اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
[email protected]
9807694588(موسی رضا)
افسانہ نگار:عارف نقوی
پرانے لکھنؤ میںکسی زمانے میںکبوتربازی کا بہت رواج تھا۔ لوگ بڑے شوق سے کبوتر پالتے تھے۔
منے میاں کے گھر میں بھی طرح طرح کے کبوتر پلے ہوئے تھے۔ دور آسمان تک اڑنے والے ہرے، دوباز اور بے داغ اور نیچے اپنے مچان کے پاس اڑنے والے شیرازی اور صرف گھر کی چھت تک پہنچنے والے لقّا۔ جنہیں وہ اپنی اولاد سے بھی زیادہ محبت سے دانہ کھلاتے تھے۔ ایک دن ان کے کبوتروں کے جھنڈ کے ساتھ پڑوس کا ایک بھوکا کتھئی شیرازی بھی آگیا۔ منے میاں نے دانہ ڈالا۔ سب کبوتر چھت سے نیچے اتر کر دانے پر جھپٹنے لگے۔ مہمان شیرازی بھی جھنڈ کے ساتھ نیچے دالان میں آگیا۔ جب اس نے دانہ چگنے کے لئے دُم منّے میاں کی طرف کی اور گردن نیچے کرکے دانے پر چونچ ماری تومنّے میاں نے کسی باز کی طرح جھپٹ کر اسکاسر اور پیٹھ اپنے پنجے میں جکڑ لی لیکن نہ جانے کیسے کبوتر خود کو چھڑا کر اڑ گیا اور پھر دانہ اور پانی کوئی چیز اسے نہ للچا سکی۔
دوسرے دن ان کے پڑوسی لالہ سورداس اپنا کبوتر ڈھونڈتے ہوئے ان کے گھر آئے۔
’’میرا کبوتر آپ کے گھر آگیا ہے۔ میں نے سنا ہے۔ ‘‘
’’کون سا کبوتر؟‘‘
’’کتھئی شیرازی۔ وہ میرا ہے۔ ‘‘
’’اچھا وہ آپ کا تھا۔آئیے بیٹھئے پان نوش فرمائیں گے؟ ‘‘ پھر انہوں نے زور سے آواز لگائی:
’’اری بیگم، لالہ جی کے لئے چائے بیٹھک میں بھیج دو۔‘‘
’’جی ہاں وہ میرا ہے۔ مجھے آپ کے بیٹے سے معلوم ہوا ۔ وہ پارک میں لڑکوں کو بتا رہا تھا، کہ ایک شیرازی آپ کے گھر میں آگیا ہے۔ کیا آپ مجھے واپس دے سکتے ہیں؟‘‘ لالہ جی نے بڑی مروت سے کہا۔
’’جی آیا تھا۔ اب نہیں ہے۔ اڑ گیا۔‘‘
’’دیکھو میاں، مجھ سے جھوٹ نہ بولو۔ ‘‘ لالہ جی کا لہجہ اچانک بدل گیا۔ پھر سنبھل کر بولے :
’’میاں جی ، ہم سب محلے میں آپ کا بڑا احترام کرتے ہیں۔ آپ سے یہ امید نہیں تھی۔‘‘
میٹھی میٹھی باتیں توتو میں میں میں بدل گئیں۔ پھر گالم گلوج شروع ہو گئی۔دونوں طرف کے طرفدار آگئے۔
بزرگوں سے بات جوشیلے نوجوانوں تک پہنچ گئی، مُکّے، لات، اینٹ، پتھر، سخت مارپیٹ کی نوبت آگئی۔ کئی لوگ زخمی ہوئے، کچھ کے سر پھٹے، کچھ کے جسم لہو لہان۔ایک گھنٹے کے بعد پولیس موقع واردات پر پہنچی جب دونوں فریق اپنے اپنے گھروں میں واپس پہنچ چکے تھے۔ پولیس نے بہت ایمانداری سے کاروائی کی۔ فوجداری عدالت میں کیس پہنچا۔ مننے میاں اور لالہ سورداس کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ جج نے پوچھا:
ان دونوں میں ملزم کون ہے اور مظلوم کون؟ منّے میاں یا لالہ سورداس؟
سرکاری وکیل نے کہا : ’’دونوں ہی ملزم ہیں ، حضور۔ ان دونوں کی وجہ سے جھگڑا ہوا ہے۔ لوگوں کےسر پھوٹے ہیں۔ لوگ لہولہان ہوئے ہیں۔ محلّے ، بلکہ سارے شہر کا ماحول خراب ہوا ہے۔
جج نے گھور کر دیکھا اور زوردار آواز میں کہا:
’’میں پوچھتا ہوں ان میں سے ملزم کون ہے اور مظلوم کون ہے؟ ہر مقدمے میں مدّعی اور مدّعاعلیہ، ملزم اور مظلوم، قاتل اور مقتول، گنہگار اور بے گناہ ہوتا ہے۔‘‘ پھر اس نے فیصلہ سنایا ۔
پولیس کیس بہت کمزور ہے ۔ دونوں کو باعزت رہا کیا جاتا ہے۔
٭٭٭٭٭