ایک صاحبِ اعتدال شاعر:ندیم ؔمرزا کی جمالِ ندیمؔ

0
748

تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں

https://chat.whatsapp.com/9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B

https://www.facebook.com/urduavadhnama?mibextid=ZbWKwL


اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

[email protected] 

9807694588(موسی رضا)


مضمون نگار: غوثیہ سلطانہ نوری (شکاگو )

ندیم مرزاؔ نے اپنا سفرِ شاعری ایک ایسے خاموش دریا کی طرح جاری رکھا ہے جس کی گہرائی کا اندازہ دور سے نہیں کیا جاسکتا۔128صفحات پر مشتمل یہ اُن کا پہلا شعری مجموعہ ہے ۔جس میں اُن کی متین اور خاموش شخصیت کو بھی خاصا دخل رہا ہے۔وہ ایک سچے فنکار کی طرح مشاہدے ،مطالعے اور تجربے کے ساتھ اپنے فنی سفر کو جاری رکھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ان کی ہر غزل میں کوئی نہ کوئی شعر زندگی کے بارے میں انکے کیف و انبساط کی تصویر بنتا چلا جاتا ہے۔

وہ تخلیق ہنر کی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ ہمارے سامنے آتے ہیں۔کہیںہجر کی دھیمی آنچ، کہیںوصال کے لمحات اور کہیں اس پورے سماجی ڈھانچے کو نیا لباس پہنانے کی ضرورت کا شدید احساس ملتا ہے۔جہاںالمناکی درد انگیزی ہے وہیں نئے دور کی آمد کی بشارت بھی ملتی ہے۔اپنے عہد کے شکست وریخت اور بدلتی رُتوں ،روایات اوراقدار کو دیکھ کر خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتے ہیں۔ایسے میں کسی پہلو چین و قرار نہیں تو یہ کیفیتِ شعر بنتی ہے۔

اشک بن کر مری پلکوں پہ ٹھہر جاتا ہے
یاد جلتا ہوا جب جب کوئی شہر آتا ہے
لوگ ملتے ہیں مگر چہرہ چھپاکر ملتے
حادثہ دل پہ مرے روز گزر جاتا ہے

یہ بھی پڑھیں

رازؔ بھارتی، اپنے ’آغاز‘ کے آئینے میں

یہ بنیادی طورپر عوامی مزاحمتی سوچ کا تخلیقی اظہار ہے۔ان کے پاس غمِ یار اور غمِ روزگار ایک نئے انداز میں نظر آتاہے۔وہ عام شعراء سے ہٹ کر ثقافتی،سماجی اور سیاسی شعور رکھتے ہوئے نظر آتے ہیں ؎

جتنے ہمارے پاس ہیں سر دار و رسن نہیں
وارث وطن کے ہم ہیں تم میں تو دم نہیں
ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیے؎
بارود کی تجارت خود آدمی ہے تاجر
ہاتھوں سے اپنی موت کا ساماں ہے آجکل

ان کے خیالات میں پوری قوم کی آرزؤوں ،ناآسودہ خواہشوں اور نصب العین کااظہار ملتا ہے۔

جا بجا ڈھونڈتی رہتی ہے نظر تم ہو کہاں
نور آنکھوں میں بنے رہتے ہو تم ہو کہاں

انسان ،زندگی اور وقت کے تکون سے زندگی کا رشتہ بندھا ہوا ہے۔ندیم مرزاؔ زندگی سے تعمیری محبت کرنے والے شاعر ہیں۔ایک حساس اور درد مند فنکار اورچاہتوں کے علمبردار ہیں۔ان کے درد مند دل میں معاشرے کے ستم زدہ لوگوں کا دُکھ، درد دور کرنے کا جذبہ موجود ہے۔انکے کلام میں سادگی ،روانی، سلاست ،دلکشی اور جذبوں کی سچائی ملتی ہے۔جو قاری کے دل کو متاثر کرتی ہے اور یہ انسان کی ذات تک محدود نہیں بلکہ انسان جس معاشرے میں رہتا ہے اس کے تمام تر مسائل کی عکاسی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ا ن کے پاس چاہتوں اور رابطوں کے پُل تعمیر کرنے اور محبتوں کے پُل تعمیر کرنے کا پرچار بھی غزلوں میں ملتا ہے۔؎

نکلے سفر پہ ہم جو عدم کے مقام سے
زادِ سفر میں دنیا ملی اہتمام سے
محبوب کی امت میں لکھ کر ہمارا نام
منسوب ہم کو کردیا خیر الانام سے

حمد، نعت، منقبت ،سلام ،غزل، نظم ،ثلاثی کئی اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔2019ء کی وباء کی روداد زندگی کا ایک حصہ بنی رہی۔ندیم مرزا کہتے ہیں ۔

