داغ

0
308

[email protected]

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

رمانہ تبسم،
رابطہ۔9973889970
’ طلاق۔۔۔۔۔! طلاق۔۔۔۔۔! ! طلاق۔۔۔۔۔!!!‘‘
 تین لفظوں کا تیر آکرسیدھاعارفہ کے دل میں پیوست ہو گیا۔ اس کے پیروں کے نیچے سے زمین کھسک گئی اورآنکھوں کے سامنے آندھیرا سا چھا نے لگا۔دونوں ہاتھوں سے سر تھام کر اضطراب کی حالت میں پلٹ کر دیکھا تو تجمل پیشانی پر ہزار سلوٹیں ڈالے قہر آلود نگاہوں سے عارفہ کی طرف دیکھ رہاتھا۔اس کا یہ رو پ آج وہ پہلی بار دیکھ رہی تھی۔اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں ہو رہا تھاکہ یہ تجمل ہے۔ہاں اس کے تجمل ۔۔۔۔۔ جو  اس پر پروانہ وار فدا تھا۔اتنا فدا کہ اس نے اپنی دیوانگی کا اظہار پھولوں کی نمائش میں ایک نظر دیکھ کر اسے اپنی شریک حیات بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
  پھولوں کی نما ئش میں وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ خوش گپوںمیں منہک تھی اور گروپ سیلفی لے رہی تھی کہ پھولوں کی کیاری سے اس کا دوپٹہ الجھ گیا اور وہ اس سے ٹکڑا گئی اور گرتے گرتے بچی۔ اس نے اسے اپنی بانہوں کے حصار میں لے لیااور زیر لب کہا ۔
     ’’ذرا سنبھل کر میڈم ۔۔۔۔ سیلفی لیجئے آرام سے ۔۔۔۔۔ سیلفی لینے کے چکر میں کہیں یہ خار آپ کو زخمی نہ کر دے ۔ ‘‘
 اس کے نظروں کی تپش سے بڑی مشکل سے خود کو سنبھالااوراس کی جانب دیکھتے ہوئے بولی۔
’’گلوں سے خار بہترہیںجو دامن تھام لیتے ہیں۔‘‘
 ا س کی بات سن کر وہ بھی کہا ں خاموش رہنے والا تھا۔اس کے قریب آکر اپنی نشیلی آنکھیں اس کی آنکھوں میں ڈالتے ہوئے ہم کلام ہو کر آہستہ سے زیر لب کہا۔
 ’’میڈم ! خار ہمیشہ زخم دیتے ہیں ۔ ۔۔اور۔۔۔۔۔ایک نشان چھوڑ جاتے ہیں لیکن میں وہ خار نہیںجو الجھوں کسی خوبصورت دامن سے ۔۔۔۔۔میری بات مانئے گلوں سے  الجھیں گی تو شاداب ہو جائیں گی۔‘‘
لیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا، اور دوبارہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ سیلفی لینے میں منہک ہو گئی۔ لیکن اس کی ایک نظر نے اس کے دل پر اتناگہرا اثر چھوڑا تھاکہ اس کی سرگوشیاں اس کے کانوں میں گونجتی رہتی۔ اس کی متلاشی نظریں ہر جگہ اسے تلاش کرتی۔ہر انسان میںاس کا عکس نظر آتا۔ بیقرار ہو کر اس کے قریب جاتی ہاتھ بڑھا کر اسے چھونا چاہتی لیکن وہ چہرہ فوراََ اپنی شکل بدل لیتا ۔۔۔ ۔ اور ۔۔۔ ۔ اس کے قدم رک جاتے۔ ۔ وہ ادا س ہو جاتی۔
