گئودان سے پہلے- Before Goudan

0
286

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

Before Goudan

’’ گائے ، اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ جانوروں میں گائے کی اہمیت سے کسے انکار ہے۔ دودھ کے معاملے میں گائے کا جواب نہیں۔ گائے کا دودھ جہاں صحت کے لیے انتہائی مفید ہے ، وہیں بہت سی جسمانی بیماریوں کا علاج بھی ہے۔ ‘‘
’’اچھا اچھا۔۔۔ ٹھیک ہے ۔۔۔ یہ تو بتا آج گائے پر یہ لیکچر کیوں۔؟‘‘
’’بیچ میں نہ ٹوکو ۔۔۔ گائے ایک پالتو جانور ہے۔ ہندوستان میں جسے ماں کا درجہ حا صل ہے۔ ہمارے ہندو بھائی گائے کو اپنی ماتا مانتے ہیں ۔ اُسے پوجتے ہیں۔۔۔‘‘
’’ ہا ں بھئی ۔۔۔ یہ تو مجھے بھی پتہ ہے۔۔ پھر کیا۔ ؟ ‘‘
مذاق مذاق میں دو دوست شکیل اور موہن سنجیدہ گفتگو پر اتر آئے تھے۔
’’ یار ایک بارعجیب بات ہوئی۔ میں گاؤں گیا تھا۔ وہاں ہماری ایک تائی ہیں ۔ بیروتی اور تاؤ ہر پال ۔جب سے ہم نے آنکھ کھولی ، ہرپال تاؤ اور بیروتی تائی کو اپنے گھر سے کوڑا لیجا تے دیکھا۔ جب کوئی شادی بیاہ ہوتا، ہرپال تاؤاور بیروتی تائی اپنے خاندان کے بڑے بچوں کو لے آتے ۔ گھر ،آنگن ،موری ،باہر کی سڑک، آس پاس کا علاقہ سب صاف کردیتے۔ مجھے یاد ہے میرے دادا زندہ تھے۔ ہرپال تاؤ اکثر دادا کے سامنے زمین پر بیٹھ جاتے،اور گھنٹوں باتیں کرتے۔ ‘‘
’’اجی۔۔۔ چاچا۔۔۔ آج کل ۔۔یو دیس کنگے کوجاروے۔‘‘
ہرپال تاؤ ، میرے دادا ابراہیم خاں کو چاچا کہتے۔
’’ ہرپال ۔۔۔ بات تو گمبھیر ہی ہے۔ شہرن میں لوگن کو دماگ کھراب ہو گوہے‘‘
’’ چاچایوبابری مہجدکاہے۔ پہلے تو کبھی یا کو نام نہ سنو‘‘
’’ہاں بھیا۔ کاں بتائیں۔ ارے عبادت کرو، پوجا کرو۔ یا میں جھگڑے کی کابات ہے۔‘‘
’’ سناہے مہجد ڈھانے کو پورے ملک سے لوگ اجودھیا جارے ایں۔ گام سو، نریندر اورو اکے دوس بھی جارے ایں۔‘‘
’’ چپ! چپ ہوجا ‘‘
موہن لال نے شکیل کو بیچ میں ہی ٹوک دیا۔
’’ تو یہ کیا لے بیٹھا۔ یہ سب تو مجھے کئی بار بتا چکاہے۔ کہ ایو دھیا سے لوٹتے سمے، نریندر اور واکے دوس کو ایکسیڈینٹ ہو گیا اور چاروں کی ارتھی گاؤں آئی تھی ۔۔۔ یہی نا۔۔۔ بس بس کر ۔۔۔ ‘‘ موہن نے اسے چپ کرادیاتھا۔
’’ دیکھو ، شکیل ۔۔۔ تو وہ گائے والی بات بتا۔ سنا ہے تائو۔تائی کا گائے پریم بہت مشہور تھا۔‘‘
’’ہاں ،بہت مشہور تھا‘ ‘
موہن لال نے شکیل سے گائے کی کہانی سنانے کو کہا۔
