ہندوستان میں اگر کسی چیز کی اہمیت ہیہے تو وہ اس ملک کا دستور ہے، جس کو اس ملک کے ہر ایک باشندے نے قبول کیا ہے۔ کیونکہ دستور ہی سماج میں برابری لانے کا سب سے بہترین ذریعہ ہے۔ اگر ہندوستان کے سماجی ڈھانچے کو دیکھا جائے تو عدم مساوات، ذات پات، تعصب، تفریق وغیرہ کانظام اس ملک کو ایک قوم بننے سے روکتا ہے۔ اس لیے سماج میں مساوات کے قیام اور مواقع میں برابری لانے کے لئے قانون سازی کی گئی۔ لیکن ایک ذات پات کی بنیاد پر اونچ نیچ کا منظم نظام سب سے خطرناک اور غیر جمہوری ہے۔
ہندوستان میں جمہوریت، دستور پر اعتماد ہونے کی وجہ سے چلتی ہے۔لیکن اگر اس دستوری اعتماد پر ہی حملہ ہو تو وہ ہندوستانی جمہوریت پر حملہ ہے۔مسلم طبقہ کی بات کرنے والی سماج وادی پارٹی کبھی بھی پسماندہ مسلمانوں کے لئے آج تک بل نہیں لا سکی۔سَپاکا وجود ہی دولت کی برابری پر ہے۔ جس میں پہلے مسلم ہے پھر یادو۔ لیکن مسلمانوں کو اس کے عوض میں کیا ملا؟سَپا پسماندہ مسلمانوں کے لیے ریزرویشن بڑھانے کے لیے کبھی تحریک نہیں چلا پائی۔۔آرٹیکل 341کی خامیوں اور 1950 کے صدر راج کے معاملہ پر کون آواز اٹھائے گا۔سماجی انصاف کیا کبھی کمزور پسماندہ دلت،مسلم اور عیسائی تک پہنچے گا؟کیا کبھی ان کی سماجی،معاشی اور تعلیمی صورت حال سماجی انصاف کے علمبرداروں کو نظر آئے گی۔
ہندوستان کے آئین کے بارے میں بڑے زور شور سے کہا جاتا ہے کہ اس میں مواقع کے فاوئد اور ان کے حصول کے لئے کسی قسم کی مذہبی تفریق نہیں برتی گئی ہے۔لیکن یا تو اسے آئین سازون نے مبہم رکھا ہے یا پھر یوں کہا جائےکہ اس کی تشریح کرنے والوں نے خود ہی اسے سمجھا نہیں ہے۔مرکزی وزیر کے حالیہ اعلان نے صاف کر دیا ہے کہ رزروی زن ہ ندوستان میں مذہب کی ہی بنیاد پر ہے انھوں نے صاف کیا ہے کہ اسلام قبول کرنے والوں کو الیکشن میں نہیں ملے گا ۔مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرساد نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اسلام یا عیسائی مذہب میں داخل ہونے والے دلت طبقہ کے لوگ شیڈول کاسٹ کے لیے محفوظ سیٹوں پر الیکشن لڑنے کا دعویٰ نہیں کر سکتا،
مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرساد نے آج راجیہ سبھا میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے واضح کر دیا کہ اگر کسی ہندو شخص نے اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام مذہب اختیار کیا ہے تو اسے الیکشن میں ’ایس سی ریزرویشن‘ کا فائدہ نہیں دیا جائے گا، جب کہ سکھ یا بودھ مذہب اختیار کرنے والے ہندوؤں کو ’ایس سی طبقہ‘ کے لیے ریزرو سیٹوں پر الیکشن لڑنے اور دیگر طرح کے ریزرویشن پر مبنی فائدے اٹھانے کی اجازت ہوگی۔
روی شنکر پرساد نے اس سلسلے میں آئین کا حوالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ آئین (ایس سی) حکم کا پیرا تین ایس سی طبقہ کی ریاست وار فہرست کو متعارف کرتا ہے۔ اس کے مطابق کوئی شخص جو ہندو، سکھ اور بودھ مذہب سے الگ مانتا ہے اسے ایس سی (شیڈول کاسٹ) کا رکن نہیں سمجھا جائے گا۔ قابل قبول شیڈول کاسٹ سرٹیفکیٹ کے ساتھ کوئی بھی شخص محفوظ مقامات سے الیکشن لڑنے کا اہل ہے۔
روی شنکر پرساد نے یہ جواب بی جے پی لیڈر جی وی ایل نرسمہا راؤ کے ایک سوال پر دیا اور صاف کیا کہ اسلام یا عیسائی مذہب میں داخل ہونے والے دلت طبقہ کے لوگ شیڈول کاسٹ (ایس سی) کے لیے محفوظ سیٹوں پر الیکشن لڑنے کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ جب روی شنکر پرساد کے سامنے یہ سوال رکھا گیا کہ کیا عوامی نمائندہ قانون اور الیکشن گائیڈ لائنس میں ایسی کسی ترمیم پر غور کیا جا رہا ہے جس میں واضح ہو کہ اسلام یا عیسائی مذہب اختیار کرنے والے دلت ’ریزرو سیٹوں‘ سے الیکشن لڑنے کے اہل نہیں ہوں گے، تو انھوں نے کہا کہ ’’حکومت کے پاس ایسی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔واضح رہے کہ اس سلسلہ میں ایک مقدمہ سپریم کورٹ میں برسوں سے زیر التوا ہے جس پر عرصہ سے سنوائی نہیں ہوئی ۔اور نہ ہی سماجی انصاف کی ٹھیکیداروں نے اس بابت کوئی قابل ذکر قدم اٹھایا ہاں بیانات ضرور جاری ہوتے رہتے ہیں۔
Also read