تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں
https://chat.whatsapp.com/ 9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B
https://www.facebook.com/
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
[email protected]
9807694588(موسی رضا)
سید بصیر الحسن وفاؔ نقوی
اسلمؔ چشتی اردو کے ادبی حلقوں میں نہ صرف بحیثیت منفرد لب و لہجے کے شاعر کی حیثیت سے مقام حاصل کرچکے ہیں بلکہ ان کا شمار اردو ادب کے ان تبصرہ نگاروں اور تنقید نگاروں میں بھی ہوتا ہے جو ادب کو خونِ دل سے سینچتے ہیں اور جن کی تحریر و تنقید کا مقصد اردو کی نئی نسلوں کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی ہوتا ہے۔ ان کا تعلق ڈبائی ضلع بلند شہر جیسی علمی و ادبی اور مردم خیز سرزمین سے ہے جہاں متعدد سخنواران ادب نے ادب کو فروغ دیا ہے جن میں دعا ؔڈبائیوی،کنولؔ ڈبائیوی،انتظار حسین،امیدؔ فاضلی،نداؔ فاضلی اور ابنِ کنول کے نام سرِ دست لئے جاسکتے ہیں۔یہ وہ افراد ہیں جنھوں نے ڈبائی ہی نہیں بلکہ پوری دنیائے ادب میں ہندوستان کا نام بلند کیا۔میں سمجھتا ہوں کہ ڈبائی کی ادبی فضا کا ہی اثر ہے کہ جو اس سے وابستہ ہوا وہ ممتاز نظر آتا ہے۔اسلمؔ چشتی فی الوقت پونا مہاراشٹر میں مقیم ہیںاور وہیں سے گیسوئے اردو ادب سنوار رہے ہیں۔
اس وقت میرے سامنے ان کی تازہ ترین کتاب’’سرحد پار کی توانا آوازیں ‘‘ ہے جس میں انھوں نے ہندو پاک سے تعلق رکھنے والے ان شعراء و شاعرات کی شاعری پر گفتگو کی ہے جو اردو کی نئی بستیاں آباد کئے ہوئے ہیں اور اپنے ملک سے باہر اردو کے فروغ کے سلسلے سے عمل انجام دے رہے ہیں ساتھ ہی اس کتاب میں پاکستان کے ان شعراء و شاعرات کی شاعری پر بھی مضامین ہیں جو اپنی اپنی انفرادیت کے باعث دنیائے ادب پر چھائے ہوئے ہیں۔مجھے اس مختصر سے مضمون میں اسلمؔ چشتی کی نثر اور تنقیدی و تبصراتی نگاہ پر گفتگو کرنی ہے تاکہ موصوف کے کمالات کا زیادہ سے زیادہ اعتراف کیا جاسکے۔
اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنی اس گراں قدر کتاب کے حوالے سے کسی نقاد یا ادیب کا مضمون اس کتاب میں شامل نہیں کیاہے ۔میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اس کتاب پر کوئی بھی بڑا تنقید نگار اپنے خیالات کا اظہار کرسکتا تھا ۔لیکن اسلمؔ چشتی کا کسی سے اس کتاب پر مضمون نہ لکھوانا اس بات کا ثبوت فراہم کرتا ہے کہ وہ بے ساکھیوں کا سہارا نہیں لیتے اور نہ ہی غیر ضروری شہرت کے خواہاںہیں ان کا یہ عمل ان کی انکساری کے ساتھ ساتھ ان کی خود اعتمادی کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔گویا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی کتاب کی اصل پزیرائی یہ ہے کہ قاری خود فیصلہ کرے کہ اس کی کیا حیثیت اور اہمیت ہے ۔
’’سرحد پار کی توانا آوازیں‘‘ میں جو مضامین شامل ہیں وہ اس طرح ہیں۔’میں اسلمؔ چشتی‘ اس مضمون میں موصوف نے اپنا تعارف پیش کیا ہے اور اپنے آپ کو تنقید نگار نہ کہتے ہوئے ادب شناس کہا ہے۔کہتے ہیں:
’’میںناچیز نہ نقاد ہوں اور نہ مستند نثار لیکن اپنے شوق اپنی بساط کے مطابق ادب شناس ضرور ہوں‘‘۔(ص۔۹)
