کورونا: انسان ہی نہیں، انسانیت مررہی ہے-Corona: Not just humans, humanity is dying

0
135

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
کورونا کی دوسری لہر نے عام انسانوں کا جینا دوبھر کردیا ہے، ہر روز تین سے چار ہزار لوگ اس مرض کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں، مرنے والے کی آنکھیں یہ کہہ رہی ہوتی ہیں کہ اگر علاج ٹھیک سے ہوتا تو زندگی کے کچھ اور ایام ہمیں مل جاتے، یہ احساس مرنے والے کو ہوتا اور رہتا ہے؛البتہ ہمارا یقین ہے کہ موت ہر وقت آتی ہے اور جب وقت مقرر آجاتا ہے تو کسی نہ کسی بہانے آدمی دنیا چھوڑ دیتا ہے، جتنی بڑی تعداد میں لوگ جارہے ہیں، اس سے دلوں میں گھٹن کا احساس ہوتا ہے اور جانے والے کی یادیں ستاتی رہتی ہیں اور ستاتی رہیں گی۔
انسانوں کی یہ موت یقیناً افسوسناک ہے؛لیکن اس سے زیادہ اس موقع سے انسانیت کی موت نے لوگوں کو دہلا رکھا ہے، کورونا سے مرنے والے کی لاشیں ان کے گھر والے لینے کو تیار نہیں ہوتے، کورونا کی شکار ایک ماں کو اٹھا کر بیٹے نے بیٹی کے دروازہ پر ڈال دیا اور بیٹی نے بھی سسکتی،کراہتی اور بلکتی ماں کی پرواہ نہیں کیا اور بالآخر وہ جاں بر نہیں ہوسکی، خبریں یہ بھی مل رہی ہیں کہ اسپتال میں ڈاکٹرس اور کمپوڈر کورونا متأثر خواتین مریضوں کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں، پٹنہ کے ایک بڑے ہوسپیٹل کے بارے میں ایک خاتون کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کا معاملہ بھی سامنے آیا ہے۔
متأثرہ کی بیٹی نے اس سلسلے میں اف آئی آر درج کرا دیا ہے اور مہیلا آیوگ نے بھی اس کی جانچ کا مطالبہ کیا ہے، اس سلسلے میں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جو ڈاکٹر حضرات کورونا مریضوں سے دوری بنائے رکھنے کی بات کرتے ہیں، بغیر کیٹس لئے قریب نہیں ہوتے، انہوں نے اس گھناؤنی حرکت کو کیسے انجام دیا ہوگا، دوگز دوری ماسک ہے ضروری کے سلوگن کو عام کرنے والے نے آخر کس طرح ان حدود کو پار کیاہوگا، ایک زمانہ میں یہ لطیفہ بھی وھاٹس ایپ پر گردش کررہا تھاکہ لاک ڈاؤن کے زمانہ میں جو بچے پیدا ہوں گے ان کے والدین پر اف آئی آر کیا جائے گا کہ انہوں نے سرکاری ضابطہ کے مطابق دوری بناکر نہیں رکھی، اب یہ جو واقعہ سامنے آیا ہے، اس کو کیا کہیے گا اور کس سے کہی گا، زیادہ کہا سنی کیجئے گا تو آپداقانون کے تحت جیل کی سلاخوں کے اندر ہوئے گا، یہ صرف تخیل نہیں، واقعہ ہے، یوپی میں خاص کرکے کتنے لوگ اسی ناکردہ جرم کی سزا کاٹ رہے ہیں،وہ مزدوربھی گرفتار کرلیے گئے ہیں؛جنہوں نے حکومت کے خلاف پوسٹر چپکانے کا کام کیا تھا، قصوران کا نہیں، لاک ڈاؤن میں پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے چند روپیوں کے حصول کا تھا۔
