9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
محمد عرفان خان اکولہ
یہ بات ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ قوموں کے عروج و زوال کا دارومدار تعلیم پر منحصر ہے. تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے تعلیم کا دامن مضبوطی سے تھاما اس نے دنیا میں ترقی کی مختلف منازل آسانی سےطے کیں اور جن قوموں نے تعلیم سے غفلت برتی وہ دنیا میں ذلیل و خوار ورسوا ہوئیں۔ کووڈ کی وجہ سے ہمارے ملک میں زندگی کے مختلف شعبے بری طرح متاثر ہوئے.اور یہ بات بھی ہم جانتے ہیں کہ اس کووڈ نے اگر زندگی کے کسی شعبے کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے تو وہ تعلیم کا شعبہ ہے تقریباً ڈیڑھ برس سے تعلیم کا یہ معروف سلسلہ بالکل ٹوٹ چکا ہے جس کی وجہ سے طلبہ کو کافی نقصان ہوا ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سب سے زیادہ نقصان اردو میڈیم کے طلبہ کا ہوا ۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ جہاں پرائمری کے طلبہ کی بنیاد کمزور ہوگئی ، وہیں ہائی اسکول, جونیر کالج اور سینئر کالج کے طلباء کے تعلیمی معیار میں کافی گراوٹ آئی ہے کچھ نہ پڑھتے ہوئے بھی اگلی جماعت میں ترقی دی جارہی ہے ۔دسویں اور بارہویں کے طلباء کے امتحانات بھی منسوخ کردیے گئے اور انھیں کامیاب قرار دیا جارہا ہے ۔کمال کی بات یہ ہے کہ اس پر ہمارے طلبہ و سرپرست میں خوشی کی لہر ہے ۔ ان حالات میں بحیثیت ملت ہمیں خاص طور سےسوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو کس طرح کے افراد دے کر جانے والے ہیں ! اس طرح کی تعلیم سے قوموں کی ترقی تو در کنار تنزل کی گہری کھائیوں کاخطر ناک منظر سامنے ہوتا ہے۔
بحیثیت ملت ہمیں اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ اس وبا کے دوران میں جو ہمارا تعلیمی نقصان ہوا ہے اس کی تلافی کیسے کی جائے اور آئندہ ہمارا تعلیمی نقصان نہ ہو اس کے لیے مضبوط ٹھوس اور فیصلہ کن اِقدامات کی اشد ضرورت ہے ۔
سب سے پہلے تو ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ اس نقصان کا ذمہ دار کون ہے؟ سرپرست حضرات سے پوچھا جائے تو وہ کہیں گے کہ اساتذہ اس کے ذمہ دار ہیں۔ اساتذہ سے پوچھیں گے تو کہیں گے کہ سرپرست و حکومت اس نقصان کے ذمےدار ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اس نقصان کے ہم سب ذمہ دار ہیں ملت کا ہر طبقہ اس کا ذمہ دار ہے ہمارے اساتذہ ہمارے سرپرست ہمارے ائمہ و علماء ہمارے کارپوریٹرس ممبرس ہمارے مالدار افراد ہماری مختلف جماعتیں و تنظیمیں سب اس کے لیے ذمہ دار ہیں ہم نے اس نقصان سے بچنے کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی ،ہم نے تعلیم کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کیا ہم نے اپنا سماجی ماحول اس طرز پرنہیں ڈھالا کہ تعلیمی عمل کو فروغ حاصل ہو ۔
