تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں
https://chat.whatsapp.com/9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B
https://www.facebook.com/urduavadhnama?mibextid=ZbWKwL
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
[email protected]
9807694588(موسی رضا)
تبصرہ نگار: افسانہ جونپوری
نعت گوئ کو اردو کی مختلف اصناف سخن کے درمیان ایک بہت ہی اہم، بلند اور پاکیزہ مقام حاصل ہے ۔ صنفِ نعت ایک ایسا فن ہے جس میں منظوم انداز میں نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعریف بیان کی جاتی ہے ۔ اس کا آغاز یوم میثاق سے ہی ہوچکاتھا ۔ قادر مطلق جل شانہ نے قرآن حکیم میں جابجا اپنے محبوب مکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اوصاف و کمالات کو بیان فرما کرمحبین نبی کو نعت گوئی کا سلیقہ و شعور بخشا ہے ۔ اللہ تبارک وتعالی نے متعدد مقامات پر اپنے محبوب پیغمبر اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلّم کی شان ومقام کی بلندی کو انسانوں کے سامنے واضح فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا ” ورفعنالک ذکرک” یعنی ہم نے آپکے ذکر کو بلندی بخشی ،اور کہیں یوں فرمایا “وانک لعلی خلق عظیم” مطلب آپ اخلاق کے عظیم مرتبے پر فائز ہیں ،کہیں یوں فرمایا
وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین” کہ ہم نے آپکو سارے جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے ۔ کہیں پر یوں فرمایا” انا ارسلناک شاھدا ومبشرو ونذیرو” یعنی اے نبی ہم نے آپکو گواہ بنایا ہے ،ہم نے آپکو خوش خبری سنانے والا اور آخرت میں جو عذاب منکروں ،کافروں اور باغیوں کے لیے ہے۔ اس سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے ۔ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اپنے محبوب کا ذکر جمیل پیرائیہ نعت میں کیا ہے ۔یہ امر قابل غور ہے کہ خالق کائنات نے براہ راست حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا نام گرامی محض چند مقامات پر ھی لیا ہے، اکثر وبیشتر محبت بھرے انداز میں پیارے اوصاف سے مخاطب کیا ہے۔ کبھی یس وطہ کہہ کر پکارا،کبھی مزمل ومدثر کہہ کر مخاطب کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
صنف نعت کو بام عروج پر پہنچانے میں صحابہ کرام،ازواج مطہرات، اہل بیت اطھار، تابعین،تتبع تابعین، ائمہ مجتہدین، سلف صالحین، اغواث، اقطاب، ابدال، اولیاء، صوفیاء، علماء اور بلا تفریق مذہب و ملت شعراء و ادباء کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے۔ اسی سلسلے میں ایک نام محترم ابوذر انصاری صاحب کا بھی ہے۔ جنہوں نے اس پاکیزہ صنف کا استعمال کرتے ہوئے بارگاہ محبوب کردگار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے اپنی عقیدت، محبت، اور تصوف سے لبریز اپنے دلی جذبات کو نعتیہ پیرائے میں قلمبند کرنے کی کوشش کی ہے۔