مذکورہ مضمون کے بعد اس کتاب کے دیگر مضامین میں’ سرد موسم کی دھوپ‘’متاعِ فکر‘’سخن ہوا کا تازہ جھونکا‘’گلزیب زیبا کا شعری پیکر‘’سلسلہ دلداری کا‘’سیما غزل سے اسلم چشتی کی گفتگو‘’علیم خان فلکی کا ظرافتی فن‘’ملائم لہجے کی خوش رنگ شاعری‘’فصلِ تازہ‘’بھرم‘’مجھ میں دریا بہتا ہے‘’کائنات مٹھی میں‘’آگ میںپھول کھلے‘’شعری مجموعہ’کاش‘’مہتاب قدر کا شعری سفر‘’ٹوٹ کر محبت کرنے والی شاعرہ‘’نئی رت کا سفر‘’وہ ایک تارا محبت کا‘’دستکوں کے نشان‘’تکلم کے گونگے گھر‘’تازہ شعری بیان کی عمدہ مثال‘’محبت آنکھ رکھتی ہے‘’سفر پہ خوشبو نکل رہی ہے‘’شگفتہ شفیق نسائی ۔سبک لہجے کی شاعرہ‘’باقی احمد پوری کی غزلیہ شاعری‘’ذاتی اظہار کی بے ساختگی‘’ثمینہ رحمت کی شاعری‘’ماں میں اکیلا ہوں‘’خوش رنگ خوش فکر شاعر‘’ شاذیہ اکبر کی شاعری‘’تھوڑی سی روشنی‘’شہرِ حروف ‘’غم کا سورج‘’دسترس‘’جوشِ جنوں‘’صدائیں تیز تھیں لیکن‘’مجھے ڈھونڈتے پھرو‘’ابھی میں کہہ نہیں پایا‘’محبت وہم ہے شاید‘’تمہیں سوچا تمہیں چاہا‘اور’ نئی غزل کا ثابت قدم مسافر‘جیسے مضامین شامل ہیں ان میں ڈاکٹر زبیر فاروقؔ،میمونہ علی چوگلے،اسلام عظمی،گلزیب زیباؔ،عباس تابشؔ،سیماؔ غزل،علیم خان فلکی،سمن شاہ،افروز عالم،فوزیہ مغل،خالد سجاد،ایم زیڈ کنولؔ،شاہینؔ بھٹی،فرزانہ سحابؔ مرزا،مہتاب قدر،سیماؔ نقوی،عبدالوہاب سخنؔ،صفیہ سلطانہ،ندیم ماہرؔ،شاہجہاںؔ جعفری،اعجاز حفیظؔ،ثمینہ گلؔ،عیسیٰ بلوچ،شگفتہ شفیقؔ،باقی ؔاحمد پوری،ثمینہ رحمت،علی شاہ،شاذیہ اکبر،پرویز ؔمظفر،فیاضؔ وردگ،سعید نظرؔ،احمد اشفاق،مسعود حساسؔ،صابر گالسولکر،رانا محمد افضل شافی،صفدر علی صفدرؔ،کاشف کمالؔ،بدرؔ سیماب اور عمران رشید یاورؔ کے فن شاعری پر گفتگو کی گئی ہے۔
اس کتاب میں مضامین مختصر اور اندازِ تحریر دلکش ہے جس سے قاری ایک کے بعد ایک مضمون پڑھنے پر آمادہ رہتا ہے اور اس کا جی چاہتا ہے کہ ایک ہی نشست میں ۱۹۷ صفحات پر مشتمل کتاب کو پڑھ ڈالے۔چونکہ اسلم چشتیؔ بنیادی طور پر ایک شاعر ہیں اور شاعری ان کے مزاج میں رچی بسی ہے اس لئے ان کی نثر بھی شاعری سے کم نظر نہیں آتی۔وہ اپنی نثر میں ان تمام عناصر کا استعمال کرتے ہیں جن کا مزاج شاعرانہ ہے۔مثلاً اچھی شاعری کے لئے سادگی و سلاست کا رنگ بھی لازم ہوتا ہے ۔اسلم چشتی کی اس کتاب میں جتنے مضامین ہیں وہ سادگی اور سلاست کا مرقع ہیں ان میں کہیں کوئی پیچیدگی نظر نہیں آتی یا کوئی ایسا جملہ نہیں ملتا جس سے یہ لگے کہ موصوف جبراً نثر لکھ رہے ہیں بلکہ ان کی تحریر میں شاعری کی طرح آمد نظر آتی ہے ایسا لگتا ہے جب وہ کسی مضمون کا خاکہ ذہن میں بناتے ہیں تو قلم برداشتہ ،لگاتار اور ٹھہرے بغیر لکھے چلے جاتے ہیں جس وجہ سے ان کے جملے صاف و شفاف آئینے کی طرح نظر آتے ہیں ۔
