تعلیمی شعبے میں اصلاحی تجربے یا محض قلابازی

0
310

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

ڈاکٹر مشتاق احمد

حال کے دنوں میں مرکزی وزارتِ ترقیاتِ انسانی وسائل نے کئی ایسے حکم نامے جاری کئے ہیں جس کو دیکھ کر پہلی نظر میں تو ایسا لگتا ہے کہ واقعی ہماری موجودہ حکومت تعلیم کے تئیں بہت سنجیدہ ہے ۔ بالخصوص معیاری تعلیم کے لئے فکر مند ہے ۔لیکن جب ہم سنجیدگی سے حکومت کے حالیہ حکم ناموں اور ان کی کارکردگی کو دیکھتے ہیں تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ یہ سب سیاسی نعرہ بازی ہے ۔کیوں کہ ملک میں معیارِ تعلیم کی پستی کے سلسلے میں گذشتہ ایک دہائی سے بحث ومباحثہ ہو رہا ہے ۔ لیکن عملی طورپر تمام تر کوششیں خانہ پُری تک محدود ہیں۔ورنہ ایک دہائی پہلے ہمارے اس وقت کے وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے سائنس کانگریس میں اس بات پر فکر مندی ظاہر کی تھی کہ دنیا کے تعلیمی اداروںکے مقابلے ہماری تعلیم گاہیں کیوں پسماندگی کی شکار ہیں کہ جب کبھی عالمی سطح پر تعلیمی سروے ہوتا ہے اور دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کی رینکنگ کی جاتی ہے تو اس میں ہمارے ملک کی یونیورسٹیاں کہیں نظر نہیں آتیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب پرنب مکھرجی عہدۂ صدر جمہوریہ پر فائز تھے تو انہوں نے بھی پورے ملک کی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر کی میٹنگ دہلی میں بلائی تھی اور انہو ںنے بھی یہ فکر مندی ظاہر کی تھی کہ عالمی سطح پر ہمارے تعلیمی ادارے مقام بنانے میں کیوں ناکام ہیں ۔بلا شبہ جب کبھی عالمی سطح کا کوئی سروے سامنے آتا ہے تو اس میں ہماری نمائندگی مایوس کن ہوتی ہے ۔ حال ہی میں ٹائمس نے جو ایک سرور کیا ہے اور اس کی بنیاد پر دنیا کی بہترین سو یونیورسٹیوں کی فہرست سازی کی ہے اس میں ہمارے صرف دو تعلیمی ادارے آئی آئی ٹی دہلی اور انڈین سائنس انسٹی چیوٹ بنگلور جگہ پانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔یہ ہمارے لئے ضرور خوشی کی بات ہے لیکن قومی سطح پر جتنے نامور تعلیمی ادارے ہیں آخر ان کا شمار کیوں کر نہیں ہو رہا ہے ؟ واضح ہو کہ ہمارے ملک میں 800یونیورسٹیاں ہیں اور 39ہزار کالجز ہیں ۔ اس کے علاوہ نجی یونیورسٹیوں اوراعلیٰ تعلیمی اداروںکی تعداد دنوں دن بڑھ ہی رہی ہے ۔ اگر ہم سرکاری اداروں کے تعلق سے بنیادی ڈھانچوں اور اساتذہ وطلباء کی تعداد کے تناسب کو پستیٔ معیارِ تعلیم کی وجہ بتاتے رہے ہیں تو پھر نجی تعلیمی ادارو ں میں کیا خامیاں ہیں کہ وہ بھی معیارِ تعلیم کے پیمانے پر پورے نہیں اتر رہے ہیں ۔ نتیجہ ہے کہ بڑی تعداد میں ہمارے طلباء غیر ملکی اعلیٰ تعلیمی اداروں کا رخ کر رہے ہیں۔ ٹا ٹا انسٹی چیوٹ آف سوشل سائنسز کی رپورٹ کے مطابق ہر سال تقریباً پانچ لاکھ طلباء غیر ملکی تعلیمی اداروں میں داخلہ لے رہے ہیں ۔ نتیجتاً 450ارب روپے ہندوستان سے غیر ملکوں کے تعلیمی اداروں میں بطور فیس جمع کئے جا رہے ہیں۔ اب سوال اٹھتا ہے کہ اس حقیقت کو جانتے ہوئے بھی تعلیمی شعبے میں محض سیاسی پروپگنڈے کیوں کئے جا رہے ہیں۔ حال ہی میں مرکزی وزیر محکمہ ترقیات انسانی وسائل پرکاش جاویڈکر نے اسکولی بچوں کے بستوں کے بوجھ کو کم کرنے کا حکم نامہ جاری کیا ہے ۔ اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے کیوں کہ بستے کے بوجھ نے معصوم بچوں کو طرح طرح کی بیماریو کا شکار بنا دیا ہے ۔ہمیںیہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہم کچّے ذہن کو کتابوں کی بدولت نہیں سنوار سکتے۔ بلکہ بچوں کے فہم وادراک کے لئے متعینہ طریقہ تعلیم کو اپنانا ہوگا۔ ماہر تعلیم پروفیسر یشپال نے 1993میں ہی یہ بات کہی تھی کہ نجی تعلیمی اداروں میں بچوں کے بستوں کے بوجھ کو بڑھایا جا رہاہے جو بچوں کی فطرت کو متاثر کرے گی۔ دراصل سرکاری اسکولوں کی خستہ حالی کے بعد نجی تعلیمی اداروں کا فروغ شروع ہوا۔ ہماری بڑھتی آبادی کے مقابلے سرکاری تعلیمی اداروں کی تعداد میں اضافے کی بات تو دور رہی قائم شدہ تعلیمی اداروں کی حالت بھی دنوں دن خستہ ہوتی چلی گئی اور اس سچائی سے انکار نہیں کہ نجی تعلیمی اداروں میں کتابوں کی تعداد بڑھانے کا مقصد تعلیمی معیار کو بلند کرنے سے کہیں زیادہ تاجرانہ ذہن رہا ہے ۔بہر کیف اگر حکومت نے اسکولی بستوں کے بوجھ کو عمر کے لحاظ سے متعین کیا ہے تو وہ معصوم بچوں کے لئے بہت ضروری ہے۔ لیکن شرط پھر یہی ہے کہ اس پر عمل بھی لازمی ہے ۔ اسی طرح حال ہی میں زبان کے تعلق سے بھی یہ فیصلہ ہوا ہے کہ بچوں کو اس کی مادری زبان میں تعلیم دینے کی سہولت کو یقینی بنایا جائے ۔ ظاہر ہے کہ عالمی سطح پر یہ بات قبولیت کا درجہ رکھتی ہے کہ معصوم ذہن کو اپنی مادری زبان میں کسی بھی نئے علم کو سمجھنے کی قوت زیادہ ہوتی ہے ۔اس لئے سائنسداں آئنس ٹائن، بابائے قوم مہاتما گاندھی ، مولانا ابوالکلام آزاد، ڈاکٹر ذاکر حسین، ڈاکٹر رابندر ناتھ ٹیگور اور علامہ اقبال نے بھی مادری زبان میں بنیادی تعلیم کی وکالت کی ہے ۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ میکالےؔ طریقۂ تعلیم نے انگریزی کو فروغ دینے کے لئے مادری زبان اور علاقائی زبان کو نہ صرف نظر انداز کیا ہے بلکہ اسے خسارۂ عظم بھی پہنچایا ہے ۔ حال ہی میں ڈاکٹر کرشن کمار ، سابق ڈائرکٹر این سی ای آر ٹی کا ایک مضمون پڑھ رہا تھا ۔ انہو ں نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے کہ ہمارے بچے زبان کے تئیں سنجیدہ نہیں ہیں ،نتیجہ ہے کہ ان کے اندر مکالمے کی صلاحیت بھی ختم ہوتی جا رہی ہے ۔ جہاں تک اعلیٰ تعلیم کا سوال ہے تو اس میں بھی ہماری حکومت اتنی سنجیدہ نہیں ہے جتنا کہ اس شعبے کا تقاضہ ہے ۔ ہماری مرکزی حکومت اور یاستی حکومتوں کو یہ حقیقت معلوم ہے کہ سنٹرل یونیورسٹیوں میں چالیس فی صد سے زیادہ اساتذہ کی اسامیاں خالی ہیں اور برسوں سے عارضی اساتذہ کے ذریعہ کام چل رہاہے ۔ ریاستی حکومتوں کا تو اور بھی بیڑا غرق ہے کہ 65فی صد پوسٹیں خالی ہیں ۔ ریاست بہار میں سینکڑوں ایسے کالج ہیں جہاں چار پانچ اساتذہ سے پڑھائی ہو رہی ہے ۔ ایسی صورت میں معیاری تعلیم پر بحث ومباحثہ کرنا کیا معنی رکھتا ہے ۔ سیاسی نعرہ بازی اپنی جگہ لیکن تعلیمی شعبے میں تجربے کے نام پر جس طرح کا پروپگنڈہ ہوتا رہا ہے اس نے تعلیمی شعبے کو بہت نقصان پہنچایا ہے اور یہ کارِ مضر اب بھی جاری ہے۔ حال ہی میں رضا کار تنظیم ’’اثر‘‘ کی رپورٹ بھی شائع ہوئی ہے اس میں بھی یہ فکرمندی ظاہر کی گئی ہے کہ دسویں درجے کا طالب علم تیسرے اور چوتھے درجے کا حساب نہیں بنا پا رہاہے اور تیسرے چوتھے درجہ کا طالب علم حرف شناسی سے بھی محروم ہے ۔ظاہر ہے کہ حکومت کا صرف اس بات پہ زور ہے کہ زیادہ سے زیادہ بچوں کا داخلہ ہو ۔ چوں کہ جمہوریت میں اعداد وشمار کی اہمیت ہے اس لئے ہمارے سیاستداں کی نگاہ اعداد وشمار پر ہوتی ہے کہ اس سے ان کا مستقبل جڑا ہواہے۔مگر انہیں یہ تلخ حقیقت شاید نہیں معلوم کہ کسی بھی ملک کے شعبۂ صحت ، دفاع اور تعلیم میں جب سیاست ہونے لگتی ہے تو ان شعبوں کی معنویت دم توڑ دیتی ہے ۔آج ہمارے ملک میں بنیادی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک تجارتی ماحول پیدا ہوگیا ہے ۔ حال ہی میں ورلڈ بینک نے اپنے سروے رپورٹ میں اس بات کا انکشا ف کیا ہے کہ ہندوستان کے 74فی صد اسکولی بچے نجی ٹیوشن پڑھتے ہیں ۔ باوجود اس کے 57فی صد طلباء حساب اور سائنس میں معمولی معلومات سے بھی نا واقف ہیں۔ ملک کو ڈیجٹل انڈیا بنانے کا شور ہے لیکن رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 59فی صد بچے کو کمپیوٹر کی معلومات نہیں ہے اور اب بھی 64فی صد بچے انٹرنیٹ کے استعمال سے دور ہیں۔اس ملک میں 14سے18سال عمر کے تقریباً دس کروڑ طلباء اسکولوں میں زیرِ تعلیم ہیں ۔ہمارے اسکولوں میں جس طرح کی تعلیم پروان چڑھ رہی ہے اس کا نتیجہ تو ’’پرتھم ایجوکیشن فائونڈیشن‘‘ کی سالانہ رپورٹ سے پتہ چلتاہے کہ 76فی صد بچے پیسے بھی ٹھیک سے نہیں گن سکتے اور57فی صد بچے حساب کے ضرب وتقسیم سے انجان ہیں اور 25فی صد بچے ٹھیک سے اپنی بات بھی نہیں کہہ پاتے۔ دراصل یہ سب ایک دن میں نہیں ہوا ہے ۔ تقریباً تین دہائی سے تعلیم سیاسی ایجنڈہ بن کر رہ گیا ہے ۔ ایک حکومت نے اگر کوئی ٹھوس پہل کی تو دوسری حکومت نے اسے بدل دیا ۔ ایک سیاسی جماعت نے اگر کوئی نصاب تیار کرایا تو دوسری حکومت آئی تو اسے سرے سے خارج کردیا۔جب کہ ہونا یہ چاہئے کہ تعلیمی شعبے میں تمام تر نظریاتی تعصب وتحفظ سے بالا تر ہو کر ٹھوس قدم اٹھائے جائیں۔ کیوں کہ اس میں ملک وقوم کے مستقبل کے نسخے پوشیدہ ہوتے ہیں ۔ آج اسکولی نصاب سے لے کر یونیورسٹی تک کے نصاب کو کس طرح اپنے نظریات کا آئینہ بنایا جا رہا ہے اور تعلیمی ادارو ں کے علاوہ جو آئینی تعلیمی انسٹی چیوٹ ہیں وہاں جس طرح کے ذہن سازوں کو بیٹھایا جا رہے وہ جگ ظاہر ہے ۔ایسے حالات میں اگر ہمارا معیارِ تعلیم دنوں دن پستی کا شکار ہورہا ہے تو اس کے لئے ہائے توبہ مچانے سے کہیں زیادہ اپنے گریباں میں جھانکنے کی ضرورت ہے کہ وقت کا تقاضہ یہی ہے۔
موبائل:9431414586

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here