محترم ابوذر انصاری 15 جون1956 کو ضلع جونپور کے محلہ تاڑتلہ میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے ادیب کامل ،بی ٹی سی ،بی۔ اے کی تعلیم حاصل کی اور درس و تدریس سے وابستہ ہوگئے اور 31مارچ 2019 میں اپنے پیشے سے ریٹائرڈ ہوئے ۔ کم عمری سے ہی انہیں مطالعہ شعر و ادب کا شوق تھا۔ دین و مذہب ، خدمت خلق اور دیگر بہت سے میدانوں سے ان کی دلچسپیاں رہیں ، لیکن اردو شعر و ادب سے ان کی وابستگی بہت ہی شدید تھی ۔ درس و تدریس کے پیشے سے تعلق کی وجہ سے اس میں دن بدن نکھار آتا رہا۔ ان کی شخصیت میں اور بہت سی خوبیاں و کمالات ہیں۔ اس پر دیگر اصحاب فضل وکمال روشنی ڈال چکے ہیں ، لیکن ناچیز کی نظر میں جو خوبی حیرت انگیز ہے وہ یہ ہے کہ موصوف نہایت سادہ وسنجیدہ طبیعت کے مالک ہیں، اس قدر قریب رہتے ہوئے بھی ہم جیسی طالبات کو احساس بھی نہ ہوسکا کہ ہم کس قدر عظیم ہستی کے جوار میں ہیں۔ موصوف کے اس اخفائے حال کا نقصان یہ ہوا کہ اب تک ہم کسی بھی طرح کے استفادہ سے محروم رہے۔ لیکن ان شاء اللہ آئندہ اس کی تلافی کی کوشش کی جائیگی۔
ویسے تو محترم کی مشغولیت فاونڈرسکریٹری ،بزم ارباب سخن جونپور ، ناظم المجمع الکرامتیہ تاڑتلہ جونپور ،خزانچی شاہی عیدگاہ جونپور ہے۔ پھر بھی موصوف ان مشغولیات کے باوجود اردو شعروادب کی خدمات کے لئے اپنے آپ کو وقف کئے ہوئے ہیں ۔ ابوذر صاحب بیک وقت مرتب ،مصنف اور شاعر بھی ہیں ۔ گزشتہ سال انکی نثری کتاب ” جہان فکر و خیال” پر اتر پردیش اردو اکیڈمی نے انہیں انعام و اعزاز سے نوازا ہے ۔
نظم کے ذریعہ ہو یا نثر کے، کوئی بھی شخص اپنے جذبات کا اظہار جب اپنے ممدوح یا موصوف کے لیے کرتا ہے ۔تو اس میں عموماً مبالغہ آرائ، تصنع اور بناوٹ سے کام لیتا ہے۔ دیگر اصناف سخن میں تو یہ چیز مقبول اور معروف ہے- بسا اوقات اسے مستحسن بھی سمجھا جاتا ہے ۔ لیکن نعت گوئی ایک ایسا فن ہے۔ کہ جہاں پر محبت و عقیدت کا اظہار حدود کے دائرہ میں کرنا ہوتا ہے ۔ان حدود سے آگے بڑھنا بسا اوقات ایمان میں اضافہ کے بجائے ایمانی عقیدہ سےانحراف کا سبب بن جاتا ہے ۔اسلئے کہ خود آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا :-
میری تعریف میں اس طرح حد سے مبالغہ مت کرو جس طرح عیسائیوں نے اپنے نبی عیسیٰ علیہ السلام کی تعریف میں مبالغہ کیا اور انہیں عبد کے درجے سے اٹھا کر الہ کے درجے تک پہنچا دیا ۔ میں توصرف اللہ کا ایک بندہ ہوں لہذا تم مجھے اللہ کابندہ اور اس کا رسول کہو ۔
محتاط قسم کے شعراء نے ہمیشہ اس چیز کا خیال رکھا ہے۔ خواہ وہ عربی شاعری ہو، خواہ فارسی شاعری ہو یا بعد کے دور میں اردو شاعری ہو۔ تابش مہدی صاحب کا ایک بڑا عمدہ شعر ہے:
٫ہے ارض نعت سنبھل کر چلو یہاں تابش
وفور شوق میں کوئی نہ بھول ہو جائے
حالنکہ کسی شاعر نے یہ بھی کہا تھا کہ۔۔۔۔
٫روکو نہ مجھے لوگوں دیوانہ ہوں دیوانہ
