لکشادیپ کو کشمیر بنانے کی سازش-Conspiracy to make Lakshadweep Kashmir

0
149

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں

Conspiracy to make Lakshadweep Kashmirڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
کورونا بحران سے ہندوستان کا برا حال ہے۔ عالمی برادری نے اسے اچھوت بناکر رکھ دیا ہے۔ مودی جی کا امیج آسمان سے زمین پر آچکا ہے۔ اور بی جے پی کے قائدین اور کارکنوں نے ابھی تک اس سے سبق نہیں لیا بلکہ وہ حکومت کی ناکامیوں کی پردہ پوشی اور عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے حالات کو فرقہ وارانہ نفرت، دشمنی اور کشیدگی میں بدلنے کے درپے ہے۔ یوگی حکومت کی نااہلی مسلم دشمن رویے کے باوجود گنگا میں تیرتی لاشوں نے ان کا جو امیج بنادیا ہے‘ وہ عبرتناک ہے۔ اب ان کے نقش قدم پر پرافل کھوڑا پٹیل چل رہے ہیں۔ ایک داغدار کردار کے حامل گجرات کے سابق وزیر داخلہ جنہیں صدر جمہوریہ ہند نے لکشادیپ کا اڈمنسٹریٹر مقرر کیا ہے‘ اور وہ ایک جنت ارضی کو جہنم بنانے کے درپے ہے۔ جو کام کشمیر میں جگموہن نے کیا تھا‘ پٹیل لکشادیپ میں کرنا چاہتے ہیں۔
لکشادیپ‘ کیرالا سے 400 کیلو میٹر کے فاصلے پر 36جزائر پر مشتمل ایک ایسا خطہ ارضی‘ جسے ہندوستان کے خوبصورت ترین مقامات سے ایک کہا جاسکتا ہے۔ ان 36میں سے صرف 10جزائر میں آبادی ہے۔ اور صرف پانچ جزائر میں سیاحوں کو آمد و رفت کی اجازت ہے۔ اسکی آبادی صرف 70ہزار ہے۔ پٹیل کی آنکھوں میں یہ اس لئے کھٹک رہاہے کہ 96فیصد آبادی مسلمان ہے۔ جہاں کی جیل میں کوئی مجرم نہیں‘ جہاں شراب واقعی حرام سمجھی جاتی ہے‘ جہاں ہندو 2فیصد ہے مگر مسلمانوں کے ساتھ گھل مل کر رہتے ہیں۔ یہاں کبھی کوئی فرقہ وارانہ واقعہ پیش نہیں آیا۔ حتیٰ کہ پورے ملک میںکورونا بحران تھا‘ لکشادیپ اس سے محفوظ تھا‘ مگر پٹیل نے یہاں جو قوانین نافذ کئے ہیں‘ اس سے اس جنت ارضی جہنم بننے میں کوئی کسر نہیں رہ گئی۔ سب سے پہلے ان کے اقدامات کی وجہ یہاں کورونا پھیل گیا۔ 6ہزار سے زائد افراد متاثر ہوچکے ہیں اور 24افراد کی موت کی اطلاع ہے۔
پٹیل نے یہاں کے اسکولس اور ہاسٹلس کے خوراک میں گوشت کو ممنوعہ قرار دیا۔ بیف غیر قانونی قرار دیا گیا۔ سیاحت کے فروغ کے نام پر شراب کے لائسنس جاری کردیئے گئے۔ سرکاری ملازمتوں سے 2000 سے زیادہ عارضی ملازمین کو نکال دیا گیا۔ ماہی گیروں کے جھونپڑیوں ان کے مچھلی کے شکار کے ساز و سامان کو تباہ و برباد کردیا گا۔ 38آنگن واڑی سنٹرس کو بند کردیا گیا۔ یہاں کی مذہبی اور ثقافتی روایت کو پامال کرنے کی اس نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لکشادیپ چوں کہ کیرالا سے قریب ہے‘ اور کیرالا کے اثرات یہاں کے عوام پر ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ ایک یونانی سیاح نے پہلی صدی عیسوی میں اس کا پتہ چلایا تھا اور اسے کچھوے کے خول سے تعبیر کیا تھا۔ مارکوپولو 13ویں صدی میں یہاں قدم رکھاتھا۔ اس سے پہلے ساتویں صدی عیسوی میں جب مبلغین اسلام کیرالا آئے تھے تو انہیں کی بدولت لکشایپ میں بھی اسلام پھیل چکاتھا۔ وکی پیڈیا کے مطابق 1100ء سے پہلے مالابار ساحل پر واقع ایک چھوٹی سی ہندو ممکت نے اِن جزائر پر قبضہ کرلیا تھا۔ 1102ء میں کیرالا کے کولاشیکھر خاندان کی حکومت کا زوال ہوا۔ کولاتھری خاندان کی حکومت قائم ہوئی۔ 1200ء کے اواخر میں کولاتھری کی ایک شہزادی نے ایک مسلمان سے شادی کی اور ایک علیحدہ مملکت کنور قائم کی جس کا موجودہ نام کنانور ہے‘ جس میں لکشادیپ شامل تھا۔ لکشادیپ کے ملیالم اور سنسکرت میں معنی ہے‘ 100ہزار جزائر یا ایک لاکھ جزائر۔ ایک عرصہ تک یعنی ٹیپو سلطان کے 1799ء میں شہید ہونے تک یہ علاقہ شیرمیسور کی مملکت میں شامل تھا۔ اس کے برطانوی سامراج کے تسلط میںآگیا۔ تاہم یہاں کے مسلم خواتین حکمران اور ان کے شوہر نے سالانہ رقم کی عوض انہیں اپنے اقتدار میں شال کیا 1908ء میں یہ جزائر باقاعدہ برطانوی سامراج کے زیر اثر آگئے۔ 1947 میں ہندوستان کی آزاد کے بعد یہ ہندوستان کا حصہ بن گیا۔ 1956ء میں اسے مرکز کا زیر انتظام علاقہ قرار دیا گیا۔ 1967 پہلی بار یہاں انتخابات ہوئے اور پی ایم سعید مسلسل 10مرتبہ (1967 سے 2005ء تک) کانگریس کے رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے منتخب ہوتے رہے۔
ان کے انتقال کے بعد ان کے فرزند حمداللہ سعید نے نمائندگی کی فی الحال مسٹر محمد فیصل یہاں کے رکن پارلیمنٹ ہیں۔لکشادیپ اور اس کے دوسرے جزائرمرجان کی خوبصورت چٹانوں کیلئے ساری دنیا میں مشہور ہے۔ اُن چٹانوں نے بحیرۂ عرب میں رکاوٹیں کھڑی کرکے ان جزائر کی بنیاد رکھی ہے۔ یہ سیاحوں کے لئے ہمیشہ سے توجہ کامرکز رہا ہے۔ مجموعی طور پر لکشادیپ ہندوستان کا سب سے زیادہ پُرامن علاقہ رہا ہے۔ اور پٹیل نے امن کو درہم برہم کردیا۔ کورونا کو پھیلانے کے وہ ذمہ دار ہیں۔ اس وقت لاک ڈائون ہونے کی وجہ سے یہاں کی عوام فی الحال خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں مگر نہ صرف لکشادیپ بلکہ کیرالا میں اڈمنسٹریٹر پٹیل کے خلاف زبردست غم و غصہ ہے۔اور احتجاج ہورہاہے۔ تقریباً سبھی سیاسی جماعتوں نے صدر جمہوریہ اور وزیر اعظم سے اڈمنسٹریٹر کو ہٹانے مطالبہ کیا ہے۔ اب تک یہ تاریخ رہی ہے کہ اڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے آئی اے ایس ا ٓئی پی ایس آفیسر کا تقرر کیا جاتارہا مگر اس مرتبہ صدر جمہوریہ نے ایک ایسے سیاست دان کو یہ ذمہ داری جس کا ماضی سوالیہ نشان ہے۔ گجرات کے وزیر داخلہ کی حیثیت سے اس کا ریکارڈکیا ہے؟ وہ سب جانتے ہیں۔ اسے صرف لکشادیپ ہی نہیں بلکہ ایک اور مرکزی زیر انتظام علاقہ دمن و دیو، دادرا اور ناگر حویلی کا بھی اڈمنسٹریٹر مقرر کیا ہے مگر جس طرح چیل کی نظر مردار پر ہوتی ہے اُسی طرح پٹیل کی نظر لکشادیپ پر ہے جہاں وہ گجرات کے ریئل اسٹیٹ ٹریڈرس کے لئے دولت کمانے کے مواقع فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے LDAR کو متعارف کروایا جس سے حکومت کو اختیار رہے گا کہ وہ منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد کو اپنے قبضہ میں لے سکتی ہے۔ یا فروخت کرسکتی ہے۔ہر تین سال میں ایک مرتبہ اپنے اثاثہ جات کی تنقیح بھی لازم قرار دی گئی ہے جس سے مقامی افراد میں خوف و دہشت کا ماحول ہے۔ جس سرزمین پر کبھی کوئی جرم نہیں ہوا‘ وہاں غنڈہ ایکٹ یا PASA نافذ کردیا گیا۔ایک طرح سے ایسا لگتا ہے گویا وہ لکشادیپ میں بھی شورش جیسے حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اور اُس پر قابو پانے کے بہانے سے یہاں کے مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جائیںگے۔پٹیل دودھ سے دھلاہوا نہیں ہے۔ فروری میں دادر اور ناگرحویلی کے ا یم پی موہن دیلکر نے خودکشی کرلی تھی۔ اور جو نوٹ لکھ چھوڑا تھا اس میں ان کی موت کے ذمہ دار کے لئے جن افراد کو ذمہ دار ٹھہرایا ان میں سے ایک لکشادیپ کا اڈمنسٹریٹر پرٹیل بھی ہے۔ دیلکر کے فرزند ابھینو نے پولیس میں جو شکایت درج کی ہے‘ اس میں الزام عائد کیا کہ پٹیل نے ان کے والد کو 25کروڑ روپئے ادا کرنے کے لئے کہا تھا ورنہ انہیں دھمکی دی تھی کہ وہ کسی جھوٹے الزام میں انسداد مخالف غیرسماجی سرگرمیوں قانون PASA کے تحت پھنسادیںگے۔ ممبئی پولیس نے پٹیل کے خلاف مارچ میں ایف آئی آر بھی درج کی تھی اور حکومت مہاراشٹرا نے ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل بھی دی تھی مگر آگے کیا ہوا کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ سی پی آئی ایم، این سی پی، کانگریس، این یونین مسلم لیگ نے پٹیل کے ڈاکٹیٹرشپ کے خلاف آواز اٹھائی اور صدر جمہوریہ کو مکتوب لکھا۔ کیرالا کے سی پی ایم سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمنٹ جناب کریم نے صدر جمہوریہ ہند کو لکھا کہ پٹیل کا فرقہ پرست پس منظر ہے اور اس نے جیسے ہی اڈمنسٹریٹر لکشادیپ کا جائزہ لیا اپنی پراگندہ سیاست شروع کردی ہے۔انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ لکشادیپ کے لئے کیرالا کی کوچی سب سے اہم بندرگاہ ہے مگر پٹیل کی کوشش ہے کہ وہ تمام سرگرمیاں منگلور کو منتقل کردیں جو کرناٹک میں ہے‘ جہاں بی جے پی کا اقتدار ہے‘ وہ کیرالا سے لکشادیپ کے تمام تعلقات اور روابط کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ کیرالا خاموش نہیں رہے گا۔ کیوں کہ کیرالا اور لکشادیپ کا ہمیشہ سے گہرا تعلق رہا ہے۔ لکشا دیپ کے رکن پارلیمنٹ محمد فیصل نے تحفظ جانور ایکٹ کے نفاذ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک ایسے وقت انسانی جانوں کا تحفظ اہم ہے۔ پٹیل کو جانوروں کی فکر ہے۔ انہوں نے پٹیل پر مقامی افراد میں بے روزگاری کو برھاوا دینے کا الزام عائد کیا۔ کیرالا کے ممتاز عالم دین حضرت ابوبکر بانی مرکزجامعۃ الثقافۃ السنیہ نے صدر جمہوریہ اور وزیر اعظم کے نام اپنے مکتوب میں اڈمنسٹریٹر کے رویے، پالیسیوں اور انکے قوانین پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مذمت بھی کی۔
بی جے پی کے دورِ اقتدار میں کشمیر کے جو حالات کردیئے گئے ہیں‘ اس نے ہندوستان کی ساکھ کو متاثر کیا ہے۔ اب لکشادیپ کے حالات اگر خراب ہوتے ہیں تو یہ حالت اور بگڑ سکتے ہیں۔ لکشادیپ ہمیشہ غیر متنازعہ رہا۔ 96% مسلم آبادی کے باوجود نہ کبھی موافق پاکستان مظاہرے ہوئے اور نہ ہی پاکستان نے کبھی دعویٰ کیا۔ بلکہ مسلم مملکت مالدیپ سے بھی اس کی دوری ہے۔ جو فاصلے کے اعتبار سے بہت قریب ہے۔ بی جے پی کو اپنی فرقہ پرست پالیسی ترک کرنی ہوگی۔ کورونا بحران کے دوران انہیں تجربہ ہوچکاہے کہ رام مندر کا سنگ بنیاد رکھنے کے باجوود خود ایودھیا میں بی جے پی کو پنچایتی انتخابات میں نہ صرف شکست ہوئی بلکہ ایک مسلمان صدر پنچایت بھی بن گیا۔ مذہبی نعروں کے سہارے اقتدار کی کرسی تک پہنچ گئے مگر اب یہی نعرے کرسی چھین سکتے ہیں۔ اس وقت انسانیت کو بچانے کاوقت ہے۔ ایسے دور میں پٹیل جیسے عناصر ہندوستانی سیکولر کردار پر ایک بدنما داغ ہیں اور ان کی وجہ سے صدر جمہوریہ ہند کی شبیہ بھی متاثر ہوتی کیوں کہ انہوں نے اس کا تقرر کیا۔ وزیر اعظم کی امیج تو ویسے بھی متاثر ہوچکی ہے۔ یہ وقت اپنے ملک کے سیکولر کردار کے تحفظ کا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے پٹیل کے خلاف خودکشی کرنے والے الزامات کی تحقیق کروائی جائے اور تحقیق مکمل ہونے تک انہیں اس کے عہدہ سے برطرف کیا جائے۔
٭٭٭
ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی‘ حیدرآباد
۔ فون: 9395381226

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here