’’موہن ہو ایوں کہ بیروتی تائی کے گھر ہمیشہ ایک نہ ایک گائے رہا کرتی تھی۔ تائی اور تاؤ۔۔۔ گایوں کی خوب دیکھ بھال کرتے ۔ صبح سویرے اُٹھ کر تائی گائے کے لیے سانی تیار کرتی۔ اس کے آس پاس کا گوبر صاف کرتی۔ تاؤ بھی اپنے کاموں سے نپٹ کر دودھ نکالنے میں لگ جاتے ۔ دودھ گاؤں کے مکھیا کے یہاں جاتاتھا۔ جس کے بدلے مکھیا کبھی پیسے ، کبھی اناج اور کبھی کپڑے وغیرہ بھجوا دیتے ۔ تاؤ کی گائے بہت خوبصورت تھی۔ کالے جسم پر سفید رنگ کے چھینٹے ، گو یا کالی سیاہ رات میں ٹمٹماتے تارے۔ پورے گاؤ ں میں تاؤ کی گائے کے چرچے ہوتے۔ وہ دودھ بھی بہت دیتی ۔ دونوں وقت ملاکرپندرہ، کلودودھ ہوجاتا ۔تاؤ دس کلو تو بیچ دیتے باقی اپنے استعمال میں لے آتے۔‘‘
’ ’ ۔۔۔ آگے بتا۔ ‘‘ موہن بے چین ہو رہا تھا۔
’’ موہن ۔۔۔ ایک بار پتہ کیا ہوا ۔ تاؤ کی گائے چوری ہو گئی‘‘
’’ ایں ۔۔۔ کیسے۔۔۔ ؟ ‘‘وہ شکیل کے قریب آ گیا تھا۔
’’تاؤ گائے اپنے اُسارے میں باندھتے تھے ۔ اور وہ خودسامنے دالان میں سو تے تھے۔ ایک رات ۔۔۔ بارہ بجے کھٹر پٹر سے تاؤ کی آنکھ کھل گئی ۔ وہ اُٹھ کر باہر آئے ۔۔۔ گائے کو دیکھا۔ پھر سونے چلے گئے۔ انہیں نیند نہیں آرہی تھی ۔ جاڑوں کے دن تھے ۔ ٹھنڈ ا پنا اصلی روپ دکھارہی تھی ۔ نجانے کب تاؤ نیند سے آنکھیں لڑا بیٹھے۔شور شرابہ ہونے پر وہ گھبرا کر اُٹھے۔
’’ اجی اٹھو ۔۔۔ دیکھیو۔۔۔ ہماری گائے نا ہے۔ ‘‘ تائی کے جگانے پر تاؤ کی آنکھیں کھل گئیں۔
’’ اری کا بکے اے۔۔۔ میں ۱۲ بجے تو دیکھ کر سویوہوں۔ اب کاسمے ہورو اے۔ ‘‘
’’ چار بجے ہیں ۔۔۔ ہائے میری گائے۔۔۔ ‘‘
تائی نے سینہ پیٹ کر رونا شروع کر دیا۔ پورا محلہ جاگ گیا تھا۔ سب حیران تھے کہ ہرپال کی گائے کون لے گیا۔ چوروں کی ہمت کی داد دینی پڑتی ہے۔ تاؤ تو یو ہی بہت غریب تھے بڑی مشکل سے پیسے جمع کرکے ایک بچھیا خریدی تھی جو، جو ان ہو کر ایک خوبصورت گائے بن گئی تھی۔ وہ اور ان کی بیوی گاؤں کے بڑے لوگوں کے یہاں کام کرکے گذاراکرتے تھے۔
یوں تو گاؤں میں لوگ اندھیرا رہتے ہی اُٹھ جاتے ہیں ۔ پر آج پورا گاؤ ں کچھ جلدی ہی بیدار ہو گیا تھا۔ ہر طرف ہرپال کی گائے کی چوری کی داستان تھی ۔ مکھیا گری راج ، پنڈت رام کشن ، ٹھاکر اجے سنگھ جیسے گاؤں کے رئیسوں کے یہاں بھی خبر پہنچ گئی تھی ۔ مکھیا گری راج ابھی ڈھنگ سے اُٹھے بھی نہیں تھے کہ ان کی بیٹھک پر شو ر سنائی دیا۔ بیٹھک میں ہر پال کا روتے روتے برا حال تھا۔
’’ مکھیا جی ۔۔۔ مکھیا جی ۔۔۔ میں تو لٹ گئیو۔۔۔ ‘‘
گری راج جلدی سے کپڑے درست کرتے ہوئے باہر آئے۔
’’ کیا ہوا۔۔۔ کا بات ہو گئی۔۔۔‘‘
’’میری گائے چوری ہوگئی ۔۔۔ہائے ۔۔۔میں مرگو ، اب میں کاکرن گو، ؟‘‘
’’ ہر پال ۔۔۔ رووئے مت ۔۔۔ ہم پتہ لگان گے۔۔۔ اور تو پھکر نہ کر ۔۔۔ چور کو چھوڑن گے نا۔ ‘‘
