سمیع اللہ ملک
نئے عالمی نظام اورامریکی ایجنڈے کے تحت پورے عالم اسلام میں عمومااورسرزمین پاکستان میں خصوصادوسری بڑی منفی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ اسکولوں،کالجوں اورجامعات کے تعلیمی نصاب کوتبدیل کرنے اورانہیں لبرل بنانے کاکام بھی زوروشور کے ساتھ جاری ہے۔کہاجارہاہے کہ بطورِانسانیت تمام انسان برابرہیں لہذابہت زیادہ بنیادپرستی پھیلانے اوردوسرے مذاہب کے خلاف تعصبات کوجنم دینے والے مضامین کودرسی کتابوں سے نکال دیناچاہیے۔(معروف فری میسنری تنظیم کانعرہ بھی یہی ہے کہ مذہب ِ انسانیت ہی فی الاصل مذہب ِمحبت ہے)۔
یہی وجہ ہے کہ کہ گزشتہ برسوں میں ہمارے قومی نصاب سے سلطان صلاح الدین ایوبی اورحضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا وغیرہ کے بارے میں مضامین اوربعض حمدیہ نظمیں اور نعتیں بھی خارج ازنصاب کردی گئی ہیں۔اسی طرح نبیﷺکے دورمیں یہودیوں کے خلاف ہونے والی جنگ خیبر،اورگزشتہ دورمیں بھارت کی جانب سے مسلط کردہ ستمبر 1965 کی جنگ کوبھی درسی کتابوں سے خارج کیاجاچکاہے حالانکہ ان معاملات پران دنوں پورے پاکستان میں بڑاواویلا بھی مچاتھااورایک ہمہ گیر تحریک بھی چلی تھی لیکن جن منصوبوں کوصہیونی اوربھارتی ہدایات کے تحت دنیابھرمیں نافذالعمل ہوناہوتاہے،ان کے خلاف تمام احتجاج اورہرقسم کاواویلاہمارے ہاں بے معنی سمجھاجاتاہے۔ایک طرف
ہمارے حکمرانوں کی ذہنی مرعوبیت کادرجِ بالا نمونہ ہے اور دوسری جانب خود صہیونیوں کااپناطرزِعمل ہے جوہر معاملے پریکسوہے اورجنہیں اپنے ہاں کسی بھی قسم کی تبدیلی گوارانہیں ہے۔ذیل کی سطور کے ذریعے ایک جائزہ یہ لینے کی کوشش کی گئی ہے کہ خوداسرائیل میں تعلیمی اداروں میں نصاب کی کیاحالت ہے اوروہاں طلبہ کوکیاکچھ پڑھایااورسکھایا جارہا ہے؟
امریکا میں مقیم ایک عرب عیسائی’’سٹیون سلیٹا‘‘نے اپنی کتاب’’اینٹی عرب ریس ازم ان دی یوایس اے‘‘شائع شدہ امریکامیں اسرائیل کے تعلیمی نصاب کے بارے میں کافی کچھ تفصیل سے بتایاہے۔اس نے لکھاہے کہ تل ابیب یونیورسٹی نے اپنے طلبہ کیلئے ایک کتاب شائع کی ہے،جس میں واضح طورپربتایاگیاہے کہ’’یہودی ایک منصفانہ اورانسانی معاشرہ تشکیل دینے میں مصروف ہیں یعنی وہ ان عربوں کے خلاف جنگ کرنے میں منہمک ہیں جو اسرائیل میں یہودیوں کو بسنے دینے کے قائل نہیں ہیں‘‘۔ مذکورہ مصنف لکھتاہے کہ اسرائیلی کتابوں میں یہودیوں کوبہادر،محنت کش،اورملک کی ترقی میں مدد گارکے طورپرپیش کیاجاتاہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتایاجاتاہے کہ عرب قوم ان تمام خصوصیات سے عاری ہے۔ان کتابوں میں عربوں کوایک ایسی قوم ظاہرکیاگیاہے جوکمتر،غیرمہذب،سست الوجوداوربے حس ہے۔ان کے مطابق عرب قاتل ہیں،جلاگھیراکرتے ہیں،اورآسانی سے مشتعل ہوجاتے ہیں۔یہ منتقم مزاج،بیمار،اورشورکرنے والے لوگ ہیں۔
