انجمن اصلاح المسلمین کے زیر اہتمام ممتاز پی جی کالج میں نیشنل کانفرنس ہوئی

0
538

مولانا رابع حسنی امت اسلامیہ کے لیے نقطہ اتفاق تھے: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

لکھنؤ،۲۸؍مئی:انجمن اصلاح المسلمین کے زیر اہتمام ممتاز پی جی کالج میں حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندویؒ حیات وخدمات کے عنوان سے ایک عظیم الشان قومی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس کی صدارت ممتاز فقیہ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے کی۔ اس کی نظامت انجمن کے سکریٹری سید اطہر نبی ایڈوکیٹ منیجر ممتاز پی۔جی۔کالج نے کی۔ افتتاحی خطاب امام عیدگاہ لکھنؤ مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے کیا۔ اس کانفرنس میں ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤ مولانا سید بلال عبدالحی حسنی ندوی، ناظر عام ندوۃ العلماء مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی، پروفیسر اختر الواسع صدر مولانا آزاد یونی ورسٹی جودھ پور، اساتذہ دارالعلوم ندوۃ العلماء مولانا عتیق احمد بستوی اور مولانا محمد خالد غازی پوری ندوی نے خطاب کیا۔کانفرنس کا آغاز قاری قمر الدین استاد دارالعلوم فرنگی محل کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔کانفرنس کا اختتام انجمن کے صدر چودھری شرف الدین کے کلمات تشکر پر ہوا۔اس کانفرنس میں بڑی تعداد میں علمائے کرام، دانش وران ملت، مختلف تنظیموں اور اداروں کے ذمہ داران، مدارس کے اساتذہ کرام اور عوام نے شرکت کرکے مولانا رابع حسنیؒ سے اپنی گہری عقیدت ومحبت کااظہار کیا۔مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا مولانا رابع ندویؒ کی وفات پوری امت اسلامیہ کے لیے بڑا حادثہ ہے۔ ان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ امت اسلامیہ کے لیے نقطہ اتفاق تھے۔ ہر حلقے اور ہر مسلک میں ان کو محبت وعقیدت کی نگاہ سے دیکھاجاتاتھا۔ وہ اس وقت مسلمانوں کاسب سے بڑا مرجع تھے۔ مولانا رحمانی نے کہا کہ مولانا ندوی کو عالم اسلام خصوصاًعرب دنیا میں بہت قدر اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ان کے عہد صدارت میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے بہت حکمت کے ساتھ اہم اور مشکل مسائل کا کام یابی کے ساتھ سامنا کیا اور بورڈ نے اتحاد ملت اور تحفظ شریعت کے کارواں کو ان کی رہ نمائی میں جاری رکھا۔ انہوں نے کہا کہ ندوۃ العلماء کے ناظم کی حیثیت سے مولاناؒ کے دور میںنہ صرف یہ کہ متعدد تعمیری کام ہوئے، دارالعلوم کی مسجد کی توسیع ہوئی بلکہ دارالعلوم میں تعلیمی معیار کو بھی بہتر سے بہتربنایا گیا۔ بڑی تعداد میں ندوے کی نئی شاخیں کھولی گئیں۔کانفرنس کی افتتاحی تقریر کرتے ہوئے مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے کہاکہ حضرت مولانا بلاشبہ ایک عہد آفریں اور تاریخ ساز شخصیت کے حامل تھے۔ انہوں نے۹۴ برس کی طویل عمر پائی۔ وہ اسلامی شریعت پر عامل اور طریقت کے حامل تھے۔ وہ عربی اور اردو کے بلند پایہ مصنف اور صحافی تھے۔ مولانا رابع حسنی ؒ اور علمائے فرنگی محل سے گہرا تعلق تھا جس کااظہار انہوں نے اپنی تحریروں و تقریروں میںکیا ہے۔ ان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ مسلکی اختلافات سے بالا تر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جس بنا پر ان کو مسلسل چار بار بلا مقابلہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا صدر منتخب کیا گیا۔پروفیسر اختر الواسع نے مولانا رابع حسنی سے اپنی خصوصی عقیدت ومحبت کااظہار کیا۔ انہوںنے مولانا کو عالم اسلام کی متفقہ شخصیت قرار دیا۔ انہوںنے کہاکہ مولانا مرحوم ماہر تعلیم، عربی کے مایہ ناز ادیب، بافیض استاد ومربی تھے۔ ان کی ذات سے ملک کے تمام مسلمانوں کو بڑی تقویت حاصل تھی۔ مسلمانوں کے شرعی مسائل سے ان کی گہری وابستگی تھی۔ اسی کے ساتھ ساتھ وہ ملی تنظیموں اور تعلیمی اداروں سے گہرا تعلق رکھتے تھے۔مولانا سید بلال حسنی ندوی نے مولانا رابع حسنی ؒ کے اوصاف وکمالات، حیات اور خدمات کاتفصیلی تذکرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ مولانا مرحوم جید عالم دین تھے۔ مولانا مرحوم اسلامی شریعت کے پابند اور سنت رسول کے متبع تھے۔ انہوںنے اپنی حیات مبارک کا اکثر حصہ درس وتدریس میں گزارا۔ ان کی زندگی طلبہ کے لیے خاص طور پر قابل تقلید تھی۔انہوں نے ملک وملت کی رہ نمائی کی۔مولانا سید جعفر مسعود حسنی نے مولانا مرحوم کی علمی وتصنیفی خدمات کابیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ مولانامرحوم فطری ادیب اور بلند پایہ اہل قلم تھے۔