بات آئی گئی ہو گئی ۔ کئی دن تک پورے گاؤں میں تاؤ ہرپال کی گائے کی چرچا زوروں پر رہی۔ مکھیا گری راج نے اپنے جاسوس اور کارندے چور کا پتہ لگانے کے کام پر لگادیے۔ خوب چھان بین کے بعد بھی گائے کا کوئی پتہ سراغ نہیں ملا۔ گاؤں کے سبھی لوگ ہرپال سے ہمدردی کرتے ۔ اُسے دلاسہ دیتے۔
۔۔۔۔۔۔۔
کوئی دو یا تین مہینے بعد۔ گاؤں سنائیں کی پینٹھ میں گری راج کارندوں کے ساتھ بیل خریدنے گئے ہوئے تھے۔ پینٹھ میں ایک سے ایک بیل، گائے، بھینس آئے ہوئے تھے۔ بھیڑ بکریاں بھی تھیں۔
’’ سرکار یو جوڑی کتی اچھی ہے۔ یا کو رنگ ، کد ، چال ، سب جچے ہے۔‘‘
گری راج کے منشی نول نے بیل کی ایک خوبصورت جوڑی کی طرف متوجہ کیا۔
’’ ہاں بھئی نول جوڑی تو بڑھیا لگے ہے۔ ذرا دام توپوچھ۔۔۔‘‘
’’ ارے سرکار ۔۔۔ ہرپال کی گائے۔۔۔‘‘
اچانک منشی نول زور سے چلا پڑے ۔ انہوں نے دیکھا پاس ہی ہر پال کی گائے کو لیے دو نوجوان کھڑے تھے۔ مکھیا زور سے چلائے۔
’’ ارے ہاں ۔۔۔ یہ تو ہر پال کی گائے ہے۔۔۔ پکڑو سالوں کو ۔۔۔ کون ہیں یہ۔۔۔‘‘
مکھیا اور ان کے کارندے ہرپال کی گائے لیے کھڑے نوجوانوں کی طرف شعلے کی طرح لپکے۔ ان جوانوں نے جودیکھا تو وہ گائے چھوڑ چھاڑ کر سرپٹ بھاگ لیے ۔بھاگنے کے معا ملے میںچور ہمیشہ، پکڑنے والوں سے تیز ہی ہوتے ہیں۔ وہ نوجوان ایسے بھاگے کے پل میں غائب۔ مکھیا کے کارندوں نے گائے کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ واپسی پر گاؤں میں جشن کا سا ماحول تھا۔ ہر پال تائو تو مکھیا کے پیروں میںگرپڑے۔
’’اُٹھو بھئی، ہر پال ۔۔۔ انت بھلا تو سب بھلا ۔۔۔ تمہاری قسمت اچھی تھی جو یو ہمیں دکھائی پڑگئی۔‘‘
تاؤ ہرپال اور تائی بیروتی گائے سے لپٹے جارہے تھے۔ گائے بھی سکون سے اپنے مالکوں سے مل رہی تھی۔ ایک بار پھر تاؤ ہر پال کے گھر خوشیاں ناچنے لگی تھیں۔ان کی گائے رنگ روپ میں ایسی ہی تھی کہ ہزاروں میں الگ نظر آئے۔
کچھ دیر کے لیے شکیل کی آواز بند ہو گئی تھی
’’ پھر کیاہوا شکیل۔۔۔ آگے بتاؤ۔۔۔‘‘ موہن بیچ میں بول پڑا۔
’’ہونا کیا تھا۔ تاؤ اور تائی کا گائے پریم روز بہ روز بڑھنے لگا۔ وہ اس کی دیکھ ریکھ ، کھانا پانی بالکل اپنی اولاد کی طرح کرتے۔ گائے کی آواز سے ہی تائی پہچان جاتیں کہ اسے کیا ضرورت ہے ؟ کب اُسے پانی چاہئیے اور کب کھانا۔ دونوں اس کی صفائی کا بہت خیال رکھتے ۔ گرمیوں میں تاؤ روزانہ اُسے پانی سے نہلاتے ۔ اس کے جسم پر تیل لگاتے ،سینگوں کو چمکاتے۔
’’ ارے ہرپال آج تو تیری گائے بہت چمک مارری اے۔ ‘‘