ان کی تحریر کا یہ بھی خاصہ ہے کہ اس میںبیباکی ،برجستگی،شگفتگی،روانی اور خوبصورت الفاظ کا خوبصورت استعمال نظر آتا ہے۔کہیں کہیں ان کا اسلوب نہایت شاعرانہ ہو جاتا ہے اور اس سے جہاں یہ لگتا ہے کہ وہ تخیل کی پرواز سے کام لے رہے ہیں وہیں اس میں بہترین تشبیہات و استعارات کے علاوہ رعایتِ لفظی کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔ان کی تحریر سے حبس کا ماحول نہیں پیدا ہوتا بلکہ ان کی تحریر کھلی فضا میں سانس لیتی ہوئی نظر آتی ہے جس سے عبارت بوجھل ہونے سے بچ جاتی ہے۔ان کے یہاں کہیں کہیں مضامین میں عوامی یا علاقائی زبان بھی دیکھنے کو ملتی ہے جو ان کے تحت الشعور کی نمائندگی کرتی ہے یعنی با الفاظِ دیگر وہ ادب میں بناوٹ کے قائل نہیں۔
ان کے یہاں محاوراتی زبان کا بھی برجستہ اور بر محل استعمال باذوق قاری کو نہایت متاثر کرتا ہے۔ساتھ ہی ان کی تحریر کا یہ بھی خاصہ ہے کہ اس میں کہیں کہیں تقریری رنگ نمودار ہونے لگتا ہے یعنی جس طرح ایک مقرر اپنے سامنے بیٹھے ہوئے افراد کو خطاب کرتا ہے۔ وہ بھی اپنا مضمون لکھتے وقت یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے سامنے قارئین نہیں بلکہ حاضرین و ناظرین موجود ہیں جو ان کو پڑھ نہیں رہے بلکہ سن رہے ہیں۔کبھی کبھی ان کی تحریر سے یہ بھی گمان ہوتا ہے کہ وہ خود کو کسی ادبی شخصیت کے روبرو محسوس کر رہے ہیں اور اس سے کسی شاعر یا ادیب کے فن پر گفتگو کر رہے ہیں۔
وہ کہیں کہیں اپنے مضامین میں خط و کتابت کا سا انداز بھی اپناتے ہیں جس سے تنقید و تبصرے کا ایک نیا اسلوب نکھر کر سامنے آتا ہے اور قاری ان کے طرزِ تحریر کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہتا۔تو کہیں وہ اپنے تبصراتی مضامین میں راوی کی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور مضامین میں داستانی یا افسانوی رنگ بھر دیتے ہیں جس سے قاری کی دلچسپی بڑھتی جاتی ہے اور وہ مضمون کے مقصد تک آسانی سے پہنچ جاتا ہے۔
ان کی تحریر کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ وہ یہ دیکھتے کہ جو شاعر جس میدان یا جس پیشے سے منسلک ہوتا ہے اسی سے متعلق الفاظ کا انتخاب کرتے ہیںجس سے تحریر میںایک انوکھا رنگ ابھر کر سامنے آتاہے اور قاری نہ صرف فن بلکہ فنکار کے بارے میں بھی بہت کچھ جان جاتا ہے جس سے شعر کے اصل مفہوم تک رسائی ہونا متوقع ہوتا ہے۔
وہ شاعری میںحد سے زیادہ تقلید کے خلاف نظر آتے ہیں ان کا خیال ہے کہ شاعر کا کلام انفرادیت کا متحمل ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے دورکا عکاس بھی ہونا چاہئے۔ علاوہ ازیںوہ جب کسی کتاب یا شاعر کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہیںتو کسی ادیب یانقاد کا ایسا اقتباس پیش کرتے ہیں جس سے شاعر کی شخصیت ابھر کر سامنے آتی ہے۔ان کے یہاں مشورے اور خیالات کا اظہار برجستہ ہے اس میں کوئی دور کی کوڑی یا لگی لپٹی بات نہیں ہوتی انھیں شاعر کا شعر جیسا لگتا ہے وہ اس کے لئے بے دریغ اپنے نکتۂ نظر کا اظہار کر دیتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ وہ مثالوں سے بھی اپنی بات کی ترسیل و تبلیغ آسان ترین بنادیتے ہیں۔
ان کی تبصراتی فکر یا ان کاادبی میزان یا ان کے تنقیدی مزاج کی بات کی جائے تو ان کی تحریروں سے واضح ہوتا ہے کہ وہ شاعر کے کلام سے ایسے اشعار کا انتخاب کرتے ہیں جن میں سادگی سلاست کے ساتھ ساتھ تہہ داری اور گہرائی و گیرائی اور ہمہ جہتی ہواور ان میں یہ طاقت ہو کہ وہ زمان و مکان کی قیود سے مبرا ہوں۔وہ چھوٹی بحروں کے اشعار زیادہ تر مثال میں پیش کرتے ہیں۔