اگرچہ اسرائیلی نصاب میں حالات کے تحت بعض اصلاحات بھی کی جارہی ہیں لیکن ان کاتعلق فلسطین اوراس کے باشندوں کے ساتھ نہیں ہے۔ایک17سالہ اسرائیلی طالب علم نے بتایاکہ اس کی کتابیں اسے بتاتی ہیں کہ ہروہ کام جویہودی کرتے ہیں،عمدہ اور قانونی ہوتے ہیں جبکہ عربوں کے ہرفیصلے غلطی سے پرہوتے ہیں،اوریہ کہ عرب یہودیوں کو فلسطین سے نکالنے کے ہمیشہ در پے رہتے ہیں۔تعلیمی کتابوں میں اس طرح کے اسباق سموکروہاں کی حکومت یہودی طلبہ میں عربوں اورمسلمانوں کے خلاف نفرت کوبالکل ابتداہی سے سمونے کی کوشش کرتی ہے۔
حیفہ(اسرائیل)کے ایک اسکول کی چھٹی جماعت کے70فیصدیہودی طلبہ نے بتایاکہ عرب باشندے قاتل،اغواکنندہ،جرائم پیشہ،اور دہشتگردہوتے ہیں۔اسی اسکول کے80% طلبہ نے بتایاکہ عرب لوگ گندے ہیں اوران کے چہرے دہشت ناک ہیں۔ان کے90% طلبہ نے اظہاررائے کرتے ہوئے کہاکہ اسرائیل پرفلسطینی عربوں کاکوئی حق نہیں ہے )بحوالہ مذکورہ بالا کتاب(
1967سے اب تک جوکتابیں اسرائیل میں شائع ہوتی چلی آرہی ہیں،ایک امریکی مصنف وایڈیٹرکوہن کے مطابق ان میں سے 520کتابوں میں فلسطینیوں کے بارے میں توہین آمیزمنفی تبصرے پائے جاتے ہیں،جن میں عربوں کوتشددپسند،برائی کاسرچشمہ، جھوٹے،لالچی،دوچہروں والے اورغدارقراردیاگیاہے۔ان خصوصیات کے علاوہ مذکورہ مصنف کوہن نے نوٹ کیاکہ رسواکرنے کی خاطرعربوں کیلئے مذکورہ کتابوں میں مندرجہ ذیل الفاظ بار بار استعمال کیے گئے ہیں۔قاتل۔۔۔۔21بار،سانپ۔۔۔۔ 6بار،گندے۔۔۔۔ 9 بار،منحوس جانور۔۔۔۔ 17بار،خون کے پیاسے۔۔۔۔ 21بار،بھوتوں اورجنوں پریقین رکھنے والے 9۔۔۔۔باراوراونٹ کے کوہان۔۔۔۔ 2بار۔ ایڈیٹرکوہن لکھتاہے کہ عربوں کے بارے میں یہ خرافات،عبرانی)یہودی(ادب وتاریخ کاایک بڑاحصہ ہیں۔حضرت اسحقؑ کے مقابلے میں وہ حضرت اسماعیل ؑ اوران کی اولادکیلئے ابتداہی سے دشمن رویہ رکھتے ہیں۔ اسرائیلی مصنفین خود بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں تاکہ اس طرح یہودی طلبہ کے نظریے پراثراندازہوسکیں اوراس طرح یہودی طلبہ عربوں کے ساتھ معاملہ طے کرنے کیلئے تیار ہوجائیں۔ایک بار سابق اسرائیلی صدرموشے کٹسا نے کہاتھاکہ ہمارے اوردشمنوں کے درمیان ایک بڑاخلاہے اوریہ خلامحض صلاحیتوں کے لحاظ سے نہیں بلکہ اخلاق،تمدن، انسانی جانوں کی حرمت اورضمیرکے لحاظ سے بھی ہے۔فلسطینی وہ لوگ ہیں جن کاہمارے براعظم اورہماری دنیا سے تعلق ہی نہیں۔ان کاتعلق ایک دوسری کہکشاں سے ہے۔کتاب کامذکورہ مصنف اسٹیون سلیٹاکہتاہے’’رات کواسرائیلی ایک پرسکون نیندلیتے ہوں گے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ان کی نصابی کتابیں اپناکام خوب کررہی ہیں‘‘۔
