9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
مبارک حسین مصباحی
قرآن عظیم اللہ تعالیٰ کی وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک و شبہہ نہیں، ملعون وسیم رضوی نے ۲۶ آیتوں کے حوالے سے سپریم کورٹ میں جو یاچکا داخل کی ہے، وہ انتہائی افسوس ناک اور قابلِ صد مذمت ہے ۔ ہندوستان ایک جمہوروی ملک ہے، اس میں کثیر مذاہب کے باشندے ہیں۔ ملک کے دستور کی روشنی میں ہر فرد کو اپنی مذہبی کتابوں پر عمل کرنے کی آزادی ہے۔ اس گنگا جمنی تہذیب کے ساتھ ہندو مسلم اور سکھ عیسائی صدیوں سے رہتے رہے ہیں۔ اس ہندوستان پر قریب آٹھ سو برس تک مسلم حکمرانوں نے جزوی یا کلی طور پر حکومت کی مگر اس مشترکہ ملنے جلنے اور رہنے سہنے میں کوئی درار نہیں پڑی۔ مسجدیں بھی آباد رہیں، مندروں میں بھی پجاری جاتے رہے ، گرودواروں اور کلیساؤں میں بھی ان کے ماننے والے حاضر ہوتے رہے ۔ اس دوران نہ قرآن عظیم کے خلاف کوئی سازش کامیاب ہوئی ، نہ گیتا اور ویدوں وغیرہ ہندوتو کے مذہبی دساتیر کے تعلق سے کسی قسم کی بکواس سنی گئی۔اور نہ سکھوں کی مذہبی کتابیں شری آدی گرنتھ یا گیان گرو گرنتھ صاحب کو بے جا تنقیدوں کا نشانہ بنایا گیا۔
ہم سرِ دست لکھنا یہ چاہتے ہیں کہ وسیم رضوی مردود ہے۔ یہ شیعہ تھا، مگر اب اہلِ تشیع نے بھی اسے شیعہ فرقے سے خارج قرار دے دیا ہے۔ اہلِ تشیع کے بڑے رہنما کلب جواد نے تو اسے نہ صرف اپنے فرقے سے نکالنے کا اعلان کیا ہے بلکہ لکھنؤ سے اپنے مشترکہ بیان یہ بھی کہا ہے گورنمنٹ اور مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ کسی بھی مسلم تنظیم اور مسلم ادارے وغیرہ میں بحیثیت مسلمان اسے کوئی عہدہ ہرگز نہ دیں۔ سنی اور شیعہ حضرات نے کہا ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ اس کا سماجی بائیکاٹ کریں، اس سے کسی بھی قسم کا کوئی رابطہ نہ رکھیں، مزید بیان میں کہا کہ کسی بھی فرقے کا کوئی بھی امام اس کی نمازِ جنازہ نہ پڑھائے اور نہ اسے کسی بھی فرقے کے قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت دی جائے۔
”وسیم رضوی کی گستاخی کے خلاف لکھنؤ کے تال کٹورہ کے کربلا میں ملعون رضوی کی حیاتی قبر توڑ دی گئی ہے۔ واضح رہے کہ حیاتی قبر ان قبروں کو کہا جاتا ہے جسے لوگ اپنی زندگی میں اپنی پسند کے مطابق کربلا یا قبرستان میں پہلے سے ہی پیسوں کے عوض بک کروا لیتے ہیں، اس جگہ اپنےنام کا پتھر اور قبر بنانے کے لیےسنگ مرمر و غیر ہ لگوادیتے ہیں ۔ ملعون رضوی نےلکھنؤکے مشہور تال کٹورہ کربلا میں اپنے لیے ایک قبر مختص ختم کروا رکھی تھی جسے توڑ دیا گیاہے۔
قرآن عظیم میں اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمادیا ہے۔ ﴿ ذٰلِكَ الْكِتٰبَ لَارَيْبَ فِيْهِ﴾ یہ وہ بلند رتبہ کتاب ہے جس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے۔ دنیا کا بڑے سے بڑا محقق اور مصنف اپنی کتاب کے آغاز میں یہ ضرور لکھتا ہے کہ ہم نے اپنی علمی وسعت کے مطابق اصلاح کی ہے، اگر کسی قاری کو کسی بھی قسم کی غلطی نظر آئےتو مہربانی فرما کر مطلع کرے تاکہ غور و خوض کے بعد دوسرے ایڈیشن میں اصلاح کر لی جائے۔ مگر یہ قرآن عظیم اللہ تعالیٰ کی مقدس کتاب ہے، جس کے سامنے ماضی، حال اور مستقبل سب یکساں ہیں، اسی لیے ہم ببانگ دہل اعلان کرتے ہیں کہ ، اگر کسی کو قرآن عظیم میں کوئی شک و شبہہ نظر آئے تو اسے اپنے دماغ کا علاج کرانا چاہیے۔ آپ دیکھیں جن دنوں قرآن عظیم نازل ہو رہا تھا، معاندین نے طرح طرح کے الزامات عائد کیے ، کسی نے کہا یہ اساطیر الاولین ہے، کسی نے کہا: یہ من گڑھت واقعات کا پلندہ ہے۔ کسی نے کہا محمد [ﷺ] مجنون ہیں۔ کسی نے کہا یہ امی ہیں، کسی سے پڑھا نہیں مگر اتنا فصیح و بلیغ قرآن سناتے ہیں، یہ ممکن نہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس کے بعد ارشاد باری تعالیٰ ہوا:
﴿ وَ اِنۡ کُنۡتُمْ فِیۡ رَیۡبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَۃٍ مِّنۡ مِّثْلِہٖ ۪ وَادْعُوۡا شُہَدَآءَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیۡنَ۲۳﴾(البقرہ، آیت:۲۳)
ترجمہ:اور اگر تمہیں کچھ شک ہو اس میں جو ہم نے اپنے ( اس خاص ) بندے پر اتارا تو اس جیسی ایک سورت تو لے آؤ اور اللہ کے سوا اپنے سب حمائتیوں کو بلالو اگر تم سچے ہو۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿ وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیۡمٍ ۴﴾(القلم، آیت:۴)
ترجمہ:اور بے شک تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے توریت، زبور اور انجیل اور دیگر صحائف کو محبوب انبیاے کرام پر نازل فرمایا تو ان آسمانی کتابوں اور صحائف میں ان کی امتوں نے اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق تبدیلیاں کر لیں، کچھ چیزیں چھپائیں اور کچھ اضافے کیے ، مگر جب اللہ عز و جل نے نبی آخر الزماں ﷺ پر اپنی آخری کتاب قرآن عظیم کو نازل فرمایا تو اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود قبول فرمائی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہوا:
﴿ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ ۹﴾(الحجر، آیت:۹)
ترجمہ: بیشک ہم نے اتارا ہے یہ قرآن اور بیشک ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔
آپ ذرا غور فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیتِ کریمہ میں حیرت انگیز تاکیدات فرمائی ہیں، تفصیل کا یہ موقع نہیں ، تفسیری کتابوں کے حوالے سے آپ مطالعہ فرمائیں اور خود غور کریں۔
اب وسیم رضوی کا ابتدائی تین خلفائے راشدین پر یہ الزام عائد کرنا کتنی بڑی حماقت اور جرأت ہے۔ عہدِ اسلامی میں اب تک اسے جہنم رسید کر دیا گیا ہوتا، مگر افسوس صد افسوس کہ آج آر ایس ایس ، ہندتو اور بی جے پی کی حکومت ہے ، کہیں نہ کہیں سے وہی سب اس سے یہ بد تمیزیاں کرا رہے ہیں۔ اور یہ بد بخت نام نہاد مسلمان ہو کر خود توہینِ قرآن عظیم کر رہا ہے ۔ کون نہیں جانتا کہ خلیفۂ اول حضرت ابو بکر صدیق کو صدیق کا خطاب اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے۔ خلیفۂ ثانی حضرت فاروق اعظم کی عدالت پوری دنیا میں متعارف ہے، خلیفۂ ثالث حضرت عثمان غنی کی شرم و حیا اور سخاوت کے چرچے شہرۂ آفاق ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ خلیفۂ رابع حضرت مولا علی کی شجاعت اور حقانیت کی پاکیزگی کس کے دل میں نہیں، چاروں خلفاے راشدین خاتم النبیین ﷺ کے محبوب ترین صحابۂ کرام ہیں۔ اگر واقعی ابتدائی تینوں خلفاے راشدین نے قرآن عظیم میں رد و بدل کیا تو مولا علی مشکل کشا کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے کیوں خاموشی اختیار فرمائی۔ آپ ابتدائی تینوں خلفا سے کیوں حد درجہ محبت فرماتے تھے؟جو اہم خدمت مولا علی نہیں کر سکے وہ آج مردود وسیم رضوی کرنے چلا ہے۔ قسم ہے اللہ تعالیٰ کی، اس خبیث کا انجام من جانب اللہ انتہائی بد تر اور عبرت انگیز ہوگا۔