   ایک دن جب وہ گھر لوٹی توڈرائنگ روم میں کریمن بواکی آواز سن کر اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا،کیونکہ کریمن بوا جب بھی اس کے گھر آ تی ۔اس کے رشتے کے لئے بہت سارے لڑکوں کی تصویریںلے کر آتی ۔کئی بار وہ انہیں منع کر چکی تھی کہ کریمن بواآپ میرے رشتے کے لئے اس طرح لڑکوں کی تصویریںلے کر نہ آیا کریں،کیونکہ ابھی مجھے اپناکیرئیر بنانا ہے۔ اس کی بات سن کر وہ غصہ سے ڈانٹتے ہوئے کہتی ۔
     ’’پتہ نہیں آج کل کی لڑکیوںکوشادی سے زیادہ اپنے کیرئیر کی فکر کیوںہے؟ہمارے زمانے میں لڑکیاں  اپنے کیرئیر سے زیاد ہ اپنی گرہستی کی فکر کرتی تھیں۔‘‘
    ’’کریمن بوا آج زمانہ بدل چکاہے۔ ‘‘
    ’’زمانہ نہیں بدلا بیٹی یہ سورج،چاند کچھ بھی تو نہیں بدلا۔۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔۔بدل رہی ہے ، تو ہماری نئی نسل کی سوچ ۔‘‘
کریمن بواکی نصیحت آمیز باتیں سن کر وہ خاموش ہو جاتی اور آج پھر کریمن بوا کو ڈرائنگ روم میں دیکھ کر اس کے قدم تیزی سے آگے بڑھ گئے۔تبھی شاہینہ بیگم کی آواز پر اس کے قدم رک گئے اور وہ ڈرائنگ روم میں ان کے پاس آکر بیٹھ گئی۔
   ’’عارفہ بیٹی کریمن بوا تمہارے لئے بہت اچھا رشتہ لے کر آئی ہیں۔ لڑکے کا تعلق بہت اچھے خاندان سے ہے ، ان کا بہت بڑا کاروبارہے۔
’’لیکن امی ۔۔۔۔۔!‘‘عارفہ نے آہستہ سے کہا۔
 ’’عارفہ بیٹی یہ ہماری خو ش نصیبی ہے کہ اتنے اعلیٰ خاندان سے رشتہ خود لڑکے والوں کی طرف سے آیا ہے ۔اچھے گھرانے میں رشتہ ہونے پر لوگ فخر کرتے ہیں۔‘‘
 ’’ امی ! ہم لوگ ان لوگوں کے بارے میں کیاجانتے ہیں۔مجھے زیادہ دولت مند گھرانے کے لڑکوں سے ڈر لگتا ہے۔ اونچے گھرانے کے لوگوں کو اپنی دولت کا خمار بہت زیادہ ہوتا ہے۔‘‘
  ’’عارفہ بیٹی کریمن بوا کا ان کے گھر شروع سے آنا جانا ہے۔ مجھے لڑکا بہت پسند ہے۔‘‘ شاہینہ بیگم نے لڑکے کی تصویر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا،لیکن جیسے ہی اس کی نظر تصویر پر پڑی۔اس کے چہرے کا رنگ زرد ہو گیا،کیونکہ اسی جیتی جاگتی تصویر نے پھولوں کی نمائش میں اس کے دن رات کا سکون چھین لیا تھا۔تصویر دیکھ کر مشکل سے خودپر قابو پایا۔
   ’’عارفہ بیٹی۔۔۔۔۔!‘‘
شاہینہ بیگم نے اس کے بالوں میں شانہ کرتے ہوئے کہا۔
’’ تمہارے ابو نوکری سے ریٹائیرہو چکے ہیں۔ تم سے چھوٹی دو بہنیں اور ہیں۔ ان کے بارے میں بھی سوچنا ہے۔ ‘‘ شاہینہ بیگم کے چہرے پر اداسی کے بادل دیکھ کر ماں کی خوشیوں کی خاطراس نے ہاں کر دی۔
   جب وہ  دلہن بن کر اس کے گھر آئی تو تجمل اس پر اس قدر پروانہ وار فدا تھا کہ اس نے اپنے نئے گھر کا نام ’’عارفہ منزل‘‘ رکھ دیا۔عارفہ منزل کو اس نے اس کی پسند سے آراستہ کیا تھا۔ یہاں تک کے اس کے بیڈ روم کی دیواریں بھی اس کا پسند دیدہ رنگ لیمن پیل تھا۔اس نے کھڑکی سے باہر دیکھاتولان میں رنگ برنگے پھولوں کی کیاری کے بیچ دو کرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔ وہ اپنی طائرانہ نظر جس سمت کرتی وہاں اسے اپنے ہی ذوق کی چیزیں نظر آتیں ۔ وہ سوچنے لگی  یہ خواب ہے یاحقیقت۔