قابو میں نہیں رہتے جذبات مدینے میں
لیکن سچائی یہی ہے کہ جذبات کو اور اسلوب بیان کو بہر حال دائرہ کا پابند کرنا پڑتا ہے ۔اور یہ اچھائی بھی ہے۔
صنف نعت میں نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سیرت اور آپکا جو آفاقی پیغام ہے وہ بیان کیا جاتا ہے۔ سیرت رسول اور پیغام رسول کو بیان کرنے والے باوجود اس کے محبت و عقیدت کے ساتھ بیان کرتے ہیں، محبت کا اظہار کرتے ہیں ۔لیکن حدود کا بہر حال خیال رکھتے ہیں۔
تاریخ نعت گوئ سے اس امر کے متعدد شواہد پیش کیے جا سکتے ہیں ، اس موضوع پر مختلف اہل قلم نے اپنے اپنے انداز میں اظہار بھی کیا ہے اس کا احاطہ دشوار ہے۔
ہمیں ان نمونوں کو سامنے رکھنا ہے ۔اورخاص طور پر اس سلسلے میں ناقدین نے بہت سے لوگوں کے کلام کا جائزہ لیا ہے اور اپنے نقد کے ذریعے سے اس امر کوواضح کیا ہے کہ اس وادیئے پرخار سے بہت سے نعت گو شعراء گزرے ہیں۔ جو نہایت احتیاط کے ساتھ گزر گئے ہیں ۔عقیدت کا اظہار بھی ہوگیا اور احتیاط کا دامن بھی ہاتھ سے انہوں نے جانے نہیں دیا ہے ۔ ہماری اس مجلس کی ایک باوقار شخصیت جناب ابوذر صاحب کا مفصل مضمون چشم کشا اور لائق مطالعہ ہے۔
ابوذر صاحب اپنے مقدمے میں اپنے حال دل کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انھوں نے اس مجموعہ نعت کو اب سے کوئی بیس سال قبل لانےکی کوشش کی تھی جوناتمام رہی ۔انہوں نےدرست فرمایا شایداس کی اشاعت کاوقت اس وقت نہیں آیا تھا ۔
خیر۔۔۔۔۔ دیر آید درست آید ۔
ابوذر صاحب نے اپنے اس نعتیہ مجموعے میں بہت سےمشاہیر کا ذکرکیاہے ۔ جنہوں نےاس نعتیہ مجموعےپراپنے بیش قیمتی آراء خیالات پیش کئے ہیں ۔ان اہم علمی وادبی شخصیات میں پروفیسر عبد الحق صاحب
سید اقبال جونپوری ، طفیل انصاری صاحب اور حافظ کرناٹکی صاحب کےنام قابل ذکرہیں ۔
موصوف نےاپنے مرشداور جونپور کےامام و خطیب مولاناشاہ صوفی ظفراحمد صدیقی جونپوری کا اس دارفانی سے رخصت ہونے کا ذکر بھی فرمایا ہے۔جن کا وصال یقیناً تمام اہل جونپور کےلئے ایک روحانی خسارہ ہے اور جن کا ذکر آتے ہی ایک نورانی چہرہ نگاہوں کے سامنے پھر جاتاہے۔ مرحوم کے لئے میں بس یہی کہونگی۔۔۔۔۔۔۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بےنوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سےہوتاہےچمن میں دیداور پیدا
ابوذر صاحب نےاپنے مقدمےمیں امام جونپور کی سیرت وصورت کا ذکراس خوبصورت انداز میں کیاہے کہ گویا وہ ہمارےدرمیان اپنی بافیض شخصیت کے ساتھ موجود ہیں ۔امام جونپور کادنیائےفانی سےکوچ کر جانا اہل جونپور کےلئے بہت بڑاخسارہ ہے ۔جو کبھی پر نہیں کیا جاسکتا۔