اسرائیلی تعلیمی اداروں کے مختلف درجات میں یہودیوں پرہٹلرکے مظالم کافرضی قصہ’’ہولوکاسٹ‘‘کے نام سے پڑھایاجانابھی لازمی تصورکیاجاتاہے تاکہ ان کی آنے والی نسلیں اپنے باپ داداکی قربانیوںاوریہودی قوم کے دنیابھرمیں مظلوم ہونے کی حالت سے واقف ہوسکیں۔ ظاہرہے کہ ظلم وستم کے تفصیلی اورباربارکے مطالعے سے ان کے اندرانتقام کا شدیدردِعمل پیداہونا لازمی ہے۔یہودی شریعت کے مطابق دنیامیں پائے جانے والے تمام غیریہودی بشمول عیسائی اورمسلمان گوئم(چوپائے،امی،اور احمق)ہیں۔لہذااسی بنیاد پران کی ہرسطح کی درسی کتابوں میں یہودی طلبہ کواصرارکے ساتھ پڑھایاجاتاہے کہ وہ اپنے علاوہ باقی تمام قوموں کوگوئیم،رذیل اورچوپائے سمجھیں۔افسوس کہ آج کوئی عیسائی اور مسلم حکمران اسرائیل سے نہیں کہتاکہ وہ اپنے نصاب سے انتقامی ردِعمل کوجنم دینے والے’’ ہولو کاسٹ اورگوئم‘‘والے اسباق خارج کردے۔بقول کسی مغربی دانشورکے کہ دنیاکے امن کوتاراج کرنے سے اگرکسی قوم کو دلچسپی ہے تووہ صرف یہودی قوم ہے۔
دومعروف آنجہانی یہودی مصنفین اسرائیل شحاک اورنارٹن میزونسکی اپنی کتاب اسرائیل میں یہودی بنیادپرستی(شائع شدہ جمہوری پبلی کیشنز۔لاہور)میں لکھتے ہیں کہ اسرائیل کے تعلیمی اداروں میں طلبہ کویہودیوں کی بنیادی مذہبی کتا ب تالمودکا مطالعہ ضرورکروایاجاتاہے۔تعلیمی حکام اپنے طلبہ کوہدایت دیتے ہیں کہ عبادت کرنے،خیرات دینے یادوسرے نیک کام کرنے کی بجائے تالمودکامطالعہ ان کیلئے جنت میں داخلے کیلئے زیادہ بہترہے اورجوطلبہ تالمودکے مطالعے میں منہمک ہوتے ہیں،وہ خود اپنے،اپنے خاندان،اپنے مالی معاونین اوردوسرے یہودیوں کیلئے بھی کسی حدتک جنت میں داخلے کاذریعہ بنتے ہیں۔یہی مصنفین آگے چل کرلکھتے ہیں کہ ریاست اسرائیل کے قیام کے چندبرسوں کے بعدہی اول درجے کے اسکولوں کی ریاضی کی کتابوں سے جمع(+)کا نشان ختم کرکے اس کی جگہ(T)کانشان لگایاگیاتھااورکہاگیاتھاکہ جمع کانشان یہودی بچوں کومذہبی اعتبار سے بگاڑسکتاہے۔)ص179)۔اسی ایک مثال سے اسرائیلی تعلیمی اداروں میں یہودی بنیاد پرستی کی شدت کااندازہ لگایاجاسکتاہے۔یہودی مذہب پرمعروف ربیوں کی لکھی ہوئی امریکی ضخیم کتاب ایکسپلورنگ جیوش ٹریڈیشن(مصنفین ربی ابراہام جے وِٹی اورراشیل جے وِٹی۔مطبوع ڈبل ڈے پبلشرز۔ نیویارک ۔ ص453۔