اردو میں خواتین سفر نامے کی کہانی

1
505

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


صالحہ صدیقی

حالات سفر پر مشتمل زبانی بیان سفر گوئی (TRAVELLOGUE) کہلاتا ہے۔ لیکن جب کوئی شخص اپنے حالات سفر لکھ کر دوسروں کے سامنے پیش کرتا ہے تو یہ تحریر ادبی زبان میں سفر نامہ یا سیاحت نامہ کہلاتی ہے۔ انگریزی میں اس کے لئے ٹراویلاگ کی اصطلاح مروج ہے کبھی کبھی اسے ٹراویلینگ اکائونٹ بھی کہا جاتا ہے۔ ہندی میں یہ پرواس ورنن کہلاتاہے۔سفر نامہ یا سیاحت نامہ کی انسانی زندگی میں بڑی اہمیت ہے۔ یہ صنف صرف حالات سفر کا سیدھا سادا بیان نہیں بلکہ مقام سفر کے جغرافیائی طبعی عصری تاریخی سماجی معاشرتی معاشی علمی ادبی حالات و کوائف کا آئینہ بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سفر نامہ یا سیاحت نامہ کی عصری تاریخی ،سماجی، معاشرتی ،تہذیبی، علمی اورادبی اہمیت مسّلم ہے۔اس صنف میں مردوں کے ساتھ خواتین نے بھی طبع آزمائی کیں۔
آزادی سے قبل خواتین سفر نامہ لکھنے والیوں میںیا یوں کہے کہ اردو کے ابتدائی خواتین سفر ناموں کے نمونے میں نواب سکندر جہاں والئی بھوپال کا تحریر کردہ سفر نامہ حج ، تاریخ و قائع حج ہے، جو ان کے ۱۸۶۱ء؁ کے حج کے حالات پر مشتمل ہے۔ یہ مخطوطہ کی شکل میں رضا لائبریری رامپور میں محفوظ ہے۔ اس کے بعدکوئی خاص نمو نہ دیکھنے کو نہیں ملتا ،اس کے بعد خواتین کے سفر نامے بیسویں صدی میں دیکھنے کو ملتے ہیں ۔حیدرآباد کی مشہور شاعرہ و ادیبہ ا ور مصلح نسواں صغریٰ ہمایوں مرزا حیاؔ کے ۸ سفر نامے شائع ہوئے ہیں۔ وہ ۳۰، دسمبر ۱۸۸۳ء؁ کو پیدا ہوئیں تھیں۔ وہ زندگی بھر تصنیف تالیف کے کاموں میں مشغول رہیں۔ ان کا ۱۹۵۸ء؁ میں انتقال ہوا۔ انہوں نے اپنے شریک حیات کے ساتھ اندرون ملک و بیرونی ممالک کے سفر کئے اور باقاعدگی کے ساتھ حالات سفر تحریر کئے۔ ۱۹۰۲ء؁ میں عراق کا سفر نامہ ، ۱۹۰۸ء؁ میں بھوپال ،دہلی ، آگرہ کا سفر نامہ ، بعنوان روزنامچہ، ۱۹۱۰ء؁ میں سیر بنگال و بہار، ۱۹۱۲ء؁ میں سیاحت جنوبی ہند، ۱۹۲۴ء؁ میں سیاحت یورپ ۲ جلدوں میں اور ۱۹۲۸ء؁ میں سفر نامہ کشمیر شائع ہوئے۔اسی طرح۱۹۰۸ء؁ میں نواب آف جنجیرہ ( قبل آزادی بمبئی کے نزدیک ایک جزیرہ پر واقع مسلم ریاست) کی بیگم ر فیعہ سلطانہ نازلی بیگم نے اپنا سفر یورپ کا سیاحت نامہ، سیر یورپ شائع کیا جوان کے ان خطوط پر مشتمل ہے۔ یہ خطوط انہوں نے سیر یورپ کے دوران اپنے اعزا و اقربا کو لکھے تھے۔ عطیہ فیضیؔ نے اپنی یورپ میں تعلیم کے زمانے میں (۱۹۰۶ء؁) جو خطوط اپنی بہن زہرہ بیگم فیضیؔ کو لکھے تھے۔ ان کو مرتب کر کے ان کا ایک سفر نامہ، زمانہ تحصیل کے عنوان سے مفید عام پریس آگرہ نے ۱۹۲۲ء؁ سے شائع کیا گیا تھا۔ اس طرح ان کے سفر بھوپال ۱۹۰۸ء؁ پر مشتمل ایک سفر نامہ ان کی بہن زہرہ بیگم فیضیؔ نے ۱۹۱۰ء؁ میں ایک رسالے میں شائع کیا تھا۔ اسے ہم زہرا بیگم فیضیؔ کا تحریر کردہ سفر نامہ کہہ سکتے ہیں۔ کیوں کہ وہ بھی ان کے ساتھ شریک سفر تھیں۔ اس طرح گویا تینوں فیضی بہنیں سفر نامہ میں دلچسپی رکھتی تھی ۔
