حسین قریشی
بڑی محنت اور جد و جہد کے بعد رقیہ کا داخلہ شہر کے مشہور و معروف کالج میں ہوگیا تھا۔ رقیہ بہت خوش تھی۔ وہ اپنے خاندان کی پہلی لڑکی تھی جس نے ڈگری کالج میں داخلہ لیا تھا۔ اِس آرٹس اینڈ سائنس کالج میں داخلہ ملنا آسان نہ تھا۔ یہ کالج مخلوط تھا یعنی یہاں پر ذات پات ، مذہب، لڑکا یا لڑکی اور سماج وغیرہ کی پابندی نہیں تھی۔ سبھی طالب علم داخلے کی درخواست دے سکتے تھے۔ کالج کا نظم و ضبط اور پڑھائی کا انتظام بہترین و مثالی تھا۔ عمدہ عالیشان بلند و بالا بلڈنگ تھی۔ قومی سطح کے ماہرین اساتذہ اکرام تدریسی عمل انجام دیتے تھے۔ اسی وجہ سے بہت ذیادہ درخواستیں موصول ہوتی تھی۔ جوکالج کی داخلے کی اہلیتی تعداد سے کئی گنا ذیادہ ہوتی تھی۔ طلبہ کے بارہویں جماعت میں حاصل شدہ نمبرات اور انکے انٹرویوز کی بناء پر داخلے کی آخری فہرست تیار کی جاتی تھی۔ انٹرویوز میں طلباء کی ہمہ جہت ترقی کے لئے انکی شخصیت اور دیگر ثقافتی سرگرمیوں میں دلچسپی کا مشاہدہ کیا جاتا تھا۔ یہاں داخل طلباء کوحکومت کی طرف سے وظیفہ دیا جاتا تھا۔
جب رقیہ کا نام میریڈ لسٹ میں آیا اور اسکا داخلہ طے ہوگیا تو،رقیہ پھلے نہیں سمائی ، اسکا دل باغ باغ ہوگیا تھا۔ اسنے سب سے پہلے اپنی فرینڈ ‘آرتی’ کو یہ خوشخبری سنائی۔
ہیلو آرتی، آئے ایم ویری ہیپی”
واوو!!!!!! ویری گُڈ،…… بات کیا ہے؟ آرتی نے پوچھا۔
میرا بھی داخلہ،آرٹس اینڈ سائینس کالج میں ہو گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ خوشی سے اچھلتے ہوئے رقیہ نے کہا۔
مینی۔۔۔۔۔۔۔ کانگریچو لیشین!!!!… آرتی نے مبارکباد دی۔ یہ تو بہت اچھی خبر سنائی تم نے ۔۔۔۔۔۔ اب ہم ساتھ ساتھ کالج جائیں گے اور پڑھائی کرینگے ۔ ٹھیک ہے ہم ملتے ہیں۔ اوکے۔۔۔۔ بائے۔۔۔۔
چونکہ آرتی کا داخلہ پہلے ہی ہوچکا تھا۔ رقیہ کے گھر میں بھی خوشیوں کا ماحول تھا۔
سب سے ذیادہ خوشی اسکی ماں مریم کوہوئی تھی۔ جسے صرف پرائمری سطح تک ہی تعلیم دی گئی تھی۔ اپنی بیٹی کو اعلیٰ تعلیم دلانا مریم کی دلی خواہش تھی۔ رقیہ کے والد کا نام صابرتھا۔ جو مزدوری کیا کرتے تھے۔ رقیہ کا ایک چھوٹا بھائی احمد اور ایک بہن اسماء تھی۔ جو ہائی اسکول میں زیرِ تعلیم تھے۔ سبھی مفلسی میں غَیّور زندگی گزار رہےتھے۔ کبھی کوئی تنگدستی و غربت کا شکوہ شکایت نہیں کرتا۔ جسے جو چیز میّسر آتی اسی کو غنیمت سمجھتے۔ خدا کا شکر ادا کرتے تھے اور بخوشی زندگی بسرکرتے تھے۔
کچھ دنوں بعد کالج شروع ہوگیا۔ رقیہ بڑے ہی شوق سے کالج جاتی۔ وہ پڑھائی پر خصوصی توجہ دیتی تھی۔ وہ غیر ضروری کاموں کوترک کرتی تھی۔ جسے دوستوں کے ساتھ با ہر گھومنے جانا، سنیما دیکھنے تھیٹر جانا،پارٹی وغیرہ میں شامل ہونا اسے پسند نہیں تھا۔ آرتی اسکی قریبی دوست تھی۔ وہ اسے بار بار اصرار بھی کرتی کہ وہ باہر کبھی گھومنے چلا کرے۔ رقیہ کہتی کہ میں تمھارے ساتھ آتی ہوں۔ مگر جب لڑکے ساتھ ہوں تو مجھے اچھا نہیں لگتا۔ آرتی اسے مثالوں سے سمجھاتی تو کبھی لڑکے لڑکیوں کی پارٹی کی ویڈیوز دکھاتی۔ جس میں وہ سب موج، مزہ مستی کررہے ہوتے۔ رقیہ کا دل کبھی کبھی اسکے ساتھ جانے کو کہتا ۔ لیکن وہ آخری وقت میں انکار کردیتی تھی۔
آج آرتی نے رقیہ سے کہا، “رقیہ کالج کے سینئر طالب علم ‘آرین’ نے اسکے جنم دن کے موقع پرہم سبھی کو پارٹی کی دعوت دی ہیں۔” تمھیں آنا ہی ہوگا۔ نہیں تو اسے برا لگے گا۔ تم کہو تو میں تمھاری ممی سے بات کرتی ہوں۔ رقیہ نے کہا، پہلے میں گھر پر بات کرتی ہوں۔ اگر ممی نے نہیں کہا تو پھر تم نے بات کرنا۔ آرتی نے کہا ” اوکے”