گاؤں کے بابا ترکھا جب ہرپال سے کہتے تو ہر پال کی خوشی ، دیکھنے لائق ہوتی، ان کے چہرے پر ہلکی سی مسکان ہوتی ، گویا کوئی بڑاانعام مل گیاہو۔
’’ ہاں ۔۔۔ چاچا۔۔۔ آج میں نے گائے کی مالس کی ہے۔‘‘
تاؤ ہر پال کو پورے گاؤں میں زیادہ تر لوگ تاؤ ہی کہتے ۔ ان کی زندگی بھی عجیب تھی۔ ان کے یہاں کئی پشتوں سے ایک ایک بیٹے کی روایت چلی آرہی تھی ۔ ان کے دادا بھی اکیلے تھے، باپ اور وہ بھی اور ان کے بھی ایک ہی بیٹا تھا۔ مہندر پال گاؤں کی پاٹھ شالہ سے پانچویں کر نے کے بعد سہکاری نگر کے اسکول میں داخل ہوا اوردسویںکے بعد شہرکے سرکاری اسکول میں چپراسی لگ گیا تھا۔ ہر پال تائو تو خوشی سے پھولے نہیں سمارہے تھے۔ وہ پورے گاؤں میں مٹھائی کی طرح خوشیاں بانٹتے پھرے۔ کسی نے تعریف کی تو کسی نے یوں ناک بھوں چڑھائے، گویا غلاظت ان کی طرف چلی آرہی ہو۔
وقت گذرتے دیر نہیں لگتی ۔ نیا پرانا ہو جاتا ہے اور پرانا ختم ہو نے کی طرف مائل ہو جا تا ہے۔ تاؤ اور تائی بوڑھے ہو چلے تھے۔ ان کی گائے بھی اب لاغر سی ہوگئی تھی۔ اس نے دودھ دینا تقریناً بند کر دیاتھا۔ دو چار کلو دودھ سے کیا ہوتاہے۔ مہندر پال کی شادی کیا ہوئی چند برسوں میں دو بچے بھی آگئے ۔ گاؤں سے شہر دور تھا مہندر پال اپنے بچوں کو لے کر شہر چلا گیا تھا۔ گاؤں میں اب تاؤ ، تائی اور ان کی گائے رہ گئی تھی۔ گائے نے دودھ دینا بند کر دیا ۔ ہر پال تائوکے پاس کھیتی کی زمین نہیں تھی وہ اور ان کے پرکھے گاؤں کی گندگی اُٹھا اُٹھا کر ہی بڑے ہوئے تھے۔ وہ تو گاؤں کے رحم وکرم پر اپنی گائے پال رہے تھے۔ کسی کے کھیت سے ہرا کاٹ لاتے، کوئی بھس دے دیتا ۔ جس کے بدلے وہ ، ان کو دودھ دے دیا کرتے، لیکن اب دودھ نہیں تھا ۔ ایسے میں کوئی کہاںتک مدد کرتا۔ تاؤ کے لیے گائے کا پالن پوسن مشکل ہوگیاتھا۔ مہندربھی پیسے بھیج بھیج کے تھک چکا تھا۔ جب بجو کا ہی کھیت کو کھانے لگے اور پیٹ میں کینچوے پلنے لگیں تو کیا ہوگا ۔؟ ہرپال تائو کا حال بھی ایسا ہی تھا۔ گائے نے گھر کا بجٹ بگاڑ دیا تھا۔ اس کے پیٹ بھرنے کے لیے دونوں میاں بیوی کو کبھی کبھی بھوکا بھی رہناپڑتا۔ جبکہ اسی گائے نے کتنے پیٹ پالے تھے ۔تائوکے پاس نہ زمین تھی ،نہ ہی کوئی ہنر۔ گائوں کے گھروں کی موریاں،نالیاں صاف کرنا،کوڑا اُٹھانا۔اس سے جو آمد ہوتی اور گائے کے دودھ سے ہی انہوں نے نے اپنے بیٹے کو پڑھایا تھا۔ مہندرپال نے کئی بار، باپ کو سمجھایا۔
’’ چاچا ۔۔۔ کب تک کھدمت کروگے۔ اپناپیٹ کاٹ کر کب تک گائے کا پیٹ بھروگے ‘‘
’’ بیٹا جب تک جان ہے ۔۔۔ میں گائے کو نہیں چھوڑسکتا۔ وہ ہماری ماتاہے۔ ‘‘
’’ چاچا۔۔۔ کیوں نہ اسے بیچ دیں ۔۔۔‘‘
