بنگال فیصلہ کن مرحلے میں داخل ،’جئے بنگلہ‘ یا ’جئے شری رام‘ – ’کھیلا ہوبے‘ یا ’وکاس‘ – Bengal enters decisive stage, ‘Jai Bangla’ or ‘Jai Shri Ram’ – ‘Khela Hube’ or ‘Vikas’

0
147

 

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


Bengal enters decisive stage, 'Jai Bangla' or 'Jai Shri Ram' - 'Khela Hube' or 'Vikas'

عبدالعزیز
2019ء میں لوک سبھا کی 18 سیٹوں پر کامیابی بی جے پی کیلئے ایک ایسا ٹانک تھا کہ مودی اور شاہ نے طے کرلیا کہ 2021ء میں مغربی بنگال کے اسمبلی الیکشن میں ممتا بنرجی کو حکومت سے بے دخل کرکے ہی دم لیں گے۔ آج (27مارچ) الیکشن کا پہلا مرحلہ ہے۔ آخری مرحلہ 29 اپریل کو ہوگا۔ ٹی ایم سی کا سب سے مقبول نعرہ ’’کھیلا ہوبے‘‘ (کھیل ہوگا) ۔ اس کے جواب میں بی جے پی نے نعرہ دیا ہے ’’وکاس ہوبے‘‘ (ترقی ہوگی)۔ دو اور نعرے بھی دونوں پارٹیوں کے اسی طرح ایک دوسرے مد مقابل ہیں۔ ٹی ایم سی کا ہے ’جئے بنگلہ‘ جبکہ بی جے پی کا ہے ’جئے شری رام‘۔ بنگال میں بنگالی شناخت، بنگلہ کلچر اور بنگلہ زبان بی جے پی کے ہندوتو کلچر سے بالکل مختلف ہے۔ اگرچہ تاملناڈو کی طرح مغربی بنگال میں ہندی زبان سے بغض یا نفرت نہیں ہے مگر بنگالیوں کو اپنی زبان کسی بھی دوسری زبان کے مقابلے میں زیادہ پیاری اور محبوب ہے۔ بنگال میں درگا اور کالی کی پوجا ہوتی ہے۔ رام جس کو ہندوتو کا گہرا تعلق بنا دیا گیا ہے بنگال میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ الیکشن میں کامیاب ہونے کیلئے اور ممتا بنرجی کو چڑانے کیلئے بی جے پی کا ’جئے شری رام‘ کا نعرہ ریلیوں اور جلسوں میں عام طور پر سنائی دیتا ہے۔ اس کی کاٹ کیلئے ترنمول کانگریس نے ’جئے بنگلہ‘ کا نعرہ بلند کیا ہے۔ ایک جلسہ عام میں ممتا بنرجی نے اپیل کی ہے کہ فون پر ہیلو کے بجائے ’جئے بنگلہ‘ بولنے کی کوشش کی جائے۔ بی جے پی کی جنم بھومی مغربی بنگال ہی ہے۔ جہاں شیاما پرساد مکھرجی نے ’جن سنگھ‘ کی تشکیل کی تھی۔ بعد میں جن سنگھی ممبران جنتا پارٹی سے علاحدہ ہوئے تو اس کا نام بدل کر ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ رکھ دیا گیا۔ ممتا بنرجی نے بی جے پی کے لوگوں کو ان کے انداز اور چال چلن سے ’بوہرا گاتو ‘ (باہری لوگ) کہنا شروع کیا جس کی کاٹ کیلئے ممتا بنرجی کو بی جے پی والے ’رام دشمن‘ کہہ کر مخاطب کرنے لگے۔
بایاں محاذ کی حکومت میں خاص بات یہ تھی کہ اس نے مذہبی شناخت کو مٹانے کی بھرپور کوشش کی۔ جیوتی باسو نے خاص طور پر سے دہلی کی سامراجیت کے خلاف جھنڈا بلند کیا تھا، لیکن مغربی بنگال میں بی جے پی کے وجود اور استحکام کی وجہ سے دہلی سے مخالفت کا وہ جذبہ جو مغربی بنگال میں پایا جاتا تھا وہ سرد پڑتا ہوا نظر آرہا ہے، مگر مغربی بنگال کی شناخت باقی ہے۔ رابندر ناتھ ٹیگور، نیتا جی سبھاش چندر بوس، سوامی ویویکا نندی، ایشور ودیا ساگر، امرتیہ سین، ستیہ جیت رائے جیسی شخصیتیں مغربی بنگال کی پہچان ہیں۔
