زیارتِ حرمین شریفین (تیسری قسط)

0
700

تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں

https://chat.whatsapp.com/9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B

https://www.facebook.com/urduavadhnama?mibextid=ZbWKwL


اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

[email protected] 

9807694588(موسی رضا)


صفا مروہ کی باتیں اور غار ثور کا تذکرہ

مضمون نگار: سہیل انجم

عمرہ کا طواف مکمل کرنے اور دو رکعت نماز ادا کی ادائیگی کے بعد زمزم سے سیرابی حاصل کی گئی۔ حرمین میں زمزم دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک بالکل ٹھنڈا اور دوسرا نارمل۔ نارمل والے کین پر انگریزی میں ناٹ کولڈ (Not Cold) لکھا ہوا ہوتا ہے۔ اگر آپ کو ٹھنڈا پانی پینے کی عادت نہیں تو آپ کو وہی زمزم پینا چاہیے ورنہ اگر آپ نے غلطی سے بھی ٹھنڈا زمزم پی لیا تو نزلہ زکام اس طرح آپ کو جکڑ لے گا کہ وطن واپسی کے بعد بھی جلد رہائی نہیں ملے گی۔ جو لوگ اس سے واقف ہیں وہ ناٹ کولڈ والا زمزم پیتے ہیں۔ ہم نے سختی سے اپنے لوگوں کو ٹھنڈا پانی پینے سے منع کر رکھا تھا۔ پھر بھی بیشتر لوگ بیمار پڑ گئے۔ جو وہاں بچ گئے وہ یہاں آکر صاحب فراش ہو گئے۔ پھر سعی کرنے کے لیے ہم لوگ صفا و مروہ پہاڑیوں کی جانب بڑھے۔سعی صفا پہاڑی سے شروع کی جاتی ہے۔ وہاں کعبہ کی طرف رخ کرکے دعا پڑھی جاتی ہے اور پھر مروہ کی طرف کوچ کیا جاتا ہے۔ مردوں کو درمیان میں تھوڑا تیز قدموں سے یا دوڑنا ہوتا ہے۔ عورتوں کو دوڑنے کی اجازت نہیں۔ دوڑنے والے مقام پر انتظامیہ کی جانب سے گرین لائٹس لگا دی گئی ہیں۔ مروہ پر پہنچنے کے بعد وہاں بھی دعا پڑھی جاتی ہے۔ ویسے آپ سعی کے دوران مسلسل دعائیں پڑھ سکتے ہیں۔ ساتواں چکر مروہ پر جا کر ختم ہوتا ہے۔ ایک چکر میں کم از کم دس منٹ لگتے ہیں۔ اس طرح سعی میں ہر حال میں ایک گھنٹہ لگنا ہے۔ چونکہ وہاں کافی تعمیرات و توسیعات ہوئی ہیں اس لیے صفا پہاڑی چھوٹی ہو کر رہ گئی ہے۔ اس کے چاروں طرف شیشے کی دیوار کھڑی کر کے اسے محفوظ کر دیا گیا ہے۔ البتہ مروہ پہاڑی بالکل فرش کے برابر ہو گئی ہے۔ اس کو بھی گھیر دیا گیا ہے۔ دونوں پہاڑیوں پر پینٹ کر دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

زیارتِ حرمین شریفین(قسط دوم)

اس راہداری میں بھی چوبیس گھنٹے فل اے سی چلتا رہتا ہے جس کی وجہ سے کافی ٹھنڈ رہتی ہے۔ سعی کرنے کے لیے دو منزلیں اور بنا دی گئی ہیں۔ لیکن بیشتر لوگ طواف کرکے نکلتے ہیں اور گراؤنڈ فلور پر سعی کرنے لگتے ہیں۔ گراؤنڈ فلور پر درمیان میں وھیل چیئر کے لیے جگہ مخصوص کر دی گئی ہے۔ پھر بھی کچھ لوگ پیدل والی راہداری پر وھیل چیئر لے کر آتے ہیں جس سے لوگوں کو پریشانی ہوتی ہے۔ اوپری منزلوں پر وھیل چیئر کے علاوہ الیکٹرک گاڑی بھی ملتی ہے۔ دو سیٹ والی اس گاڑی کا کرایہ ڈھائی سو ریال ہے۔ کچھ لوگ اس کا بھی استعمال کرتے ہیں۔ وھیل چیئر یا تو ساتھ میں جانے والا کوئی دھکیلتا ہوا لے جاتا ہے یا پھر آپ وہاں کے کارکنوں سے بھی بعوض معاوضہ یہ کام لے سکتے ہیں۔ پہلی منزل پر سعی کرتے وقت ہم نے دیکھا کہ حرم کے تین کارکن ایک ساتھ ایک ایک وھیل چیئر دھکیل رہے ہیں جن پر خواتین بیٹھی ہوئی ہیں۔ دو خواتین کچھ معمر تھیں جبکہ ایک نسبتاً کم عمر تھی۔ درمیان میں ایک عرب دعائیں پڑھتا ہوا چل رہا تھا۔ معمر خواتین تو خاموشی سے بیٹھی تھیں ممکن ہے کہ دل ہی دل میں دعاؤں پر آمین کہہ رہی ہوں۔ لیکن تیسری خاتون موبائیل سے لطف اندوز ہو رہی تھیں۔

