میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی

0
1588

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

آفتاب احمد پاکستان

ہماری لاش پہ ڈھونڈو نہ انگلیوں کے نشاں
ہمیں خبر ہے عزیزو یہ کام کس کا ہے
سانحہ کربلا اور اعلائے کلمۂ حق کے لیے امام حسین ؑ اور ان کے جاں نثار رفقا کی شہادت تاریخ عالم کا ایک ایسا واقعہ ہے جس نے نہ صرف تہذیب عالم بلکہ ادبیات عالم پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہ بے مثال واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک ایسا روشن نقطہ اور سرچشمہ فیض ہے جو اردو شاعری کے حافظے سے بھی نہ صرف یہ کہ کبھی محو نہیں ہوا بلکہ تہ در تہ استعاراتی اور علامتی توسیع سے اس میں ایک عالمگیر اور آفاقی معنویت پیدا ہوگئی ہے۔
شاعری انسان کی حس جمالیات کو تر و تازہ رکھنے کے لیئے آکسیجن کی طرح ضروری ہوتی ہے۔ تخیلات اور افلاک کی پرواز کی کوئی حد نہیں ہوتی اور ایک اچھا شاعر ہمیشہ ہی سے حدود و قیود کی پرواہ کیئے بنا افکار و خیالات کو لا محدود اڑان بخشتا ہے۔ اردو شاعری میں یوں تو بے حد بڑے بڑے اور نامور شعراءپائے جاتے ہیں جن کا کلام صدیوں اور دہائیوں کے بعد آج بھی زندہ ہے۔ ہم اگر گزشتہ چند دہائیوں کا مشاہدہ شاعری کے حوالے سے کریں تو اس افق پر فیض احمد فیض، احمد فراز، امجد اسلام امجد، حبیب جالب ،افتخار عارف، پروین شاکر اور محسن نقوی جیسے ستارے چمکتے دمکتے دکھائی دیتے ہیں۔
پھر تری یاد کے موسم نے جگائے محشر
پھر مرے دل میں اٹھا شور ہواؤں جیسا
بارہا خواب میں پا کر مجھے پیاسا محسنؔ
اس کی زلفوں نے کیا رقص گھٹاؤں جیسا
شاعری دراصل لطیف قلبی کیفیات سچےجزبات اور حسین احساسات کا اظہار ہے ایک شاعر جہاں اپنی اندرونی حقیقت اور اپنے باطنی اضطراب کا ترجمان ہوتا ہے وہاں وہ معاشروں اور رویوں کی عکاسی بھی اپنے کلام کے زریعے کرتا ہے گویا ایک سچے اور پختہ شاعر کا ہاتھ معاشرے کی نبض پر ہوتا ہے اور وہ حقیقت میں انسانوں کا ایک فکری طبیب کہلاتا ہے ۔ ایک شاعر معاشرے کی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار کا حامل ہوتا ہے شاعر کا سخن اسکی فکری سچائی کے باعث دلنواز اور روح پرور ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس کا کلام دلوں میں اترتا اور ذہنوں پہ چھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر زمانے کی اعلی اور دانشمند شخصیات نےاپنی فکر کوعوام الناس میں منتقل کرنے کے لئے شاعری کا مقبول عام زریعہ ہی اختیار کیا ۔ انہی شخصیات میں ایک نابغہ روزگار شخصیت محسن نقوی بھی تھے ۔جو ،تھے نہیں ،بلکہ ،ہیں ۔اور رہیں گے ۔ محسن نقوی ایک بے باک بابصیرت اور دانشور شاعر ہیں انہوں نے جہاں مختلف موضوعات اور زندگی کی مختلف پہلووں پر شعر کہے وہاں انکی شاعری کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ انکی شاعری نبی پاک اور انکی آل اطہارؑسے عقیدت و محبت اور ولا و مودت کے جزبوں سے سرشار ہے ۔
