ڈاکٹر دبیر احمد کی ترتیب میں تحقیقی و تنقیدی بصیرت

0
833

تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں

https://chat.whatsapp.com/9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B

https://www.facebook.com/urduavadhnama?mibextid=ZbWKwL


اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

[email protected] 

9807694588(موسی رضا)


تجزیہ نگار: ڈاکٹر امام اعظم

اکیسویں صدی میں بحیثیت ناقد، محقق، دفینۂ ادب کریدکر تشنگانِ ادب کو سیراب کرنے والے ، فعال مرتب کی شناخت بنانے والے اور ادارہ جات و انجمن ہائے فروغِ اردو کولکاتا کے شمعِ فروزاں بنے ڈاکٹر دبیر احمد نے جتنی کم مدت میں انتھک محنت سے اردو ادب کی جن جہات کو روشن کیا ہے وہ وقیع ہیں اور ہر دور کے طالبانِ ادب کے لئے مفید بھی۔

انہوں نے شعر و ادب کا ستھرا اور نکھرا ذوق پایا ہے۔ دورِطالب علمی سے ہی ان کا قلم چل پڑا اور شعر و ادب کے اَن چھوئے اور پسِ غبار موضوعات کو مَس کرنے لگا۔ مضامین شائقین ادب کو متوجہ کرنے لگے۔ مجموعہ مضامین ’’متاعِ فکر و نظر‘‘ ان کے قلم کے نقش انفرادیت کا شاہد ہے۔ ان کا ادبی ذوق مضمون نگاری پر ہی قانع نہیں رہا بلکہ دفینۂ ادب کی کرید میں بھی جٹ گیا۔ پسِ غبار دفن پڑے، نایاب مضامین کو اکیسویں صدی کی نسل کے سامنے لانے کی ٹھانی اور ۲۰۰۲ء سے ان کی ترتیب نگاری کا سلسلہ بھی چل پڑا۔ ۲۰۲۲ء تک ان کی مرتبہ کتابیں بنام ’’اذہان و اشخاص‘‘ ، ’’بنگال کا اردو ادب‘‘، ’’نظیر: حیات و شاعری‘‘،’’میراجی: شخص اور شاعر‘‘، ’’پریم چند:حیات و فن‘‘، ’’جمیل مظہری: حیات وفن‘‘، ’’شعورِ نقد‘‘، ’’مولانا آزاد : شخصیت و فن‘‘، ’’ظفر اوگانوی-’بیچ کا ورق‘ کے تناظر میں‘‘ منظر عام پر آکر اپنی معنویت و افادیت کا سکہ جماچکی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں 

کرشن کا دل اور” کالو“ کا درد

گاہے گاہے ان کی سخن سنجی کے مظاہر بھی سامنے آتے رہتے ہیں مگر اپنی تخلیق کی بجائے انہوں نے جن برمحل اور خوبصورت جدید غزلوں کا انتخاب بشکل ’’گلدستۂ غزل‘‘ مرتب کرکے پیش کیا ہے وہ ان کے ارفع ذوقِ سخن فہمی و سخن نوازی کا مظہر ہے اور لگتا ہے کہ اسی ذوق کی تسکین اور اس کے اظہار کی منشا اس ترتیب کے پسِ پشت کار فرما تھی۔ حسنِ انتخاب کے بموجب ’’گلدستۂ غزل‘‘ نے موصوف کی منشا کو خوب بارآور کیا ہے۔

قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ مرتبہ کتابوں پر ڈاکٹر دبیر احمد کی جو تحریریں بطور پیش لفظ یا مقدمۂ کتب ہیں وہ حسب روایت محض تعارفی نوعیت کی یا اسباب ترتیب کے بیان پر مبنی نہیں ہیں بلکہ تجزیاتی نوعیت کی ہیں جن میں ڈاکٹر دبیر احمد کی تحقیقی و تنقیدی بصیرت کھل کر بروئے کار آئی ہے۔ ان تحریروں نے مرتبہ کتابوں کی معنویت و افادیت کو دوچند کردیا ہے جن سے نہ صرف ان کے ادبی فکر و نظر کی انفرادیت اجاگر ہوئی بلکہ ترتیب نگاری محض صاحب کتاب ہونے کی روش کی مظہر نہ ہوکر نئے ادبی مباحث کو سامنے لانے لگی۔ گزشتہ کچھ دہائیوں سے صاحبِ کتاب بننے کی خواہش نے ادب میں ترتیب نگاری کی روش کو عام کیا ہے ۔ اس کے باوجود اس روشِ عام میں ڈاکٹر دبیر احمد کی ندرت پسندی نے نئی راہ نکالی اور خاصے مقبول ہوئے۔ ایک مثال سے ان کے فکر و نظر کا بانکپن دکھاتا چلوں کہ ۲۰۲۲ء میں ان کی مرتبہ کتاب ’’ظفراوگانوی’ بیچ کا ورق‘ کے تناظرمیں‘‘ آئی ہے۔ اس میں ظفر اوگانوی کے افسانوی مجموعہ ’’بیچ کا ورق‘‘ کے ہر افسانے کے ساتھ متعدد تجزیہ نگاروں کے مرقومہ مضامین کو یکجا کیا ہے اور اس پر ۶۶؍ صفحات کا مقدمہ’’حرفِ نسبت‘‘ رقم کیا ہے جس میں نہ صرف نظریۂ جدیدیت کے تحت وجود میں آئی علامتی اور تجریدی افسانہ نگاری پر مثبت و منفی آراء کی روشنی میں اس کی معنویت اجاگر کی ہے بلکہ تمام تجزیہ نگاروں کی آرا پر بھی اپنا موقف رقم کیا ہے۔ یوں ظفر اوگانوی کی قدآوری کے اثبات کا یہ طریقہ منفرد ہے جو ڈاکٹر دبیر احمد نے اختیار کیا ہے۔ اس مقدمہ میں جس طرح انہوں نے توضیحی اسلوب کو استدلال کے ساتھ راہ دی ہے اور ان کا غیرجانبدارانہ تنقیدی رویہ بروئے کار آیا ہے وہ قابلِ داد ہے۔

پروفیسر ظفراوگانوی جدیدیت پسند رجحان کے علمبردار صاحبِ طرز ادیب تھے۔ اس لحاظ سے اردو ادب میں ان کی خدمات کی متعدد جہتیں ہیں۔ ظفر اوگانوی کا اصل میدان کہانی ہے۔ وہ کہانی بُننے کے فن سے پوری طرح واقف تھے۔ ظفر اوگانوی نے جب افسانہ نگاری شروع کی اُس وقت کئی سماجی، سیاسی اور زمینی انقلاب رونما ہوچکے تھے۔ نئی حقیقتیں قائم ہورہی تھیں اور تخلیقی ذہن نئے سوالات اور نئی حسّیت سے روشناس ہورہا تھا۔ بہت سے مسائل اُن کے سامنے سانپ کی طرح پھن پھیلائے کھڑے تھے۔ ظفراوگانوی نے تخلیقی رویے کی تشکیل کی اور افسانوں میں زمان و مکان کی وحدتوں کو توڑا توحقائق کے اثبات کو جستجو کا سرچشمہ بنایا۔ڈاکٹر دبیر احمد نے اس کتاب کے ذریعہ ان کی افسانہ نگاری کے ادبی معیار و معنویت کو اجاگر کرنے کی انوکھی اور بڑی صبر آزما سعی کی ہے۔ صبر آزما سعی اس لئے کہ جدیدیت سے متاثر ہوکر لکھے گئے علامتی اور تجریدی نوعیت کے افسانوں پرمعتبر ناقدوں اور افسانہ فہم قلم کاروں سے تجزیہ لکھوانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ڈاکٹر دبیر احمد نے سب کچھ جھیل کر یہ کارنامہ انجام دے ڈالا اور اس مرحلے میں جو درد ملے انہیں بھی انہوں نے اپنے مقدمہ میں اجال دیا ہے۔ اس سے دورِ جدیدیت کے نصف صدی گذرنے کے بعد لوگوں کے علامتی اور تجریدی افسانہ نگاری کے تئیں کیا کیا نظریے ہیں‘ ان کے دونوں رخ سامنے آگئے ہیں۔

’’بیچ کا ورق‘‘ گیارہ ایسے افسانوں کا مجموعہ ہے جس میں نوع بہ نوع فنی تجربے ظفراوگانوی نے کئے تھے۔ اس لئے انہیں علامتی و تجریدی افسانوں میں انفرادی و امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ لہٰذا ان کی پرتوں کو جن تجزیہ نگاروں نے کھولا ہے وہ ہیں پروفیسر شارب ردولوی، پروفیسر افصح ظفر، پروفیسر انیس اشفاق،پروفیسر قدوس جاوید، ڈاکٹر اشہد کریم الفت، قمر اشرف، پروفیسر جمیل اختر محبی، پروفیسر خالد جاوید، پروفیسر بیگ احساس، پروفیسر منظر اعجاز، دبیر احمد، پروفیسر شافع قدوائی، پروفیسر اعجاز علی ارشد،ڈاکٹر خواجہ نسیم اختر، پروفیسر حسین الحق، پروفیسر علی احمد فاطمی، پروفیسر طارق چھتاری، پروفیسر ارتضیٰ کریم، پروفیسر کوثر مظہری، پروفیسر صغیر افراہیم، ڈاکٹر مشتاق اعظمی، پروفیسر ابوالکلام قاسمی، انیس رفیع، پروفیسر غضنفر، نسیم عزیزی اور مقصود دانش۔ ان معتبر و مشاہیر ادب نے ڈاکٹر دبیر احمد کو اعتبار بخشا اور ان کے مشن کو نہ صرف بارآور کیا بلکہ اردو افسانہ نگاری کی تاریخ میں ڈاکٹر دبیر احمد کی اس کاوش کو حوالہ جاتی نوعیت بھی بخش دی۔