اسی طرح چند سفر نامے اور بھی دستیاب ہوتے ہیں جن میں۱۹۱۰ء؁ میں بھوپال کے شاہی خاندان، بیگمات بھوپال سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون شاہ بانو نے سفر نامہ لکھا ۔یہ نواب سلطان جہاں بیگم والئی بھوپال کے ہمراہ کرنل مجید اللہ خاں کے علاج کی غرض سے یورپ گئی تھی اور لندن میں سات ماہ قیام کیا تھا۔یہ سفر نامہ۱۹۱۵ء؁ میں سیاحت سلطانی کے عنوان سے شائع ہوا ۔ اس کے بعد ۱۹۳۷ء؁ میں مولانا حسرت موہانی کی اہلیہ بیگم نشا ۃالنساء کا سفر نامہ حجازو عراق شائع ہوا جو انہوں نے ۱۹۳۵ء؁ ۔ ۱۹۳۶ء؁ میں کیا تھا،یہ ان کے بیٹی کے نام لکھے خطوط پر مشتمل ہیں۔اس کے بعد ۱۹۴۷ء؁ میں حیدرآباد کے رئیس حمیداللہ خاں سربلند جنگ کی بیگم نے اپنے یورپ کے حالات و کوائف’’ دنیا عورت کی نظر میں ‘‘کے عنوان سے شائع کیا۔
آزادی کے بعد اردو میں خواتین کے سفر ناموں میں جو نام سامنے آتا ہے ان میں آصفہ مجیب سر فہرست ہے ،’’ماضی کے جھرو کے سے ‘‘ کے عنوان سے ان کا سفر نامہ (رسالہ آج کل،دہلی، جنوری ۱۹۸۴ء؁ ۔ص ۳۶۔۴۱) شائع ہوا۔پروفیسر محمد مجیب مرحوم ( شیخ الجامعہ ، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی) کی شریک حیات بیگم آصفہ مجیب اردو کی اچھی ادبیہ ،افسانہ نویس گزری ہیں ان کا افسانوی مجموعہ پرنداور دوسرے افسانے شائع ہوچکا ہے۔ انہوں نے اپنی سیاحت کشمیر کے حالات پر مبنی ایک چھوٹاسا سفر نامہ تحریر کیا۔ اگرچہ یہ ایک چھوٹا سا سفر نامہ ہے لیکن یہ دلکش زبان و اسلوب میں دلچسپ سفر نامہ ہے۔
آزادی کے بعد خواتین سفر نامہ لکھنے والیوں میں اُم ہانی اشرفؔ۔(رخسانہ نکہت ؔلاری)کا نام بھی اہم ہے ۔انھوں نے ’’تجلّیات حرمین‘‘ کے عنوان سے سفر نامہ لکھا جو ادارہ رفیق، عظیم آباد کالونی ،پٹنہ۔ ۱۹۸۷ء؁ سے شائع ہوا۔مشہور ادیب جناب مقبول احمد لاری کی صاحب زادی ڈاکڑ ام ہانی اشرفؔ بھی اچھی شاعرہ اور دیبہ تھی ان کا مجموہ کلام نالۂ نیم شب شائع ہوچکا ہے۔ انہوں نے جب سعادت حج وزیارت حرمین شریفین حاصل کی تو اپنے حج کے حالات سفر و تاثرات کو تجلیات حرمین نامی کتاب کی صورت میں پیش کیا ۔یہ بنیادی طور پر سفر نامہ حج ہے۔انہوں نے اپنے سفر نامہ کا آغاز ایک منظوم انتساب سے کیا ہے جو جناب مقبول احمد لاری کے نام ہے۔ چونکہ مصنفہ شاعرہ تھی ۔اسی لیے انھوں نے اپنے جذبات قلبی کا اظہار نعتوں اور سلاموں میں پیش کیا ہے ان کا انتخاب بھی اس سفر نامے میں شامل ہے۔
اسی طرح ایک اور اہم نام اے۔امیرالنساء‘‘ کا ہے ان کا سفر نامہ بعنوان ’’ارض مقدس میں چند روز‘‘ جو(انشاء پبلی کیشنز ،کلکتہ۔ ۲۰۰۲ء؁) سے شائع ہوا۔اے امیرانساء بیگم نے مغربی ایشیا کے ممالک اور مقامات مقدسہ کی سیاحت کے بعد اپنے سفر نامہ ارض مقدسہ میں چند روز کے عنوان سے لکھاہے۔ اس کا پیش لفظ مشہور جریدے انشاء کلکتہ کے مدیر جناب ف س اعجاز نے لکھا ہے جہنوں نے خود بھی سفر نامہ نگاری کی ہے اور اس صنف کے فن نگارش سے بخوبی واقف ہیں۔اے امیرانساء بیگم نے بغداد ، کوفہ ، بابل ، نجف اشرف ، اردن، اسرائیل ، بیت المقدس، عمان ، قاہرہ، مدینہ منورہ، مکہ معظمہ وغیرہ مقامات کی سیر کی، آثار قدیمہ اور قابل ذکر و قابلِ دید مقامات کا معائنہ کر کے حالات معلوم کر کے پھر حالات و اقعات ، معلومات و تاثرات کو دلچسپ زبان و اسلوب میں تحریر کیا ۔