  ’’اس باغیچہ میں تمام پھول آپ کی پسندکے لگے ہوئے ہیں۔‘‘
تجمل نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا  تو عارفہ چونک پڑی۔
’’میرے ذوق کو آپ اتنے  قریب سے کیسے جانتے ہیں۔ ‘‘
اس نے معنی خیز نگاہوں سے تجمل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’آپ کی ڈائیری سے۔۔۔۔۔ ‘‘تجمل نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
   ’’میری ڈائری سے ۔۔۔۔۔ ‘‘ اس نے تعجب خیز نظروں سے تجمل کی آنکھوں میں دیکھا، تو اس کے ہونٹوں پر تبسم کی بجلیاںمچل اٹھیں اور اپنی نشیلی آنکھیں اس کی آنکھوں میں ڈالتے ہوئے کہا۔
   ’’اس روز پھولوں کی نمائش میں کیاری کے پاس آپ کی گری ہوئی ڈائری ملی تھی۔ ڈائری میںآپ کی وش لسٹ پڑھنے کے بعد مجھے ایسامحسوس ہواجیسے پھولوں کے شہر پہنچ گئے ہیں۔ بس میںنے اسی وقت فیصلہ کر لیا تھا،کہ تم ہی وہ لڑکی ہو جو میری تخیل میں ۔۔۔۔۔ میری زندگی میں آسکتی ہو۔۔۔۔۔کیونکہ اس روز پھولوں کے بیچ تم بھی بالکل ایک پھول لگ رہی تھی۔میں نے ان تمام پھولوںمیں سے ایک پھول کو چن لیا۔۔۔۔۔ اور کریمن بوا کو تمہارے گھر بھیج دیا،کیونکہ جو چیز مجھے پسند آجاتی ہے۔اسے جلد ازجلدحاصل کرنا میری فطرت میں شامل ہے۔ ‘‘
   ’’اگر میں ۔۔۔۔۔ انکار کر دیتی تو۔ ‘‘
  ’’بالکل نہیں ۔۔۔۔۔کیونکہ جو چیزسچے دل سے مانگی جاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس کی دعاء  قبول فرماتے ہیں ۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔ اب ہم دونوں جاڑے کی دھوپ کا مزہ ان رنگ برنگے پھولوں کی خوشبو کے ساتھ لیں گے ۔‘‘
 تجمل نے اپنی کالی نشیلی آنکھیں اس کی آنکھوں میں ڈالتے ہوئے زیر لب کہا، تو اس نے اپنی گھنیری پلکیں جھکا دیںاور شرماتے ہوئے بولی۔
   ’’اور برسات کے موسم کا مز ہ ۔ ‘‘
’برسات کے موسم کا مزہ ۔۔۔۔۔ ڈارلنگ ۔۔۔۔۔ ان رجنی گندھا کے پھولوں کے بیچ ان جھولوں پر۔‘‘ تجمل نے عارفہ کے شانے پر اپنی ٹھڈی رکھتے ہوئے استعجاب و شرارت سے کہا۔
’آپ کے پاس اتناوقت ہوگا۔ ‘‘عارفہ نے شرماتے ہوئے کہا۔
 ’’کیوںمیری جان !میری بات پر تمہیں شک ہے ۔۔۔۔۔ تو میںحلف لے لوں۔‘‘
  ’مجھے یقین ہے ۔۔۔۔۔ آپ پر خود سے بھی زیادہ !‘‘
 اپنی پنکھری جیسے نازک ہونٹوں سے اس کے ہاتھ کو ثبت کرتے ہوئے کہا تو تجمل نے اسے اپنی مضبوط بانہوںکے حصار میںلے لیا۔زلفوں میں اس کے ہاتھوں کا لمس  ۔۔۔۔۔ اس کے بدن کی خوشبو۔۔۔۔۔ اس کے بانہوں میں سمٹتی چلی گئی۔