445)میں بتایاگیاہے کہ یہودی اساتذہ اپنے طلبہ کوذہن نشین کروا تے ہیں کہ جیسے جیسے وہ بوڑھے ہوتے جائیں گے،انہیں اندازہ ہوگاکہ تورات کے ہرحرف کے پیچھے کتنے آنسواورکتنی مشکلات پوشیدہ ہیں۔اس طرح کی پڑھائی جانے والی ایک نظم کانمونہ مندرجہ ذیل ہے۔’’پڑھوالف بے،جومیں کہہ رہاہوں،بچو،اسے دھیان سے سنو۔جب تم بڑے ہوجا گے توخودسمجھ جاگے کہ ہرحرف کے اندرکتنے آنسواورکتنے بین پوشیدہ ہیں‘‘۔ ان الفاظ سے شاعر دراصل طلبہ کوسمجھاناچاہتاہے کہ موجودہ تورات کوتم تک پہنچانے میں تمہارے آباؤاجداکوکس قدردکھوں اور اذیتوں سے گزرناپڑاہے۔اس وقت امریکااوراسرائیل میں ان گنت اسکول اورکالج ایسے ہیں جن میں مردوخواتین کوتورات اورجدید علوم دونوں کاعالم بنائے جانے کے کورس کروائے جاتے ہیں۔ایک بڑا ربی،الزر،دونوں قسم کی تعلیمات کے بارے میں اصولی بات کہتاہے۔اگرتورات نہیں ہے،تودنیاکاکوئی پیشہ نہیں ہے۔اگرآٹانہیں ہے توتورات نہیں ہے اوراگرتورات نہیں ہے تو آٹا بھی نہیں ہے۔نظم کامطلب یہ ہے کہ دنیاکے تمام کاروباراورپیشوں کوصرف خداکی ہدایت کے مطابق ہی چلاناچاہیے جس کیلئے تورات کے گہرے علم کی ضرورت ہے۔اس طرح یہودی ربی اپنے طلبہ کومذہبی بنیادپرستی سے جان چھڑانے کی بجائے انہیں اس بنیادپرستی کواپنے ذہنوں میں مستحکم کرنے کی ہدایت کرتاہے۔
تورات کی تشریح کرتے ہوئے یہودی مذہبی قوانین کی کتابتالمودنے انسانی زندگی کے مختلف ادوارکاایک نظام الاوقات پہلے ہی سے طے کردیاہے۔تالمودکہتی ہے۔5سال کی عمر سے بائبل(تورات وزبور)پڑھناشرو ع کرو۔13سال کی عمرمیں مذہبی فرائض کی ادائیگی کرنے اٹھ کھڑے ہو۔15سال کی عمرسے تالمودکامطالعہ اختیارکرنے لگو،اور20سال کی عمرسے رزق تلاش کرنے نکل کھڑے ہو۔)اب۔تالمودبے نقاب ہوتی ہے(AVOT:5:21)(
کوئی بھی فردسوچ سکتاہے کہ اس طرح کے پڑھائے جانے والے اسباق سے یہودی طلبہ کے اندرسوائے اس بنیادپرستی کے، دوسری اورکیاصفت پیداہوگی جسے اسلامی ممالک کے نصاب سے خارج کرنے کیلئے صہیونی اورامریکی مل کراحکام جاری کررہے ہیں؟عالمی طورپرنصاب میں تبدیلی کی جومہم صیہونیوں نے سیکڑوں سال پہلے شروع کی تھی،سب سے پہلے اسے ایک سابق امریکی صنعتکارہنری فورڈاول نے محسوس کیاتھا۔اپنی کتاب( انٹر نیشنل جیو،اردو ترجمہ عالمی یہودی فتنہ گر۔صفہ پبلشرز: لاہور)میں اس نے تفصیل دیتے ہوئے لکھا ہے کہ:’’ہماری اولادوں کوان کے آباؤاجدادکے ورثے سے محروم کیاجارہاہے۔جوانی کے ابتدائی ایام میں جبکہ لڑکے آزادی فکرسے نئے نئے روشناس ہوتے ہیں،یہودی انہیں اپنے نرغے میں لے لیتے اوران کے ذہنوں میں ایسے خیالات ٹھونس دیتے ہیں جن کے خطرناک نتائج کوہماری اولاداس وقت محسوس نہیں کرسکتی‘‘۔
