کورونا سے بچاؤ کیلئے تیز ترین ویکسین کے ابتدائی حوصلہ افزا نتائج

0
121

نئے نوول کورونا ویکسین کے خلاف دنیا میں سب سے جلد ویکسین تیار کرنے کے لیے برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی نے انسانوں پر گزشتہ ہفتے ٹرائل شروع کردیا تھا۔مگر اس کے ساتھ ساتھ بندروں پر بھی اس کی آزمائش کی جارہی ہے اور دریافت کیا گیا کہ ان جانوروں میں 28 دن میں کورونا وائرس کا خاتمہ ہوگیا حالانکہ اننہیں بہت زیادہ مقدار میں جراثیم سے متاثر کیا گیا تھا۔

ویکسین کے ابتدائی مرحلے کے اس نتیجے کو حوصلہ افزا قرار دیا جارہا ہے کیونکہ انسانوں میں اس کی آزمائش کے نتائج کئی ماہ تک سامنے آئیں گے۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق بندروں پر تجربات مارچ کے آخر میں امریکا کے سائنسدانوں نے روکی ماؤنٹین لیبارٹری میں کیے گئے تھے۔

اس مقصد کے لیے 6 بندروں کو جینز انسٹیٹوٹ اور آکسفورڈ ویکسین گروپ کی تیار کردہ ویکسین دی گئی اور اس کے بعد اننہیں بہت زیادہ تعداد میں کورونا وائرس کی زد میں لایا گیا، جو دیگر بندروں کو اس سے پہلے بیمار کرچکی تھی۔

تحقیق میں شامل بندروں میں بیماری کا کوئی اثر نظر نہیں آیا اور 28 دن بعد بھی وہ صحت مند تھے۔

راکی ماؤنٹین لیبارٹرفی کے وائرس ایکولوجی یونٹ کے سربراہ ونسینٹ میونسٹر نے بتایا ‘بندروں کی یہ نسل جینیاتی لحاظ سے انسانوں کے بہت قریب ہوتی ہے’۔

جینر انسٹیٹوٹ آکسفورڈ ویکسین گروپ کے حصے کے طور پر کام کررہا ہے اور برطانوی حکومت اس یونیورسٹی کے ویکسین ٹرائل کے لیے ڈھائی کروڑ ڈالرز فراہم کرنے کا وعدہ کرچکی ہے۔

انسانوں پر اس کی آزمائش 23 اپریل کو شروع ہوئی تھی اور اس کا اختتام ستمبر تک ہونے کا امکان ہے۔

ابتدائی مرحلے کے لیے 500 رضاکاروں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں جن کی عمریں 18 سے 55 سال کے درمیان ہیں۔

500 رضاکاروں پر ٹرائل اگلے ماہ تک وسط تک جاری رہے گا جس میں مجموعی طور پر 510 رضاکاروں کو 5 گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے۔

ان مین سے ایک گروپ کو پہلی بار ویکسین کے استعمال کے بعد فالو اپ بوسٹر ڈوز بھی دیا جائے گا۔

محقق پروفیسر سارہ گلبرٹ نے بتایا کہ اس ویکسین کی تیاری کے لیے جس ٹیکنالوجی کو استعمال کیا جارہا ہے، وہ پہلے ہی 10 مختلف اقسام کے طریقہ علاج کے لیے استعمال ہورہی ہے، مگر کورونا وائرس کے حوالے سے مختلف ممالک کے مختلف ٹیسٹ گروپس کی ضرورت ہے تاکہ درست نتائج کو یقنی بنایا جاسکے، کیونکہ یہ انفیکشن بہت تیزی سے دنیا کے ہر کونے میں پھیل رہا ہے۔

تحقیقی ٹیم بڑے پیمانے پر ویکسین کی تیاری کے لیے اضافی فنڈنگ کی کوشش بھی کررہی ہے کیونکہ وہ 6 ماہ کے انسانی ٹرائل کے بعد وہ اس کی بڑے پیمانے پر پروڈکشن چاہتی ہے۔