دنیائے ادب میں یہ مقام ڈاکٹر دبیر احمد نے اپنی نہج کا معتبر تالیفی، تصنیفی اور تنقیدی کام کرکے حاصل کیا ہے۔ پروفیسر اوگانوی کو انہوں نے پہلے اپنے پی ایچ۔ ڈی۔ کا تحقیقی موضوع بنایا اور اس مقالہ کی اشاعت سے قبل ظفر اوگانوی پر مونوگراف (۲۰۱۳ء) شائع کرکے ظفر شناسی کی راہ میں پہلا قدم اٹھایا اور پروفیسر اوگانوی کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا۔ بعد ازاں اپنا تحقیقی مقالہ ’’ظفر اوگانوی: حیات و ادبی خدمات‘‘ شائع کیا اور ثابت کردیا کہ ظفر اوگانوی اردو افسانہ کے ارتقا کی لاینفک کڑی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

اسوان: زر کی سرزمین

ڈاکٹر دبیر احمد نے ظفر اوگانوی کی قدر شناسی ناقدانہ کسوٹی پر کی ہے۔ جملہ ادبی خدمات کا متوازن اور دیانت دارانہ تجزیہ کیا ہے، حسب موضوع استدلالی بحث کی ہے، ان کے فن کی پرتوں کو کھول کر اس کے معیار و معنویت کو پرکھاہے اور ان کی روشنی میں ظفر اوگانوی کے مقام کی تعیین کی ہے ۔ ڈاکٹر دبیر احمد کتاب میں شامل اپنے مقدمہ ’’حرفِ نسبت ‘‘ میں لکھتے ہیں :

’’ظفر اوگانوی جدید افسانے کے بنیاد گزاروں میں شمار ہوتے ہیں جو افسانوی ادب میں نئے تجربوں کی پہچان کا موثر حوالہ ہیں۔ ان کے مجموعہ ’’بیچ کا ورق ‘‘ میں شامل کل گیارہ کہانیاں ہیں جو ادب میں نئے تجربے کی حیثیت سے خاص اہمیت رکھتی ہیں جن کی قدر و قیمت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ جہاں تک جدید طرز کے افسانوں کا سوال ہے، تو افسانہ ’’نیا آئینہ ‘‘کو ظفر اوگانوی کا وہ پہلا علامتی افسانہ کہا جاسکتا ہے جس سے ظفر اوگانوی کے جدید افسانے کا سفر شروع ہوتا ہے۔ ‘‘ (ص: ۳۵)

ظفر اوگانوی کے افسانوں پر اپنی رائے کو طول دیتے ہوئے ڈاکٹر دبیر احمد الجھی ہوئی کڑیوں کو سلجھاتے نظر آتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب کہانی کار کا رجحان اور میلان جدیدیت پر مبنی ہے تو کہانیوں میں جدیدیت کی مبادیات یعنی تجرید اور علامت ضرور شامل ہوں گی۔ اس ضمن میں مرتب کی یہ رائے ملاحظہ کریں :

’’ظفر اوگانوی اپنی کہانیوں میں علامت اور تجرید کا استعمال کرتے ہیں لہٰذا ان کے افسانوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلی قسم تجریدی افسانوی کی ہے اور دوسری علامتی افسانوں کی۔ کہیں کہیں یہ بھی ہوا ہے کہ علامت اور تجرید ایک دوسرے میں ضم ہوگئی ہیں۔ مثلاً ’بیچ کا ورق‘ کا پہلا افسانہ ’انٹراموروس‘ ایک تجریدی افسانہ ہے جس میں سطحی نقطۂ نظر سے چار کردار متحرک معلوم ہوتے ہیں۔ ایک خارجی میں ، دوسرا داخلی میں ، ایک خارجی نیلی اور دوسری داخلی نیلی لیکن یہ سب کے سب کردار موم کی طرح پگھل کر ’میں‘ میں ضم ہوجاتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ نیلی بھی آخری منزل تک ایک کردار بنی رہتی ہے ۔ دراصل ’انٹراموروس‘ اپنی ہی پہچان کا ایک Abstract ہے جس کے کئی رخ پڑھنے والوں کے سامنے ابھر آتے ہیں اور جس کا سارا تاثر اس ننگے پن میں ہے۔ … ‘‘
(مقدمہ ’’حرفِ نسبت ‘‘ ص:۳۸)

