی نہ کوئی تصویر پیش کی ہے۔ چاہے وہ سقراط کا ہملاک پینا ہو‘ افلاطون کا شہر شہر پھرنا ہو‘ آرچمیڑیز کا سر دینا ہو یا گلیلیو کا سر جھکاکے اپنی سوچ کی نفی کرنا ہو یا اس کی اُسی سوچ کا اثبات بڑبڑاتے ہوئے کرنا ہو اور تاریخِ اسلام کا سب سے بڑا سانحہ جب امام حسینؑ کربلا میں اپنی روشن دماغی، دور اندیشی اور راست عقائد کی نمائندگی کرتے ہیں۔ تاریخ کے اتنے واقعات سامنے رکھ کے ان کو آج کے آئینے میں دیکھتے ہوئے فاروق انجینیئرکا یہ شعر پڑھیے ؎
میری ہی جان کے دشمن ہیں شاہکار میرے
میرے خلاف کرشمے میرے ہنر کے گئے
ہر آن اور ہر زمان انسان آگے دیکھنے کے باوجود مڑ کے ضرور دیکھنا چاہتا ہے۔ ہر غلطی اپنا اعتراف کراتی ہے اور ہر قدم احتیاط کے اعلان کے ساتھ اٹھایا جاتا ہے لیکن یہ تو ضرب المثل ہے کہ انسان غلطی کا پتلا ہے۔ اس سے چوک ہوہی جاتی ہے۔ اُس چوک کا سبب کچھ بھی ہو مگر جواب اُسی کو دینا ہے کہ جس سے وہ سرزد ہو اور کوئی دیکھ بھی رہا ہو۔ ایک چھوٹی سی لوک کہانی ہے کہ:
’’ ایک خاتون کہیں سڑک کے کنارے بیٹھی رو رہی تھی۔ کئی لوگ بالخصوص خواتین اس کے گرد جمع ہوگئیںکہ اس کے ساتھ ضرور کوئی زیادتی ہوئی ہوگی، اس لیے بہ اصرار دریافت کرنے لگیں تو اُس نے روتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی روئے گا جس کا میرے جیسا حال ہوا ہو، یہ سب لوگ مجھے مرغی چور کہتے ہیں اور مین کچھ کہہ بھی نہیں سکتی کہ چرائے ہوئے مرغے میرے ہی ڈربے سے تو نکلتے ہیں۔‘‘
تو اس طرح اس خاتون کا رونا اپنی چوک کا اعتراف بھی ہے اور اپنے اوپر لگنے والے الزام کی آنسوؤں کی صورت میں نفی بھی ہے۔ یہ شعر دیکھئے ؎
ہوس کی آگ نے جھلسا دیا ہے
ہمیں چلنا تھا کچھ دامن بچا کے
غرض فاروق انجینیئر کی شاعری میں جہاںآپ ماضی، حال اور مستقبل کی گہماگہمی پائیں گے، دنیابھر کی سیر کریں گے وہاں آپ خود بھی آئینہ دیکھ دیکھ کے کبھی آگے بڑھیں گے اور کبھی قدم روک کے مڑ کے ایک دزدیدہ نگاہ ڈالتے ہوئے اپنے آپ کو تسلی بھی دیتے رہیں گے اور اپنے ضمیر کے ساتھ بچوں والا ’چورپولیس‘ کا کھیل بھی کھیلتے رہیں گے۔ یہ موقع نہیں کہ فاروق انجینیئر کی شاعری کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کی جائے لیکن اتنا ضرور ہے کہ مشتے نمونہ از خروارے ان کے چند شعر یہاں پیش کیے جاتے ہیں تاکہ آپ اُن کو پڑھ کے حظ بھی اُٹھائیں اور کچھ گل اور کچھ خار چن کے اپنے دامنِ ذہن کو بھرنے کی کوشش کریں۔ ؎
خدا جانے ہوئی ہے بات کیسی
مخالف سب کے سب اپنے ہوئے ہیں
کیا جانے کس لیے وہ اتنا بدل رہا ہے
پھولوں کا جسم لیکن کانٹوں پہ چل رہاہے
(لیکن کی جگہ لے کر ہوتا تو معنی میں اک اور رنگ بھی نظر آتا)
روز میں پوچھتا ہوں تیرا نام
روز میں نام بھول جاتا ہوں
یاد کرتا ہوں اُس کو سارا دن
اور سرِ شام بھول جاتا ہوں
اک کوہِ گراں توڑ دیا پر نہیں توڑا
پیمانِ وفا جب کسی فرہاد نے باندھا
یہ سچ ہے وفا اس نے وعدہ کیا
تماشا مگر کچھ زیادہ کیا
اُسی کی ہے یہ عدالت اُسی کے منصف ہیں
اُسی کے سب ہیں تو میرا بیان کس کے لیے
اسی زمین پہ جب تیرا آب ودانہ ہے
پھر آسمان میں اونچی اُڑان کس کے لیے
کیسے کیسے نشان ملتے ہیں
کیا گھروندے ندی کنارے تھے
تیز کتنی تھی لمس کی گرمی
گل کے پردے میں کیا شرارے تھے
ہے ایسا شہر بھی آباد فاروقؔ
ہیں سب خاموش کتبے بولتے ہیں
بدلتی ہی نہیں صورت کسی بھی طور گاؤں کی
یہاں نقشہ تو اکثر راجدھانی کا بدلتا ہے
۔۔۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here