اہم مسئلوں پر اتفاق رائے ضروری- Consensus is needed on important issues

0
121

Consensus is needed on important issues

عتیق احمدفاروقی
ہمارے ملک میں کسان تحریک 100دنوں سے زیادہ عرصے سے چل رہی ہے۔ متعدد بار کسان لیڈران اورحکومت کے مابین مذاکرات ہونے کے باوجود تعطل قائم ہے۔ جوعناصراس تحریک کی حمایت کررہے ہیں انہیں ڈرانے دھمکانے کیلئے سخت دفعات کے تحت جیل کی سلاخوں کی پیچھے ڈال دیاجارہاہے۔ ہماری عدالتوں کے مختلف فیصلے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارا قانونی ڈھانچہ انگریزوں کا مرتب کیاہواہے اوراب حالات بدل چکے ہیں اِس لیے اس میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ عدالتوں نے بے حساب لوگوں کو ثبوت نہ ملنے کی وجہ سے یا ناکافی ثبوت ہونے کی وجہ سے باعزت رہاکردیاہے لیکن نوجوانوں کی زندگی کے دس ، پندرہ،یا بیس سال جوبرباد ہوچکے ہیں اس کی بھرپائی کیسے ہوگی؟ایسے بہت سے واقعات منظرعام پر آئے ہیں۔جہاں بے گناہ ملزمین کو غیرضمانتی دفعہ لگاکر گرفتارکرلیاگیااور انہیں ضمانت پر رہاہونے میں مہینوں لگ گئے۔بیرونی ممالک میں ایسے بے گناہوں کو مناسب معاوضہ دینے کا التزام ہے اورذمہ دار ملازمین کو سزا دینے کا قانون ہے۔ابھی ہم لوگ اس معاملے میں بہت پیچھے ہیں ۔ دشاروی جوکہ کسان تحریک کی حمایتی رہی ہے ،کو ضمانت مل گئی ہے لیکن یہ معاملے ابھی بھی چرچے میں بناہواہے۔ بیرونی ممالک میں بھی اس کی چرچاچل رہی ہے۔اِن معاملات میں بنیادی مدعہ اظہار خیال کی آزادی ہے۔اِس پر بہت سکون کے ساتھ غور کرنا ہوگا تاکہ آئینی اقدار کے ساتھ ہی صحیح توازن بنارہے تبھی ہم قومی مفاد کو پوراکرپائیں گے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ اگر سیاسی طبقہ اورشہری معاشرہ اِس پر سیاست کریں گے تو ملک کے فوری اورمستقبل کے دونوں ہی مفاد کو نقصان پہنچے گا۔ہندوستانی آئین میں مختلف قوانین اورحکومت کے فیصلوں کے خلاف پرامن مظاہرہ کا اختیار سبھی شہریوں کو دیاگیاہے۔اِس کے ذریعے مظاہرین بنیادی میڈیا یاسوشل میڈیا کے ذریعے اپنے قانون مواقف خیالات کی تشہیر کرسکتے ہیں ۔یہ کسی فرد یاگروپ پر منحصر ہے کہ وہ اپنی تحریک سے جوڑنے کیلئے کن افراد یاگروپ سے رابطہ کرتے ہیں۔بس اِس بات کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ جس تنظیم کی حمایت حاصل کی جائے وہ حکومت کی جانب سے ممنوع نہ ہواورنہ ہی وہ تشدد کو بڑھاوادیتاہو۔پُرامن مظاہرین عام طور پر اِس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ وہ ممنوع یا تشدد پسند گروپ کا تعاون نہ حاصل کریں ۔ اس معاملے میں انہیں پوری طرح سے محتاط رہنا چاہیے ۔