’’نا بیٹا ۔۔۔ نا۔۔۔ ایسا وچار بھی پاپ ہے۔۔۔ یہ پشو بے جبان ہے۔ یانے پوری جندگی ہمارو ساتھ دیو ہے۔ اب انت میں ہم یائے بیچ دیںیوہر گج نہ ہوے۔‘‘
’’پر چاچا۔۔۔ یا کی دیکھ ریکھ کیسے ہووے گی ۔ میرے بچے بھی بڑے ہو رے ایں ۔میں بھی کب تک کروں۔‘‘
’’ یاپھر ایک کام کر لیو۔‘‘ مہندر کے دماغ میں ایک اور خیال پیدا ہوا۔
’’کیا۔۔۔؟ ‘‘ ہرپال سوالیہ نشان بن گئے۔
’’ کیوں نہ ہم کسی مندر یا مٹھ میں گئودان کردیں۔۔۔‘‘
’’ ہوں ۔۔۔‘‘ ہر پال نے صرف ہنکار بھری۔
’’ پُن کا پُن اور سمسیا کو ہل بھی۔ ‘‘
’’ مہندر یو بات تو، تونے پتے کی کہی ہے۔ بھگوان بھی کھوس ہوجاون گے۔ ہمارے پاپ دھل جان گے اور گائے ماتا سور کچھت بھی رے گی۔ ‘‘
باپ بیٹے نے بظاہر مسئلے کا حل نکال لیاتھا۔ لیکن ہرپال اور تائی کی گائے سے محبت ، اتنی آسانی سے چھوٹنے والی نہیں تھی۔ دونوں گائے سے لپٹ کر روتے ۔ گائے بھی انہیں ایک ٹک دیکھے جاتی گویاان کی سب بات محسوس کر رہی ہو،اور ان کی مجبوری کو بھی سمجھ رہی ہو۔ کئی بار ہر پال اوربیروتی کے ہاتھ بھی چاٹتی اور ایک خاص قسم کی آواز نکالتی۔ بیروتی تائی اس کی آواز سن کرمضطرب ہوجاتی۔
’’ یار شکیل ۔۔۔ کیا تاؤ نے سچ مچ گئودان کر دو۔۔۔‘‘ خاموشی سے داستاں سنتے سنتے موہن بیچ میں بول پڑا۔
’’’ ارے موہن ۔۔۔ مجھے سنانے بھی دے گا یاٹوکتا ہی رہے گا۔ اس وقت کہانی چڑھان پر ہے،اب نہ ٹوکنا ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دن اور وہ لمحہ بھی آگیا جب گائے کو شہر کے مشہور آشرم کو دان کرنے کی تیاری ہونے لگی۔ مہندر پال نے ایک چھوٹے ٹرک کا انتظام کردیاتھا۔ ٹرک رات کو ہی گاؤں میں آگیاتھا۔ وہ رات تاؤ ہرپال اور تائی بیروتی پر بہت بھاری تھی ۔ دونوں نے گائے کو خوب اچھے کھانے کھلائے ۔ تازہ روٹیاں اورپھل، ہری ہری سبزیاں، جو انہوں نے مکھیا سے اُدھار پیسے لے کر منگوائے تھے۔ رات بھر دونوں گائے کی خدمت کرتے رہے۔ دونوں نے اپنی اپنی چارپائیاں ،اُسارے میں گائے کے پاس ہی ڈال لی تھیں۔ طے ہوا کہ ایک ایک کر کے دونوں جاگیں گے۔ مگر ایسی نوبت ہی کہاں آئی ۔ دونوں کی آنکھوں سے نیند غائب تھی۔ گائے ذرا بھی ہلتی ڈلتی اور اس کے گلے کی گھنٹی بجتی تو دونوں اُٹھ جاتے۔ جیسے مندر کی گھنٹیاں بج اُٹھی ہوںاور دیوی نے پکارا ہو۔