اسی طرح ایک اور اہم نام ڈاکڑ بشریٰ رحمٰن کا ہے جن کا تعلق گورکھپور سے ہے۔ انہوں نے ڈاکڑ محمود الہی کی نگرانی میں ایک مقالہ اردو کے غیر مذہبی سفر نامے لکھ کر ۱۹۹۹ء؁ میں گورکھپور یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ انہیں اس صنف سے کافی واقفیت ہے ۔ انہوں نے کوئی سفر نامہ لکھا یا نہیں اندازہ نہیں۔ اردو سفر نامہ نگاری میں ان کا تحقیقی مقالہ کافی وقیع و اہم ہے۔(بیسویں صدی کے بعد ان کے ایک دو سفر نامے شائع ہوئے)۔
’’بیگم سر بلندجنگ‘‘کا سفر نامہ ’’دُنیا عورت کی نظر میں‘‘ انتہائی اہم ہے ۔حیدرآباد کے رئیس حمیداللہ خاں سر بلند جنگ اپنے دور کی اہم شخصیتوں میں شمار ہوتے تھے۔ انہوں نے کئی یورپی ممالک کے سفر کئے اور اپنا ایک سفر نامہ بھی تحریر کیا تھا۔ جس میں انہوں نے ہم و طنوں کو غیر ممالک کی ترقی کے قصے سنا کر تشویق دلائی تھی کہ وہ بھی ایسی ہی ترقی کریں۔ان کے سفر میں ان کی بیگم صاحبہ بھی ہمراہ تھیں۔وہ ایک پڑھی لکھی خاتون تھیں۔ انہوں نے اپنے خاوند کے ساتھ مختلف یورپی ممالک کے سفر کئے وہاں کے حالات و کوائف دیکھے اور اپنے شوہر کہ نقطئہ نظر کے عین مطابق اپنا ایک سفرنامہ بعنوان دنیا عورت کی نظر میں تحریر کیا تھا۔اس کے نسخے حیدرآباد کے کتب خانوں ، کتب خانہ آصفیہ و سالارجنگ میں ہیں۔ یہ زیادہ مشہور نہ ہوسکا۔ اس میں موصوفہ نے زیادہ تفصیلات سے کام نہیں لیا۔ انہوں نے یورپی ممالک کے حالات کو ایک مشرقی عورت کی نظر سے دیکھا ۔
بیگم سید یٰسین علی کا سفر نامہ آسڑیلیا کی جھلک(حیدرآباد۔۱۹۵۵ء؁)ہے۔یہ لوگ حیدرآباد کے رہنے والے تھے۔انہوں نے اپنی بیگم کے ہمراہ، انگلستان ،فرانس، سوئیزرلینڈ اور عراق وغیرہ کے سفر کئے تھے۔ ان کی بیگم صاحبہ نے آسڑیلیا کا سفر بھی کیا تھا۔اور اس سر زمین کے حالات و کوائف سفر نامہ میں لکھے تھے۔ یہ حیدرآباد سے شائع ہوا تھا۔ مصنفہ کوئی ادبی شخصیت نہیں لیکن ان کی دلکش زبان و انوکھا اسلوب بیان انہیں ایک اچھی رہبر قلم ثابت کرتا ہے۔ اس سفر نامہ کے مطالعے سے مصنفہ کی وسعت نظر اور عمیق معلومات کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔بیگم سید یٰسین علی آسڑیلیا کے مختلف شہروں علاقوں میں گئیں وہاں کے حالات و کوائف دیکھے اور ان کا ذکر رنگین و شوخ بیانی کے ساتھ کیا۔یہ سفر نامہ دلچسپ اور معلومات افزا ہے۔ ( مخزونہ ۔کتب خانہ ۔آصفیہ و سالارجنگ وغیرہ)
بیگم حسرتؔموہانی مرحومہ(نشاط النساء بیگم)نے بھی سفر نامہ لکھا ،یہسفرنامہ حجاز و عراق (نیا ایڈیشن مشمولہ بیگم حسرت موہانی اوران کے سفر نامے )حسرتؔموہانی کی شریک حیات نشاط انساء بیگم کا سفر نامہ حجاز و عراق پہلے شائع ہوچکا تھا۔ لیکن چند سال قبل ۱۹۸۱ء؁ میں عتیق صدیقی صاحب نے ایک کتاب بیگم حسرت موہانی اور ان کے خطوط مرتب کر کے شائع کی تو اس میں ان کا یہ سفر نامہ بھی شائع کیا۔ اس طرح یہ آزادی کے بعد شائع شدہ سفر نامہ بھی بن گیا۔ ( شائع کردہ مکتبہ جامعہ دہلی۔۱۹۸۱ء؁)۔ انہوں نے اپنے حجاز و عراق کے سفر کے حالات تحریر کئے ہیں۔ لیکن کسی مضمون یا انشائیہ، بیانیہ مسلسل سفر نامہ کی شکل میں نہیں۔ بلکہ اپنی بیٹی نعیمہ کو خطوط کی شکل میں لکھے ہیں۔یہ ان کے سفر حج ۱۹۳۶ء؁ کے دوران لکھے گئے تھے۔ ان کے ۱۹۳۷ء؁ میں انتقال کے بعد مولانا حسرت موہانی نے ان کو بطور یاد گار ، اپنے رسالے اردو ئے معلیٰ میں دو قسطوں میں شائع کردیا اور پیش لفظ میں لکھا کہ یہ بیگم صاحبہ کا سفر نامہ ہے۔ سفرنامہ حجاز ۱۹۳۵ء؁ کے سفر کا احوال ہے اور سفر نامہ عراق ۱۹۳۶ء؁ کے سفر کا۔اگرچہ ایک چھوٹا سفر نامہ ہے لیکن “بقامت کہترو بقیمت بہتر” کی مثال ہے۔ ا س کے بارے میں نقادوں نے بڑی اچھی رائے کا اظہار کیا ہے اس کی قابلِ ذکر خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کہیں کہیں حسرتؔ موہانی اور ان کی بیگم کی خانگی زندگی کی جھلکیاں بھی نظر آجاتی ہیںاور کہیں کہیں ان کے رہن سہن، خوردو نوش کے طریقوں کا بھی علم ہوتا ہے اور کئی بار ان دونوں کی زندگی کے ایسے گوشوں کا علم بھی ہوتا ہے جن پر خوش عقیدگی اور مبالغے کی تہیں جم گئی ہیں۔ (ص ۱۱)
ڈاکڑ ثریا حسین۔پیرس و پارس(مکتبہ جامعہ، دہلی۔ ۱۹۶۸ء؁ )علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی پروفیسر، ڈاکڑ ثریا حسین کا سفر نامہ پیرس و پارس۔ ان کی یورپ اور ایران کے دواسفار کے حالات پر مشتمل سفر نامہ ہے۔ ڈاکڑ ثریا حسین دور حاضر کی جانی پہچانی ادیبہ محقق و نقاد ہیں۔ انہوں نے مشہور فرانسیسی مستشرق گارسین دتاسی کی حیات و خدمات پر مقالہ تحریر کرکے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ اس کے علاوہ وہ ایک عالمانہ کتاب جمالیات شرق و غرب کی مصنفہ بھی ہیں۔ اور ایک سفر نامہ پیرس و پارس کی بھی۔ ان کے سفر نامہ پر کئی ادباء و نقادوں نے توصیفی اظہار خیال کیا ہے۔ ان کا سفر ۱۹۵۷ء؁ میں ہوا تھا۔یہ سفر نامہ مغربی تہذیب و معاشرت و اشیاء و زبان و ادب میں ڈوبا ہوا ہے۔لباس رہن سہن، سواریاں ، عمارات اشیاء سبھی کچھ انہوں نے کوہ قاف، مساجد، پیڑولیم کی صنعت، شکر کے کارخانوں، بادام پستہ، سیب انگور کی فراوانی کا ذکر کیا ۔ شمس الدین تبریزی کا تبریز ، قم،اصفہاں، زندہ رود، شیراز، ماژندران کا ذکر کیا پھر وہ انقرہ ۔ استنبول ، ٹرسیٹ( بحرروم کی بندرگاہ ) گیں، پھر بغداد ، نیشاپور ، پھر افغانستان ، ہرات ، کابل وغیرہ گیں۔ ۱۹۶۰ء؁ میں انہیں سوبورن یونیورسٹی سے ڈگری ملی، ۱۹۸۲ء؁ میں وہ پھر سوبورن پیرس کی سیر کرتی ہیں۔
ڈاکڑ رضیہ اکبر حیدرآباد میں جامعہ عثمانیہ کی پروفیسر تھی۔ انہیں ۱۹۶۸ء؁ میں ایرانی حکومت کے ثقافتی ادارے، بنیاد فرہنگ ایران کی دعوت پر انہیں ایران جانے کا موقع ملااور انہوں نے واپس آکر اپنا سفر نامہ’’ تاثرات سفر ایران ‘‘کے عنوان سے شائع کیا۔اس میں انہوں نے گہرے اور جذباتی احساس کو دلکش انداز میںایران کے حالات و کوائف بیان کئے ہیں۔