  اس طرح تجمل کے پیارمیں وقت کیسے گزر گیااسے پتا بھی نہیں چلا۔تجمل جیسا شریک حیات پاکر وہ اپنی قسمت پر نازاں تھی۔ادھر تجمل بھی عارفہ جیسی شریک حیات پاکر اپنی قسمت پر فخر کرتا اور چوڑیوں سے بھری اس کی مرمری کلائی اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہتا ۔
’’عارفہ آج کل طلباء طالبات اپناکیرئیر میڈیکل یا انجینئرنگ میں بنارہے ہیں۔ تم نے سب سے الگ اپنا کیرئیر کیوں چنا ؟‘‘
 ’’کیونکہ میں سب سے الگ کرنا چاہتی تھی۔۔۔۔۔؟مجھے یہ شوق میرے بچپن کے ایک دوست سے ہوئی۔ وہ ہمیشہ مجھے نئے نئے پھولوں کے پودے لاکر دیتا تھا۔ہم دونوں مل کر اسے پروان چڑھاتے۔بس یہ شوق و ذوق مجھ پر جنوں کی حد تک بڑھ گیا۔جانتے ہیں تجمل۔ ایک بار میں اس سے ناراض ہو گئی تھی تواس نے مجھے منانے کے لئے الگ الگ رنگوں کے گلاب لا کر دیئے۔  جسے دیکھ کر میرا غصہ ایک دم سے ٹھنڈا ہو گیا تھا۔‘‘
’’وہ تمہارا اتنا عزیز دوست تھاکہ شادی کے بعد بھی اسے نہیں بھولی۔‘‘تجمل نے  اس کی طرف دیکھتے ہوئے طنزیہ لہجہ میں کہا۔
  ’’وہ بھولنے کے لائق بھی نہیں،کیونکہ ہم دونوںکوئی بھی کام ایک دوسرے کی رضا مندی سے کیاکرتے تھے، لیکن اب وہ کہاں ہے؟ مجھے خبر نہیں۔ ‘‘
 دیکھئے اس کی تصویر ۔۔۔۔۔ ‘‘  اس نے موبائل تجمل کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
  ’’تم اسے آج بھی اتنا مس کرتی ہوکہ شادی کے بعد بھی اس کی تصویر تمہارے  موبائل میں ہے۔ ‘‘
تجمل نے اس کے ہا تھ سے موبائل لیتے ہوئے کہا، لیکن جیسے ہی اس کی نظر تصور پر پڑی تووہ چونک پڑا ۔۔۔۔۔ ۔یہ وقاص تھا ۔۔۔۔۔ اس کا دوست ۔۔۔۔۔بزنس مینجمنٹ دونوں نے ایک ہی یونیورسیٹی سے مکمل کیا تھا۔تجمل کو اپنا شیرازہ بکھرتا ہوا نظر آنے لگا۔
   ’’جانتے ہیںتجمل میری شادی آپ کے ساتھ اتنی جلدی میں ہوئی،کہ وہ میری شادی میں نہیں آسکا ۔ اس کو فون بھی کرتی ہوں تو وہ نہیںاٹھاتا ہے ۔ شاید اس کا نمبر بدل گیا ہے۔‘‘
  ’’اس کی یاد آج بھی تمہارے دل میںہے۔ ‘‘ تجمل نے بکھرے لہجہ میں کہا۔
  ’’ہاں ۔۔۔۔۔!‘‘
 عارفہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
    ’’ اگر وہ تمہارے سامنے آجا ئے تو۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔ مجھے بھول جائوگی۔ ‘‘
 تجمل نے معنی خیز نگاہوں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
     ’’ہاں ۔۔۔۔۔!‘‘
 اس نے تجمل کو چھیڑتے ہوئے کہااور زوردار قہقہہ لگانے لگی۔۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔ ۔ اس وقت تجمل کے دل پر اس کا ایک ایک لفظ نشتر کی طرح چبھ رہا تھا۔
’’ اچھا تجمل ان سب باتوں کو چھوڑئیے آپ کو یاد ہے۔ کل کون سی تاریخ ہے۔ ‘‘ اس نے بات کا  موضوع بدلتے ہوئے پوچھا۔