یہ بات جگ ظاہر ہے کہ جدیدیت کے مذکورہ بالا دونوں پہلو یعنی تجرید اور علامت قریب ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔ تجریدیت کوئی مادی جسم (Materialist body) نہیں جسے چھو کر محسوس کیا جاسکے بلکہ مبہم اشاروں سے آراستہ ایک جہان ہے جس سے معنیاتی شعاعیں نکلتی ہیں ۔ اردو ادب میں مابعدِ جدیدیت کے بڑے علم بردارگوپی چند نارنگ کی رائے اس سلسلے میں دیکھیں :

’’…تجریدی افسانہ ہمارے افسانے کے اس سفر کی نشاندہی کرتا ہے جس کا رخ خارج سے داخل کی طرف ہے۔ یہ انسان کے ذہنی مسائل، اس کے کرب اور حقیقت کے عرفان کی تلاش کا اظہار ہے۔ وہ بھی صرف فکر یا ذہنی سوچ کی سطح پر۔ افسانہ علامتی ہو یا تجریدی، اس میں لغوی معنی صرف ایک طرح کا اشارہ کر دیتے ہیں، باقی کام پڑھنے والوں کی ذہنی استعداد کا ہے۔…‘‘
(’’فکشن شعریات: تشکیل و تنقید‘‘ ص: ۲۵۱)

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گوپی چند نارنگ کی مذکورہ رائے یا اس طرح کے دوسرے ادبی نظریات مقدمہ رقم کرتے وقت ڈاکٹر دبیر احمد کے پیشِ مطالعہ تھے۔ تجریدیت اور علامتوں کا استعمال جدید افسانے میں جس طرح سے کیا گیا ، اس سے ہر سطح کے قاری اپنی ذہنی استعدادکے مطابق نتیجہ اخذ کرتے ہیں ۔ کالجوں یایونیورسٹیوں کے طلبا ہوں یا اردو کے اساتذہ یا ادب کو نقد و نظر کی کسوٹی پر پرکھنے والے تنقید نگار حضرات ؛ دیگر ادب پاروں سے کہیں زیادہ جدید افسانوں کے متعلق متضاد آرا قائم کرتے نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر دبیر احمد کی درج ذیل رائے سے اتفاق کیا جاسکتا ہے جو انھوں نے ظفر اوگانوی کے افسانہ ’’نئی سڑک‘‘ کے متعلق قائم کی ہے :

’’نئی سڑک‘ مجموعہ ’بیچ کا ورق‘ میں شامل تیسری کہانی ہے جو خالص علامتی ہے ، تجریدی نہیں۔ اس کہانی کے بارے میں خود کہانی کار نے مختلف آرا کی روشنی میں اس کہانی کی غرض و غایت کو سمجھنے کے لیے در وا کیے ہیں۔ Under Graduate طلبا کی سمجھ کے مطابق یہ ایک کرپٹ عورت کی کہانی ہے ۔ تعلیم یافتہ طبقہ اس کہانی کو ملک کی تقسیم سے عبارت دیتا ہے جب کہ ہم عصر تخلیق کاروں نے اس کہانی کو ماضی سے مستقبل کی کہانی قرار دیا ہے ۔ دراصل علامتی کہانیاں عام طور پر یہی صورت پیدا کرتی ہیں ۔ ان میں معنی کی تہیں کھلتی ہیں اور ہر شخص ذہنی استعداد کے مطابق اس کے معنی کو اخذ کرتا ہے …۔ ‘‘ (ص:۴۶)

بہرحال‘ ظفر اوگانوی کی کہانیوں کی نئی قرأت اور اس کے تجزیے اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کتاب کی ترتیب میں ڈاکٹر دبیر احمد نے اس بات کا بھرپور خیال رکھا ہے کہ ہر کہانی پر کھل کر اور غیر جانبدارانہ گفتگو کو سامنے لایا جائے جس میں وہ کامیاب بھی رہے ہیں ۔ اس طرح یہ کتاب جہاں تقریباً ۴۵؍ برس کے بعد ظفراوگانوی کی کہانیوں پر نئے مباحث کو اجاگر کرتی ہے وہیں موصوف کو نئی نسل سے روشناس بھی کراتی ہے ۔

٭٭٭
ریجنل ڈائریکٹر (مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی )
، کولکاتا ریجنل سینٹر
9431085816

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here