چین نے ایسی مسافر ٹرین کا پروٹوٹائپ ماڈل متعارف کرایا ہے جس کی رفتار 385 میل فی گھنٹہ ہوگی۔
385 میل فی گھنٹہ کی رفتار اتنی زیادہ ہے کہ یہ بیجنگ سے شنگھائی کے درمیان کا فاصلہ محض 3 گھنٹے میں طے کرنا ممکن ہوجائے گا جبکہ لاہور سے کراچی کا فاصلہ یہ ٹرین 2 گھنٹے سے بھی کم وقت میں طے کرسکے گی۔
یہ ٹرین مقناخیزی نظام کے تحت سفر کرے گی یعنی ٹرین پٹری کے مقناطیسی میدان پر ہوا میں معلق ہوکر چلتی ہے۔
چین میں اس طرح کا دنیا کا تیز ترین کمرشل مقناخیزی سسٹم کام کررہا ہے جو اس وقت 267 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کی سہولت شنگھائی ائیرپورٹ سے شہر کے وسط تک فراہم کرتا ہے۔
یہ نئی ٹرین ہائی ٹمپریچر سپرکنڈکٹنگ (ایچ ٹی ایس) پاور پر سفر کرے گی، جس کے باعث مقناطیسی ٹریک پر بہتی ہوئی محسوس ہوگی۔
21 میٹر طویل پروٹوٹائپ ماڈل کو چنگڈو شہر میں 13 جنوری کو متعارف کرایا گیا۔
اس ٹرین کے لیے 165 میٹر طویل ٹریک بھی تیار کیا گیا تاکہ دیکھا جاسکے کہ یہ ٹرین کس طرح سفر کرسکتی ہے۔
اس موقع پر ماہرین نے بتایا کہ اس طرح کی ٹرین 3 سے 10 سال کے دوران آپریشنل ہوسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چین کا یہ صوبہ ایسی معدنیاتی وسائل سے مالامال ہے جو مقناطیسی ٹریکس کی تعمیر کے لیے مددگار ہیں، جس تجرباتی ٹرینوں کو جلد حقیقی شکل دینے میں مدد ملے گی۔
رواں ماہ کے شروع میں چین نے ایسی بلٹ ٹرین بھی متعارف کرائی تھی جو انتہائی سرد موسم میں بھی بہت تیزرفتاری سے سفر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
سی آر 400 اے ایف۔ جی نامی ٹرین منفی 40 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں بھی 350 می فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرسکتی ہے۔
اس ٹرین کو گزشتہ دنوں بیجنگ میں متعارف کرایا گیا تھا جو چین کے دارالحکومت سے شمال مشرقی حصوں کی جانب سفر کرے گی جس میں ہربن بھی شامل ہے، جہاں کا ہر سال ہونے والا آئس فیسٹیول بہت مشہور ہے۔
حکام نے فی الحال اس ٹرین کے آپریشنز کے آغاز کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا۔