کئی واقعات ایسے سامنے آئے، جس میں علاج کے بدلے تیماردارخواتین پر غلط نگاہ ڈاکٹر اور کمپاؤڈر نے ڈالی اور ان سے اپنے متعلقین کی جان بچانے اور علاج صحیح کرنے کی غرض سے جسمانی تعلق کا مطالبہ رکھا، اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر ایک کلپ وائرل ہوا، جس میں عورت نے اپنے شوہر کے علاج کی کہانی سنائی کہ کمپاؤڈر نےشوہر کے سامنے ہی اس کا دوپٹہ کھینچ لیا ؛جس سے اس کے شوہر کی حالت بگڑ گئی، بعد میں کھل کر اس کے سامنے ہوس بجھانے کی تجویز بھی رکھی گئی، یہ اور اس قسم کے دوسرے واقعات بتاتے ہیں کہ انسان ہی نہیں مررہے ، انسانیت بھی مرتی جارہی ہے، رشتے، رابطے سبھی کچھ مررہے ہیں، اور کورونا اپنے ساتھ سارے سماجی تعلقات اور بندھن بہاکر لے جارہا ہے۔
ابھی حال ہی میں سینکڑوں کی تعداد میں گنگا کنارے لاشوں کے ملنے کا واقعہ سامنے آیا، یہ لاشیں بکسر ضلع کے چوسا گاؤں میں گنگا کنارے پائی گئیں، اکتہر لاشوں کا پوسٹ مارٹم کیا جاسکا؛لیکن اس کی رپورٹ یہ کہہ کر منظر عام پر نہیں لائی گئی کہ یہ اس قدر بوسیدہ اور قدیم تھیں کہ جانچ میں موت کی وجہ کا پتہ ہی نہیں چل سکا، ظاہر ہے اس بات پر کون یقین کرے گا اور کس طرح کرے گا؛جب بوسیدہ ہڈیوں کی جانچ اور ڈی ان اے ٹسٹ سے برسوں کے بعد حقائق کا پتہ چلا لیا جاتا ہے تو یہ تو زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ پرانی لاشیں رہی ہوں گی، حکومت کہتی ہے یہ لاشیں پڑوسی صوبے سے بہہ کر یہاں آگئی تھیں، گھاٹ پر آخری رسومات ادا کرنے والے پنڈت اور لاش کو ٹھکانے لگانے پر مامور افراد کہتے ہیں کہ یہ لاشیں یہیں ڈالی گئی تھیں، کیوں ڈالی گئی؟اس لیے کہ اس کو جلانے اور پنج تنترمیں ویلیین کرنے کے لئے لکڑیاں دستیاب نہیں تھیں، اور اگر دستیاب تھیں تو ان کو خریدنے کی قوت ان کے وارثوں کے پاس نہیں تھی، اس لیے بعض لاشوں کو مکھ اگنی کرکے دریا میں ڈال دیا گیا؛بعض کے ساتھ یہ بھی ممکن نہیں ہوا؛چنانچہ انہیں دریا برد کر دیا گیا ، ان میں کئی لاشیں وہ تھیں جن کے وارثوں نے لینے سے انکار کردیا اور اس کا انتم سنسکار کرنا اسپتال والوں کے لیے ممکن نہیں ہوسکا؛چنانچہ انہیں بھاری پتھر وغیرہ باندھ کر دریا کی نظر کردیا گیا ؛لیکن وہ پھول کر اوپر آگئیں، سرکار نے ان لاشوں کو جے سے بی کے ذریعہ گڈھا کھود کر دفن کروا دیا ، دریا میں لاشوں کی وجہ سے گنگا اور میلی ہوگئی، جس کی صفائی پر برسوں سے کروڑوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں۔
یہ وہ واقعات ہیں جو مہذب سماج کو شرم سے پانی پانی کرنے کے لیے کافی ہیں ؛لیکن سماج میں جو بے حسی آگئی ہے اس نے دیدہ کے پانی کو ہی ختم کردیا ہے اب شرم ہی نہیں آتی، پانی پانی ہونا تو بہت دور کی بات ہے۔
٭٭٭
(نائب ناظم امارت شرعیہ بہار و اڈیشہ و جھارکھنڈ)

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here