عادل فراز
امریکی صدر جو بائیڈن نےامریکی خارجہ پالیسیوں میں نمایاں تبدیلیوں کا عندیہ دیدیاہے ۔ایسا محسوس ہوتاہے کہ جیسے عالمی صورتحال اور سیاسی حالات کی نبض ان کی گرفت میں آچکی ہے ۔انہوں نے اپنی انتظامیہ کو بھی سابق صدر ٹرمپ کی انتظامیہ سے منفرد اور ممتاز رکھاہے ۔ان کی انتظامیہ کے جو فیصلے ابھی تک منظر عام پر آئے ہیں ان سے اندازہ ہوتاہے کہ بائیڈن کا سیاسی نظریہ دیگر امریکی سیاست مداروں سے جداہے۔وہ ٹرمپ کے احمقانہ سیاسی فیصلوں کو مسترد کرنے کے حق میں ہیں اور بعض فیصلوں کو مسترد کرچکے ہیں ۔بائیڈن نے مشرق وسطیٰ میں جاری کبھی نا ختم ہونے والی جنگ کو بھی ختم کرنے کے منصوبے پر غوروخوض شروع کردیاہے ۔یمن ،شام ،عراق اور افغانستان سمیت دیگر ممالک میں امریکی پالیسیوں نے جس طرح جنگ کے شعلے بھڑکائے ہیں ،اس سے پوری دنیا واقف ہے ۔یہ الگ بات کہ دنیا امریکی داداگیری کے خوف سے اس حقیقت کا اعتراف کرنے سے کتراتی رہی کہ عالمی سطح پر امن کی بربادی کا ذمہ دار امریکہ ہے مگر گاہے بہ گاہے یہ کڑوی سچائی کسی نا کسی پلیٹ فارم سے سامنے آتی رہی ۔عراق میں جس طرح جارج بش اور اس کے ہم نوائوں نے خون کی ہولی کھیلی اس کی سچائی عیاں ہوچکی ہے ۔یہی حال افغانستان ،یمن اور شام میں جاری خونریز جنگوں کی اصلیت کا ہے ۔امریکہ نے بلا جواز اپنی چودھراہٹ برقرار رکھنے کے لئے انسانیت پر جنگوں کو تھوپا اورمکروہ سازشیں سرانجام دیں ۔آج نو منتخب صدر بائیڈن امریکی غلط پالیسیوں اور مکروہ سازشوں کے خلاف پر عزم نظر آرہے ہیں ۔ان کے ابتدائی اقدامات اور فیصلوں کی بنیاد پر یہ اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ انہیں جنگوں سے زیادہ امن کی فکر ہے ۔وہ امریکی سیاست میں خوش آئند تبدیلیاں چاہتے ہیں تاکہ دنیا کے سامنے جو امریکہ کا مکروہ چہرہ پیش کیا گیا ہے اس کو بہتر کیا جاسکے ۔
بائیڈن انتظامیہ نےغیر ملکی مزاحمتی تنظیموں کے خلاف امریکی رویے کو بھی غلط قرار دیدیاہے ۔انہوں نے یمن میں حوثیوں کی مزاحمتی تنظیم ’انصاراللہ ‘کو دہشت گردوں کی فہرست سے خارج کرنے پر غوروخوض کا فیصلہ لیکر اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کا عندیہ دیاہے ۔بائیڈن انتظامیہ بخوبی جانتی ہے کہ انصاراللہ ایک مزاحمتی تنظیم ہے جس نے یمن میں جاری سعودی جارحیت کے خلاف مزاحمت و مقاومت کا راستہ اختیار کیاہے ۔سعودی عرب نے اپنے عرب و غیر عرب اتحادیوں کے ساتھ مل کر عرب دنیا کے انتہائی غریب ملک یمن کو چھ سال سے اپنی بہیمانہ جارحیت اور دہشت گردی کا نشانہ بنا رکھا ہے۔مختلف انسانی حقوق کی محافظ تنظیموں کی رپورٹ کے مطابق اس جنگ کے نتیجے میں لاکھوں افراد مارے جاچکے ہیں ۔ہزاروںلوگ بے گھر ہیں ۔یمن غذائی قلت اور وبائی امراض کا شکار ہے ۔یمن کی موجودہ صورتحال کی ساری ذمہ داری سعودی عرب اور اس کے عرب و غیر عرب حلیف ممالک پر عائد ہوتی ہے ۔امریکہ کی سیکورٹی کونسل کے ایک سینئر رکن جیک سولیوان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ صدر جوبائيڈن یمن کے خلاف جاری جارحیت کی حمایت سے دست بردار ہونے میں یقین رکھتے ہیں ۔جیک سولیوان کے بیان سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ امریکہ یمن کی تباہی میں سعودی عرب اور اس کے حلیف ممالک کی بھرپور حمایت کرتا رہاہے ۔بائیڈن کا دعویٰ ہے کہ وہ یمن میں جاری جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں ۔انہوں نے سعودی عرب کو ہتھیار نہ دینے کا بھی اعلان کرکے دنیا کو چونکا دیا ۔ان کے اس اعلان سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوگئی کہ یمن میں جاری جنگ کے پس پردہ استعماری طاقتوں کی سرمایہ کاری تھی ۔سعودی عرب استعماری طاقتوں کا زرخرید اور آلۂ کار ہے جس نے عالم اسلام کی ذلت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ۔سعودی عرب نے یمن کے اقتدار پر اپنے حامی اور زرخرید افرادکو مسلط کرنے کے لئے یمن کے امن کو آگ لگادی گئی ۔کیا عالم اسلام سعودی عرب اور اس کے حلیف ممالک کا احتساب کرے گا؟ کیا یمن کی بے گناہ عوام کو عالم اسلام سے انصاف کی امید رکھنی چاہئے؟ اگر ہاں! توپھر سعودی عرب کا عالمی سطح پر احتساب ضروری ہے۔