شام کو ڈینر کے بعد رقیہ نے اپنی ممی سے کہا، کہ ” وہ اپنے سہیلیوں کے ساتھ، کل شام پارٹی میں جانا چاہتی ہے۔ پلیز مما ۔۔۔۔۔۔۔۔ نا مت کہنا۔ میں آرتی کےساتھ جلد ہی واپس آجاؤنگی۔ پلیز ۔۔۔۔۔ پلیز ۔۔۔۔۔۔۔۔ مما ” مریم نے کہا “پارٹی میں کچھ الٹے کام مت کرنا اور جلد ہی واپس آجانا۔” مریم نے اپنی بیٹی کے اصرار پر اجازت دےدی۔ رقیہ نے خوشی سے امی کوگلے لگا لیا۔ اور شکریہ کہا۔
دوسرے دن صبح آرین اور آرتی اپنے دیگر دوستوں کے ساتھ رقیہ کے پاس آئے۔ آرین نے کہا،” تمھیں میری سالگرہ کے جشن کی دعوت ہے۔ ضرور تشریف لائے۔” رقیہ نے ‘ہاں، ضرور’۔ آرین خوش ہوگیا۔ آرتی نے کہا تمھیں پتہ ہے۔ آرین کو تمھاری اردو زبان بہت اچھے سے آتی ہے۔ اسے اردو شاعری بہت پسند ہے۔ رقیہ نے کہا “اردو۔۔۔۔۔۔۔۔” واؤ۔۔ بہت خوب ۔ کیا بات ہے۔ مجھے دعوت دینے میں اس نے اردو الفاظ کہے تھے” آرتی نے اپنی بات جاری رکھی، تم اس سے ملا کرو۔ ہمیں کچھ غلط نہیں کرنا ہیں۔ صرف باتیں ہوتی ہیں۔ ہنسی مذاق ہوتی ہیں اور دوسرا کچھ نہیں ہوتا ہے۔ رقیہ۔۔۔۔ “یہی تو زندگی ہے۔” اور پھر یہ کالج کے دن لوٹ کر آنے والے نہیں ہیں۔ کالج ختم ہونے کے بعد شادی ہوجائیگی۔ یہ لمحات میسر نہیں آنے والے انجوائے اِٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈیئر رقیہ ۔۔۔۔۔ کہتے ہوئے زور دار قہقہہ ۔۔۔۔۔۔ لگایا اور رقیہ کے کندھے پرہاتھ رکھا۔ رقیہ نے مسکرا کر سر ہلا دیا۔ اوکے ۔۔۔۔۔ شام سات بجے ملتے ہیں۔۔۔۔۔پارٹی میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بائے رقیہ۔۔۔۔۔۔۔ کہتی ہوئی آرتی چلی گئی۔ رقیہ بھی گھر کی جانب مڑ گئی۔ رقیہ کے دماغ میں آرتی کی باتیں گونج رہی تھی۔ انجوائے اِٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انجوائے اِٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شادی کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ پل نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ ملنے والے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان خیالوں میں گُم رقیہ گھر پہنچ گئی۔
شام کو آرتی اور رقیہ دونوں پارٹی کے لئے روانہ ہوئے۔ راستے میں آرتی نے ایک گلدستہ خرید لیا۔ اس پر”گِفٹ فروم رقیہ” لکھ دیا اور رقیہ سے بولی تم نے یہ آریَن کودینا۔ رقیہ نے کہا۔۔۔۔۔۔ بَٹ ۔۔۔۔ آرتی بولی کوئی ۔۔۔۔ بَٹ وَٹ ۔۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔۔ اوکے تھوڑی دیرمیں دونوں ہوٹل پر پہنچ گئے۔
پارٹی کی تیاری بہت دلکش تھی۔ گیٹ سے ہی سبز قالین بچھا ہوا تھا۔ دونوں جانب بڑے بڑے حرکاتی رنگین لائٹ جھِلملا رہے تھے۔ مختلف جسامت کے چھوٹے بڑے رنگین غباروں نے سجاوٹ کو خوبصورت و دلکش بنادیاتھا۔ میوزِک شروع تھی۔ کچھ لڑکے لڑکیاں اس سنگیت پر جھوم رہی تھی۔ ہال کے دروازے پر آرین اپنے دوستوں کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا۔ وہ کبھی زور زور سے قہقہے لگا تا اور اپنے دوست کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر تالی بجاتا۔ عمدہ لباس زیب تن تھا۔ جو پُر کشش لگ رہا تھا۔