ہنری فورڈمزیدلکھتاہے:پروفیسروں اورطلبہ کوساتھ ملاکر یہودی اپنے کام کومعززبنالیتے ہیں۔یہ لوگ فنون،علوم،مذہب،معاشیات، اورسماجیات،غرض یہ کہ ہرمضمون میں اپنے نظریات داخل کردیتے ہیں۔یہ یہودی طریقہ کاراب پوری طرح ظاہرہوچکاہے یعنی پہلے پبلک اسکولوں کو سیکولربناؤ۔دوسرے الفاظ میں بچے کویہ تعلیم نہ دوکہ اس کی تہذیب و تمدن کاتعلق ایک قدیم مذہب کے گہرے اصولوں سے ہے۔ یہی ہے وہ لبرل ازم، یہودی جس کااتناڈھنڈوراپیٹتے ہیں(باب۔ یہودی اثرات کے مختلف پہلو)نصاب میں عالمی طورپرتبدیلی کی یہ بات ہمارے سامنے اورزیادہ واضح ہوکرتب سامنے آتی ہے جب ہم صہیونیوں کے بڑوں کی مرتب کردہ قدیم دستاویزپروٹوکولزکامطالعہ کرتے ہیں جہاں انہوں نے عیسائی اورمسلم تعلیمی اداروں کے بارے میں صاف طورپراپنے نظریات کوپیش کردیاہے۔یہودی پروٹوکولزبیان کرتے ہیں کہ:’’جب ہماری حکومت قائم ہوگی توسب سے پہلے ہم یونیورسٹیوں کی تعلیم کی ازسرنوتنظیم کریں گے۔اس مقصد کیلئے ایک خفیہ پروگرام کے تحت یونیورسٹیوں کے افسروں اور پروفیسروں کو نئے سرے سے تیارکیا جائے گا۔ نصاب تعلیم سے ایسے تمام مضامین خارج کردیں گے جوہمارے لیے مشکلات پیدا کرنے کاباعث بن سکتے ہیں۔ہمارامقصدیہ ہے کہ غیریہودی عوام کوایک ایسافرماں بردار وحشی جانوربنادیاجائے جوخودسوچنے اور سمجھنے سے عاری ہو‘‘۔یہی وہ رہنماخطوط ہیں جن کی بنیادپرصہیونیوں نے پہلے توعیسائی تعلیمی اداروں پرشب خون ماراکیونکہ تب وہ ان کے بدترین دشمن تھے اوراب وہ مسلم تعلیمی اداروں پرشب خون مار رہے ہیں،جن کی ایماپرعقل وخردسے عاری ہمارے حکمران تعلیمی نصاب میں پرزوراحتجاج کے باوجودمسلسل منفی تبدیلیاں کیے جارہے ہیں۔ہنری فورڈ اپنی مذکورہ کتاب میں سوال کرتاہے کہ اب اس کا علاج کیاہوسکتاہے؟پھرخودہی جواب دیتاہے کہ: علاج بالکل آسان ہے یعنی طلبہ کوبتایاجائے کہ تمام افکارکی پشت پروہ یہودی ہیں،جوہمیں اپنے ماضی سے کاٹ کرمستقبل کیلئے مفلوج کرناچاہتے ہیں۔انہیں بتایاجائے کہ وہ ان لوگوں کی اولادیں ہیں جویورپ سے تہذیب وتمدن لے کرآئے ہیں۔ اب یہ یہودی ہمارے اندرآگھسے ہیں جن کی نہ کوئی تہذیب ہے نہ مذہب۔اورنہ انہوں نے ماضی میں کوئی کارنامہ انجام دیاہے اورنہ مستقبل کے بارے میں ان کے عزائم اعلی ہیں ۔ایک اورمغربی مصنف،ا ورکینیڈاکابحری کمانڈر’’ولیم گائی کار‘‘اپنی معروف تصنیف’’پانزان دی گیم‘‘Pawns in the Gameمیں کہتا ہے:کہ ان کی قوت کااندازہ لگانا ہو توہمیں معلوم ہوناچاہیے کہ ان کے گماشتے اپنی صلاحیتوں کے باعث تاریخ کے ان ہونے واقعات تک کوہمارے تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے میں کامیا ب ہوجاتے ہیں۔
Also read