یہاں یہ بتاتے چلیں کہ مطاف اور سعی کی راہداری میں بیچ بیچ میں صفائی کا کام بھی چلتا رہتا ہے۔ کبھی چند افراد صفائی کرتے ہیں اور کبھی بہت بڑا گروپ آتا ہے جس میں پانچ چھ افراد گاڑیاں چلاتے ہوئے آتے ہیں۔ باقی پانی ڈالتے اور وائپر سے صفائی کرتے ہیں۔ وہ اتنی تیزی سے کام کرتے ہیں کہ جدھر سے گزرتے ہیں ایک طوفان سا اٹھ جاتا ہے۔ چند منٹوں کے بعد طوفان ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔ پہلی منزل پر ایک بار ہم نے دیکھا کہ صفائی کے بعد جب گاڑیاں آگے نکل گئیں تو کہیں کہیں ذرا ذرا سا پانی بچا ہوا تھا۔ حالانکہ ان کی گاڑیوں میں فٹ برش والا پونچھا فرش کو پوری طرح خشک کر دیتا ہے پھر بھی کہیں کہیں کچھ رہ جاتا ہے۔ ایک زائر وہیں درمیان میں لگی سبیل پر پانی پینے گئے اور پھسل کر اتنی بری طرح گرے کہ اٹھنا مشکل ہو گیا۔ جب دو ایک صفائی ملازمین نے پکڑ کر انھیں اٹھایا تب وہ بڑی مشکل سے اٹھ سکے۔ لہٰذا زائرین کو چاہیے کہ وہ صفائی کے وقت ذرا ہوشیار رہیں۔

ہم لوگوں نے تین عمرے کیے۔ دو میں گراؤنڈ فلور سے سعی کی اور تیسرے میں پہلی منزل سے۔ پہلی اور دوسری منزل پر ٹھنڈ کی وجہ سے پیر کے تلوے سرخ ہو جاتے ہیں۔ ٹھنڈ سے بچاؤ کے لیے بہت سی خواتین جرابیں اورجوتیاں پہنتی ہیں جبکہ بہت سے مرد حضرات نئی چپلیں استعمال کرتے ہیں۔ زائرین کو چاہیے کہ وہ بطور احتیاط نئی چپل ضرور لے لیں اور اسے اپنے پٹھو بیگ میں ڈالے رہیں تاکہ بوقت ضرورت کام آئے اور فرش کی سردی دماغ پر نہ چڑھنے پائے۔ پہلی اور دوسری منزل پر کم رش ہوتا ہے۔ مروہ پر جب سات چکر مکمل ہو جاتے ہیں تو اسی طرف سے باہر نکلنے کا راستہ ہے۔ باہر مرد و خواتین کے لیے حمام بنے ہوئے ہیں۔ جبکہ بہت بڑا میدان بھی ہے جسے صحن کہہ سکتے ہیں۔ وہ باب السلام کی سمت ہے۔ جو حجاج عزیزیہ میں قیام کرتے ہیں ان کی بس اسی طرف آتی ہے اور وہ وہیں سے حرم میں داخل ہوتے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہاں جو بیت الخلا بنا ہوا ہے وہیں ابو جہل کا گھر تھا۔ اس لیے بہت سے لوگ اسے ابو جہل بیت الخلا بھی کہتے ہیں۔ اس سے تھوڑی دور اللہ کے رسول ﷺ کی جائے پیدائش بتائی جاتی ہے۔