دیشاروی معاملے میں ایک سوال یہ بھی کھڑا ہواہے کہ اگر مظاہرین بیرونی افراد یاگروپ کی حمایت حاصل کرنا چاہیں تواس سلسلے میں کیا نظریہ ہوناچاہیے؟اس مسئلے کو بھی بہت ہوشیاری سے دیکھنا ہوگا۔موجودہ بین الاقوامی تناظر کی روشنی میں کہاجاسکتاہے کہ آج سبھی طرح کی غیرسرکاری تنظیموں یا این-جی-او ز سے ملکر بناعالمی شہری فرقہ زیادہ سرگرم ہے۔ان میں سے زیادہ تر تنظیمیں پوری طرح سے آزاد ہوتی ہیں۔ان پر عملی طور پر کسی کا کنٹرول نہیں ہوتا۔اُن کا اپنا ایک خاص ایجنڈہ بھی ہوتاہے۔اِس ایجنڈے کے تحت وہ سماجی ،اقتصادی ،سیاسی ،حالاتی اورانسانی حقوق جیسے مدعوں پر بین الاقوامی سوچ کو متاثرکرناچاہتے ہیںلیکن کئی معاملوں میں وہ آزاد ہونے کا ڈرامہ کرتے ہیں لیکن ان کی کمان بالواسطہ کسی ملٹی نیشنل کمپنی یا کسی مخصوص ملک کی خفیہ ایجنسی کے ذریعے حکومتوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ جو اُن کے ذریعے سے اپنے مفاد کو پورا کرتے ہیں ۔ایسے این-جی-اوز کاقیام اوران کی ہمت افزائی کے پیچھے اکثرگہرے راز چھپے ہوتے ہیں۔ اِن این-جی-اوکے تمام ارکان تک کو اُن کے حقیقی مقاصد کا علم نہیں ہوتا۔وہ ان -این -جی-اوزکے مالکان سے بھی پوری طرح واقف نہیں ہوتے ۔صنعتی دنیا میں حریفوںکے مفاد کو نقصان پہنچانے کیلئے بھی اکثرایسے غلط کھیل کھیلے جاتے ہیں۔ہندوستان میں بھی صنعتی پروجیکٹوں کے خلاف ماحولیاتی اداروں کے احتجاج ومظاہرے ہوئے ہیں۔ کچھ معاملوں میں مظاہرین کی فکریں حقیقی تھیں تودوسری طرف کچھ معاملے ایسے بھی سامنے آئے ہیں جہاں ہندوستان کے باہر ایسے عناصر کی حمایت حاصل تھی جن کا مقصد ملک میں ترقیاتی کاموں میں روڑے اٹکاناتھا۔جب کوئی ملک پردے کے پیچھے سے کسی این-جی-او کو آگے بڑھائے تو اُس کی آڑ میں اُس کا مقصد حریف ملک کو نقصان پہنچاناہوتاہے۔یقینا دشمن ممالک اِس طرح کا کام کرسکتے ہیں لیکن موجودہ حالات میں حکمراں جماعت نے مختلف مدعوں پر جوموقف اختیار کیاہے خصوصاًکسان تحریک کو اگر شاٹ لسٹ کیاجائے تواِس تحریک کو کمزور کرنے کیلئے توچین اورپاکستان پر کسانوںکو بھڑکانے کا الزام لگایاجاسکتاہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ کسانوں کا داخلی معاملہ ہے ، اِس میں دخل دینے سے چین یاپاکستان کو کچھ خاص ملنے والا نہیں ہے۔ کسانوں نے متعدد بار اپنے اِس موقف کو دہرایاہے کہ اُن کی تحریک کے پیچھے نہ تو حزب اختلاف کا ہاتھ ہے اورنہ ہی پاکستان اورچین کا اِس سے کچھ لینادیناہے۔
ہندوستان سمیت دنیا کاکوئی بھی ملک خود کو بین الاقوامی شہری معاشرہ سے کاٹ کر نہیں رکھ سکتا۔ ایسے میں ہندوستانی حکومت اپنے شہری معاشرہ کو یہ ہدایت نہیں دے سکتی کہ اُس کا بیرونی این-جی-او سے کوئی رابطہ نہیں ہوگا۔ جہاں انٹرنٹ پر مبنی ذرائع ابلاغ کے آنے سے ایسے کسی روابط پر نظررکھنا مشکل ہے وہیں ہندوستان ایک جمہوری ملک بھی ہے۔ لاکھوں ہندوستانی دنیا کے مختلف ممالک میں رہتے ہیں ۔ ایسے میں اصولی طور پر ہندوستانی شہری معاشرہ کی سرگرمیوں میں تعطل پیدا کرنا اوراُسے کنٹرول کرنا مناسب نہیں ہوگا۔