جنوبی پنجاب شعراء اور ادباء کے لحاظ سے زرخیز خطہ ہے۔ یہاں سے جنم لینے والے شعراء ادباء اور سیاسی و روحانی شخصیات نے ملکی اور غیر ملکی لیول پر اپنی دھرتی (سرائیکی خطہ جنوبی پنجاب) کی بھر پور نمائندگی کی۔ قادرالکلام شاعر محسن نقوی کا تعلق بھی اسی سرزمین سے ہے۔
یہ جاں گنوانے کی رُت یونہی رائیگاں نہ جائے
سر سناں، کوئی سر سجاؤ ! اُداس لوگو
محسن نقوی نے اپنی شاعری میں روایتی محبوب اور محبت یا ہجر و فراق کے نشیب و فراز بیان کرنے کے علاہ سماجی زیادتی، معاشرتی بے حسی اور عالم انسانیت کے امن کو بھی موضوع سخن بنایا۔
ہوا اس سے کہنا
کہ جو ہجر کی آگ پیتی رُتوں کی طنابیں
رگوں سے اُلجھتی ہوئی سانسوں کے ساتھ کس دیں
اُنہیں رات کے سُرمئی ہاتھ خیرات میں نیند کب دے سکے ہیں؟
ہوا اس کے بازو پہ لکھا ہوا کوئی تعویذ باندھے تو کہنا
کہ آوارگی اوڑھ کر سانس لیتے مسافر
تجھے کھوجتے کھوجتے تھک گئے ہیں
محسن نقوی کا اصل نام سید غلام عباس تھا اور یہ محلہ سادات میں ڈیرہ غازی خان میں 5مئی 1947کو پیدا ہوئے۔ گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان سے گریجویشن اور پھر جامعہ پنجاب سے ایم اے اردو کیا تھا۔ گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان سےگریجویشن کرنے کے بعد جب یہ نوجوان جامعہ پنجاب کے اردو ڈیپارٹمنٹ میں داخل ہوئے، اس دوران ان کا پہلا مجموعۂ کلام چھپا۔ لیکن سید غلام عباس کے نام کی بجائے انہوں نے محسن نقوی کے تخلص سے شاعری کا آغاز کیا۔ بعد میں وہ لاہور منتقل ہو گئے۔ لاہور کی ادبی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے جہاں انہیں بے پناہ شہرت حاصل ہوئی۔گھر میں قرآن مجید اور ناظرہ کی طرف بے حد توجہ دیتے اور مذہبی کتابیں ذو و شوق سے پڑھتے تھے۔ انہوں نے بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان سے اردو میں ایم اے کیا، اور کم و بیش اسی زمانے میں ان کی شاعری کا بھی آغاز ہوا۔
انہوں نے گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان سے گریجویشن اور پھر جامعہ پنجاب سے ایم اے اردو کیا تھا۔ گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان سے گریجویشن کرنے کے بعد جب یہ نوجوان جامعہ پنجاب کے اردو ڈیپارٹمنت میں داخل ہوا تو دنیا نے اسے محسنؔ نقوی کے نام سے جانا۔ اس دوران ان کا پہلا مجموعۂ کلام چھپا۔ بعد میں وہ لاہور منتقل ہو گئے۔ اور لاہور کی ادبی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے جہاں انہیں بے پناہ شہرت حاصل ہوئی۔ بعد میں محسن نقوی ایک خطیب کے روپ میں سامنے آئے مجالس میں ذکرِ اہل بیت اور واقعاتِ کربلا کے ساتھ ساتھ اہلبیت پہ لکھی ہوئی شاعری بیان کیا کرتے تھے۔
گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازی خاں کے مجلہ ” الغازی” کے مدیر اور کالج کی یونین کے نائب صدر تھے۔ جب انہوں نے ” فکر جدید” نمبر شائع کیا تو ادبی حلقوں میں تہلکہ مچ گیا اور پاکستان بھر کے ادبی حلقوں میں محسن نقوی کا نام پہنچ گیا اور کالج میں بھی ان کے ادبی قد کاٹھ میں بے حد اضافہ ہو گیا۔کالج کے تمام پروفیسر محسن نقوی کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔ سب ہی ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کے معترف تھے ان دنوں ان کا ایک قطعہ بے حد پذیرائی حاصل کرنے لگا۔
چاندنی کارگر نہیں ہوتی
تیرگی مختصر نہیں ہوتی
ان کی زلفیں اگر بکھر جائیں
احتراماً سحر نہیں ہوتی
اور پھر گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان سے گریجویشن اور پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ محسن نقوی اپنے 6 بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے ۔بعد ازاں تعلیم کو خیر آباد کہہ کر ذاتی کاروبار کی طرف راغب ہو گئے اور انیس سو سڑسٹھ میں اپنی چچا زاد سے شادی کرلی، انہوں نے اپنی پہلی غزل میٹرک کے دوران کہی۔
محسن نقوی دیکھتے ہی دیکھتے ریڈیو، ٹی وی، اخبارات ، ادبی رسائل و جرائد غرض ہر جگہ مشہور و معروف ہو گئے اور شہرت کی دیوی ان پر مہربان ہوتی چلی گئی اور ملک بھر کے ادبی حلقوں میںا نکا نامشہور ہوتا گیا۔ یوں محسن نقوی شہرت کی بلندیوں پر جا پہنچے۔ محسن نقوی جدید شاعر تھے مگر روایت سے بحر نہیں نکالتے تھے۔
یہ بچھتی جا رہی ہے ارضِ مقتل کس کے قدموں میں
ادا کس نے کیا یہ زیرِ خنجر عصر کا سجدہ
محسن نقوی محفل کے آدمی تھے۔ انکے چہرے پر روحانیت چھلکتی نظرآتی تھی۔ انکا اسلوب منفرد، لہجہ توانا اور کلام پر اثر اور آواز میں درد و سنور تھا۔ غم دوراں اور غم جاناں کے ساتھ انکی اسلامی اور کربلائی شاعری بھی بہت متاثر کن ہے انکی لکھی ہوئی حمد، نعت اور منقبت امام حسین علیہ السلام پڑھ کر قاری روحانیت کی گہرائی تک جا پہنچتا ہے۔ محسن نقوی نے اپنے ہم عصر اور سنئیر شاعروں کا خوب مطالعہ کیا تھا ضیاء ساجد نے مورخہ 13 اپریل 1994 ء میں محسن نقوی کے فن و شخصیت پہ ایک کتاب” کئی باتیں ضروری رہ گئیں” شائع کی جسے علمی وادبی حلقوں میں بہت پذیرائی ملی۔
پاکستان کے گلو کار غلام علی نے محسن نقوی کی غزل ” یہ دل یہ پاگل دل میرا” گا کر اسے ہمیشہ کے لیے امر کر دیااور محسن نقوی کو عالمی سطح پر متعارف کرا کر مشہور کر دیااس کے بعد ہر مشاعرے میں ” آوارگی ” کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک اور صنفِ سخن یعنی قطعہ نگاری کے بھی بادشاہ ہیں ۔ اِن کے قطعا ت کے مجموعے ” ردائے خواب” کو ان کے دیگر شعری مجموعوں کی طرح بے حد پذیرائی حاصل ہوئی ۔ نقادانِ فن نے اسے قطعہ نگاری میں ایک نئے باب کا اِضافہ قرار دیا ۔ مذہبی نوعیت کے قطعات ” میراثِ ” محسن میں پہلے ہی درج کئے جا چکے ہیں ۔محسن نے اخبارات کے لئے جو قطعات لکھے ان کی زیادہ تر نوعیت سیاسی تھی لیکن ان کا لکھنے والد بہر حال محسن تھا۔
محسن نقوی کی مذہبی شاعری کو ایک طرف رکھیے۔ آپ ان کی رومانوی شاعری دیکھیے۔