آرتی نے کہا ۔۔۔۔ ہائےآرین ۔۔۔۔۔۔ ہیپی ہیپی برتھ ڈے ٹو یو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آرتی کے کوہنی سے اشا رہ کرنے پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رقیہ نے بھی ہائے آرین کہا۔۔۔۔۔۔ اور ہیپی ہیپی برتھ ڈے کہا۔ آرین نے ہاتھ آگے بڑھایا۔ تو رقیہ نے دھیرے دھیرے اپنا ہاتھ آرین کے ہاتھ میں دیا۔ رقیہ کی “نظریں آرتی کی طرف تھی۔” آرین نے ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا,” تھینکو ویری مَچ فور کمِنِگ” تشریف رکھیے اور کھانا تناول فرمائیے۔” آرین کے منہ سے اردو کے ایسے الفاظ نے رقیہ کو مرغوب کیا۔ رقیہ نے شکریہ کہہ کر ہاتھ کھینچ لیا۔ یہ سارا ماحول رقیہ کے لئے نیا تھا۔ جو اسے بہت پسند آیا تھا۔ وہ بہت مسرور ہو گئی تھی۔ جلد ہی آرتی اور رقیہ نے کھانا کھایا اور وہاں سے واپس ہوگئے۔
رقیہ کے دماغ میں ‘پارٹی’ کے بارے میں جو غلط سوچ پڑی تھی وہ دور ہوگئی۔ اسے لگا کہ ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ جسے ناچنا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ وہ ناچتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ جسے شراب پینا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ وہ پیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مبارکباد پیش کرو، کھانا کھاؤ اور واپس ہوجاؤ اس میں برائی کچھ نہیں ہے۔
اس کے بعد رقیہ پارٹی میں کبھی کبھار جانے لگی۔ آرتی اسے آرین سے ملاتی۔ آرین اردو کے اچھے اچھے الفاظ کا استعمال کرتا تھا۔ شعر و شاعری سناتا۔ رقیہ کی تعریف کرتا۔ آرتی ، آرین کی بات رقیہ تک اور رقیہ کی باتیں آرین تک پہنچانے لگی تھی۔ کبھی ‘ کافی ‘ کے لئے دونوں رقیہ اور آرین ساتھ جاتے۔ وقت گزرتا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رقیہ کا آرین سے ملنا شروع ہوگیا۔ واٹساپ نمبروں کا تبادلہ ہوا۔ پھر چیٹنگ ۔۔۔۔۔۔ ملاقاتیں شروع ہوئی۔
ایک مرتبہ رقیہ کی ماں کی طبیعت خراب ہوگئی تھی ڈاکٹر نے ایک چھوٹا آپریشن کرنے کے لئے کہا۔ اس وقت آرین ، آرتی کے ساتھ ہسپتال آیا۔ ڈاکٹر سے بات چیت کی اورآپریشن کم خرچ میں کرادیا۔ اس مددکی وجہ سے رقیہ، آرین سے بہت خوش تھی۔ رقیہ کو کب، آرین سے لگاؤ و اپنائیت ہوئی، پتہ ہی نہیں چلا۔ اور یہ اپنائیت ، محبت میں کب تبدیل ہوگئی۔ رقیہ کو اسکا احساس نہیں ہوا۔ اس واقعہ کے بعد آرتی دن رات رقیہ کو آرین کے قصے سناتی رہتی جس سے رقیہ اور ذیادہ آرین کی جانب کھینچی چلی گئی۔
پھر ایک دن پارٹی میں آرین نے ، رقیہ کو کمرے میں اکیلے بلایا اور رقیہ کو محبت کے دریا میں لے ڈوبا۔ رقیہ اپنا سب کچھ آرین کے حوالے کر بیٹھی۔ اپنی عصمت ، اپنا جسم ، اپنی عزت ، اپنا ایمان سب کچھ رقیہ نے محبت کی آگ میں جلا ڈالا۔ جب آگ ٹھنڈی ہوئی تو۔ ہوش آیا کہ “یہ میں نے کیا کردیا۔” افسوس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صد افسوس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے آنسوؤں کی لڑی بہنے لگی۔ قدم جگہ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔ جم گئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جسم سے جیسے جان ہی نکل چکی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب وہ نہ آرتی کو کچھ کہہ سکتی تھی۔ اور نہ ہی آرین کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہوش آنے پر رقیہ نے خود کو قصوروار ٹھہریا۔ اُس نے آرین سے شادی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ آرتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رائے مشورے دینے ۔۔۔۔۔کے لئے حاضر تھی ہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے رقیہ سے کہا کہ “اگر تمھارے والدین اِس شادی کے لئے اجازت نہ دے۔ تو تم نے آریَن سے کورٹ میرِیج کر لینا”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں آریَن کو راضی کر لوںگی۔ تم ٹینشن مت لو۔
بلڈانہ (مہاراشٹر)،