ابوذر صاحب نےنعت لکھنا،پڑھنا اور سننا جیسےعمل کو اپنے قلب و نظر کی دنیا سنوارنے کا کام اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی حاصل کرنےکاوسیلہ سمجھکر لکھتے رہے۔اور اس سلسلے میں انکےتصورات کی کافی کچھ وضاحتیں انہوں نے” جہان فکر و خیال” میں شامل اپنے دو مضامین میں بیاں کردیا ہے اور اس نعتیہ مجموعے”منزل منزل سایہ “میں بھی ابوذر صاحب کے نعتوں پر دو مضامین شامل ہیں ۔ موصوف نے اپنے تمام احباب کے ذکر میں ڈاکٹر سعیدمسیحا اور حافظ قمرعباسی صاحب جنہوں نےاس کتاب کی کمپوزنگ کی ان کا شکریہ ادا کرنا نہیں بھولے ہیں۔
کوئی ادیب و شاعر اگر کچھ لکھتا ہے تو اس کے پیچھے بہتوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ پر ان تمام ہاتھوں میں ایک اہم ہاتھ ، ایک حوصلہ بڑھانےکا کام شریک حیات اور اہل خانہ کا بھی ہوتا ہے۔ابوذر صاحب نےاپنے مقدمےمیں اپنی اہلیہ اور اپنے بچوں کا ذکر کرکے اپنی خوش باش زندگی کا ثبوت پیش کیا ہے۔
مقدمے کے آخر میں” ایک بات اور ” لکھ کر آپ نےاردو زبان کےلئے جوفکرظاہرکی ہےوہ بہت ہی قابل تعریف ہے۔اگر یہ فکر عام و خاص تمام لوگوں کو ہو جائے تو اردو زبان عروج و اقبال کے بام پر جگمگاتی رہیگی ۔
اس بات کو آپ کتاب کے مسک الختام سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں کہ موصوف نے آخری اقتباس میں اس خاص شخصیت کا ذکر کیا ہے۔ جو کہ جونپور کی ادبی شخصیتوں میں سے ایک ہے ۔ جس نے جونپور میں آج کے دور میں اردو زبان کو فروغ دینے کا عزم کیا ہے ۔ وہ ادیب و دانشور کوئی اور نہیں بلکہ محترم عرفان جونپوری صاحب ہیں ۔ جن کے بارے میں ابوذر صاحب فرماتے ہیں:
جی ہاں! اس مجموعے نعت کے لیے بھی اگر وہ میرے پیچھے نہ پڑگئے ہوتے تو شاید ہی اسے آپ تک رسائی کی سعادت ملتی ۔میری مراد عرفان جونپوری سے ہے ۔ ایسا بھی نہیں کہ ان کا تعاون مشروط محدود ہے ۔بلکہ میرے علم کی حد تک تو انہوں نے حصار من وتو سے خود کو آزاد رکھا ہے ۔ آج جونپور کے علمی وادبی افق پر نئی کتابوں کی جو ایک کہکشاں سی جگمگا رہی ہے ۔اگر تلاش کیجئے تو معلوم ہوگا کہ ان میں سے بیشتر کے پیچھے کسی نہ کسی شکل میں انکی ہی اردو دوستی کارفرما ہے۔”
کتب خانے جودرحقیقت کسی بھی تعلیم یافتہ اور مہذب قوم کے لیے پاور ہاؤس کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اپنوں ہی کی بے توجہی کی وجہ سے آج بتدریج زوال کی طرف گامزن ہیں ۔ اور اپنی ہی ویرانی کا مرثیہ پڑھ رہے ہیں ۔
ایسے نامساعد حالات میں بھی خاص طور سے اردو زبان وادب کی خدمت کے لیے اس شیرازہندمیں اگر کوئی کتب خانہ ہے تووہ جناب عرفان جونپوری صاحب کا ہی ہے ۔ اردو کا کتب خانہ اردو کے تئیں ان کی جدوجہد اور فکر مندی کا ایسا چشمئہ فیض ہے ۔ جس سے نسلیں اپنی علمی وادبی تشنگی دور کرتی رہیں گی ۔
اب محترم ابوذر انصاری صاحب کی ایک نعت رحمت عالم کا در”کے چند اشعار ملاحظہ ہیں ۔
پیہم درود جاری ہماری زبان سے ہے ،
دل کو نجات ہر غم و آہ وفغاں سے ہے ،
ہر سمت نور نور ہے خوشبو کہاں سے ہے ،
شاید قریب گنبد خضریٰ یہاں سے ہے ،
تعظیم شاہ دیں کی نہ توفیق ہو جسے ،
وہ آدمی بتائیے مومن کہاں سے ہے ،