اردو شاعری کی کئی نئی جہتیں متعارف کروانے والے شاعر اور مرثیہ نگار محسن نقوی نے کربلا اور امام حسین ع کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے لیکن درج ذیل شعر میں انکی انفرادیت انسان کو اپنی سو متوجہ کرتی ہے ؛
ملی نہ جن کی جبیں کو پئے سجود جگہ
ان ہی کے پاک لہو سے ہے باوضو مٹی
ایک اور شعر دیکھئے
غمِ حسین میں اک اشک کی ضرورت ہے
پھر اپنی آنکھ کو، کوثر کا جام کہنا ہے
محسن نقوی اردو غزل کے علاوہ مرثیہ نگاری میں بھی یدِ طولیٰ تھے‘ انہوں نے اپنی شاعری میں واقعہ کربلا کو جابجا استعارے کے طور پر استعمال کیا۔
محسن نقوی کے غزل اور نظم کے قادر الکلام شاعر ہونے کے بارے میں دو آراء نہیں ہو سکتیں لیکن اس کے ساتھ ہی محسن کی نثر، جو کہ ان کی کتابوں کے دیباچے کی شکل میں موجود ہے، اس میدان میں بھی محسن کی قادر الکلامی کی دلیل ہے۔محسن نقوی کی شاعری میں رومان اور درد کا عنصر نمایاں ہے اور ان کی رومانوی شاعری نوجوانوں میں بھی خاصی مقبول ہوئی۔
محسن نقوی نے اہل بیتؑ کے لیے جو جو کلام لکھا اس سے ان کو ایک نئی پہنچان ملی۔ وہ ایک خطیب کی طرح مجالس میں ذکرِ اہل بیت اور واقعاتِ کربلا کے حوالے سے شاعری بیان کیا کرتے تھے۔ مرثیہ نگاری میں بھی آپ کافی مہارت رکھتے تھے۔
محسن نقوی کی تصانیف میں عذاب دید، خیمہ جان، برگ صحرا، طلوع اشک، حق عالیہ، رخت صاحب اور دیگر شامل ہیں۔ ان کی کئی غزلیں اور نظمیں آج بھی زبان زد عام ہیں اور اردو ادب کا سرمایہ سمجھی جاتی ہیں۔محسن نے بڑے نادر اور نایاب خیالات کو اشعار کا لباس اس طرح پہنایا ہے کہ شاعری کی سمجھ رکھنے والا دنگ رہ جاتا ہے۔
اِک ”جلوہ“ تھا، سو گُم تھا حجاباتِ عدم میں
اِک ”عکس“ تھا، سو منتظرِ چشمِ یقیں تھا
جس طرح محسن نقوی کی زندگی کے کئی پہلو ہیں اسی طرح سے ان کی شاعری کے بھی کئی رنگ ہیں۔ محسن صرف ہر فن مولا شخصیت تھے۔ انہوں نے جو بھی لکھا کمال لکھا۔ غزل اور نظم کے قادر الکلام شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ انکی نثری تحریریں بھی فن تخلیق کا انمول نمونہ ہیں۔ صنف سخن یعنی قطعہ نگاری کی تو ناقدین نے اسے ایک نئے باب کا آغاز کہا۔ لیکن محسن کی شاعری پر جب مذہبی رنگ آیا تو میراث محسن لکھ ڈالی ۔ اور شاعر اہل بیت ؑ کا عوامی خطاب مل گیا۔ ان کے مذہبی کلام کے بھی کئی مجموعے ہیں جن میں بندِ قبا، برگِ صحرا، ریزہ حرف، عذابِ دید، طلوعِ اشک، رختِ شب، خیمہ جاں، موجِ ادراک اور فراتِ فکر زیادہ مقبول ہیں۔ محسن ایک عوامی شاعر تھے اس لیے انہوں نے خود کو ہمیشہ معاشرے سے جوڑے رکھا ۔ اسی لیے جب محسن نے سیاسی شاعری کی تو اخبارات میں محسن کے سیاسی قطعات پڑھ کر ایک اور ہی محسن دریافت ہوا۔ ان کی اردو ادب میں بے پناہ خدمات کی بنا پر 1994میں حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا ۔
ایک مرتبہ محسن نقوی اپنے ماموں زاد سید علی شاہ نقوی کے ہمراہ اکٹھے گاڑی میں لاہور جا رہے تھے راستے میں ماچس کو انگلیوں سے بجاتے جاتے اور شعر کہتے جاتے اور لاہور تک انہوں نے ایک ایسی غزل کہہ ڈالی جو آج تک بھی زبان زد عام ہے وہ غزل تھی”
