لکھنؤ : آل انڈیا شیعہ پرسنل لاء بورڈ کے ترجمان مولانا یعسوب عباس نے کہاکہ حکومت این آر سی پر نظر ثانی کرے ۔ بورڈ این آر سی کے خلاف نہیں ہے لیکن حکومت اس پر دوبارہ غور وخوض کرے ۔ شیعہ طبقہ اقلیتوں کے اندر اقلیت ہیںاور پوری دنیا میں جتنا ظلم ان پر ہورہا ہے اتنا کسی دیگر طبقہ پر نہیں ہے۔
افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں صرف غیر ہی نہیں بلکہ شیعوںکو بھی مارا جا رہا ہے۔ کناڈا حکومت شیعوںکو پناہ دے رہی ہے، تو کیا ہندوستانی حکومت شیعوں کیلئے دروازہ نہیں کھول سکتی؟اس سلسلہ میں بورڈ وزیر اعظم اور برسراقتدار بی جے پی کے قومی صدر کو تجاویز ارسال کرے گا۔
ان خیالات کا اظہار مولانایعسوب نے اتوار کے روز سائنٹیفک کنونشن سینٹر میںمنعقد بورڈ کے سالانہ اجلاس کے دوران نامہ نگاروں سے کیا۔ اجلاس میں این آر سی اور شہریت ترمیم بل سمیت شیعہ فرقہ کے اقتصادی تعلیمی اور سیاسی شراکت داری کے سلسلہ میں بھی تجاویز منظورکی گئیں۔
مولانا یعسوب عباس نے ایک کمیشن بناکر پورے ملک میں شیعہ فرقہ کا ایک سروے کرائے جانے کا مطالبہ کیا ۔ انہوں نے بابری مسجد معاملہ میں ریویوپٹیشن کی حمایت کرتے ہوئے کہاکہ آئین میں ریویوپٹیشن کا حق دیا گیا ہے اگر کوئی نظر ثانی عرضی دائر کر رہا ہے تو اس پر انگلی نہیں اٹھانا چاہئے۔
مولانایعسوب نے بتایاکہ اجلاس میں مختلف ریاستوں سے آئے عہدیداران نے ریاستوں میں بورڈ کی تشکیل کا مطالبہ کیا جس پر بورڈنے ہر ریاست میں کمیٹیاں تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
اسی کے ساتھ بورڈ الگ الگ شہروںمیں بھی پروگرام منعقد کرے گا۔ ممبئی سے آئے مولانا ظہیر عباس نے کہاکہ ہم ایک جمہوری ملک کے باشندے ہیں اور جمہوریت میں سرشمار کئے جاتے ہیں۔ اس لئےاپنا حق حاصل کرنے کیلئے متحدہونا ضروری ہے۔
انہوں نے کہاکہ شیعہ طبقہ کی تعلیمی ، معاشی اور روزگار سے متعلق مسائل پر خصوصی توجہ دینے کیلئے سرکردہ دانشور طبقہ مل کر ایک تھنک ٹینک بنائے جو قوم کی ترقی کیلئے پروگرا م وضع کرے۔
بنگال سے آئے مولانا آفتاب حسین نے کہاکہ آج علم کی کمی کےسبب ہم اپنے حق سے محروم ہیں۔ جھارکھنڈ سے آئے مولانا موسی رضانے کہاکہ بورڈ نے بہت کام کیا ہے اور مسلسل جدوجہد میں مصروف ہے۔
اس سے قبل اجلاس کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا اور بورڈ کے صدر مولانا صائم مہدی نے اجلاس کاخاکہ پیش کرتے ہوئے بورڈ کی ضرورت اور ا س کی حقیقت پر روشنی ڈالی۔ مولانا اعجاز اطہر نے اجلاس میں پیش ہونے والی تجاویز اور مسائل کی تفصیلات پیش کیں۔
3اجلاس کے دوران مندرجہ تجاویز ہوئیں منظور:-بورڈ نے مرکزی حکومت سے سعودی عرب کے مدینہ شہر واقع جنت البقیع قبرستان میں رسول اسلامؐ کی بیٹی اور چار اماموں کی قبور پر روضوں کی تعمیر کیلئے سعودی حکومت سے ملک کے شیعوں کو اجازت دلانے، شہریت ترمیم بل میں شیعوں کو شامل کر کے انہیں شہریت کی سند دینے ، انسانیت کیلئے قربانی دینے والے امام حسین کے کارناموں کی شخصیت اور کارنامو ں کو اسکول کے نصاب میں شامل کرنے، راجدھانی لکھنؤ کی سڑکوں کا نام اودھ کے نوابین کے نام پر رکھنے ، شیعہ اور سنی وقف بورڈ وں کو الگ الگ رکھنے، حسین آباد ٹرسٹ کو خو دمختار بنانے، شیعوں کو تعلیم اور ملازمت میں اقتصادی پسماندگی کی بنیادپر ریزرویشن دینے،دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے دہشت گردی سے سختی سے نمٹنے کیلئے سخت اقدامات کرنے اور محرم کے جلوسوں کے تحفظ اور لکھنؤ کی درزودی کےکام کو صنعت کا درجہ دینے کا مطالبہ والی تجاویز منظورکی گئیں۔
اجلاس میں عراق سے آئے آیت اللہ بشیر نجفی کےنمائندے مولانا ضامن جعفری ، مولانا سیف عباس نقوی، ارونگ آباد کےمولانا شباب زیدی، بہارکے مولانا اسد یاور، بنگال کے مولانا فیروز عباس، ممبئی کے مولانا ذکی نور، دہلی کے مولانا شمشیر علی، مولانا رئیس جارچوی، اجمیر کے مولانا نقی حسین، مولانا زاہد احمد، وارانسی کے مولانا قیصر حسین، میرٹھ کے مولانا افضال حسین، جونپور کے مولانامحفوظ الحسن سمیت ملک کی مختلف ریاستوں سے آئے علماء، خطباء کے ساتھ راجدھانی کے علماء وغیرہ شامل تھے۔