ڈھائی دن کی حکومت

0
442

تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں

https://chat.whatsapp.com/9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B

https://www.facebook.com/urduavadhnama?mibextid=ZbWKwL


اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

[email protected] 

9807694588(موسی رضا)


افسانہ نگار:  عبدالمنان صمدی

ایسا نہیں تھا کہ پہلی بار گھر کا سارا کام دلجمعی یا خوشی کے ساتھ کر رہی تھی اور ایسا بھی نہیں تھا کہ پہلی بار اتنی صبح جاگی تھی اور نہ ہی سورج تاخیر سے نکلا اور نہ ہی چاند جلدی غروب ہوا تھا۔ سب کچھ ویسا ہی ہوا تھا جیسا پچھلے کئ برسوں سے ہوتا آرہا تھا۔

پھر اس کے چہرے پر یہ انوکھی خوشی کیسی تھی۔ ایسا کیوں لگ رہا تھا کہ وہ کسی قفس میں نہیں اپنے گھر میں بلکہ اپنے ذاتی گھر میں اور وہ آج اپنے ذاتی گھر میں کام کر رہی ہے۔ آج اس کو گھر کی ہر شے اپنی ذاتی شے معلوم ہورہی تھی۔۔

وہ فراز کو ذرا ذرا سی بات طوالت کے ساتھ ایسے بتا رہی تھی کہ گویا وہ کئ برس بعد سفر سے لوٹا ہو جبکہ وہ جو کچھ بھی گھر میں کر رہی تھی وہ سب اس کی نگاہوں کے سامنے تھا۔۔

اس کی بار بار باتیں بتانے کے طریقہ سے وہ اوب گیا تھا اس لیے اس نے ایک بار اس کو بری طرح جھڑک بھی دیا لیکن وہ چند ساعت میں نار مل ہوگئ جبکہ اس کو گھر سب سے زیادہ ناپسندیدہ فعل فراز کا ڈانٹا لگتا ہے۔ وہ اکثر کہا کرتی ہے کہ مجھے وہ لمحہ بہت برا لگتا ہے جب تمہارے اندر ساس نند یا گھر کی بوڑھی خواتین حلول کر جاتی ہیں۔ کیونکہ اس وقت تمہارا رویہ مردانہ نہیں زنانہ ہوتا ہے۔

فراز نے ایک بار اس سے اپنے رویہ کی دلیل مانگی جس کو وہ مردانہ نہیں زنانہ بتاتی ہے۔ اس نے جواباً کہا کہ مرد کی فطرت بات کو نظرانداز کرنا ہوتا اور عورت کی فطرت میں پرانی باتوں کو کریدنا اور ان کو مدعا بناکر طعنہ کشی کرنا ۔ یہی خواتین والی عادت تم میں ہے۔

یعنی تمہارا مطلب ہے کہ میں مرد نہیں۔۔
نہیں نہیں ایسا کیسے سوچ سکتی ہوں مجھے کیا دنیا میں تمہاری مردانگی پر کسی کو شک نہیں۔ دلیل یہ اس نے پاس میں پالنے میں لیٹی اپنی بچی کی طرف انگی سے اشارہ کیا۔۔

یہ بھی پڑھیں

اردو نا ول کے آغا ز میں دبستان عظیم آبا د کا حصہ ایک عظیم تحقیقی کارمامہ

پھر تم کیوں کہا کہ میرے اندر بعض وفعہ خواتین کی روح حلول کر جاتی ہے۔
یہ میں نے تمہارے بختہ حافظہ اور طعنہ کشی کو نظر میں رکھ کر کہا ۔۔

اچھا سوری(sorry) آگے سے نہیں کہوں گی۔ یہ لو اس نے ایک کاغذ کا ٹکڑاس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔۔

ایک کلو گوشت
دس روپے کے تیس پات کے پتے
پانچ کی ہری مربچ
پانچ کا ہرا دینیہ
دس کا ادرک
دس کی بڑی الائچی
ڈھائ سو گرام دہی
ایک کلو پیاز
ایک پیکٹ مکھن کا۔۔

اس کا کیا کرنا ہے
کیا کرنا ہے کیا مطلب
لیکر آنا ہے یہ سب سامان کیا آج کھانا نہیں کھانا۔۔
تو اس پرچہ کی کیا ضرورت ہے ویسے یاد رہے گا۔
رکھ تم بھول جاتے ہو۔
کمال ہے ابھی کچھ دیر پہلے میرے حافظہ پر حیرانگی کا اظہار کر رہی تھیں اور اب شک کر رہی ہو۔۔