انیسوی صدی میں بنگال کے ایک عظیم شاعر اور ڈرامہ نگار میکائیل مدھو سودن نے ’’میگھناد بدھ کویہ‘‘(Meghanad Badh Kavy) ایک نظم لکھی جو رام پر سخت تنقید تھی۔ وہ رام اور لکشمن کے بجائے راون کے بیٹے میگھناد کو ایک ہیرو کی حیثیت اپنی نظم میں پیش کیا تھا، مگر ان کی یہ کوشش عوامی تحریک کی شکل اختیار نہیں کرسکی۔
اتر پردیش کے بعد مغربی بنگال میں سب سے زیادہ ذات پات کا نظام پایا جاتا ہے۔ راج بنسی، نماسودرس، متوا اور دیگر پسماندہ طبقات کبھی بھی بنگال میں برہمن، بدیاس ، کولن کائستھ کے غلبے کا حصہ نہیں بن سکے۔ بی جے پی نے مندر اورمنڈل سیاست دونوں کو یکساں متحرک کرکے پسماندہ طبقات کو اپنے ساتھ کرنے میں ایک حد تک کامیاب ہوئی۔ پسماندہ طبقات کو اوپر اٹھانے کا ناٹک کیا اور ان کی ترقی کا وعدہ کیا اور جو پڑوسی ملک سے آئے ہوئے تھے ان کو ’سی اے اے‘ کے ذریعے شہریت دینے کا خواب دکھایا۔ یہی وجہ تھی کہ آسام میں ’سی اے اے‘ کے خلاف نعرہ بلند کرنے سے پہلے مغربی بنگال میں ’سی اے اے‘ نافذ العمل ہوگا، کئی بار امیت شاہ نے اپنی تقریروں میں دہرایا۔ اس سے پسماندہ طبقات ہندوتو کی پالیسی سے قریب ہوتے گئے۔ بنگال میں ہندوؤں کے اندر مقامی عصبیت کا عنصر موجود تھا۔ بنگال فرقہ پرستی کی بنیاد پر دو بار تقسیم ہوا۔ یہی وہ چیز تھی جسے بی جے پی نے 2019ء کے لوک سبھا الیکشن میں پسماندہ طبقوں کی مدد سے کامیابی حاصل کی تھی۔ ریسرچ اسکالر سچن کمار نے لکھا ہے کہ ’’بی جے پی پسماندہ طبقے کو اپنی ایک خاص حکمت عملی کے ذریعہ اسے اپنا محکوم بنانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اسے انھوںنے “Subaltern Hindutva moblization” لکھا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ممتا بنرجی نے بھی دلت، بہوجن طبقے تک پہنچنے کی بھرپور کوشش کی اور اپنے ہندو مذہب کا تعلق کا بھی پرچار کیا۔ ’برو ماں‘ یا ’بینا پانی دیوی ‘ جو متوا سماج کی سربراہ تھی جب موت ہوئی تو ممتا نے ریاست میں ایک دن چھٹی کا اعلان کیا۔ اس بار الیکشن میں ٹی ایم سی نے 79 شیڈولڈ کاسٹ (SC) اور 17 شیڈولڈ ٹرائب(ST) کو ٹکٹ دیا ہے۔ چندی پاٹھ پڑھ کر بھی انھوں نے اپنے ہندو ہونے کی پہچان بتائی ہے۔ دیکھنا ہے کہ یہ سب کیا ہندوتو پالیسی کی توڑ ہوسکتی ہے اور ان کے خلاف جو غم و غصہ ہے اس میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ یہ 2مئی کو ہی معلوم ہوگا۔
اس وقت الیکشن کی ہما ہمی اور دو پارٹیوں میں جیت اور ہار کی جنگ نے بنگال کو دوراہے پر کھڑا کردیا ہے۔ کیا ممتا بنرجی کی درگا اور بنگلہ کلچر کی پالیسی کی وجہ سے بنگالی حضرات ممتا بنرجی کو ترجیح دیں گے؟ یا شمالی ہندستان کے ہندی بیلٹ (ہندی علاقہ) کی قطار میں کھڑے ہوجائیں گے۔ موجودہ الیکشن مغربی بنگال کیلئے فیصلہ کن ہے۔