اس کا ثبوت ان کی درجنوں کتابیں اور مشہور زمانہ جریدہ’’الرائد‘‘ لکھنؤ ہے۔ مولانا مرحوم مرشد الامت تھے۔ تصوف وسلوک کے اعلیٰ مراتب پر فائز تھے۔ مولانا مرحوم معروف دینی، علمی اور دعوتی ادارے مجلس تحقیقات ونشریات اسلام کے صدر تھے۔ عالمی رابطہ ادب اسلامی کے نائب صدر تھے۔ اسی کے ساتھ وہ ملک وبیرون ملک کے متعدد علمی وتعلیمی اداروں اور تنظیموں کے سرپرست تھے۔مولانا عتیق احمد بستوی نے مولانامرحوم کی علمی وفقہی بصیرت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ وہ عصر حاضر کے تقاضوں سے باخبر عالم دین تھے۔ وہ فقہ اسلامی کے جدید مسائل اور ان کے حل سے گہری دل چسپی رکھتے تھے۔مولانا محمد خالد غازی پوری ندوی نے کہا کہ مولانا مرحوم قرآن کریم، احادیث نبویؐ اور اسلامی فقہ سے گہری واقفیت رکھتے تھے۔ ان کو عربی زبان وادب کی تفہیم وتدریس کا ملکہ حاصل تھا۔ وہ جغرافیہ اور فلکیات کے بڑے عالم تھے۔اجلاس کی ابتدا میں مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی اولڈ ایج ہوم وظفریاب جیلانی نرسنگ کالج کے سنگ ہائے بنیاد مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اپنے دست مبارک سے رکھے۔اجلاس میںانجمن کے رکن سیدبلال نورانی اورسابق پرنسپل ممتاز کالج ڈاکٹراے۔رحیم نے مولانا رابع اولڈ ایج ہوم کے لیے بالترتیب دولاکھ اورایک لاکھ روپئے دینے کا اعلان کیا۔اس موقع پر سید اطہر نبی ایڈوکیٹ نے کہا کہ مولانا محمد رابع حسنی ندوی کی شخصیت انتہائی نرم دل، خاموش مزاج اور ادب شناس تھی۔ وہ علم وعمل کے پیکر، اخلاص وللہیت کے خوگر، مسلم پرسنل لا بورڈ کے سالار، اسلاف کی یادگار، ملت کے رمز شناس تھے۔ ان سے منسوب’’اولڈ ایج ہوم‘‘ کے قیام کامقصد ان کی خدمات کا یک گونہ اعتراف ہے۔اجلاس میں پروفیسر سید وسیم اختر چانسلر انٹگرل یونیو رسٹی اور پروفیسر عباس علی مہدی وائس چانسلر ایرا یونی ورسٹی نے بھی مولانا مرحوم کو خراج عقیدت پیش کیا۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here