بنگال کو پورے طور پر بدلنے کا خطرناک منصوبہ – Dangerous plan to completely change Bengal

0
117

 

عبدالعزیز
بی جے پی اور آرایس ایس نے بنگال کو اپنی طاقت اور کوششوں سے بہت کچھ بدل دیا ہے۔ خدا نخواستہ انتخاب کے نتیجے میں اگر اقتدار ہاتھ آگیا تو بنگال کی پوری صورت بدل کر بی جے پی رکھ دے گی۔یہاں کے کلچر پر اس کی یلغار ہے۔ ایک بہت بڑے طبقہ کو اپنی فرقہ وارانہ پالیسی اور زعفرانی سیاست۔ سے متاثر کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ 2011ء سے پہلے ہی بی جے پی نے اپنا ہاتھ پیر پھیلا لیا تھا لیکن 2011ء کے بعد اس کیلئے زمین ہموار ہوتی چلی گئی۔ مودی 2014ء میں اقتدار میں آئے تو رفتار میں تیزی آگئی۔ مودی کی فرقہ وارانہ سیاست کا اثر بڑھا چھہ سات فیصد ووٹوں سے بڑھ کر سترہ فیصد ووٹ ہوگیا۔2016ء میں اسمبلی الیکشن میں ضرور گھٹا، دس فیصد ہوگیا مگر تین سال بعد بی جے پی کو غیر معمولی کامیابی ملی ووٹوں کی فیصد چالیس ہوگئی اور لوک سبھا کی 18 سیٹوں پر بھی قابض ہو گئی اور بنگال کی مین اپوزیشن پارٹی بن کر ابھری ۔آج اقتدار کی لڑائی میں اس کا مقابلہ ممتا بنرجی سے ہے۔اس نے ممتا بنرجی کے الیکشن لڑنے کے طور طریقے کو بھی بہت حد تک بدل دیا ہے ۔
آیا رام گیا رام: مغربی بنگال میں پارٹی بدلنے والے لوگ پہلے بھی تھے لیکن بی جے پی کے بنگال میں اثر انداز ہونے سے پارٹی بدلنے والوں کی تعداد اچھی خاصی ہوگئی ہے۔ بی جے پی نے دَل بدلوؤں کی جس طرح حوصلہ افزائی کی ہے۔ پیسے، روپئے اور ہر قسم کا لالچ دے کر اپنی پارٹی میں سیاستدانوں کو درآمد کرنے کی کوشش کی ہے، اس کی مثال مشکل سے ملتی ہے۔ آیا رام گیا رام کی سیاست ہریانہ سے شروع ہوئی تھی۔ملک کی مختلف ریاستوں میں بھی اس کا چلن دیکھنے کو ملتا ہے لیکن مغربی بنگال میں اب یہ سیاست کچھ زیادہ ہی زوروں پر ہے۔ بی جے پی نے 283 امیدواروں کی فہرست میں بھگوڑوں اور غداروں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ 150 غدار ہیں جبکہ 133 بی جے پی کے پرانے ارکان ہیں۔ دو سوالات اس پر کئے جاسکتے ہیں۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیا ایسے غداروں سے اچھے نتائج کی امید کی جاسکتی ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ مودی جی جو ’پَریورتن، پریورتن‘ (تبدیلی) کی بات کرتے رہتے ہیں۔ کیا ایسے لوگوں سے جو بے وفائی میں بدنام ہوں ان سے پریورتن کی امید کی جاسکتی ہے؟
سیاسی شناخت: بنگال میں ذات پات، رنگ و خون،نسل و زبان کی سیاست نہیں تھی؛ لیکن بی جے پی نے مہیش، یاس، تموس، ساہس جیسے پسماندہ ذاتوں کو ریزرویشن دینے کا وعدہ کیا ہے۔ ایسی پسماندہ ذاتوں کی تعداد مشرقی اور مغربی مدنا پور، ہوڑہ اور جنوبی و شمالی چوبیس پرگنہ میں پائی جاتی ہے۔ بی جے پی اور ترنمول دونوں متوا سماج کو بھی اپنے انتخابی فائدے کیلئے اپنی اپنی طرف مائل کر رہی ہیں۔ ان علاقوں میں اسمبلی کی 30 سیٹیں ہیں۔ پرولیا، بانکوڑہ میں کرمیوں کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ ان کو بھی دونوں پارٹیاں اپنی طرف مائل کر رہی ہیں۔ ان دونوں جگہوں میں پندرہ اسمبلی سیٹیں ہیں۔ راج بنسی ووٹ حاصل کرنے کیلئے بھی پنچنم ورما سے وعدے کئے جارہے ہیں اور اس طبقے کو تسلیم کیا جارہا ہے۔ یہ بھولنا نہیں چاہئے کہ یہ مقابلہ لسانی شناخت کی بنیاد پر ہے۔ ممتا نے بہت پہلے ہی اعلان کردیا ہے کہ ان علاقوںمیں بنگالی اور انگریزی کے علاوہ دوسری زبانوں پر مبنی اسکول بھی کھولے جائیں گے۔ ممتا بنرجی نے زبانوں کی ترقی کیلئے’دلت ساہتیہ اکیڈمی‘ بھی بنادی ہے۔ یہاں بھی دوسوالات پیدا ہوتے ہیں۔ کیا ذات پات کی بنیاد پر تصادم اور کشمکش پیدا نہیں ہوگی؟ دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بنگال کو انیسویں صدی کی طرف لے جانے کی کوشش نہیں ہے؟ جبکہ ذات پات کی سیاست کا سایہ بنگال پر موجود تھا۔