اس کے پیچھے یہ خیال موجود ہے کہ یہ ویکسین انسانوں کے لیے موثر ثابت ہوگئی اور خزاں میں اس کی پروڈکشن شروع ہوجائے گی، جس دوران 5 ہزار افراد پر آخری ٹرائل بھی مکمل کیا جائے گا اور طبی ورکرز ستمبر تک اس کا استعمال شروع کیا جاسکتا ہے۔

درحقیقت آکسفورڈ یونیورسٹی ستمبر تک اس ویکسین کے 10 لاکھ ڈوز تیار کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

اتنی کم مدت میں ویکسین کی تیاری بظاہر ناممکن لگتی ہے مگر آکسفورڈ یونیورسٹی کی ٹیم درحقیقت کورونا وائرس جیسی وبا کے لیے پہلے سے تیاری کررہی تھی۔

اس مقصد کے لیے انہوں نے پہلے سے جینیاتی تدوین شدہ چیمپئنزی وائرس کو تیار کیا ہوا تھا جو اس نئے وائرس کی بنیاد ہے۔

انہیں توقع ہے کہ وہ ایسا محفوظ وائرس اس ویکسین کا حصہ بناسکیں گے جو کووڈ 19 کے خلاف مدافعتی نظام کو لڑنے کی تربیت دے سکے گا۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کی ویکسین ان چند ٹرائلز میں سے ایک ہے جو انسانی آزمائش کے مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔

چین میں 3 مختلف ویکسینز کی انسانوں پر آزمائش ہورہی ہے جن میں سے ایک ویکسین تو دوسرے مرحلے میں بھی داخل ہوچکی ہے۔

اسی طرح امریکا میں مارچ میں موڈرینا کمپنی نے سب سے پہلے ایک ویکسین کی انسانوں پر آزمائش شروع کی تھی جبکہ ایک اور کمپنی انوویو کی ویکسین کا ٹرائل رواں ماہ کے شروع میں شروع ہوا۔

تاہم ان ویکسینز کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ ان کی تیاری اور عام استعمال کی اجازت میں ایک سے ڈیڑھ سال کا عرصہ لگ سکتا ہے، تاہم چینی سائنسدان پرامید ہیں کہ ستمبر تک ویکسین طبی عملے کے لیے دستیاب ہوگی جبکہ عام افراد اسے اگلے سال کے شروع میں کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے استعمال کرسکیں گے۔

اس کے مقابلے میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی تحقیقی ٹیم نے رواں مہینے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی ویکسین ستمبر تک تیار ہوجائے گی۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کی ویکسینولوجی کی پروفیسر سارہ گلبرٹ نے دی ٹائمز آف لندن کو بتایا کہ وہ ’80 فیصد پراعتماد’ ہیں کہ ان کی ٹیم کی تیار کردہ ویکسین کام کرے گی اور ستمبر تک تیار ہوجائے گی۔

انہوں نے کہا ‘کوئی یہ وعدہ نہیں کرسکتا کہ یہ ویکسین کام کرے گی، مگر مجھے 80 فیصد اعتماد ہے کہ ہمیں کامیابی ملے گی’۔

اگر برطانوی سائنسدان ستمبر تک اس ویکسین کو تیار کرکے استعمال کرنے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں پھر بھی ماہرین کے مطابق اس ویکسین کے لاکھوں ڈوز تیار کرنے کے لیے کئی ماہ کا عرصہ درکار ہوگا۔

پروفیسر سارہ کا کہنا تھا کہ برطانوی حکومت سے سرمائے کے لیے بات چیت ہورہی ہے اور حتمی نتائج سے پہلے ہی پروڈکشن بھی شروع کردی جائے گی، جس سے لوگوں کو ویکسین تک رسائی فوری مل سکے گی۔

انہوں نے کہا کہ اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو خزاں تک کامیابی ممکن ہے۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here