وہ جارحانہ تنقید کے قائل نہیں بلکہ یہ کہا جائے کہ وہ بیشتر مقامات پر صرف شاعر کے مدح سرا نظر آتے ہیں تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوگی۔ ان کے یہاںایسی تنقیدجس میں شاعر کے عیوب کی طرف اشارہ کیا گیا ہو خال خال ہی ہے اور اگر انھیںکسی شاعر کے یہاں فنی کمزوری یابھرتی کے اشعار دیکھنے کو ملتے ہیں تو معمولی سا اشارہ کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں ۔گویا کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ کوئی ان کے جملوں یا تنقیدی نظریات سے دلبرداشتہ نہ ہو۔
ان کی خوبیٔ تحریر یہ بھی ہے کہ وہ دیگر ادباء کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے اس رائے کی توسیع کرتے ہیں اور اپنی بات قارئین کے ذہن تک پہنچاتے ہیں جس سے شاعر کی شاعری سمجھنا اور اس کے مافی الضمیر تک رسائی ہونے کے امکانات زیادہ سے زیادہ نظر آتے ہیں۔
اس کے علاوہ وہ غزل کی زبان اور اس کی لفظیات کو بھی پیشِ نگاہ رکھتے ہوئے شاعر کے بارے میںکسی فیصلے تک پہنچتے ہیں۔وہ اس سلسلے سے عجلت سے کام نہیں لیتے بلکہ ہرلفظ کے استعمال اوراس کے مقام پر غور کرتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ فنکار نے واقعی الفاظ کا حق ادا کیا ہے یا نہیں۔ وہ جہاں شاعر کے کلام میں عشقیہ رنگ کی نشاندہی کرتے ہیں وہیں یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اس کی شاعری اس کے عصری مسائل کی کس قدر عکاس ہے۔
ان کے مضامین لکھنے کے مختلف انداز اور زاوئیے ہیں وہ جب کسی شاعر کے حوالے سے لکھتے ہیں تو کبھی مضمون کے آغازمیں شاعر کا مکمل تعارف پیش کرتے ہیں کہ وہ کہاں سے تعلق رکھتا ہے؟ کہاں مقیم ہے ؟اس کا ذریعۂ معاش کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔وہ کبھی کسی ادیب کی رائے سے مضمون شروع کرتے ہیں تو کبھی مضمون کا آغاز اشعار سے کرتے ہیں اسی طرح مضامین کے اختتام کا بھی رنگ جدا جدا ہوتا ہے کہیںکسی نقاد کے خیال پر خاتمہ کرتے ہیں کہیں شاعر کی ہی تحریر لکھتے ہیں تو کہیں کسی شعر پر مضمون ختم کرکے قاری کے ذہن میں نہ صرف شاعر کا بلکہ اپنی طرزِ تحریر کا بھی اثر چھوڑتے ہیں۔
مختصر طور پر اسلمؔ چشتی کی تبصرہ نگاری پرکہا جائے تو اتنا کہا جا سکتا ہے کہ وہ چونکہ بنیادی طور پر ایک شاعر ہیں اس لئے ان کی تنقیدبھی شاعرانہ تنقید ہے ان کی نثر بھی شاعرانہ اور دلکش ہے اس میں جگہ جگہ استعارے،تشبیہات،علامتیں الفاظ کا خوبصورت استعمال پایا جاتا ہے۔ان کے مضامین کی خوبی یہ ہے کہ وہ قاری کو مایوس نہیں کرتے بلکہ ان میں ایک ایسی جاذبیت نظر آتی ہے کہ قاری چاہتا ہے کہ ایک کے بعد ایک دوسرا مضمون پڑھتا جائے گویا کہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے مضامین معنوی طور پر ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور ایک نظم کی طرح ان میں تسلسل پایا جاتا ہے۔