نعت گوئی ہر کس و ناکس کے بس کا روگ نہیں یہ شرف اور سعادت مندی اسی کو حاصل ہوتا ہے ۔ جس پر فضل خداوندی ہو اور فیض رسالت مآب بھی ۔ درج بالا اشعار کو پڑھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ ابوذر صاحب کے کلام میں تصوف کی جھلک کس قدر ہے۔
جیسے زبان سے درود جاری ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر سے دل کے تمام غم کو نجات ہے۔ تصوف کا اس قدر غلبہ ہے کہ شاعر خود کو گنبد خضریٰ کے قریب محسوس کر رہا ہے ۔ شاعر کے عشق رسول کی یہ والہانہ محبت تو دیکھئے کہ وہ کہہ رہا ہے کہ جسے شاہ دیں کی تعظیم کی توفیق نصیب نہیں تو وہ آدمی بتائیے مومن کہاں سے ہے۔ حقیقت تو یہی ہے کہ جس انسان نے نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا دامن تھام لیا وہ مومن بن گیا ۔ اور جس نے نہ تھاما اس نے دنیا اور آخرت دونوں جہاں میں اپنا خسارہ کیا ۔
آئیں ایک اور شعر کا جائزہ لیتے ہیں ۔
تنویر صبح خنکی شام سیاہ پوش
چہرے سے کس کے عنبر فشاں سے ہے”
روئے انور کی تابانی کو شاعر دربار رسالت حضرت حسان بن ثابت سے لے کر کے موجودہ دور کے شعراء تک نے اپنے اپنے انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے ۔حضرت حسان ابن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تھا کہ
یا صاحب الجمال ویا سید البشر” ۔
اماں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روئے انور کے تعلق سے یوں فرمایا تھا کہ چودھویں کا چاند روشن تھا اور آقا تشریف فرما تھے ۔ایک بار میں چاند کو دیکھتی اور ایک بار آقا کے چہرے انور پر نظر ڈالتی خدا کی قسم آقا کا چہرہ انور چاند سے بھی زیادہ خوبصورت تھا۔
تمام ہی نعت گو شعراء نے اس مضمون کو اپنے اپنے انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے ۔
یہ شعر بھی کتنا خوبصورت اور محبت کے جذبات سے لبریز ہے ۔
انہیں کے روئے منور سے صبح تابندہ
انہیں کے گیسوئے عنبر سے شام روشن ہے
آئیے ایک اور شعر پر غور کرتے ہیں ۔
سراپا خلق مجسم خلوص پیکر حلم
جدھر بھی دیکھئے انکا ہی نام روشن ہے ،
نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کی گواہی اپنوں نے بھی دی ہے اور غیروں نے بھی ۔ اس مضمون کو شعراء نے اپنے اپنے انداز میں بیان کیا ہے ۔ لیکن ابوذر صاحب کا انداز ہی کچھ نرالا ہے ۔ انکے اشعار کی چاشنی سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے نبی کی محبت میں ڈوب کر اپنی قلم کو تر کیا ہو ۔
جذب و شوق کے عالم میں کہا گیا یہ شعر بھی اپنی جگہ پر بڑا ہی خوبصورت ہے ۔
٫میرا طواف فرشتے کریں نہ کیوں بوذر
کہ دل میں شمع درود وسلام روشن ہے ،