زہرہ بتول۔سفر نامہ حجازو ایران(اسلامک بک سینڑ، بنگلور۔۲۰۰۹ء؁ )بیگم زہرہ بتول ، معروف عالم دین اور دارلسلام عمر آباد( تامل ناڈو) کی نامور ہستی جناب ابوالبیان حماد کی اہلیہ ہیں۔ انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ حجاز و ایران کا سفر کیا تھا۔ لیکن اس کی اشاعت سے قبل ہی انھوں نے اس جہان فانی کو الوداع کہہ دیا ۔اس سفر نامہ میں ان کی نظمیں مجاہد کا کردار، اسلام کا مجاہد، سوئے حرم اور مناظر مدینہ، بھی درج ہیں۔ یہ سفر انہوں نے جولائی ۲۰۰۸ء؁ میں کیا تھا۔ وہ نہ صرف تہران گئی بلکہ کئی اور شہروں جیسے کرمان، شہرایران، سرادن، فاش، اربلان، اورشیر از وغیرہ کی بھی سیر کی ، شیراز میں شیخ سعدیؔ و حافظؔ کے مزارات کی زیارت کی انہوں نے قصر شاہی اور ایرانی مدارس کی سیر بھی کی۔سفر نامہ میں ایران کے مشاہدعلم و فضل خصوصاً شیخ سعدیؔ، حافظؔ، نظام الملک طوسیؔ، عمر خیامؔ وغیرہ کا ادبی امور کے تعلق سے تذکرے متاثر کن ہیں۔ سفر نامہ میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان رویوں کا فکر انگیز بیان بھی شامل ہے۔
سلطانہ آصف فیضی ۔عروس نیل(مکتبہ جامعہ، دہلی۔۱۹۶۸ء؁ )سلطانہ آصف فیضیؔ بمبئی کے اسی مشہور فیضی خاندان کی فرد ہیں جس میں نازی بیگم ،زہرہ بیگم اور عطیہ بیگم فیضی اور کئی دوسری نامور ہستیاں گزری ہیں۔ یہ خاندان اپنی سماجی خدمات، علم پروری ہمدردئی انسان و نسواں وغیرہ کے لئے مشہور رہا ہے۔ اسی خاندان کے ایک فرد پروفیسر آصف علی فیضی ایم اے ( کینٹب) بار ایٹ لا۔ کی رفیقئہ حیات سلطانہ آصف فیضی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور صاحب قلم خاتون ہیں۔ وہ ناول چنار کا پتہ، سیرت نبوی پر پیارے رسول اور ایک سفر نامہ عروس نیل کی اور چند چھوٹی چھوٹی کتابوں کی مصنفہ ہیں۔سلطانہ آصف فیضی ؔنے اپنے شوہر کے ساتھ اندرونِ ملک اور کئی بیرونی ممالک کے سفر کئے۔ انہیں اپنے شوہر کے ساتھ کئی سال مصر رہنے کا موقع ملا تھا۔ انہوں نے وہاں کے حالات کوائف واقعات، زندگی ،مناظر وغیرہ کا گہری نظر سے مطالعہ کیا وہاں کے جزو کل، حسن وقبح ، کمزوریاں اور توانائیاں غرض ہر پہلوئے زندگی کو دیکھا۔ منظر کو سمجھا اور اپنے تاثرات سفر نامہ عروس نیل میں تحریر کیا۔ یہ چھوٹا سا سفر نامہ جو معلومات سے پرہے۔ اس کا نام مصر کے مشہور تہوار اور ایک رسم عروس نیل کے نام پر ہے۔ اس سفر نامے کے عنوان کے پیچھے مصنفہ کا مفہوم یہ ہے کہ مصر آج بھی دلہن ہے ،لیکن اس کی قسمت کی کشتی بھنور میں ہی ہے۔ مصنفہ نے صرف مصر کے ظاہری حسن اور شہروں کے سامانِ عیش و نشاط اور شان و شوکتِ ظاہری کو دیکھا بلکہ ان فلاحین ( مصری کسانوں) اور غریب طبقہ کی زندگی فلاکت و نکبت کو بھی دیکھا جو غلاموں جیسی زندگی بسر کرتے ہیں۔ مصر میں جہاں اس زمانے میں ایک طرف عیش و عشرت کی فرادانی تھی۔ شاہ، امراء ، تجار، زردار لوگ عیش و عشرت میں نظر رہے تھے وہی دوسری طرف کسان، مزدور، غریب ، دیہاتی جانوروں جیسی زندگی بسر کر رہے تھے۔
