:ندیم احمد انصاری
سر سید احمد خاں( ۱۸۱۷ء تا۱۸۹۶ء) ایک عہد آفریں شخصیت تھے۔ قدرت نے اُنھیںمتعدد اور ہمہ جہت صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ قومی مصلح، عظیم تعلیمی رہنما ارو مدبّر و مفکر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک مؤرخ، دیدہ ور سیرت نگار، دور اندیش صحافی اور اعلا پاے کے مصنف اور مضمون نگار تھے۔ اپنے مضامین میں سر سید نے مختلف موضوعات پر طبع آزمائی کی اور ان کی تحریروں نے لوگوں کو بے حدمتاثر بھی کیا۔ اس کا ایک اہم سبب یہ تھا کہ ان کے مضامین مختصر، عام فہم اور درد ِ قومی سے مملو ہوتے تھے۔ سر سید کو ’سلیس و با مقصد اردو نثر کا بانی‘ کہا جاسکتا ہے۔ ان کے ہاں لفّاظی اور عبارت آرائی کے بجائے صفائی، سادگی اور اصلیت کے ساتھ، ایک خاص قسم کی پُرزور فضا کا احساس ہوتا ہے۔بعض جگہ وہ قواعدِ زبان سے بے پروا ئی بھی برتتے ہیں، مگر ان کی زبان میں سلاست وروانی باقی رہتی ہے۔سر سیدکو اردو زبان میں صنفِ ’مضمون‘ (Essay) کا بانی سمجھا جاتا ہے،شاید اُنھیںخود بھی اِس کا احساس تھا‘ ایک مقام پر لکھتے خود ہیں: ’مضمون نگاری دوسری چیز ہے، جو آج تک اردو زبان میں نہ تھی۔ یہ اسی زمانے میں پیدا ہوئی اور ابھی نہایت بچپن کی حالت میں ہے۔ اگر ہماری قوم اسی پر متوجہ رہے گی اور ایشیائی خیالات کو نہ ملائے گی، جو اب حد سے زیادہ اجیرن ہوگئے ہیں؛ تو چند روز میں ہماری ملکی تحریریں بھی میکالے اور ایڈیسن کی سی ہو جاویں گی۔‘
سر سید کے ’مضامین‘ میں ایسے خیالات سامنے آتے ہیں، جو فکر انگیز ہیںاور روز مرّہ کی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے ہاں ’طرز‘ کے ساتھ ساتھ خیال کو بھی یکساں اہمیت حاصل ہے اور ان کے مضامین جذبات کے بجائے عقل وشعور کو متاثر کرتے ہیں۔ ان کے مضامین تین طرح کے ہیں: ایک وہ جن کو ’علمی‘ کہا جاسکتا ہے، دوسرے وہ جن کو ’ادبی‘ کہا جاسکتا ہے اور تیسرے وہ جو ’مذہبی‘ موضوعات کے ذیل میں آتے ہیں۔ سر سید کا دائرۂ تحریر زیادہ تر تہذیب وشائستگی، رسم ورواج اور دوسرے سماجی موضوعات تک محدود رہاہے، مگر وہ ایک اور موضوع (مذہب) کو بھی شامل کیے بغیر نہ رہ سکے، جو وقت کی ضرورت بھی تھا اور ان کی مجبوری بھی۔ وہ لکھتے ہیں:’اسٹیل اور ایڈیسن کو اپنے زمانے میں ایک بات کی بہت آسانی تھی کہ ان کی تحریر اور ان کے خیالات جہاں تک تھے ، تہذیب وشائستگی وحسنِ معاشرت پر محدود تھے، مذہبی مسائل کی چھیڑ چھاڑ ان میں کچھ نہیں تھی۔ ہم بھی مذہبی خیالات سے بہت بچنا چاہتے ہیں، مگر ہمارے ہاں تمام رسمیں اور عادتیں مذہب سے ایسی مل گئی ہیں کہ بغیر مذہبی بحث کے ایک قدم بھی تہذیب وشائستگی کی راہ میں نہیں چل سکتے۔‘