مندر کی سیاحت: بایاں محاذ کے سیاست دانوں کو چھوڑ کر تمام سیاسی جماعتوں کے امیدوار یا لیڈران ووٹروں کو رجھانے کیلئے مندر یا ہندوؤں کے مذہبی مقامات کے بڑی تعداد میں درشن کر رہے ہیں۔ ممتا اور شوبھندو نندی گرام میں ایک دوسرے کے خلاف مقابلہ کر رہے ہیں۔ اب تک 25 مندروں میں جاچکے ہیں۔ کیمرہ لے کر جانے اور ماتھے پر تلک لگانے کی بھی مقابلہ آرائی ہورہی ہے۔ ’جئے شری رام‘ اور ’بھارت ماتا کی جئے‘ کے نعروں کی گونج بھی پورے بنگال میں سنائی دے رہی ہے۔ ممتا بنرجی کو اشلوک اور منتر پڑھنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ ممتا پر مسلم نوازی کا الزام لگایا جارہا ہے اور یہ بھی الزام ہے کہ درگا پوجا کے موقع پر مورتیوں کے بھسان پر بھی ممتا حکومت رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔ بی جے پی کے اندر کے لوگ یہ تسلیم کر رہے ہیں اور خوش ہیں کہ مغربی بنگال کی سیاست کو بی جے پی بدلنے میں کامیاب ہے۔ ہندو شناخت اور ہندو قومیت کا چرچا سیاست دانوں کی زبان سے سننے کو مل رہا ہے۔ سافٹ ہندوتو کی پالیسی ممتا اپنانے پر مجبور ہیں۔ بی جے پی ان چیزوں سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ یہاں بھی دو سوال کئے جاسکتے ہیں۔ کیا یہ رجحان تکثیری معاشرہ کیلئے مناسب ہے؟ دوسرا سوال یہ کیا جاسکتا ہے کہ کیا ہندو قومیت کے عروج سے باہمی کشمکش اور تناؤ پیدا نہیں ہوگا؟
مشاورت: بنگال کے سیاسی کھیل میں کرایے پر سیاسی حکمت عملی کے کسی ماہر کو مشاورت کیلئے مقرر نہیں کیا جاتا تھا۔ اس بار ممتا بنرجی نے اس روایت کو توڑتے ہوئے پرشانت کشور اور ان کی کمپنی کو ہائر کیا ہے جس میں روز و شب ایک ہزار مرد اور عورت کام کر رہے ہیں۔ پرشانت کشور 294 حلقہائے اسمبلی کا سروے کرکے بہتر انتخابی حکمت عملی کی کوشش میں مصروف ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہر پارٹی کسی سیاسی مشیر کیلئے اتنی بھاری رقم خرچ کرسکتی ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ روایت مغربی بنگال کی انتخابی سیاست کا حصہ بن جائے گی؟
بی جے پی کا منشور: گزشتہ روز بی جے پی نے اپنا سیاسی منشور ریلیز کیا، جس میں وعدوں کا انبار لگا دیا ہے، لیکن جس پر خاص طور پر فوکس کیا گیا ہے وہ پولرائزیشن ہے۔ مذہبی امور کو بھرپور طریقے سے ابھارا گیا ہے۔ درگا پوجا کے بارے میں کہا گیا ہے کہ پرمیشن لینے اور کورٹ سے بھی اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ کلکتہ ہائی کورٹ نے کوویڈ 19 کی وجہ سے مغربی بنگال میں پوجا پنڈالوں کی تعداد محدود کردی تھی اور بھسان کے دن بھی مقرر کئے تھے۔ پروہتوں کیلئے بھی بہت سی اسکیموں کا اعلان کیا گیا ہے۔ ترنمول کانگریس کے ایم پی سوگتا رائے نے کہا ہے کہ ’’بی جے پی کی سیاست ’پولرائزیشن‘ ہے۔ بہت سی اسکیموں کو جس کو ممتا حکومت عملی جامہ پہنا رہی ہے اس کو بڑھا چڑھاکر بی جے پی نے پولرائزیشن کیلئے مذہبی رنگ دیا ہے‘‘۔
بی جے پی کے لیڈروں کی تقریریں، بیانات اور منشور میں اندراجات سے صاف پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی مغربی بنگال کو فرقہ وارانہ رنگ میں رنگ دینا چاہتی ہے۔ ’سی اے اے‘ کے مسئلے کا بھی مینی فیسٹو میںذکر ہے۔ امیت شاہ نے کہا ہے کہ بنگال میں بی جے پی کی حکومت بنی تو پہلی کابینہ میٹنگ میں ’سی اے اے‘ نافذ کر دیا جائے گا۔ بی جے پی کے کچھ لوگوں کو اس بیان پر سخت تعجب ہوا کیونکہ راجیہ سبھا نے 9 جولائی 2021ء تک اسے نافذ العمل بنانے کیلئے ضوابط پر روک لگا دی ہے۔ تو پھر کیسے پہلی کابینہ میں شہریت ترمیمی قانون نافذ العمل ہوسکتا ہے؟ بی جے پی کے اندر لوگوں کا خیال ہے کہ متوا سماج کو خوش کرنے کیلئے امیت شاہ نے ایسا بیان دیا ہے۔ متوا سماج کے علاقوںمیں اسمبلی کی 25سیٹیں ہیں۔ بی جے پی کی ان 25 سیٹوں پر نظر ہے۔ انتخابی منشور میں بی جے پی نے پوجا اور آرتی کی بھرپور بات کی ہے۔ ان تمام چیزوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ بی جے پی اگر برسر اقتدار آجاتی ہے تو بنگال کا رنگ و روپ کیا ہوگا اور مختلف فرقوں اور ذاتوں میں کیسی کشمکش برپا ہوسکتی ہے۔ ایسی صورت میں بنگال میں رہنے والے ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی سب کو آگے آنا چاہئے اور بنگال کو بی جے پی سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here