پہلے جب اتنی توسیع نہیں ہوئی تھی تو مروہ سے نکلتے ہی مارکیٹ ہوا کرتا تھا جہاں حجاموں کی دکانیں قطار اندر قطار بنی ہوئی تھیں۔ ہم نے 2006 میں حج کے موقع پر وہاں دکانیں دیکھی تھیں۔ لیکن اب اس مارکیٹ کا نام و نشان نہیں ہے۔ وہاں سے نکل کر دائیں جانب بڑھنے اور صحن کو پار کرنے کے بعد مطاف میں جانے کے لیے اسکیلیٹر اور سیڑھیاں ہیں۔ وہیں برابر میں دو بڑی بڑی لفٹ بھی لگی ہوئی ہیں جو اوپری منزلوں پر لے جاتی ہیں۔ نیچے مطاف کی طرف جانے والے کچھ لوگ وہیں سے اندر چلے جاتے ہیں۔ حالانکہ وہاں سے جانے میں یہ قباحت ہے کہ آپ کو سعی کی راہداری کو پار کرنا پڑتا ہے۔ اس گیٹ کے بعد باب نبیؐ اور پھر باب اسماعیل ہے۔ باب اسماعیل سے جانا بہتر ہوتا ہے۔کیونکہ ادھر سے جانے میں صفا مروہ کی راہداری کو کراس نہیں کرنا پڑتا۔ دوسری اچھی بات یہ ہے کہ تھوڑا آگے بڑھتے ہی زینہ ملتا ہے جو زائرین کو مطاف میں اس جگہ پہنچا دیتا ہے جہاں سے استلام کرکے طواف شروع کیا جاتا ہے۔ پہلے باب اسماعیل کے پاس سے ہی داخلہ مل جاتا تھا لیکن کرونا کی وبا کے بعد بہت سی تبدیلیاں کر دی گئی ہیں۔ اب باب اسماعیل سے داخل ہونے کے لیے سامنے لگنے والی لائن سے جانا پڑتا ہے۔ اس سے تھوڑا آگے چلیں گے تو باب عبدالعزیز ہے۔

بہرحال اگر آپ کو سعی کے بعد حلق یا قصر کرانا ہے تو آپ باب اسماعیل سے ذرا سا آگے بڑھیے وہیں بائیں جانب مکہ ٹاور ہے۔ اس کے کئی بلاک ہیں۔ اوپری منزلوں پر مارکیٹ ہے جہاں بہت سے ہوٹل ہیں۔ اس عمارت کے بیسمنٹ میں بھی مارکیٹ ہے جہاں حجامو ں کی متعدد دکانیں ہیں۔ ٹاور کے سامنے حجاموں کے ایجنٹ گھومتے رہتے ہیں۔ وہ احرام پوش افراد کو دیکھتے ہی حلق اور قصر کے بارے میں پوچھتے ہیں اور ہاں کہنے پر نیچے دکانوں تک چھوڑ آتے ہیں۔ عام طور پر ایک حلق کرانے کے دس ریال لیتے ہیں۔ کچھ لوگ بارگیننگ کرکے اس سے کم میں بھی کرا لیتے ہیں۔البتہ جب دوبارہ حلق کرانے جائیں اور جب وہ گھٹا ہوا سر دیکھتے ہیں تو پانچ ریال میں ہی حلق کر دیتے ہیں۔ بہرحال ہم لوگوں نے پہلا طواف اور سعی مکمل کر لیا۔ خواتین نے وہیں باہر نکل کر حمام کے پاس بقدر ضرورت اپنے بال کاٹے اور پھر ہم تمام لوگ مکہ ٹاور کی طرف چل پڑے۔ چونکہ ہم لوگ کافی تھک گئے تھے اس لیے حلق کرانے کے بعد وہیں نیچے مارکیٹ سے چائے لے کر پی جس سے جسم میں حرارت پیدا ہوئی اور اس طرح ہم لوگ پہلے عمرے کی ادائیگی کرکے رات میں ڈھائی بجے اپنے ہوٹل پہنچے۔

وہاں رات اور دن میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا۔ ایسا لگتا ہے کہ سورج غروب ہی نہیں ہوتا۔ حرم میں ہر جگہ اتنی زیادہ روشنی ہوتی ہے کہ دن کا گمان ہوتا ہے۔ کسی بھی وقت حرم کے آس پاس کی کوئی سڑک یا کوئی راستہ خالی نہیں ملتا۔ اطراف کے سارے راستے زائرین سے کھچا کھچ بھرے ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ آرہے ہیں تو کچھ جا رہے ہیں۔ ہم لوگ باب ملک فہد کی جانب شارع ابراہیم خلیل یا کبوتر چوک کی جانب ٹھہرے ہوئے تھے۔ وہاں مستقل دکانوں کے علاوہ فٹ پاتھوں پر عارضی دکانداروں کی بھی بھیڑ رہتی ہے۔ کوئی جبہ فروخت کر رہا ہے تو کوئی پرس، کوئی گھڑی تو کوئی برقع اور کوئی سم کارڈ۔ اگلے روز ہماری دونوں بیٹیوں نے دیکھا کہ کچھ دکانوں پر ’’تین ریال تین ریال، ہر مال تین ریال‘‘ کا ریکارڈ بج رہا ہے۔ انھوں نے ایسی کئی دکانوں کا جائزہ لینے کے بعد ایک دکان سے کچھ اشیا خریدیں۔ دکاندار نے گفتگو کے بعد دو دو ریال کے حساب سے پیسے لیے۔ اس کو معلوم ہوا کہ انڈیا سے آئے ہیں اور دونوں بہنیں ہیں تو جانے کیوں بہت خوش ہوا اور دونوں کو دو دو ریال تحفتہً دیے۔ لیکن اس کے اگلے روز جب ایک گلی سے گزرے تو دیکھا کہ کئی دکانوں پر’’ہر مال دو ریال‘‘ کے ریکارڈ بج رہے ہیں۔ یعنی شاہراہ پر ہر مال تین ریال اور گلی میں ہر مال دو ریال۔ وہاں سے بھی کچھ چیزیں خریدی گئیں۔ ان دکانوں پر سستے میں اچھے تحائف مل جاتے ہیں۔

