یادِ آفتاب

0
66

قاضی سید محمد اسد فیض آبادی ثم لکھنوی
تحت اللفظ مرثیہ خواں، پی ایچ ڈی اسکالر

خدا مومنینِ فیض آباد کو اس جان لیوا اتفاق سے نجات دے کہ سنتے ہیں، اور ہم نے خد دکھا ہے کہ وہاں مومنین میں اگر ایک حادثہ جاں ہوا تو فوراً اسی دن کوئی اور جاں بحق ہو جاتا ہے۔  

اندوہ ناک مثال آج بھی سامنے آئی ۔ال قائم ؑفاﺅنڈیشن ، فیض آباد کے واٹس ایپ گروپ میں خواص پورے میں مقیم جج جناب سرور حسین کے نوجوان فرزند محمد اللہ کو پےارا ہو گیا۔ صبح ۵۵:۱۱ پر یہ خبر آئی۔ اور دن میں ایک بجے اسی گروپ پر سید آفتاب رضا صاحب رضوی کے انتقالِ پر ملال کی خبر پڑھنا پڑی۔

ہم سے وہا نہ گیا۔سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کیا کریں کیسے فیض آباد پہچ جائیں اور مرحوم کے آخری رسوم میں شامل ہو جائیں۔ لکھنﺅ کے حالات جگ ظاہر ہیں، گھر سے باہر نہیں نکل سکتے تو فیض آباد کیوں کر چلے جاتے۔

توسوچا کہ کسی سے انکی تصویر لے کے سوشل میڈیا پر ہی کچھ لکھ لیں کہ دل کو سکون ملے اور اشکوں کو تھمنے کا بہانا مل جائے۔

فیسبک پر کئی احباب کو میسیج کیا تو بھائی کاشف رضوی ایودھیوی نے انکی دو تصویریںدیں جنمیں موصوف ایک محفلِ فضائل میں اپنا کلامِ منظوم پیش کر ہیں۔ تصویریں دیکھ کر گلا رندھ گیا۔کچھ لکھ کے پوسٹ کر دیا! جس کو بڑھا کر بدل کر یہاں تحریر کر رہا ہوں۔

آفتاب صاحب ہمارے دادا مرحوم قاضی سید علی صاحب کے ساتھ کے تھے۔گھریلو مراسم تھے۔ انہیں کے زمانے سے ہمارے عزاخانے میں ہر سال پانچویں محرّم کو جلوسِ علم کی مجلس کو خطاب فرماتے تھے۔

ایک مدت تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ ہم نے پےش خوانی و شاعری و ذاکری کے ابتدائی دور میں چند سال فیض آباد کا محرّم کیا اور آفتاب صاحب کو اپنے گھر کے علاوہ چند اور مخصوص عزاخانوں میں خطاب کرتے ہوئے سنا۔انکی پیشخوانی بھی فرمائی۔

ہم پیش خوانی میں یہ کرتے تھے کہ مختصر سی چند جملوں کی تقریر کرتے تھے پھر منظوم کلام پیش کرتے تھے۔آفتاب صاحب کو یہ طرز بہت بھلا لگتا تھا۔کئی بارانہوں نے منبر سے اور نجی نشستوں میں ہماری خوب حوصلہ افزائی کی۔
فیض آباد میں جو واحد خمسہ¿ تحت الفظ مرثیہ خوانی ہوتا ہے،اسکی ایک مجلس کے بعد ذاکر اور دوسرے لوگوں کے طعام کا بند و بست ایک بار انکے دولت کدے میں تھا۔اس وقت انہوں نے ایک جملہ کہا تھا،جسے ادا کرتے وقت انکے لیجے میں عجیب اعتماد تھا۔سبکو مخاطب کرکے کہا،
© ’اسد میاں کا مستقبل بہت روشن ہے۔‘
ہمارا حال توسب پر روشن ہے۔جو ہمیں جیسا بھی معلوم ہو دیکھنے والوں کے لئے آفتاب صاحب کے جملے کی مکمل ہوتی جلوے دکھاتے تفسیر ضرور ہے۔ (اپنے بزرگ کی توصیف میں الزامِ تعلّی بھی قبول!)
مرحوم سے آخری ملاقات لکھنﺅ میں ڈاکٹر فضلِ امام صاحب کی ایک کتاب کی رسمِ رو نمائی میں ہوئی تھی۔ کہا کہیں۔ہا! وہی محبت،وہی شفقت۔۔۔۔۔ یادِ ماضی۔۔۔۔۔
آفتاب صاحب ایک کامیاب و مشہور وکیل اور ذاکرِ حسینؑ ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین شاعر بھی تھے۔ہم نے بہ چسمِ خود انسے انکا کلام ملاحظہ کیا ہے۔ابھی آغا سردار صاحب ساکن راٹھ حویلی فیض آباد سے گفتگو کی تا کہ معلوم ہو سکے کہ آفتاب صاحب کا انجمنِ معصومیہ سے کیا کوئی خاص ایسا ربظ تھا جوتحریر کیا جا ساکے۔

تو انہوں نے حیران کن بات بتائی جو بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگی کہ شاعرِ اہلیبیتؑ حضرت خرد صاحب فیض آبادی کے بعد ہماری انجمن ’معصومیہ، راٹھ حویلی،فیض آباد‘ نے آفتاب صاحب کا بھی طرحی کلام پڑھا ۔انکو کچھ شعر بھی یاد آ گئے۔ایک شعر یہ ہے:
بارگاہِ کربلا میں تھی عجب شیشہ گری
مختلف جلوے دکھائے ایک ہی تصویر نے
اب اس کم وقت و مہلت میں کیا لکھیں۔بس ، ہم نے فیسبک پر جو پوسٹ لکھی تھی،اس پر جو تعزیاتی کلمات آئے ان میں سے چند یہاں لکھ کے ہم پھر آفتاب انکل کی نا وقت موت کے غم میں ڈوبے جاتے ہیں:
ڈاکٹر مثیت رضوی: فیض آباد کی عظیم شخصیت تھے وکیل صاحب۔
سید محمد علی تقوی: پچھلے سال فیض آباد کے علی ؑ ڈے میں ملاقات ہوئی تھی۔ اللہ درجات عالی فرمائے۔
مولانا ہلال رضوی اکبر پوری:ایک مدت تک ہمارے یہاں نویں محرم کی مجلس پڑھتے تھے۔
ڈاکٹر حیدر،فیض آباد:بہت افسوس۔ ایک اچھی شخصیت کا جانا کھلیگا۔بہت نامور تھے مرحوم۔
مرزا رشید علی: جو بھی مصروفِ سلامِ شہدا رہتا ہے::گو وہ رہتا نہیں پر نام سدا رہتا ہے (مرزا سلامت علی دبیر)

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here