    ’’مجھے یاد ہے ۔۔۔۔۔ !‘‘ اور وہ بیخودی کے عالم میںباہر نکل گیا۔
 تجمل کو سرپرائز دینے کے لئے عارفہ نے پورے گھر کو کینڈل سے سجایا۔ اس کے پسند دیدہ رنگ کا لباس زیب تن کر پلٹی تو اس وقت کینڈل کی روشنی میں تجمل کا چہرہ تمتماتاہوا نظر آرہا تھا۔اس کے چہرے کاتنائو وجود میں اٹھنے والے طوفان کی طرف اشارہ کر رہے تھے اوراس کے ساتھ اپنے بچپن کے دوست وقاص کو دیکھ کرچونک پڑی۔تعجب خیز نظروں سے تجمل کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔
  ’’تجمل ! ۔۔۔۔۔ وقاص۔۔۔۔ ۔ آپ کے ساتھ ۔۔۔۔ ۔ آپ ۔۔۔۔۔ وقاص کو جانتے ہیں۔‘‘
 ’’ہاں ۔۔۔۔۔!میںوقاص کو جانتا ہی نہیں ۔۔۔۔۔بلکہ ۔۔۔۔۔ اس کے دل کی ہر بات کومیں جانتا ہوں ۔ تم نے وقاص کے ساتھ بے وفائی کیوں کی؟‘‘
تجمل نے قہر آلود نگاہوں سے عارفہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’بے وفائی ۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔ وقاص کے ساتھ ۔۔۔۔۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘
عارفہ نے حیرت سے وقاص کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
   ’’میں بالکل صحیح کہہ رہا ہوں۔۔۔۔۔ وقاص سے زیادہ دولت مند گھرانے سے رشتہ آیا تو اس کی محبت کو فراموش کر تم نے مجھ سے شادی کر لی۔‘‘
  ’’  محبت۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔ وقاص سے۔۔۔۔۔ آپ ہوش میں تو ہیں۔‘‘عارفہ نے حیران نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
  ’’میں بالکل ہوش و ہواس میں ہوں۔ ‘‘
اس نے سلگتی ہوئی نگاہوں سے عارفہ کی طرف دیکھتے ہوئے زہر خند لہجہ میں کہا۔تجمل کے منہ سے اتنے سخت لفظ سن کر وہ بالکل سہم گئی اور سراپا حیرت بنکر اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔
’’تجمل !آ۔۔۔۔۔ آپ ۔۔۔۔۔ کو ۔۔۔۔۔ غلط فہمی ہوئی ہے ۔ وقاص میرا صرف ایک اچھادوست ہے۔‘‘
 ’’تم جھوٹ بول رہی ہو۔‘‘ اس نے گرج دار آواز میں کہا۔
’’ اس لئے ۔۔۔۔۔ آج ۔۔۔۔۔ اسی  وقت۔۔۔۔۔ میںتمہیں ۔۔۔۔۔ اس رشتے سے ہمیشہ کے لئے آزادکرتاہوںاورتمہیں ۔۔۔۔۔ طلاق ۔۔۔۔۔ دیتا ہوں ۔
’’طلاق۔۔۔۔۔! طلاق۔۔۔۔!!۔طلاق!!!‘‘
  یہ لفظ سن کر اس کے پیروں کے نیچے سے زمین کھسک گئی اورکانپتی ہوئی آواز میںبولی۔
’’تجمل !میں نے کبھی ۔۔۔۔۔ آپ کی ۔۔۔۔۔  نا فرمانی نہیں کی ہے ۔‘‘
’’نافرمانی ۔۔۔۔۔ عارفہ تم نے رات گزاری میرے پہلوں میں ۔۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔ خواب دیکھا اپنے یار کا۔‘‘ اس نے چیختے ہوئے کہا۔
’تجمل آپ کو اللہ اور اس کے رسول کا واسطہ دیتی ہوں۔ مجھ پراتنا گھنونا الزام نہ لگائیں۔‘‘
  ’ الزام ۔۔۔۔۔عارفہ ۔۔۔۔۔ یہ الزام نہیں سچ ہے ۔ ‘‘