صادقہ ذکی۔خیموں کے شہر میں(مکتبہ جامعہ ،دہلی۔۱۹۹۸ء؁ )پروفیسر صادقہ ذکی دہلی کی رہنے والی ہیں۔ وہ دنیائے ادب کی جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ انہوں نے سعادت حج و زیارت روضئہ نبی ؐ کے حصول کے لئے ۱۹۹۷ء؁ میں سفر حجاز مقدس کیا تھا۔ واپسی کے بعد انہوں نے اپنے تاثرات اس سفر نامہ میں قلمبند کئے ہیں۔ وہ ۲۹، مارچ ۱۹۹۷ء؁ کو ایک گروپ کے ساتھ جدہ پہنچیں۔اسی شام مکہ پہنچ گئیں۔ ۳، اپریل کو مدینہ گئیں نور وز قیام کیا، ۱۲، اپریل کو پھر مکہ پہنچیں ،۱۸اپریل تک مناسک حج ادا کئے، ۲۹،اپریل ۱۹۹۷ء؁ کو جدہ گئیں۔ ۳۰،اپریل ۱۹۹۷ء؁ کو دہلی پہنچ گئیں۔ انہوں نے اپنی یاد داشتوں کو دورانِ سفر ہی رقم کرنا شروع کردیا تھا۔ واپسی اسکی تکمیل کی۔ یہ سفر نامہ ۳،اگست ۱۹۹۷ء؁ سے ۱۲جنوری ۱۹۹۸ء؁ تک جریدہ قومی آواز میں بطور ضمیمہ شائع ہوتا رہا۔ ایک دو قسطیں ماہ نامہ انشاء کلکتہ کی زنیت بھی بنیں۔مصنفہ نے اسے عنوانات کے ذیل میں نہیں بلکہ مسلسل بیانی کے ذریعے پیش کیا ہے۔ البتہ اسے مختلف حصوں میں منقسم کیا ۔اس میں اغراض سفر سفر کی ابتدائی تیاریاں کا تذکرہ نہیں اس کا آغاز ایک دم مکہ معظمہ کے حدود میں داخل ہونے کے ذکر سے ہوجاتا ہے۔ لکھتی ہیں۔” مسافرانِ حج جب مکہ معظمہ کی پہاڑی سر نگوں سے گزر کر حدود منیٰ میں داخل ہوتے ہیں تو اچانک سفید خیموں کا ایک شہر ان کا استقبال کرتا نظر آتا ہے۔”سفر نامہ کچھ ادھورا ادھورا سا لگتا ہے۔ ایک دم شروع ہوتا ہے۔ ایک دم ختم ہوتا ہے۔ بہر حال یہ ایک دلچسپ سفر نامہ ہے۔
صالحہ عابد حسین۔سفر زندگی کے لئے سفر زوساز(مکتبہ جامعہ ،دہلی۔۱۹۸۲ء؁ )صالحہ عابد حسین اردو کی مشہور ادیبہ گزری ہیں۔ ان کا اصلی نام مصداق فاطمہ تھا وہ خواجہ حالیؔ کی پر نواسی تھیں۔ خواجہ غلام اثقلین کی بیٹی ،خواجہ غلام السیدین کی بہن، ڈاکڑ عابد حسین کی بیوی تھیں۔ پانی پت میں ۱۹۱۳ء؁ میں پیدا ہوئیں۔ ۱۹۳۳ء؁ میں ڈاکڑ عابد حسین سے شادی ہوئی۔ ساری عمر لکھنے پڑھنے میں گزاری ۸،جنوری ۱۹۸۸ء؁ کوانتقال کیا۔ انہوں نے کئی ناول ،افسانے،ڈرامہ لکھے۔ ان کی خود نوشت ، سلسلئہ روزو شب اور سفر نامہ سفر زندگی کے لئے سوزو ساز بھی شائع ہوئے۔
صالحہ عابد حسین نے اندرون ملک و بیرون ملک کئی شہروں و علاقوں ملکوں کے سفر کئے اور ان کے حالات اپنی کتاب سفر زندگی کے لئے سوزو ساز میں بیان کئے۔ یہ کسی ایک جگہ کا سفر نامہ نہیں۔ بلکہ مختلف مقامات کے سفر ناموں کا مجموعہ ہے۔ انہوں نے کشمیر ، حیدرآباد ، بنگلور، پونہ، میسور ، مہابلشور وغیرہ کے اندرون ملک سفر کئے۔ آتھ برس کی عمر میں اپنی والدہ کے ساتھ عراق کا سفر کیا۔ ایران کا سفر بھی کیا۔ (وہ شیعہ عقائد رکھتی تھیں۔)۱۹۶۲ء؁ میں عراق و ایران گئیں۔ پاکستان وہ ۱۹۵۳ء؁ تا ۱۹۸۱ء؁ کئی بار گئیں۔ لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد کراچی گئیں۔ ۱۹۵۳ء؁ میں اپنے شوہر کے ساتھ دیار مغرب کا سفر کیا۔ انگلستان، پیرس، سوئزرلینڈ، اٹلی، جرمنی ، حج و زیار ت کے لئے عراق و عرب کا سفر کیا۔ انہوں نے اپنے اسفار کی روداد مختلف ابواب کے تحت بیان کیا ہیں۔ہندوستان جنت نشان میں کشمیر ، حیدرآباد، بنگلور، مہابلیشور ، بھوپال کے حالات و کوائف مناظر و معاشرت ہیں۔ قدرتی مناظر ، مقامات ، عمارات، شہر ، معاشرت، رسوم و رواج و اشخاص کے حالات دلکش انداز میں بیان ہوئے ہیں۔صالحہ بیگم کو کشمیر جانے کا بار بار موقع ملا، ان کے بھائی خواجہ غلام السیدین وہاں ڈائرکڑ تعلیمات تھے۔ ان کے سات سالہ قیام کے دوران صالحہ بیگم نے تقریباً تمام کشمیر کے ، اہم مقامات کی سیر کی اور وہاں کے حالات و اقعات ، مناظر باشندوں ، معاشرت و مسائل وغیرہ کا دلکش انداز میں ذکر کیا۔