یا اللہ کیا کروں اس آدمی کا۔ اس نے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔۔ اور ہریانوی گانا گاتی ہو ئ رسوئ میں چلی گئی۔۔
میرے ہی کرم باوریا لکھا تھا۔۔۔
ادھر وہ روسوئ میں گئ اور ادھر اس نے بازار کا راہ لی۔۔

تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد فراز کی واپسی ہوئ۔
ارے آگیے آپ
ہمممم
لیائے سب سامان۔
خود ہی دیکھ لو۔
اس نے فراز کے ہاتھ سے تھیلا لیکر سامان دیکھنے لگی۔
فراز کو اس کی حرکت اماں جیسی لگی جب ابا مہینے بھر کا سامان لاتے ہیں تو اما ں بھی ایک ایک سامان کو ایسے ہی چیک کرتی ہیں جیسے کہ آج وہ کر رہی تھی۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اما ں کے چہرے  پر کوئی خوشی یا تجسس کے اثرات نمایاں نہیں ہوتے جبکہ اس کے چہرے پر دونوں آثرات بیک وقت نمایاں ہورہے تھے۔ اور ہوتے بھی کیوں نہیں نئ نئ حکومت ہاتھ لگی تھی۔ جس کی وہ تنہا ملکہ تھی۔ آج سب کچھ وہی تھی۔ وہی قائد وہی قانون وہی قانون ساز اور اس کو پورا یقین تھا کہ کوئی اس کے بنائے گیے قوانین کی خلاف ورزی کرنے کی جسارت نہیں کرے گا۔۔
جبکہ اس کی حکومت میں صرف فراز اور اس کی معصوم بچی تھی۔ شوہر کو شکست دینا آج کیا کسی دور میں عورت کے لیے بڑا مسئلہ نہیں رہا ۔ صرف فرق اتنا آیا ہے کہ آج کے دور میں مرد ہتھیار جلدی ڈال دیتا ہے عورت کے سامنے جبکہ پہلے کہ معرکہ طے ہونے میں وقت لگتا تھا لیکن مرد زیر ضرور ہوتا تھا۔۔

ارے یہ کیا کیا تم نے اچھا سامان لے کر آئے ہو۔ پہلے ہی کہا تھا پرچی لے جاؤ لیکن بات مانتے کب ہو۔

کیا ہوا کون سا سامان رہ گیا۔۔
دہی کہاں ہے
الائچی ہری والی منگوائی تھی۔ کالی والی تو بہت رکھی ہیں گھر میں۔
ہری مرچ کا پتہ نہیں
مکھن بھی غائب ہے
چلو مکھن تو سامنے والی دکان سے لے لیا جائے گا
لیکن بقیہ چیز تو لانی ہی ہوگی۔۔

ایسا ہے جو کچھ کرنا ہے اسی میں کرلو۔ میں اب کہیں نہیں جانے والا۔ تم نے تو ایک ہی دن میں نوکر بنا کر رکھ دیا۔۔
پلیز ایک بار اور چلے جائیں۔۔ پلیز
نہیں نہیں ہرگز نہیں

اس نے جب دیکھا کہ وہ کسی صورت جانے کو راضی نہیں تو اس نے قریب آکر اپنی باہیں کے کاندھوں پر حائل کردیں اور بڑی معصومیت اور شرارتی انداز میں اس سے کہا پلیز ایک بار چلے جائیں۔۔

اور یہ عورت کا وہ داؤ تھا جس آگے ماضی میں بڑے بڑے بادشاہوں نے ہتھیار ڈالیے تھے تو اس کی اوقات ہی کیا تھی۔۔
وہ راضى ہوگیا لیکن اپنی شکست کو چھپانے کے لیے وہ بدبدا تا ہوا غصے بھرے لہجے کے ساتھ گھر سے نکلا۔ لیکن حقیقت یہی تھی کہ وہ اس کے آگے زیر ہو چکا تھا۔۔

وہ دوبارہ سامان کے ساتھ گھر میں داخل ہوا۔
آگیے آپ۔
سب سامان لیائے کچھ رہا تو نہیں
رہ بھی گیا ہوگا تب بھی اب میں جانے کا نہیں۔۔ باہر کتنی گرمی ہے تمہیں کچھ اندازہ بھی ہے۔۔
ارے پہلے کیوں نہیں بتایا۔ چھوڑ یں سب پہلے آپ ٹھنڈا پانی پی جیے۔۔
اس نے کہی سن رکھا تھا کہ غصہ والے شخص کو اگر پانی پلا دیا جائے تو اس کا غصہ ٹھنڈا پڑھ جاتا ہے۔

فراز پانی پینے کے بعد اس کو چائے کا odar دے کر اپنے کمرے میں پڑھنے چلا گیا۔۔ ان دنوں وہ۔۔ شاہد اختر۔ کا تازہ ناول ۔۔ شہر ذات۔۔ کے مطالعہ میں مصروف ہے۔۔

