عدلیہ اور حکومت کی کشمکش— سول سوسائٹی کا رول

0
232

تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں

https://chat.whatsapp.com/9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B

https://www.facebook.com/urduavadhnama?mibextid=ZbWKwL


اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

[email protected] 

9807694588(موسی رضا)


مضمون نگار: ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین

کسی بھی جمہوری ملک میں چونکہ حکومت عوام کے ووٹ سے بنتی ہے، اس لیے اس کو عوامی جمہوریہ کہا جاتا ہے۔ عوامی جمہوریہ کے چار ستون مانے جاتے ہیں۔ قانون سازیہ، انتظامیہ، عدلیہ اور آزاد پریس۔ ایوان میں جس پارٹی کی اکثریت ہوتی ہے، اس کی حکومت بنتی ہے اور جو اکثریت حاصل کرنے میں ناکام ہوتے ہیں وہ مخالف بینچ پر بیٹھتے ہیں۔ حکومت کو جتنی بھاری اکثریت حاصل ہوتی ہے وہ اتنی ہی مضبوط حکومت کہلاتی ہے۔ ایسی صورت میں اس کی من مانی کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے۔ اگر دو تہائی اکثریت حاصل ہوجائے تو اسے دستور میں بھی ترمیم اور تبدیلی کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔ حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھنے اور اس کی من مانی پر روک لگانے میں چار اداروں کا بہت اہم رول ہوتا ہے۔ (۱) اپوزیشن جماعتوں کا جو حکومت کی خامیوں اور غلطیوں کو اجاگر کرکے عوام کو بیدار کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ (۲) آزاد پریس جو حکومت کی غلط پالیسیوں اور بدعنوانیوں یا خلافِ قانون حرکت پر نظر رکھتی ہے اور کھل کر اس پرتنقید کرتی ہے۔ یہ دونوں ادارے بیداری اور پبلک ایجوکیشن میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ (۳) تیسرا سب سے اہم ادارہ آزاد عدلیہ ہے جو یہ دیکھتی ہے کہ حکومت نے جو قانون سازی کی ہے یا جو ایکزیکٹیو آڈر پاس کیا ہے وہ ملک کے دستور، قانون اور انصاف کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے یا نہیں۔ اگر عدالت کو لگتا ہے کہ حکومت کا کوئی فیصلہ یا اقدام غلط ہے تو اس پر روک لگا سکتی ہے یا اس کو بدل سکتی ہے۔ جس کا احترام حکومت پر واجب ہوتا ہے۔ (۴) چوتھا ادارہ سول سوسائٹی اور پبلک اوپنین کا ہے۔ یہ لوگ واچ ڈوگ کا کام کرتے ہیں اور خاص طور سے بدعنوانی اور بنیادی انسانی حقوق کے خلاف کوئی بات ہورہی ہے تو اس کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں اور جمہوری، قانونی اور پُرامن ذرائع سے اس کے روک تھام کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

نئی پارلیمنٹ کے افتتاح پر سیاسی بھونچال

حکومت کا عام مزاج یہ ہوتا ہے کہ وہ تمام جمہوری اور دستوری اداروں کو اپنی گرفت میں رکھے تاکہ اس کو اپنے فیصلے کے نفاذ میں دقت نہ ہو۔ اگر اپوزیشن کمزور ہے تو حکومت کو ایوان پر اور سڑک پر بہت کم خطرہ رہتا ہے۔ آج کل کورپوریٹ میڈیا کو جس طرح خرید لیا گیا ہے اب وہ ستون ٹوٹ گیا ہے اور اس کی وفاداری عوام کے بجائے حکومت کے ساتھ ہے۔ جس سے اس کو مالی فائدہ حاصل ہورہا ہے۔ سول سوسائٹی کو ڈرانے اور دھمکانے کا عمل جاری ہے اور لوگوں کی زبان بند کرنے کے لیے نت نئے ہتھ کنڈے استعمال کیے جارہے ہیں۔ اس وقت سارا زور عدلیہ کو نکیل دینے پر ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ عدالت حکومت کے ہر فیصلے پر صاد کرے ورنہ خود حکومت عدالت کو مستقل دباؤ میں رکھنے کی حکمت عملی پر کام کررہی ہے۔