اِس کے ساتھ ہی ہندوستان کو یہ بھی یقینی بناناہوگاکہ ایسے کسی بھی قواعد سے ہندوستان کے بنیادی قومی مفاد کو نقصان نہ پہنچے۔ سبھی جماعتوں اور ہندوستانی شہری معاشرہ کے ذریعے قومی اتفاق رائے بناناہوگا۔ ملک میں بڑھتی ہوئی فکری نااتفاقیاں اورتلخ ہوتی سیاست کے دور میں یہ ضروری ہی نہیں بلکہ لازمی ہے۔ اِس وقت سبھی جماعتوں کو آئین میں دیے گئے پرامن احتجاج ومظاہرے کے اختیار کی حمایت متحدہ طور پر کرنی چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کو قومی فروغ کے عمل کی ایک مشعل کی شکل میں فعال اورسرگرم شہری معاشرے کی ترقی کیلئے پرامن رہنے کا عہد کرناچاہیے۔ عالمی شہری معاشرہ سے کڑی جوڑنے کے شہری معاشرہ کے اختیار پر سوال نہیں کھڑے کرنے چاہئیں۔ سیاست میں سرگرم کارکنان بھی اِس بات کا خیال رکھیںکہ کہیں این-جی-او اپنے ایجنڈے کیلئے قومی مفاد کے خلاف اُس کا استعمال تو نہیں کررہے ہیں۔یہ بات تب اور اہم ہوجاتی ہے جب کوئی احتجاج ومظاہرہ ہندوستان کے داخلی معاملوں کو متاثرکرنے والاہو۔کسانوں کااحتجاج گودی میڈیا کے مطابق ایساہی ایک مسئلہ ہے۔ کہاجاتاہے کہ ہندوستان کی زرعی پالیسی اُس کا اپنا مسئلہ ہے اوریہاں تک کہ ڈبلیو -ٹی-او کے دور میں بھی یہ حقیقت نہیں بدل سکتی۔ حکمراں جماعت اورگودی میڈیا اپنی سیاسی سہولت کے مدِّنظر جو بھی موقف اختیار کرے لیکن ڈبلیو-ٹی-او کے دورمیں حالات میں کچھ تبدیلی ناگزیر ہے۔
یہ بات عام ہے کہ حکومت شہری معاشرہ کو اُن کچھ بیرونی این-جی-اوزکی حقیقت سے واقف کرادے جوماضی میں ملک مخالف سرگرمیوں میں شامل رہے ہیں۔ اگرضرورت ہو تو اِس مقصد کی خاطر نئے قوانین بنائے جاسکتے ہیں۔ آخرہندوستانی سیاسی برادری اورملک کے شہری معاشرہ کامشترکہ مقصد اپنے شہریوں کی بہبودی ہی ہے بھلے ہی اِس کیلئے اُن کی راہیں الگ کیوں نہ ہوں۔ میرا مانناہے کہ مختلف شکل وصورت والی سیاست کے باوجود ہندوستانی سیاسی طبقہ محب وطن ہے یااُسے محب وطن ہونا چاہیے۔حکمراں جماعت حب الوطنی کا نعرہ سب سے زور سے بلندکرتی ہے لیکن بہت سے ایسے کام جو اُس نے کیے ہیں وہ اب معاشرے کو توڑنے کے مترادف ہیں ۔ہماراشہری معاشرہ بھی عام طور پر محب وطن ہے۔لیکن تقسیم کی سیاست نے چند افراد کو غلط راہ اختیار کرنے پر مجبور کردیاہے۔ ملک کے جوموجودہ حالات ہیں خصوصاً جب اپنا ملک دفاعی ،اقتصادی اوردیگر مورچوں کے چیلنج سے نبردآزماہوتب مذاکرہ اورنرم رویہ کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ اگرحکومت اہم مدعوں پر متشددرخ پر قائم رہتی ہے تواس سے عوام کے مفاد کو ہی نقصان پہنچے گا۔اِس سے صرف دشمن پڑوسی ممالک کو ہی فائدہ پہنچے گا۔یہ وقت ہندوستان کے سیاسی لیڈران اور شہری معاشرہ کے رہنماؤں کے ذریعے خلیج کومٹانے اوراتفاق رائے پیدا کرنے کا ہے۔
سبکدوش پرنسپل ،ممتازپی-جی-کالج لکھنؤ
9161484863

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here