تیسرے روز یعنی تین مئی کو مکہ مکرمہ کے اہم مقامات کی زیارت کرائی گئی۔ مکہ اور مدینہ میں زیارت پیکج میں شامل ہوتی ہے۔ دونوں شہروں میں کچھ مخصوص مقامات ہیں جہاں بسیں لے جائی جاتی ہیں۔ لیکن بہت سی جگہیں چھوٹ جاتی ہیں۔ اس لیے اگر آپ کا کوئی عزیز یا دوست وہاں رہائش پذیر ہو تو آپ اس کے ساتھ بچے ہوئے اہم مقامات کی زیارت کر سکتے ہیں۔ مکہ میں زائرین کی بس سب سے پہلے غار ثور کے دامن میں جاتی ہے۔ یہ پہاڑی مکہ کے دائیں جانب تین میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے مدینہ ہجرت کرتے وقت یہاں تین روز قیام کیا تھا۔ آپ کے ساتھ حضرت ابو بکر صدیق بھی تھے۔ اسی لیے انھیں یار غار اور ثانی اثنین یعنی دو میں دوسرا بھی کہا جاتا ہے۔ اس غار کا دہانہ بہت تنگ ہے۔ دیکھنے والے بتاتے ہیں کہ اس میں لیٹ کر ہی جایا جا سکتا ہے۔ یہاں آپ کے قیام کے وقت محیر العقول واقعات رونما ہوئے تھے۔ غار کا دہانہ کئی ہزار فٹ کی بلندی پر ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓکی کم عمر صاحبزادی کیسے وہاں کھانا لے کر جاتی تھیں۔ گائڈ کے مطابق اب حکومت کی جانب سے وہاں نیچے سے اوپر تک ٹرالی چلانے کے منصوبے پر کام ہو رہا ہے۔ اس کی تکمیل کے بعد زائرین ٹرالی میں بیٹھ کر غار کے دہانے تک جا سکیں گے۔ زیارت کرانے والی ہر بس میں ایک گائڈ بھی ہوتا ہے جو ٹریول کمپنی کی طرف سے مقرر ہوتا ہے۔ گائڈ عام طور پر مولوی ہوتے ہیں۔

غار ثور کے بعد میدان عرفات لے جاتے ہیں۔ وہیں جبل رحمت بھی واقع ہے جس پر کھڑے ہو کر اللہ کے رسول ﷺ نے خطبۂ حجۃ الوداع دیا تھا۔ اس پر پتھر کی ایک سل جس پر سفید پینٹ کیا ہوا ہے، نصب کر دی گئی ہے۔ بہت سے لوگ وہاں تک جاتے ہیں اور دعائیں مانگتے ہیں۔ عرفات کے میدان میں بس کئی چکر لگاتی ہے۔ وہیں مسجد نمرہ بھی ہے جس میں یوم عرفہ پر حج کا خطبہ دیا جاتا ہے اور ظہر اور عصر کی نمازیں بیک وقت ادا کی جاتی ہیں۔ وہ مسجد سال میں بس اسی ایک ہی دن کے لیے کھلتی ہے۔ اس دن وہاں ایسا رش ہوتا ہے کہ کہیں تل دھرنے کو بھی جگہ نہیں ملتی۔ اس مسجد کا ایک حصہ حدود عرفات سے باہر ہے۔ عرفہ کے روز جو لوگ اس سے ناواقف ہوتے ہیں وہ خالی جگہ دیکھ کر وہاں نماز ادا کر لیتے ہیں۔ حالانکہ اگر وہاں نماز ادا کی گئی تو وہ نماز ادا نہیں ہوتی۔ اسے دوہرانا پڑتا ہے۔ جب ہماری بس وہاں پہنچی تو گائڈ کے اعلان پر با وضو حضرات نے دو رکعت نفل ادا کی۔ اس وقت وہاں پانی کا انتظام نہیں تھا۔ (جاری)

 9818195929

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here