وسیم رضوی کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج ہو رہا ہے۔ لکھنؤ میں مشترکہ احتجاج کے بعد اس خبیث نے ویڈیو جاری کیا ہے۔ جس میں پیچھے ہٹنے اور عرضی واپس لینے کے بجاے اسے انجام تک پہنچانے کی بات کر رہا ہے اس میں وہ خودکشی کی دھمکی کے ساتھ ساتھ اس لڑائی کو اخیر دم تک لڑنے کی بات کہہ رہا ہے۔ ویڈیوپیغام میں وسیم رضوی کہہ رہا ہے کہ ہماری ماں،ہمارے بھائی،ہماری بیوی اور ہمارے بچے سبھی ہمیں چھوڑ کرجارہے ہیں، اس لیے ہم بھی کسی کے جانے کی کوئی پرواہ نہیں کرتے ، ہم وصیت بھی کرتے ہیں کہ جب کبھی ہمارا انتقال ہوجائے تو میرے پاس چار میرے ایسے دوست ہیں،وہ ہمارے اس (قرآن شریف) کے معاملے میں اگرچہ متفق نہ ہوں لیکن وہ ہمارے ساتھی دوست ہیں ، وہ قبرستان تک مجھے پہنچا سکتے ہیں۔
اسی طرح چاند مل چوپڑا نے ۱۹۸۵ء میں قرآن پر مقدمہ کلکتہ ہائی کورٹ کی خاتون جج پدما منگیر کی عدالت میں پیش کیا اور جج صاحب نے اس کی پٹیشن سماعت کے لیے منظور کر لی۔ کلکتہ اور پوری ریاست مغربی بنگال میں ہلچل مچ گئی۔ بائیں بازو کی حکومت کا دور تھا، جیوتی باسو، وزیر اعلیٰ تھے۔ وہ بہت ناراض ہوئے۔ بنگال اسمبلی میں بیان دے کر انھوں نے سخت ملامت کی اور برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا کہ قرآن کے دفاع میں یہ مقدمہ حکومت مغربی بنگال لڑے گی۔
قرآن عظیم پر مقدمہ سے مسلمانوں میں بہت زیادہ غصہ تھا، مگر مسلم عوام نے بے مثال صبر و ضبط کا مظاہرہ کیا۔ علما و اہل الراے حضرات نے فیصلہ لیا کہ جب حکومت یہ مقدمہ لڑنا چاہتی ہے تو مسلمان خاموش رہیں، مقدمہ میں فریق نہ بنیں اور نہ جلسہ جلوس سے کام لیں۔
ہائی کورٹ میں مسئلہ یہ اٹھا کہ جس جج نے رٹ پٹیشن قبول کی ہے ضابطے کے تحت مقدمہ کی سماعت وہی کرے گا۔ چیف جسٹس نے پدما منگیر کی بنچ سے قرآن کا مقدمہ جسٹس بساک کی عدالت میں بھیج دیا۔ حکومت کی جانب سے ایڈوکیٹ جنرل سہانسو آچاریہ نے چارج سنبھالا۔ ان کی مدد کے لیے خواجہ محمد یوسف ایڈوکیٹ آگے آئے دونوں سینئر وکلا نے طے کیا کہ قرآن کی جن آیات کو بنیاد بنا کر مقدمہ کیا گیا ہے ان پر کوئی بحث نہیں ہوگی ، صرف اس سوال پر بحث ہوگی کہ کیا کسی آسمانی کتاب پر مقدمہ چل سکتا ہے؟ چاند مل کا مطالبہ تھا کہ ہندوستان میں قرآن پر پابندی لگا دی جائے۔
ایڈوکیٹ جنرل نے اپنی بحث شروع کی ، ایک گھنٹہ سے زیادہ وقت تک قرآن کی حقانیت پر ایسی شان دار تقریر کی کہ ہائی کورٹ کے در و دیوار سے حق کی خاموش صدائیں سنائی دینے لگیں۔ ایڈوکیٹ جنرل کی تقریر جیسے ہی ختم ہوئی، حکومت ہند کے اٹارنی جنرل پراسرن عدالت میں داخل ہوئے اور معذرت کی کہ ہوائی جہاز لیٹ ہونے سے انھیں دیر ہوئی۔ انھیں وزیر اعظم راجیو گاندھی نے بھیجا تھا۔ مسٹر پراسرن نے کہا کہ ایڈوکیٹ جنرل نے جو کچھ اپنے بیان میں کہا وہ اسے اپناتے ہیں اور پھر مزید انھیں جو کہنا تھا کہا۔ جسٹس بساک نے ذرا دیر میں فیصلہ سنا دیا ۔ چاند مل کا مقدمہ خارج کرتے ہوئے کہا: کسی آسمانی کتاب پر مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔
اب درد ناک سوال یہ ہے کہ کولکاتا ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ سنا دیا ہے کہ کسی آسمانی کتاب پر مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا تو اب سپریم کورٹ نے اسے خارج کیوں نہیں کیا اور اس بدمعاش کو سخت سزا سناتے ہوئے اس پر سخت جرمانہ عائد کیوں نہیں کیا گیا؟ لگتا ہے، سپریم کے تعلق سے ہم نے اپنی اوقات سے زیادہ لکھ دیا، ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں، جب وقت آئے گا تو سپریم کورٹ کی نظروں میں یہ کولکاتا ہائی کورٹ کا فیصلہ ضرور رہے گا اور ان شاء اللہ تعالیٰ فیصلہ اسی کے مطابق ہوگا۔
٭٭٭
[email protected]