بائیڈن نے ایران کے ساتھ مذاکرات کابھی اشارہ دیاہے مگر وہ پابندیاں ختم کرکے مذاکرات کی میز پر آنے کے لئے آمادہ نہیں ہیں ۔ان کا کہناہے کہ ایران بلا شرط مذاکرہ کی میز پر آئے۔بائیڈن کے مطابق ایران کے ساتھ صرف مذاکرات کے لئے پابندیوں کو ختم نہیں کیا جاسکتا ۔ان کاکہناہے کہ مذاکرات کی میز پر ایران کو لانے کا مقصد یہ ہے کہ ماضی میں ہونے والی ڈیل پر ازسر نو بات چیت کی جاسکے۔ جبکہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای واضح الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ مذاکرات کا واحد راستہ غیر قانونی پابندیوں کاعملی خاتمہ ہے ۔بائیڈن جانتے ہیں کہ ایران نے جوہری معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی تھی بلکہ ٹرمپ نے اس معاہدہ سے فرار اختیار کیا تھا ،لہذاایران کی طرف سے مذاکرات کے لئے پابندیوں کے خاتمے کا مطالبہ بلا جواز نہیں ہے ۔بائیڈن اگر خطے میں امن چاہتے ہیں تو انہیں ٹرمپ کی احمقانہ پالیسیوں کو مسترد کرتے ہوئے صورتحال کو تبدیل کرنا ہوگا ۔لہذا موجودہ حالات میں بہتر یہی ہے کہ جوہری معاہدے کو بحال کیا جائے اور مذاکرات سے پہلے اقتصادی پابندیوں کو ختم کرکے ایرانی عوام کو یہ پیغام دیا جائے کہ امریکہ ان کے حقوق اور آزادی کی پاسداری کے لئے پرعزم ہے ۔ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے بھی دوٹوک الفاظ میں کہاہے کہ جوہری معاہدے کی بحالی کے لئے مذاکرات کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس کے لئے ماضی میں مذاکرات ہوچکے ہیں ۔ان کا کہناہے کہ امریکہ طے شدہ نکات پر جوہری معاہدے میں واپسی کے ساتھ پابندیوں کا خاتمہ کرے ۔ان کا یہ مطالبہ قانونی اور اخلاقی طورپر غلط نہیں ہے ۔
اگر بائیڈن خطے میں امن چاہتے ہیں تو انہیں مشرق وسطیٰ کے اہم اور بڑے مسائل کو سلجھانا ہوگا ۔ان میں سے ایک اہم مسئلہ فلسطین کا ہے ۔فلسطین ٹرمپ کی صہیونیت نوازی کی سزا بھگت رہاہے ۔صدی ڈیل کا نفاذ فلسطینیوں کے حق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے ۔کیا بائیڈن صدی ڈیل کے نفاذ پر قدغن لگاکر دنیا کو امن کا پیغام دے سکتے ہیں ؟ دنیا بخوبی واقف ہے کہ صدی ڈیل یک طرفہ ہے جس کی بنیاد امریکہ کی اسرائیل نوازی ہے ۔ٹرمپ نے اس معاہدے کے ذریعہ اپنے صہیونی داماد جارڈ کشنز کو فلسطین کی زمین جہیز کے طورپر دیدی تھی۔اس معاہدے کی منسوخی آسان نہیں ہے لیکن امریکہ کے لئے مشکل بھی نہیں! اسرائیل کے وجود کو تسلیم کروانے کے لئے جو تحریک ٹرمپ نے شروع کی تھی ،صدی ڈیل اس تحریک کا اہم پڑائو ہے ۔
بائیڈن اپنے سیاسی نظریے اور اندیش مندانہ فیصلوں کی بنیاد پر جانے جاتے ہیں ۔دیکھنا یہ ہے کہ مستقبل قریب میں وہ دنیاکو کس قدر محفوظ اور پرامن مقام پر لاکر کھڑاکرتے ہیں ۔انہوں نے زمام اقتدار سنبھالتے ہی اپنی اندیش مندانہ سیاست کا ثبوت دیاہے ۔لیکن کیا وہ امریکہ کی روایتی سیاست سے الگ ہوکر کچھ نیا کرسکتے ہیں ؟ اگر انہوں نے امریکہ کی روایتی سیاست میں ردوبدل کردی تو ان کے فیصلے امریکی سیاست میں سنگ میل ثابت ہوں گے ۔
[email protected]