اساتذہ کسی بھی قوم کے معمار ہوتے ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ اس وبا کے دوران ہمارے کچھ اساتذہ نے اپنے طلبہ کے تعلیمی و تدریسی عمل کو رکنے نہیں دیا اپنے پاس موجود وسائل کا استعمال کرتے ہوئے انھوں نے تعلیمی عمل کو جاری وساری رکھا ؛ ایسے اساتذہ کو سلام!۔۔۔ یہ اساتذہ کورونا واریئرس(کورونا سے جنگ کرنے والوں) سے کم نہیں ہیں لیکن ان کے ساتھ مسئلہ یہ رہا کہ سرپرست اور سماج کی جانب سے جیسا تعاون ان کو ملنا چاہیے تھا ویسا تعاون نہیں ملا اور وہیں ہم دوسری طرف دیکھتے ہیں تو اساتذہ کی ایک بڑی تعداد نے تعلیمی عمل کے سلسلے کو بالکل توڑ کر رکھ دیا ہے۔ ہر ماہ تنخواہ پاتے رہے جب کہ اس وبا کے دوران میں لوگ سب سے زیادہ روزگار کے لیے پریشان رہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان اساتذہ نے اپنی تنخواہ کو حلال کیا یا نہیں؟ یہ خود احتسابی ہر تنخواہ پانے والے معلم نے ضرور کرنی چاہیے کتنی عجیب بات ہے کہ جن طلبہ کے ذریعہ اساتذہ کو رزق مل رہا ہے ان طلبہ کی انھیں کوئی فکر نہیں ۔
ابس اصل مسئلے کی طرف آتے ہیں کہ اس تعلیمی نقصان کی تلافی کیسے ہو؟ اور آئندہ اس طرح کا نقصان نہ ہو اس کے لیے کیا کیا جانا چاہئے
سماج میں تعلیمی بیداری پیدا کرنے کے لیے کوشش کرنی ہوگی سرپرست حضرات کو تعلیم پر خرچ کرنے کے لیے آمادہ کرنا ہوگا
ہمارے اکثر سرپرست حضرات اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ بس بچے کو اسکول میں داخل کردیا اب ہماری ذمہ داری ختم. ان کو یہ بات سمجھنی پڑے گی کہ والدین و سرپرست حضرات تعلیمی عمل کا ایک اٹوٹ حصہ ہیں انھیں تعلیم پر خرچ کرنے کے لیے آمادہ کرنا پڑے گا ہم دیکھتے ہیں کہ زندگی کے سب معاملات سنجیدگی سے چل رہے ہیں یا چلائے جارہے ہیں لیکن سرپرست حضرات تعلیم کے معاملے میں عدم سنجیدگی کا مظاہرہ کررہے ہیں جس طرح روٹی کپڑا اور مکان زندگی کی اہم ترین ضروریات ہیں اسی طرح تعلیم بھی زندگی کی اہم ترین ضرورت ہے
تعلیمی بیداری کے لیے ملت کے ہر طبقہ کو سامنے آنا ہوگا اساتذہ کو طلبہ کے گھروں تک پہنچ کر تعلیم کا مناسب انتظام کرنا ہوگا ائمہ و ٹرسٹیان مسجد اس سلسلہ میں بہت اہم رول ادا کرسکتے ہیں ہر مسجد کی سطح پر ایک تعلیمی کمیٹی بنائی جانی چاہیے جو مسجد کے اطراف کے گھروں کی تعلیمی صورت حال سے اچھی طرح واقف ہو طلبہ کے تعلیمی مسائل حل کرنے کی کوشش کرے علماء و ائمہ حضرات تعلیم کو اپنے خطبات جمعہ کا موضوع بنائیں محلے یا وارڈ کے کارپوریٹرس یا ممبر حضرات اپنے اپنے علاقے میں تعلیمی بیداری سے متعلق منصوبہ بناکر اس کو نافذ کرنے کی کوشش کریں ملت کے مالدار افراد اس سلسلہ میں اپنا مال خرچ کریں اور سب سے بڑھ کر والدین و سرپرست حضرات زندگی کے دوسرے معاملات پر کم توجہ دے کر تعلیم پر زیادہ سے زیادہ توجہ دیں کیوں کہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ہمارے والدین و سرپرست حضرات نے اس وبا کے دور میں بھی شادی بیاہ , سالگرہ اور مختلف رسم و رواج پر اپنا مال بے تحاشا خرچ کیا ہے اور کررہے ہیں لیکن تعلیم پر ان کو خرچ کرنے کے لیے کہا جائے تو انھیں سانپ سونگھ جاتا ہے
تعلیمی بیداری کے لیے اساتذہ کی مختلف تنظیموں کو آگے آنا چاہیے AIITA آل انڈیا آئیڈیل ٹیچرس اسوسی ایشن مہاراشٹر نے اس جانب اچھی پیش قدمی کی ہے AIITA مہاراشٹر کی جانب سے 15 جون تا 30 جون 2021 ایک تعلیمی بیداری مہم منائی جارہی ہے جس کا عنوان ہے
تعلیم ہماری ہر حال میں جاری
ہمیں چاہیے کہ ہم بھی اس مہم کا حصہ بنیں اساتذہ کی اس تنظیم کے شانہ بشانہ چلیں تاکہ تعلیمی عمل کو عام کیا جاسکے اور جو کچھ ہمارا نقصان ہوا ہے اس کی تلافی کی جاسکے۔