چند ساعت کے بعد وہ چائے لیکر کمرے داخل ہوئ۔ اور فراز کے سامنے والی سوفے کی کرسی پر بیٹھ گئ اور بولنا شروع کردیا۔۔ دنیا جہان کی باتیں قصے سناتا نے لگی۔

وہ چائے پینے کے ساتھ ساتھ اس کے چہرے پر خوشی کے اثرات اور کچھ دن کی ملنے والی آزادی کی خوشی اس کے لیے کسی جنت سے کم نہیں تھی۔

اب وہ اس کی نفسیات کا مطالعہ کرنے لگا اس کو آج احساس ہوا آزادی کتنی بڑی نعمت ہے اور اظہار خیال کے آگے دنیا پھر کے لوازمات ہیچ ہیں۔
قفس میں ملنے والے قورمہ نان سے بہتر آزادی میں ملنے والی دال روٹی بھلی ہوتی ہے۔۔

تم آج اس لیے خوش ہونا کہ گھر میں میرے اور تمہارے علاوہ کوئی نہیں
ایسا نہیں ہے کیوں ہماری گڑیا نہیں ہے کیا۔ وہ اس طرف سوچنا ہی نہیں چاہتی جس طرف وہ اس کو لے جانا چاہتا تھا۔۔

تم جانتی ہو میں بیٹی کی بات نہیں کر رہا کس کی کر رہا ہوں تم بخوبی جانتی ہو۔۔
مجھے بہت کام ہے ابھی یہ کہ کر اور اس کے سوال کو نظرانداز کرکے وہ باہر چلی گئ

لیکن وہ اس کی خوشی کی وجہ بخوبی جانتا تھا۔۔
دراصل فراز کے قریبی رشتے داروں میں کسی عزیز کی طبیعت بہت خراب تھی ڈاکڑوں نے جواب دے دیا تھا
وہ icu میں بھرتی تھے۔ اس لیے فراز کے والدین ایک دو روز کے لیے شہر سے باہر گیے ہوئے تھے۔

گیے تو وہ صبح سے شام تک کے لیے ہی تھے لیکن حالت زیادہ نازک تھی اس لیے اگلے دن کے لیے رک گیے۔
یہی سبب تھا اس کی زوجہ کی خوشی کا نعوذ باللہ وہ یہ ہرگز نہیں چار ہی تھی کہ فراز کے عزیز کو کچھ ہوجائے بلکہ وہ تو ان کے لیے ہر نماز میں خصوصی دعا کر رہی تھی۔۔

اصل میں فراز شادی سے اب تک والدین کے ساتھ رہتا ہے۔ اس کی بیوی کو اس کے والدین سے کوئی پرابلم نہیں ہے۔ بس جب کبھی اس کی ساس یعنی فراز کی ماں۔ ماں نہ بن کر ساس بن جاتی ہیں تو اس کو بہت تکلیف سے گزرنا ہوتا ہے۔۔ ایسا نہیں کہ فراز کی ماں ہی ہر بار ۔ ماں ساس بنتی بلکہ جب اس کی بیوی کو موقع ملتا ہے تو وہ بیٹی سے بہو بننے میں دیر نہیں لگاتی۔۔

لیکن مزے کے بات یہ ہیکہ دونوں کے جھگڑے میں گنہگار یا قصور وار صرف اور صرف فراز ہی ہوتا ہے۔

سامیہ دو روز اتنی خوش و خرم رہی جیسے کسی نے اس کے پر لگا دئیے ہوں۔ تیسری دن جب وہ سوکے اٹھا تو اس کی بیوی نے اس کے والدین کی واپسی کی خبر دی۔ اور بتایا کہ وہ راستے میں ہے۔۔ اس نے سامیہ کی بات سے زیادہ اس کے ماتھے پر پڑھنے والی شکن پر غور کیا۔ اسے احساس ہوگیا کہ اس کو اس کے والدین کی واپسی کا شکوہ نہیں لیکن اپنی آزادی کی مدت کے اختتام کا افسوس ضرورت تھا۔۔
وہ خیالی محل جس کی تعمیر اس نے ڈھائ دن کی حکومت کی میں کی تھی۔ وہ چند گھنٹوں بعد ڈھا دیا جائے گا۔۔

اس کا کچھ افسوس فراز کو بھی تھا اس کی وجہ یہ ہرگز نہیں کہ فراز تنہائی پسند تھا بلکہ اس کی وجہ سامیہ کی وہ انوکھی خوشی تھی جو اس نے ان دو ڈھائ دنوں میں اس کے چہرے پر دیکھی تھی۔۔

طیب کالونی علی گڑھ

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here