’تہذیب الاخلاق‘ کے مدیر کی حیثیت سے وہ اخلاقی وتعلیمی امور سے مستقلاً جڑے رہے اور اسی لیے ان کے بہت سے مضامین اسی ذیل میں آتے ہیں، لیکن سیاسی امور اور ملکی مسائل پر بھی انھوں نے کھل کر لکھا، ان مضامین اور تحریروں سے اردو میں ’جدید صحافت‘ کا آغاز ہوتا ہے۔ علمی مضامین لکھتے ہوئے وہ اس رنگ ومزاج کو شامل کرتے ہیں، جسے تاویل وتفہیم وتجزیہ کہا جاتا ہے اور صحافیانہ مضامین میں اسی رنگ ومزاج کو سامنے لاتے ہیں، جسے تشریح وتحلیل کہا جاتا ہے۔
سر سید نے جب مضمون نگاری شروع کی تو اُنھوں نے اپنے سے اگلوں کی نثری تحریروںسے بھی استفادہ کیا۔ وہ غالبؔ کے اردو خطوط سے بھی متاثر ہوئے، مگر اپنے مضامین میں وہ علم ومعلومات بہم پہنچانے کے ساتھ اصلاح کے پہلو کو ہمیشہ مدِّ نظررکھتے تھے۔چناں چہ وہ بار بار اخلاقی غلطیوں کے نقصانات اور اخلاقی خوبیوں کے فوائد کا ذکر کرتے ہیں اور روزمرّہ کی زندگی کے حالات وعوامل سے مثالیں پیش کرتے ہیں۔رقم طراز ہیں:’ناموری کی مثال نہایت عمدہ خوشبو کی ہے، جب ہوشیاری اور سچائی سے ہماری واجب تعریف ہوتی ہے، تو اس کا ویسا ہی اثر ہوتا ہے جیسے عمدہ خوشبو کا، مگر جب کسی کمزور دماغ میں زبردستی سے وہ خوشبو ٹھونس دی جاتی ہے، تو ایک تیز بو کی مانند دماغ کو پریشان کردیتی ہے۔‘
سر سید کے مضامین میںاقوالِ زرّیں کے استعمال کی للک پائی جاتی ہے۔ وہ زندگی کے مختلف پہلوئوں پر اپنی مخصوص نظر سے ایسے اقوال (Aphorisms) پیش کرتے ہیں، جو اپنی صداقت کی بنا پر دل میں اتر جاتے ہیں۔ اقوال سے سر سید کی دل چسپی اسی لیے تھی کہ ان سے تعلیم وتربیت کا کام لیا جاسکتا ہے۔ اصلاح وتربیت کے لیے اقوال کا استعمال ان کے تخلیقی مزاج کا حصہ تھا، جو اُن کے طرز ِتحریر کی ایک اہم خصوصیت بن گیا۔ چناں چہ اُن کے مضامین میں ایسے چست فقرے اکثر سامنے آتے ہیں۔’کفر سے بھی، بد اخلاقی زیادہ بدتر ہے‘۔
سر سید کے مضامین کی دوسری خصوصیت ’تبلیغی جوش‘ ہے، چوں کہ ان کا اصل مقصد ’اصلاح‘ ہے، اس لیے اکثر محسوس ہوتا ہے کہ وہ وعظ کررہے ہیں۔ واعظانہ رجحان اُن کے اکثر مضامین پر غالب نظر آتا ہے، مثلاً:’اے میرے عزیز ہم وطنو! اگر یہ رائے صحیح ہے تو اس کا یہ نتیجہ ہے کہ قوم کی سچی ہمدردی اور سچی خیرخواہی کرو۔ غور کرو کہ تمھاری قوم کی شخصی زندگی اور شخصی چال چلن کس طرح پر عمدہ ہو، تاکہ تم بھی ایک معزز قوم ہو‘۔
سر سید کے مضامین کی ایک خصوصیت ندرتِ فکر ہے۔ قاری جب کوئی مضمون پڑھتے ہوئے اس کے موضوع پر آتا ہے، تو وہ اپنے طور پر جس چیز کا خیال کرتا ہے، اُس سے بالکل الگ اور نئے خیال اور نئے پہلو سے ہم کنار ہوتا ہے، اس طرح غیر متوقع خیالات، اس کی دل چسپی کوبڑھاتے ہیں۔