آزاد عدلیہ ملک میں قانون کی حکمرانی، آزادی، جمہوریت، دستوری حقوق کا تحفظ اور دستور کی بالادستی کی لازمی شرط ہے۔ اس لیے کوئی حکومت ہو وہ عدلیہ پر نکیل کسنے کی کوشش کرتی ہے۔ دستورِ ہند کی دفعہ 124(2) کے تحت اونچی عدالتوں میں ججوں کی تقرری صدر جمہوریہ کے ذریعے عدالتِ عظمیٰ اور عدالت عالیہ کے ان ججوں کے مشورے سے ہوگی جس سے صدر مشورہ کرنا مناسب سمجھیں۔ اس پروویژن نے جو گل کھلائے وہ لوگوں کے سامنے ہیں۔ اندرا گاندھی نے عدلیہ کو اپنے قبضے میں رکھنے کے لیے چھ سینئر ججوں کو چھوڑ کر چھٹے نمبر کے جو سینئر جج ام۔ ان رائے کو چیف جسٹس بنادیا۔ جس پر تمام سینئر ججوں نے استعفیٰ دے دیا اور ملک میں بڑا واویلا مچا۔ 1993 تک یہی سلسلہ چلا۔ جب عدلیہ ممبر کی آزادی خطرے میں پڑگئی تو سپریم کورٹ نے خود اپنے فیصلوں کے ذریعے ایک کالجیم سسٹم وضع کیا اور اس کو ججوں کے تقرری کا اختیار دیا گیا۔ حکومت کو یہ بات پسند نہیں آئی اور اس نے 2015میں این۔جے۔اے۔ سی قانون بناکر ایک کمیشن کے ذریعے ججوں کی تقرری کی بات کی۔ اس دستوری ترمیم کو سپریم کورٹ نے رد کردیا ہے۔ اس طرح مودی حکومت اور سپریم کورٹ کے درمیان ایک سرد جنگ چل رہی ہے جو رہ رہ کر مکروہ صورت اختیار کرلیتی ہے۔

چیف جسٹس چندر چور کا کہنا ہے کہ کوئی سسٹم خامیوں سے پاک نہیں ہوسکتا ہے۔ اگر ججوں کی تقرری بالکلیہ حکومت کے ہاتھ میں دے دی جائے گی تو عدلیہ کی آزادی ختم ہوجائے گی۔ اس وقت ایسے ہی عدالتوں میں زعفرانی ذہنیت کے لوگ ججوں کی کرسی پر فائز ہیں جو دستور کے بجائے اپنی مائتھولوجی، کسٹم اور ٹریڈیشن کو سورس آف لاء مان کر فیصلے دیتے ہیں۔ جب حکومت کو بالکلیہ اختیار مل جائے گا تو پھر دستور کی بالادستی ختم ہوجائے گی اور ایک مزاج کے لوگ ہی عدالتوں میں براجمان نظر آئیں گے۔ حکومت کا لجیم کی سفارشات کو ماننے پر مجبور نہیں ہے۔ حکومت نے جسٹس اے بی شاہ، جسٹس عقیل قریشی او رجسٹس مرلی دھرن کو سپریم کورٹ میں آنے سے روک دیا ہے۔ اور جو جج ان کے مزاج کے مطابق تھے ان کو بلاتاخیر پروموٹ کردیا۔ جب حکومت مطلق العنان ہوجائے تو عدالتوں کی آزادی خطرے میں پڑجاتی ہے اور یہ بات عوام بالخصوص کمزور طبقات کے لیے تشویشناک ہے۔ ضرورت ہے کہ عدلیہ کی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے سول سوسائٹی فعال کردار ادا کرے۔جمہوریت میں اقتدارِ اعلیٰ عوام کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ لہٰذا اس معاملے میں عوام کو حساس، بیدار، منظم اور متحرک کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ کوئی حکومت عوامی مین ڈیٹ کا ناجائز فائدہ نہ اٹھا سکے۔

کالم نگار اردو کی بیسٹ سیلر بک’اکیسویں صدی کا چیلنج اور ہندوستانی مسلمان- بند گلی سے آگے کی راہ‘ کے مصنف ہیں۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here