صبح سویرے ہی گاؤں کے لوگ گائے کو دیکھنے ا ور وداع کرنے آنے لگے تھے۔ ہرپال تائونے گائے کو خوب مل مل کے نہلایا۔ پورے بدن پر تیل کی مالش کی ۔ گائے کا بدن اب ڈھل چکا تھا۔ کھال لٹکنے لگی تھی لیکن انہوںنے پورے جسم پر خوب تیل رگڑاتھا۔گیندے کے پھولوں کی ایک مالا، گلے میں ڈالی، ماتھے پے لمبا سا ٹیکا لگایا۔ تائی اور تائو کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔ گاؤں کے لوگوں کی آنکھیں بھی بھیگ رہی تھیں ۔ تائو خود بھی گائے کے ساتھ آشرم تک جانے والے تھے ۔ ان سے گائے کے بنا، رہا نہیں جارہاتھا۔ گائے کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔ ایک اونچی ٹھیک سے لگاٹرک تیار کھڑا تھا۔ دوسری طرف لکڑی کا ایک چوڑا پٹرالگایاگیاتھا۔ جوں ہی گائے کو ٹرک کی طرف لے جایاجانے لگا۔ تائی زور سے رونے لگی۔
’’ ہے بھگوان ۔۔۔ میری گائے ماتا کی رکھشا کریو۔ ‘‘
ہر پال کا دل رورہا تھا مگر زمانے کودکھانے کو وہ ہمت سے کام لے رہے تھے۔ گائے پٹرے پر چڑھنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ وہ بار بار اِدھر اُدھر ہوجاتی ،اور تائی کی طرف دیکھ کر عجیب سی آوازیں نکالتی ۔دوسری طرف بیروتی کا کلیجہ منھ کو آرہا تھا۔ بڑی مشکل سے گاؤں کے آٹھ دس لوگوں نے دھکا دے کر گائے کو ٹرک میں چڑھایاڈرائیور نے ہر پال تائوکو آگے بیٹھنے کے لیے کہا۔
’’تاؤ ۔۔۔ آپ آگے بیٹھ جاؤ۔۔۔ ‘‘
’’ نا ! میں تو گائے کے ساتھ ہی بیٹھن گو۔‘‘
اور ہرپال گائے کے پاس کھڑے ہو گئے۔ ٹرک روانہ ہوا۔ باہر تائی اور گاؤں کے لوگ اداس کھڑے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا گویا گاؤں کی لاڈلی، ہنس مکھ اور چنچل لڑکی وداع ہورہی ہے۔ گاؤں والوں پر خاموشی طاری تھی ۔ہو ا رکی ہوئی سی سارا منظر دیکھ رہی تھی ۔ پیڑ پودے سب خاموش سر جھکائے کھڑے تھے گویا گوماتا کے جانے کے غم میں ڈوبے ہوں۔تائی رسہ تڑا رہی تھی۔ گاؤں کی عورتوں نے انہیں پکڑ رکھا تھا۔ ان کے رونے کی آواز میں بڑا درد بھرا تھا۔ گائے بھی بار بار عجیب طرح کی آزاویں نکال رہی تھی،اور اپنی زبان میں تائی کے گریے میں ساتھ دے رہی تھی۔ تائونے گائے کی کولیا بھرلی تھی ۔ ٹر ک دھول اُڑاتا ہوا گاؤ ں سے رخصت ہو چکا تھا۔ گاؤں میں ہرپال کی گو محبت کے چرچے تھے۔
’’بھئی ہرپال نے کمال کردو۔۔۔‘‘
’’گائے ماتاکی ایسی کھدمت کون کرے ہے ؟ ‘‘
’’گئو دان سو ہرپال کی کئی پستوں کے پاپ دھل جان گے۔‘‘
’’اگلے جنم ہر پال گام کو مکھیابنے گو‘‘
شکیل خاموش ہو گیاتھا۔ کہانی تھم گئی تھی۔ شکیل کی آواز میں بھی لرزہ آگیا تھا۔ اس سے قبل کہ موہن اسے ٹوکتا ، وہ پھر شروع ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ گائے سے لپٹے، ہنومان چالیسا پڑھتے اور رام کی جے جے کار کرتے ہر پال ،سڑک کی دھچکیوں میں ہچکولے کھاتے، کبھی ٹرک کی ایک دیوار سے جالگتے تو کبھی دوسری سے ۔ گائے تھک کر بیٹھ گئی تھی ۔ ہرپال بھی اس کے پاس ہی اکڑوں بیٹھ گئے تھے۔ٹرک تیز رفتار ی سے شہر کی طرف بھاگاجارہاتھا۔ ٹرک ڈرائیوراپنی مستی میں تھا۔ اچانک شہر کے ایک چوراہے پر بھیڑ نظر آئی۔ لوگ ہاتھوں میں لاٹھی ، ڈنڈے لیے شور شرا بہ کرتے اور نعرے لگاتے نظرآئے۔
