کورونا پھیلنے کے شواہد چین میں تجربہ گاہ سے نہیں ملے، عالمی ادارۂ صحت

0
112

عالمی ادارہ صحت کی ٹیم کے سربراہ بین امبیرک کا کہنا تھا کہ ابھی تک سامنے آنے والی معلومات سے کورونا وائرس کی ابتدا کے بارے میں ہماری موجودہ تفہیم میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی

عالمی ادارہ صحت کی ٹیم کے سربراہ بین امبیرک کا کہنا تھا کہ ابھی تک سامنے آنے والی معلومات سے کورونا وائرس کی ابتدا کے بارے میں ہماری موجودہ تفہیم میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے ماہرین کی ٹیم نے ووہان میں دو ہفتے تک جانوروں کی مارکیٹ ، مختلف تجربہ گاہوں اور مقامات کا دورہ کرنے کے بعد کورونا وائرس کی ابتدا کے بارے میں حاصل ہونے والی معلومات سے میڈیا کو آگاہ کیا۔

عالمی ادارہ صحت کی ٹیم کے سربراہ بین امبیرک کا کہنا تھا کہ ابھی تک سامنے آنے والی معلومات سے کورونا وائرس کی ابتدا کے بارے میں ہماری موجودہ تفہیم میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی ، اس سے صرف کچھ نئی جزئیات سامنے ضرور آئی ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ وائرس کے بارے میں یہ سازشی نظریہ گردش میں رہا ہے کہ ووہان انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی میں تحقیق کے لیے کئی وائرس جمع کیے جاتے ہیں اور کورونا وائرس بھی اسی تجربہ گاہ کے ذریعے جانتے بوجھتے لیک کیا گیا یا غلطی سے پھیلا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عالمی ادارہ صحت اور چین کے ماہرین کی مشترکہ ٹیموں نے ووہان انسٹی ٹیوٹ کا تفصیلی دورہ کیا ہے اور انہیں ایسے کوئی شواہد نہیں ملے جس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکے کہ وائرس کے پھیلنے کا آغاز اس تجربہ گاہ سے ہوا، ہم ایسے کسی بھی اندازے یا قیاس آرائی کے امکان کو مسترد کرتے ہیں۔

تین گھنٹے طویل پریس بریفینگ میں بین امبیرک نے کہا کہ ابھی تک کے مشاہدے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ممکنہ طور پر یہ وائرس چمگادڑ سے کسی اور جانور میں منتقل ہوا ہے اور پھر وہاں سے انسانوں میں پھیلا ہے تاہم اس کے لیے ہمیں مزید شواہد جمع کرنا ہوں گے۔

چینی ماہرین کا کہنا تھا کہ ووہان میں جانوروں کی مارکیٹ سے ہٹ کے بھی وائرس کے کیسز بڑٰی تعداد میں سامنے آئے اس لیے یہ امکان مسترد نہیں کیا جاسکتا یہ وائرس مارکیٹ کے بجائے کیس اور جگہ سے پھیلا ہو۔

واضح رہے کہ عالمی ادارہ صحت کی دس رکنی ٹیم 14 جنوری سے ووہان کے دورے پر ہے۔ چین کے اسی شہر سے کورونا وائرس کے متاثرین سب سے پہلے سامنے آئے تھے ، اسی لیے عالمی ادارۂ صحت کے ماہرین یہاںوائرس کے ماخذ کے بارے میں تحقیقات کے لیے پہنچی۔

یاد رہے کہ چین میں ووہان کی جنگلی جانوروں کی مارکیٹ میں چمگادڑوں سے اس وائرس کے پھیلنے کی غیر مصدقہ اطلاعات گردش میں رہی ہیں اور امریکا نے بھی چین کی حیاتیاتی تحقیقی اداروں پر اس حوالے سے سوالات اٹھائے تھے تاہم عالمی ادارۂ صحت کی ٹٰیم نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں اس تاثر کی نفی کردی ہے۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here