کیا ایک ایسی ریاست جہاں اپنے دیوی اور دیوتاؤں (درگا مائی، کالی مائی وغیرہ) اور بنگلہ زبان اور شمالی ہندستان کے ہندی بولنے والوں سے علاحدہ شناخت باقی رکھ سکیں گے یا یہ ریاست بھی ہندو بیلٹ کے ساتھ یوپی اور بہار کی قطار میں کھڑی ہوجائے گی؟
اس میں دو رائے نہیں ہے بایاں محاذ اور کانگریس کے کمزور ہونے کی وجہ سے بی جے پی نے بنگال کی سیاست میں اپنا غلبہ حاصل کرلیا ہے اور مین اپوزیشن کا رتبہ بھی حاصل کرلیاہے؟ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ بہار، اڑیسہ ، اتر پردیش، آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں کانگریس کو ہٹاکر جو جگہ خالی ہوئی تھی ریاستی جماعتوں کو پُر کرنے کا موقع مل گیا۔ بنگال میں کانگریس اور بایاں محاذ سے جو جگہ خالی ہوئی اسے بی جے پی نے پُر کردیا ہے۔ اب وہ ترنمول کو ہٹاکر بنگال کو اپنے کنٹرول میں لینا چاہتی ہے۔
مغربی بنگال میں فرقہ پرستانہ سیاست کا رجحان بڑھتا جارہا ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ اب یہاں جب بھی الیکشن ہوگا اس میں اضافہ ہی ہوتا جائے گا۔
بنگال کی انتخابی جنگ میں ممتا بنرجی کی شخصیت اور مقبولیت میں ابھی بھی بی جے پی کی راہ میں زبردست رکاوٹ ہے۔ دہلی، لکھنؤ اور دیگر علاقوں سے آآکر جو مغربی بنگال میں جلسہ عام اور ریلیوں میں اشتعال انگیز اور فرقہ وارانہ تقریریں کرکے ریاست میں نفرت اور تعصب پھیلا رہے ہیں اگر وہ خدانخواستہ کامیاب ہوتے ہیں تو بی جے پی کا ’اپوزیشن مکت بھارت‘ کا خواب پورا ہوجائے گا۔ اگر بی جے پی یہاں شکست کھاتی ہے اور منہ کے بل گرتی ہے تو یہ ممتا کا سب سے بڑا کارنامہ ہوگا۔ اسے ان کا دوسرا بڑا کارنامہ کہنا غلط نہ ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ بنگال کی شناخت باقی رہے گی یا نہیں؟ ووٹ برائے بنگال یا ’جئے بنگلہ‘ زیادہ تعداد میں پڑے گا یا بنگال ’جئے شری رام‘ کی بھیڑ میں گم ہوجائے گا؟ بنگال کیلئے ضروری ہے کہ بنگال میں بسنے والے فرقہ پرستی اور فسطائیت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ اچھی بات یہ ہے کہ بنگال کے آرٹسٹ، فلاسفر اور دانشور بی جے پی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور عام لوگوں سے اپیل کر رہے ہیں کہ ’’بی جے پی کو کسی حال میں ووٹ نہ دیں۔ بی جے پی بنگال کے کلچر اور ماحول برباد کرکے رکھ دے گی‘‘۔ ہندستان کے کسان جو ملک بھر میں تحریک چلا رہے ہیں ان کی بھی یہی اپیل ہے کہ ’’بی جے پی کو کسی قیمت پر ووٹ نہ دیاجائے اور اسے شکست فاش دینے کی بھر پور کوشش کی جائے‘‘۔
Mob:9831439068

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here