صغریٰ مہدی۔سیر کر دنیا کی غافل(نئی آواز، جامعہ نگر ،دہلی۔۱۹۹۴ء؁ )پروفیسر ڈاکڑ صغری مہدی عہد حاضر کی مشہور ایبہ، ناول نگار، افسانہ نویس، محقق و نقاد وغیرہ ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی میں اندرون ملک اور بیرونی ممالک ، پاکستان، انگلستان ، ایمیڑڈم، پیرس، امریکہ ،وغیرہ کے سفر کئے اور اپنے سفر کے حالات چھوٹے چھوٹے سفر ناموں کی شکل میں لکھے۔ ان کا مجموعہ سیر کی دنیا کر غافل کے عنوان سے شائع ہوا ۔سیر کر دنیا کی غافل میں صغری مہدی نے اپنے انگلستان کے سفر کے احوال کو بیان کیا ہے۔ ان کا یہ سفر ان کے کژن انور عباس ملازم ایر انڈیا کی بہن کے ساتھ ہوا تھا۔وہ ہوائی جہاز سے لندن پہنچیں ۔ مختلف مقامات کی سیر کی اور نئی لوگوں جیسے ڈیوڈ متھیوز، رالف رسل، ضیاالدین شکیب وغیرہ سے ملاقات کی۔ لندن کے عجیب موسم، وہاں کے چہل پہل لوگوں کے رویے۔ ریلوے اسٹیشن ، یونیورسٹی ، بڑش میوزیم ، نیشنل آرٹ گیلری ، میڈم ٹساڈ کا مومی عجائب گھر ، دریا کے تیمز، کیمبرج شیکپئر کے وطن وغیرہ کی سیر کی انگریزوں کی معاشرت ، عادات ، اطوار ڈسپلن کا ذکر کیا۔ تین ہفتہ وہا ں رہ کر وہ ایمسڑڈم جینوا ، پیرس ہوکر دہلی آگئی۔مشاہدات ابن بطوطی ان کا ایک اور سفر نامہ ہے۔ یہ ان کا پیرس لند ن امریکہ ، کا سفر نامہ ہے جوپہلے کتاب نما میں دسمبر ۱۹۸۳ء؁ تا ۱۹۸۴ء؁ بالا قساط شائع ہوا۔ اس میں انہوں نے مزاح سے کام لیا ہے۔اس کا زیادہ حصہ امریکہ کے سفر پر مشتمل ہے۔ صغریٰ نے یہ سفر صالحہ عابد حسین کے ساتھ ان کے علاج کے سلسلے میں کیا تھا۔ یہ لوگ کویت ایرویز کے جہاز سے پہلے لندن پہنچے۔ وہاں کے سیر کی۔ پھر نیویارک روانہ ہوئے، یہ سفر ۷ گھنٹے کا تھا۔ جسے انھوں نے محفوظ کر لیا۔
میخا نوں کا پتہ۔(سفر نامہ مکہ مدینہ سے عراق و ایران)(شائع کردہ مدھیہ پردیش اردو اکادیمی، بھوپال۔۲۰۰۵ء؁ )صغریٰ مہدی کی یہ کتاب ان کا کوئی مسلسل سفر نامہ نہیں۔ بلکہ درجہ ذیل سفر ناموں کا مجموعہ ہے:
(۱)میخانوں کا پتہ:۔ ( سفر نامہ۔ مکہ مدینہ عراق ایران شام)۔(۲) سات دن کیکوکے دیس میں (جاپان)۔
(۳)سمندر سمندر ۔سمندر اور ٹک ٹک(نیکاک بالی ۔ پھکبیت)۔(۴)ٍٍایک بار پھر امریکہ۔
(۵) ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو( لندن، برسی لونا ( اسپین)