   اس وقت عارفہ کو سب سے زیادہ تعجب وقاص پر ہو رہا تھا ۔ اس کا نام لے کر تجمل اسے بدنام کر رہا تھا ۔۔۔۔ ۔ لیکن ۔۔۔۔۔ وہ بالکل خامو ش کھڑا تھا۔تجمل اس کے پاک دامن پر داغ لگاتا رہا۔ پھر بھی وہ خاموش رہا۔ اس کی خاموشی سے اس کا دامن تار تار ہو رہا تھا۔بے تاب نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے گیلی آواز میںبولی۔
’وقاص ! تمہیں اللہ اور اس کے رسول کاواسطہ۔پلیز اپنی زبان کھولو ۔۔۔۔ ۔اور۔۔۔۔۔تجمل کو بتا دوکہ میں صرف ۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔ صرف تمہاری ایک اچھی دوست ہوں۔‘‘لیکن وہ سنگ دل بنا کھڑا رہا۔
  ’’اس کی خاموشی تم دونوں کے رشتے کی سچائی ہے۔تم وقاص کوہمیشہ خط لکھتی تھی ، کیا یہ بھی غلط ہے ؟‘‘تجمل نے زہر خند لہجہ میں کہا۔
     وہ بھاری قدموں سے آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اس کے قریب آئی۔ اس وقت اس کی پلکوں پہ آنسوئوں کا ہجو م تھااور ہونٹ کانپ رہے تھے۔
 ’’ہاں۔۔۔۔۔یہ ۔۔۔۔۔ سچ ہے کہ شادی سے پہلے میں وقاص کو خط لکھا کرتی تھی۔ نفرت بھری نگاہوں سے وقاص کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔کیونکہ۔۔۔۔۔ وہ زمانہ ہم لوگوں کی نا عقلی کا زمانہ تھا ۔۔۔۔۔ خلوص ومحبت کا زمانہ تھا ۔۔۔۔۔ ایک دوسرے سے ہمدردی کا زمانہ تھا ۔۔۔۔۔ اس وقت ایسا لگتا تھا کہ سارے زمانے کو گلے لگا لوں ۔۔۔۔۔ تجمل اس کے سارے خطوط آج بھی میرے پاس موجود ہیں ۔ اسے پڑھ کر بتائیں کہ میں نے کس جگہ اس کے ساتھ ایثار و وفا کی قسمیں کھائی ہیں ۔میں نے اس انسان کی ہمیشہ عزت کی ہے  لیکن اسے پانے کا خواب  اپنی پلکوں پہ کبھی نہیں سجایا  ۔۔۔۔۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ عرصہ بعد یہ انسان میری دوستی ۔۔۔۔۔میرے اخلاق و محبت پر اتنا بڑا کلنک لگائے گا۔ وقاص تم ا للہ کا پانچوں اراکین پورا کرچکے ہو ۔۔۔۔۔ تمہارارواںنہیں کانپا مجھ پر بے حیائی کی اتنی بڑی تہمت لگاتے ہوئے۔ ذرہ برابر بھی شرم نہیں آئی اور تجمل آپ میرے شریک زندگی تھے اور زندگی بھر ساتھ نبھانے کا وعدہ کیا تھا۔بغیرسچائی جانے ایک انسان کے کہنے پر میرے پاک دامن کا ثبوت دینے کے لئے مجھے شعلوں میں ڈھکیل دیا ۔۔۔۔۔ تجمل ! جو داغ آپ دونوں نے میرے دامن پر لگایا ہے  ۔ روز محشر آپ دونوں کی دامن گیر رہوں گی ۔‘‘
اس کی آنکھوں سے آنسو مسلسل بہہ رہے تھے اور پلکیں ان کے بوجھ سے کانپ رہی تھیں۔اضطراب کی حالت میں الجھی الجھی قدموں سے باہر نکل گئی۔
تجمل مبہوت سا کھڑا پتھر ہو گیا تھا۔  وہ اسے روک بھی نہ سکا ۔۔۔۔۔ کیونکہ عارفہ کو روکنے کا حق اس نے ہمیشہ کے لئے کھو دیا تھا۔
    ضضض
پٹنہ سیٹی
Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here