سر سید کے مضامین کی ایک خوبی ’مفکرانہ سنجیدگی‘ ہے۔ وہ اپنے مضامین میں تدبُّر و تفکُّرکی مدد سے حقائق کو واضح کرتے ہیں، جس سے قاری بھی غور وفکر پر مائل ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات بات کوئی نئی نہیں ہوتی، لیکن ان کے انداز ِتحریر سے قاری کو لگتا ہے کہ یہ چیز اب تک ہماری نظر سے اوجھل تھی، مثلاً’ فیاض آدمی کو بدنامی اور نیک نامی کا زیادہ خیال ہوتا ہے اور عالی ہمت طبیعت کو مناسب عزت اور تعریف سے ایسی ہی تقویت ہوتی ہے جیسے کہ غفلت اور حقارت سے پست ہمتی ہوتی ہے۔ جو لوگ کہ عوام کے درجے سے اوپر ہیں‘ ان لوگوں پر اس کا زیادہ اثر ہوتا ہے، جیسے کہ تھرمامیٹر میں وہی حصہ موسم کا زیادہ اثر قبول کرتا ہے، جو صاف اور سب سے اوپر ہوتا ہے‘۔
انگریزی کے کلاسیکی مضمون نگاروں کی طرح سر سید بھی طنز و ظرافت اور خوش طبعی سے کام لیتے نظر آتے ہیں۔ بحث و تکرار کی مذمت میں کتوں کے لڑنے کی مثال دے کر فرماتے ہیں:’جب کتّے آپس میں مل کر بیٹھتے ہیں تو پہلے تیوری چڑھا کر ایک دوسرے کو بُری نگاہ سے آنکھیں بدل بدل کر دیکھنا شروع کرتے ہیں، پھر تھوڑی تھوڑی گونجیلی آواز اُن کے نتھنوں سے نکلنے لگتی ہے، پھر تھوڑا سا جبڑا کُھلتا ہے اور دانت دکھائی دینے لگتے ہیں اور حلق سے آواز نکلنی شروع ہوتی ہے، پھر باچھیں چر کر کانوں سے جا لگتی ہیں اور ناک سمٹ کر ماتھے پر چڑھ جاتی ہے۔ ڈاڑھوں تک دانت باہر نکل آتے ہیں، منہ سے جھاگ نکل پڑتے ہیں اور عنیف آواز کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے چمٹ جاتے ہیں۔‘
اس کے بعد انسانوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں:’نامہذب آدمیوں کی مجلس میں بھی آپس میں اسی طرح تکرار ہوتی ہے۔ پہلے صاحب سلامت کر کر آپس میں مل بیٹھتے ہیں، پھر دھیمی دھیمی بات چیت شروع ہوتی ہے ۔ ایک کوئی بات کہتا ہے،دوسرا بولتا ہے واہ ! یوں نہیں یوں ہے۔ وہ کہتا ہے’واہ! تم کیا جانو‘ وہ بولتا ہے ’تم کیا جانو‘ دونوں کی نگاہ بدل جاتی ہے، تیوری چڑھ جاتی ہے، رُخ بدل جاتا ہے، آنکھیں ڈراونی ہوجاتی ہیں، بانچھیں چر جاتی ہیں، دانت نکل پڑتے ہیں، تھوک اُڑنے لگتا ہے، باچھوں تک کف بھر آتے ہیں، سانس جلدی [جلدی] چلتا ہے، رگیں تن جاتی ہیں، آنکھ، ناک، بھوں، ہاتھ، عجیب عجیب حرکتیں کرنے لگتی ہیں۔ عنیف عنیف آوازیں نکلنے لگتی ہیں، آستین چڑھا، ہاتھ پھیلا، اِس کی گردن، اُس کے ہاتھ میں، اُس کی ڈاڑھی اِس کی مٹھی میں، لپا ڈوکی ہونے لگتی ہے۔ کسی نے بیچ بچاؤ کر کر چھڑا دیا تو غرّاتے ہوئے، ایک اِدھر چلا گیا اور ایک اُدھر اور اگر کوئی بیچ بچاؤ کرنے والا نہ ہو، تو کمزور نے پٹ کر، کپڑے جھاڑتے، سر سہلاتے اپنی راہ لی۔ ‘
یہاں بہ طورِ نمونہ چند مضامین سے چند مثالیں ہی پیش کی گئی ہیں، جب کہ ’امید کی خوشی‘ ’گذرا ہوا زمانہ‘ ’سرابِ حیات‘ ’آدم کی سرگذشت‘ وغیرہ مضامین، مذکورہ بالا خصوصیات کے سبب زیادہ متاثر کن ہیں۔
ض۔ض۔ض۔
Also read