’’گئوماتا کی رکھشاہمارا کرتیو ہے۔ ‘‘
’’ گو ہتھیا نہیں ہونے دیں گے ۔‘‘
’’ ہم گورکھشک ہیں۔۔۔ گورکھشک ‘‘
’’ گو ماتا کی جئے۔۔۔‘‘
ڈرائیور نے بھیڑ سے ٹرک کو بچانے کے لئے ایک طرف سے تیزی سے نکالنے کی کوشش کی ۔ ٹرک کی رفتار خاصی تیز تھی۔ نعرے لگانے والے ایک طرف کو ہوگئے ۔لیکن بھڑک اُٹھے ۔ چلانے لگے۔
’’ روکو۔۔۔ روکو۔۔۔ ‘‘
’’ مارو ۔۔۔ مارو۔۔۔ گائے لے جارہا ہے۔۔‘‘
کسی نے ٹرک میں گائے دیکھ لی تھی۔
ڈرائیور نے بھیڑ کے ایک حصّے کو بچا لیاتھا لیکن آگے کچھ لوگ ٹرک کے بالکل سامنے آگئے ۔ مجبوراً اسے ٹرک روکنا پڑا۔ غصے سے بے قابو لو گ ٹرک پر چڑھ گئے۔ گائے کے ساتھ ہرپال کو دیکھا تو آگ ببولہ ہو گئے۔ان کا حلیہ کسی نوکر جیسا ہی تھا۔ ہرپال کے اوسان خطا ہو گئے۔ لوگوں نے اُسے نیچے کھینچ لیا او ر بے تحاشا مارنا شروع کردیا۔کچھ لوگوںنے ڈرائیورکو فٹبال بنا لیا۔ ہرپال چیختے رہے۔
’’ ارے ہم گائے کو آشرم دان کرنے لے جارے ایں۔‘‘
’’ گئودان۔۔۔ ‘‘
’’ چپ بے سالے۔۔۔بڑا ا ٓیا دان کرنے ۔۔۔قصائی کو بیچنے لے جا رہا ہے۔۔‘‘
مارنے کے ساتھ ساتھ لوگ گالیاں بھی بک رہے تھے ۔ وہ گڑ گڑاتے رہے لیکن بھیڑ نے ایک نہ سنی۔ ڈرائیور اور ہرپال کو خوب مارا اورگائے کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ اتنے میں پولس آگئی۔ ‘‘
شکیل کی آواز بند ہو گئی تھی۔ موہن بھی گنگ ہو گیا تھا۔جیسے وہ دونوں ہرپال اور ڈرایئور ہوں اور چوٹ سے ان کے اعضاء شل ہو گئے ہوں۔
تھوڑی دیر بعد آواز پھر بلند ہوئی۔
’’ آگے کیا ہوا ؟ ‘‘
کچھ نہیں۔۔۔ گائے کو آشرم پہنچادیا گیا۔ہرپال اور ڈرائیور کو پولس نے دو تین دن تھانے میں رکھا۔مسلمان ڈرایئور کو جیل ہو گئی۔ ہرپال کو پولس نے چھوڑ دیا تھا۔ادھر تائی کو جب تائو کے گرفتار ہونے کی خبر ملی تو ان کو ایسا صدمہ پہنچا کہ وہ بے ہوش ہو گئی اور ۔۔اور۔۔ہوش کی چڑیا دور دیس کی سیر کو چلی گئی۔
تین دن بعدہرپال گاؤں پہنچے۔ وہاں نہ گائے تھی نہ بیروتی ۔ لیکن انہیں ہر طرف ، ہر شئے میں اپنی گائے نظر آرہی تھی ۔ استھی کلش میں بھی اسے کبھی گائے کا چہرہ تو کبھی بیروتی کی صورت دکھائی دیتی ۔بیر وتی اور گائے ایک دوسرے میں ضم ہو گئے تھے۔
ضضض

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here