قرۃالعین حیدر۔اردو کی عظیم و نامور ادیبہ ہیں۔ انہوں نے سوائے چند مشرقی آسٹریلیائی اور افریقی و جنوبی امریکہ ممالک کے باقی تمام دنیا کی خاک چھان ڈالی ہے۔ ہندوستان کے کثیر مقامات کی انہوں نے سیر کی اور جاپان، روس، ایران، یورپی ممالک کے باقی تمام دنیا و امریکہ بے شمار شہروں علاقوں کی سیاحت کی ۔ انہوں نے اپنے اشعا ر کا بیان سفر نامہ و رپورتاثر دونوں کی ملی جلی تکینک میں کیا ہے۔ اس لئے ایک عام قاری کنفیوژ ہو جاتا ہے کہ اس کی اس قسم کی تحریروں کو سفر نامہ میں شمار کرے یارپورتاژ میں ۔ نقاد ان فن کی کچھ تحریروں کو سفر نامہ اور کچھ کو رپورتاژ میں شمار کرتے ہیں۔ ان کی تحریر یں لندن لیڑ۔ ستمبر کا چاند، چھئے اسیر تو، درچمن ہر طرقے کوہ د ماوند، گل گشت، جہان دیگرر ، خضر سوچتا ہے۔ دکن سا نہیں تھار سنسار میں۔ پھر ماندی کے کنارے وغیرہ اس کنفیوژن کا شکار ہیں۔ جمیل اختر صاحب نے قرۃ العین حیدر کے مطالعے میں ان تمام کو رپورتاژ میں شامل کیاہے۔ جب کہ خالد محمود نے جہانِ دیگر اور دکھلائیے لے جاکے اسے مصر کا بازار کو سفر نامہ کہا ہے۔ بشریٰ رحمٰن نے ستمبر کا چاند اور کوہ دماوند کو سفر ناموں میں شمار کیا ہے جبکہ کو ہ دماوند نام کے مجموعے میں چھئے اسیر تو بدلا ہو زمانہ تھا۔ کوہ دماوند، گل گشت خضر سوچتا ہے۔ دکن سے نہیں تھا سنسار میں، قیدخانے میں تلا طم ہے کہ ہند آتی ہے کو رپورتاژ میں شامل کیا گیا ہے۔ اس میں جہانِ دیگر شامل نہیں اسے بلٹز میں سفر نامہ امریکہ کہا گیاہے۔، (۱۹۸۰ء؁ کی اشاعتیں) مذکورہ بالا تحریر چونکہ رپورتاژ ی عناصر زیادہ ہیں اس لئے ان کو رپورتاژ یا سفری رپورتاژ کہنا مناسب ہوگا اور جہانِ دیگر کو سفر نامہ۔جہان دیگر(مکتبہ اردو ادب ،لاہور۔۱۹۷۰ء؁ )اس سفر نامے میں قرۃ العین حیدر نے اپنے مخصوص افسانوی اسلوب سے کام لیا ہے۔ جو ان کی مخصوص شناخت ہے۔ ان کا اسلوب بیان ہندوستانی الساطیر، قدیم روایتی قصص، داستانوں ، صوفیوں، سنتوں کے روحانی وسیلوں ، ہندوستانی تاریخ تہذیب و ثقافت کے ملے جلے عناصر سے ابھر تا ہے۔ وہ حال، ماضی، کے درمیان تحریری سفر طے کرتی رہتی ہیں۔ ان کی تحریر سے پوری طرح لطف اندوز ہونے کے لئے قاری کا مختلف علوم و فنون ، ادبیات، مذہبی ، صحائف، تاریخات، قدیم و جدید کی مختلف معلومات اور مختلف تصورات و توہمات سے واقف ہونا ضروری ہے۔قرۃ العین اپنے سفر ناموں میں ظاہر سے زیادہ باطن میں محوسفر نظر آتی ہیں۔ ان کے بیانات میں صفائی وافکار کی بہتات ہے۔ ان میں تحیر کا عنصر کافی ہوتا ہے۔ قاری ان کے منفرد اسلوب نگارش حسین تشبیوں ، بلیغ تلمیحات اور تبصروں میں مسحور ہوکر رہ جاتا ہے۔ اس پس منظر میں جہانِ دیگر پر نظر ڈالی جائے تو ایک جہانِ معانی نظر آتا ہے۔یہ مصنفہ کے سفر امریکہ کی روداد ہے۔ اس میں امریکہ کا سفر، دہاں کی سیر، مختلف مقامات ، شہروں مناظر، حالات کوائف ، معاشرت، لوگوں کے رویوں، اشیاء، عمارات، مقامات، ماضی و حال کی باتوں ، تاریخی ، سیاسی، سماجی و معاشرتی ، اقتصادی، ادبی ، ثقافتی ، تمام باتوں کو دلکش افسانوی انداز میں بیان کیا گیاہے۔ افسانویت، ڈرمائیت، تاریخیت، فلسفہ، ادب، مزاح کا ایسا انوکھا امتزاج کہیں اور نظر نہیں آتا۔ان کے علاوہ کچھ اور خواتین کے سفر نامے ہیںجو اکیسویں صدی میں شائع ہوئے ۔

Saliha siddiqui
Email- [email protected]

Also read

1 COMMENT

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here