یقیناً جو بندہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر درود بھیجتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس پر رحمتیں نازل فرماتا ہے ۔ آقا نے خود ہی فرمایا ” جو مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے ۔اس پر اللہ تعالی دس بار رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ تو اللہ کی نگاہوں کا ایسا شخص مستحق ہوجاتا ہے ۔اور جو اللہ کی نگاہوں کا مستحق ہو یقیناً فرشتے اس پر رشک کرتے ہونگے ۔کچھ انہیں معانی ومفاہیم کو سامنے رکھ کر ابوذر صاحب نے بہت ہی عمدہ کلام کہا ہے ۔
ابوذر صاحب کا محبت کے آنسوں سے پرویا ہوا یہ شعر بھی کیا خوب ہے ملاحظہ فرمائیں ۔
اخلاص کی تہوں سے ابھرے جواشک بوذر
ہر قطرہ کیوں نہ لعل ومرجان بن کے چمکے”
محبت کے آنسو بڑے ہی قیمتی ہوتے ہیں اور پھر اللہ کے پیارے محبوب کی محبت میں آنسو گرجائیں تو یقیناً وہ انمول ہوجاتے ہیں۔ پوری دنیا کی متاع ایک طرف اور محبت میں گرنے والے آنسو ایک طرف۔ابوذر صاحب نے بہت ہی خوبصورت انداز میں جذبات کی عکاسی کی ہے ۔ واقعی بہت عمدہ کلام ہے ۔
ابوذر صاحب کی ایک نعت جس کا عنوان ہے” ادب سے بیٹھئیے” اس کا ہر ہر شعر عقیدت و محبت کا شہ پارہ ہے، پڑھئیے اور سر دھنئیے۔
بہاریں خلد سے آکر لبوں کو چوم جاتی ہیں
زبان شوق سے جب مصطفی کا ذکر ہوتا ہے،
زمیں تا عرش ہے اک بارش انوار کا عالم
یہاں شاید حبیب کبریا کا ذکر ہوتا ہے،
پڑھا والفجر تو سمجھا، سنا واللیل تو جانا
رخ انور کہیں زلف دوتا کا ذکر ہوتا ہے،
بہاروں کا لبوں کو چومنا، زبان شوق سے ذکر مصطفی، کیا خوبصورتی سے محاوروں کے استعمال کیا گیا ہے۔
یہ تو سب کو معلوم ہے کہ بارش اوپر بادلوں سے ھوتی ہے، لیکن جہاں محبوب کبریاء کا ذکر ہو تو انوار کی چادر سایہ فگن ہوتی ہے ، شاعر نے کس خوبصورتی کے ساتھ تشبیہ مقلوب کو برتا ہے، یہ محظوظ ہونے کا مقام ہے۔
کلام کی ساری خوبیوں کے ساتھ کہیں کہیں پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کچھ غیر موزو نیت بھی در پیش آئی ہے ۔شاید نظر ثانی کا موقع نہ مل سکا ہو یا تصحیح کے وقت نگاہ چوک گئی ہو اور اسی بات کا زیادہ امکان ہے ۔
کیا عظمتیں بیان ہو بھلا اس جناب کی” اس جناب کی ترکیب بھی ذرا سا کھٹکنے والی بات ہے ۔ اسی طرح “خراب کی” کا عنوان بھی ایک کھٹکنے والی چیز ہے ۔اسی طرح نعتیہ کلام کے عنوان میں نعتوں کا پورا ایک مصرع ہوتا تو اچھا لگتا ۔ اس پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔
المختصر یہی کہنا چاہتی ہوں کہ ابوذر صاحب نے اپنے نعتیہ مجموعہ ” منزل منزل سایہ”کے ذریعہ یہ ثابت کردیا کہ نعت گوئی دراصل ایک سعادت بھی ہے اور عبادت بھی ۔ انکے نعتیہ کلام عشق رسول کی خوشبو ، عقیدت کی چاشنی ، جذبات نگاری ، در رسول پر حاضری کی تڑپ ، فراق و ہجر کی کیفیت ، مدینے کے دیدار کی آرزو ، شفاعت کی طلب وغیرہ سے معمور ہے ۔ انہوں نے اپنے پاکیزہ جذبات کو شعری پیرائے میں بیان کرنے کی عمدہ کوشش کی ہے۔ ابوذر صاحب کی شاعری میں شعریت ، خیالات کی ندرت ، جذبے کی پاکیزگی اور اثر آفرینی بھر پور موجود ہے۔ جو انکے کلام کو بیش بہا بنا دیتی ہیں ۔
٭٭٭٭