ہندوستان کے آئین میں ایک بالغ مرد اور بالغ عورت کو اپنی مرضی سے اپنا جیون ساتھی منتخب کرنے کا اختیار بہت پہلے سے دے رکھا ہے۔بعد میں شادی کے لئے سن بلوغیت 18 سال طے کر دیا گیا۔اس قانون کے تحت کوئی بھی بھارتیہ لڑکی جو 18 سال کی ہو چکی ہو اپنی مرضی سے اپنے پسند کے لڑکے سے شادی کرنےکا قانونی حق رکھتی ہے خواہ لڑکے یا لڑکی کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔لیکن ہمارے یہاں اب “لوجہاد” قانون بنایا گیا جس کے تحت غیر مذہب میںشادی غٰیر قاونی قرار پائی ۔لیکن عملی شکل اس کے برخلاف سامنے آرہی ہے،کئی ایسی خبریں ایسی موصول ہو رہی ہیں جن میں اگر لڑکا مسلم ہے اور لڑکی غیر مسلم تو لڑکے کو جیل بھیجا جا رہا ہے اور اگر لڑکی مسلم ہے اور لڑکا غیرمسلم ہے تو کوئی کاروائی نہیں کی جا رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ سماج میں یہ پیغام جا رہا ہے کہ “لو جہاد”کا قانون صرف مسلمانوں کو پریشان کرنے کی نیت سے بنایا گیا ہے۔جیسا کہ اس قانون کے نام سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔اگر دیکھا جائے تو لو جہاد کا قانون ہندوستانی آئین کی روح کے منافی ہے۔لیکن جمہوریت میں ووٹوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔
ایک طرف تو ایسا قانون بنایا گیا وہیں دوسری طرف پنجاب ہریانہ ہائی کورٹ نے اس دو قدم آگے بڑھتے ہوئے اپنے تاریخی فیصلہ میںکہا کہ 18 سال سے کم عمر کی مسلم لڑکی بھی کر سکتی ہے پسند کی شادی۔ عدالت نے کہا ہے کہ مسلم لڑکی 18 سال سے کم عمر کی ہونے کے باوجود کسی بھی پسند کے لڑکے سے شادی کر سکتی ہے، بس شرط یہ ہے کہ وہ حیض کی عمر کو پار کر چکی ہو۔
اطلاعات کے مطابق پنجاب اینڈ ہریانہ ہائی کورٹ نے مسلم لڑکیوں کے لیے شادی کی عمر سے متعلق ایک اہم فیصلہ سنایا ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ مسلم لڑکی 18 سال سے کم عمر کی ہونے کے باوجود کسی بھی پسند کے لڑکے سے شادی کر سکتی ہے، بس شرط یہ ہے کہ وہ حیض کی عمر کو پار کر چکی ہو۔ گویا کہ 14 یا 15 سال سے زیادہ عمر کی مسلم لڑکی اپنی پسند کی شادی کرنے کے لیے آزاد ہے اور اس کے خاندان والے کسی طرح کی مداخلت نہیں کر سکتے۔
دراصل پنجاب اینڈ ہریانہ ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ مسلم پرسنل لاء کے اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے سنایا ہے۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ مسلم پرسنل لاء کے تحت 18 سال سے کم عمر کی مسلم لڑکی اپنی مرضی سے کسی بھی لڑکے سے نکاح کر سکتی ہے۔ قانونی طور سے خاندان اس میں دخل اندازی نہیں کر سکتا ہے۔ یہ فیصلہ جسٹس الکا سرین نے مسلم مذہبی کتاب کے آرٹیکل-195 کی بنیاد پر سنایا ہے۔تفصیل کے مطابق پنجاب اینڈ ہریانہ ہائی کورٹ میں موہالی کے ایک مسلم جوڑے نے عرضی داخل کی تھی۔ 36 سالہ لڑکے اور 17 سالہ لڑکی کو ایک دوسرے سے محبت ہو گئی تھی اور دونوں نے 21 جنوری کو مسلم رسم و رواج سے نکاح کر لیا۔ یہ دونوں کی ہی پہلی شادی تھی۔ لیکن ان کے اہل خانہ اس رشتے سے خوش نہیں تھے۔ دونوں کو رشتہ داروں سے دھمکیاں مل رہی تھیں۔ ان دھمکیوں کی وجہ سے ہی دونوں نے عدالت کا رخ کیا۔
عدالت میں داخل عرضی میں لڑکا اور لڑکی نے سیکورٹی کا مطالبہ کیا۔ عدالت میں جب سماعت ہوئی تو گھر والوں کی دلیل یہ تھی کہ لڑکی نابالغ ہے اس لیے یہ نکاح جائز نہیں ہے۔ لیکن عرضی دہندہ کا کہنا تھا کہ مسلم پرسنل لاء کے تحت 15 سال کی مسلم لڑکی اور لڑکا دونوں شادی
کرنے کے لیے اہل ہیں۔
پورے معاملے پر غور کرنے کے بعد جسٹس الکا سرین نے سر ڈی. فردون جی ملا کی کتاب ’پرنسپل آف محمڈن لاء‘ کا حوالہ دیا اور کہا کہ ’’مسلم لڑکا اور لڑکی اپنی پسند کے کسی بھی شخص سے شادی کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ انھیں کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ مسلم پرسنل لاء کے ذریعہ ہی طے کیا گیا ہے۔‘‘سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے فیصلہ نظیر بن جاتے ہیں۔اس فی/؛سلہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مسلمان کی شادی کے لئے بلوغیت کا وہی قانون مانا جائے گا جو شریعت مطہرہ نے بتایا ہے۔پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ ایک طرف نو بیاہتا جوڑے کے لئے راحت کا سامان بنا ہے وہیں اس فیصلہ سے ایک نئی قانونی بحث کا آغاز بھی ہو سکتا ہے۔
Also read