ملنا بھی اب خطا ہے نکلو نہ گھر سے باہر
دہشت ہے اور وباء ہے نکلو نہ گھر سے باہر

میدان شعر و سخن میں ان کے مقام اور شاعرانہ قدر وقامت کا تعین تو نقاد انِ ادب کرینگے مگر بحیثیت قاری وہ عصری شاعری کی زندہ مثال ہیں۔ندیم مرزا ؔاپنی ذات میں ایک انجمن ہیں۔خوددار اور پروقار شخصیت نے آندھیوں کے سامنے شعر و ادب کا جلتا دیا روشن رکھا ہے۔انہیں پڑھنے کا موقع نہ ملتا تو یہ میری غلطی کہلاتی۔وہ بر صغیر کے اُن شعراء میں سے ایک ہیں جو ادب میں زندگی کی اُفقی اور عمودی جہتوں میں ایک توازن برقرار رکھتے ہیں۔ A Poet is Born Not Made ادب اور انسانیت کے حدود نہیں ہوتے۔ندیم مرزا ؔکی بصیرت اور غور وفکر قاری کو زندگی کی گہرائی تک لے جاتے ہیں۔اپنی سچائی و بیباکی سے زندگی کی حقیقت کو واضح بھی کرتے ہیں۔جمالِ ندیم خوب ہے۔بھارتیہ اردو وکاس فائونڈیشن شولاپور کی ترتیب و پیشکش ’’سلطان ۔ثاقب‘‘ دیدہ زیب ہے۔
ندیم مرزاؔ کی شاعری پر غور کریں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انہوں نے بڑی سادگی سے کم الفاظ میں زیادہ مطلب کے ساتھ تمام زندگی کو سمو دیا ہے۔؎

کثرت میں تیرے جلوے وحدت میں اللہ ھو
جلوت میں اللہ ھو تو خلوت میں اللہ ھو
نبی کی غلامی ہو یہ جی چاہتا ہے
یہی زندگی ہو یہ جی چاہتا ہے
ترا سنگِ در ہو جھکا میرا سرہو
دمِ آخری ہو یہ جی چاہتا ہے

امام حسین ؑ کی منقبت سے یہ شعر کس قدر پُر زور اور معنی خیز ہے
ہر روز کربلا ہے ہر گام ہے یزید
سبطِ نبی ؑ نے روشن ہر باب کردیا

وہ اپنی تخلیقی ہنر کی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ قاری کے سامنے آتے ہیں۔؎
گھر جل رہا تھا اور سمندر قریب تھا
اپنوں کا تھا ہجوم مگر وہ غریب تھا
کاسہ لئے ہاتھ میں خالی وفا کا وہ
پیروں تلے تھا آب کہ پیاسہ نصیب تھا

کس قدر سادگی و متانت سے کہہ گئے ہیں۔خوبصورت اندازِ بیاں کے ساتھ کہتے ہیں ؎
لوگ کچھ اس طرح سے ملتے ہیں
آندھیوں میں چراغ جلتے ہیں
لمحوں لمحوں میں بٹ گئے ہیں
آدمی حادثوں میں پلتے ہیں

کئی اصنافِ سخن ،تراکیب، قافیے ردیف وضع کئے ہیں۔شاعری میں اداسی ہے مگر مایوسی نہیں ہے۔ثلاثی ملاحظہ کیجئے ۔
دونوں میں کون مظہرِ کامل ہے دیکھئے
یہ کس کو دیکھتا ہے وہ کس کو دیکھتا ہے
آئینہ آئینہ کے مقابل ہے دیکھئے
گویا قاتل کے مقابلے قاتل ہے سی کیفیت ہے۔

ثلاثی 1960ء کے بعد سے آج تک اپنی ترقی کے بتدریج مراحل طئے کر رہی ہے۔ادب میں نئی راہیں متعین کرنا ادبی شان ہے۔ثلاثی دریا کو کوزے میں بند کرنے کا دوسرا نام ہے۔ندیم مرزاؔ اپنے اظہار میں جدیدیت کو لفظیات اور لب ولہجے کی توانائی کی حد تک شامل کرتے ہیں اور روایت کے دامن کوبھی مضبوطی سے تھامے رکھتے ہیں۔

سر کو بچا کے خود کو ، رُسوا کبھی نہ کرنا
ظرفِ یزید آئے مقابل میں گرتمہارے
اپنے ضمیر کا تم سودا کبھی نہ کرنا

ندیم مرزا ؔ کا کلام اردو ادب کی مرتب ہونے والی تاریخ میں حرف حرف روشنی کا اہتمام کرتا رہے گا۔

شکاگو امریکہ

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here