یہ دل یہ باگل دل میرا کیوں بجھ گیا آوارگی”
محسن نقوی بھی اسی روایت کے شاعر ہیں جنہوں نے محبت کے حوالے سے خوبصورت اشعار کہے ہیں ۔اس کے علاوہ انقلاب کے حوالے سے اور جدید میں فرد کی محرومیوں اور تنہائی کے حوالے سے بہترین اشعار غزل میں کہے ہیں ۔شخصی انانیت کا رویہ محسن نقوی کی پہچان ہے ۔ انھیں اپنی ذات کا احساس ہے جو جگہ جگہ ہمیں اس کی غزل میں ملتا ہے۔ محبت کی کیفیات کو کچھ اس طرح شعر میں سمویا ہے ۔
محسن نقوی کی شاعری کے کئی مختلف پہلو ہیں۔ رومانوی پہلو جو کہ ہر شاعر کی تصانیف میں شامل ہوتا ہے محسن نقوی کے ہاں بھی موجود تھا محسن نقوی نے رومانوی شاعری میں غزل کی کلاسیکل اٹھان کو تو نہ چھوڑا لیکن اسے ایک نئی جدت عطا کی۔
کئی اُلجھی رُتوں کے بعد آیا
تیری زلفیں سنور جانے کا موسم
اردو نظم میں بھی محسن نقوی نے کمال مہارت سے سخن آرائی کی۔
میں نے اس طور تجھے چاہا جاناں جیسے مہتاب کو بے انت سمندر چاہے۔۔
کیوں رات کی ریت میں بکھری ہوئے تاروں کے کنکر چنتی ہو۔۔
محسن نقوی نے اپنی شاعری میں محبوب اور محبت یا ہجر و فراق کے نشیب و فراز بیان کرنے کے علاہ سماجی زیادتی، معاشرتی بے حسی اور عالم انسانیت کے امن کو بھی موضوع سخن بنایا۔
محسن نقوی بڑے شاعر تھے۔ اردو کے آخری بڑے شاعروں میں سے ایک۔ اگر آپ امام حسین سے عقیدت رکھتے ہیں اور اردو شاعری سے دلچسپی ہے تو آپ کو ڈیرہ غازی خان کے اس ذاکر کے کلام میں میر انیس کی شباہت نظر آئے گی۔ انیس کا فن دربار کی روایت سے جڑا ایک مسجع و مقفی تاج ہے۔ بیش قیمت اور بے بہا۔ رمز، کنایہ، استعارہ اور تشبیہ کے موتیوں سے جڑا۔ محسن نقوی کی شاعری میں ایک للکار ہے۔ یزید کی شناخت اور اس کے تخت کے ڈوبنے کی روایت کا تعین کرنے والی چیخ۔ یہ شاعری نہیں رزم گاہ میں ٹہلتے شیر کی بے چینی ہے۔تاریخی اور تہذیبی شعور سے مسلح ایک نعرہ مستانہ۔ من آنم کہ من دانم کی گونج جو شجرہ نسب کھنگال دیتی ہے۔

ہوا صبح دم اس کی آہستہ آہستہ کھلتی آنکھوں جیسی لاتعداد نظمیں آج بھی نوجوانوں میں انتہائی مقبول ہیں۔
محسن نقوی کی شاعری میں بھی اہل بیعت سے محبت کا رنگ نمایاں رہا ۔۔۔ ان کی شاعری کا سب سے نمایاں حصہ انسانیت اور معاشرے کا درد تھا۔
وہ اپنے عہد کے ایک منفرد اور اپنی مثال آپ رکھنے والے شاعر اور عاشق آل عبا ؑ ہیں انکی اپنے مولاعلیؑ سے والہانہ عقیدت اور ان کا ایمان کامل ان کے اس کلام سے ظاہر ہوتا ہے جو کہ وقت شہادت زندگی کےآخری لمحات میں انکے لبوں کی زینت تھا ،کہتے ہیں۔
لے زندگی کا خمس علیؑ کے غلام سے
اے موت آ ضرور مگر احترام سے
عاشق ہوں گر ذرا بھی اذیت ہوئی مجھے
شکوہ کروں گا تیرا میں اپنے امامؑ سے
محسن نقوی نے اہل بیتؑ کے لیے جو جو کلام لکھا اس سے ان کو ایک نئی پہنچان ملی۔ وہ ایک خطیب کی طرح مجالس میں ذکرِ اہل بیت اور واقعاتِ کربلا کے حوالے سے شاعری بیان کیا کرتے تھے۔ مرثیہ نگاری میں بھی آپ کافی مہارت رکھتے تھے۔
سب سے اونچاہے جو کٹ کر وہ سر کس کاہے؟
لٹ کر آبا د ہے جو اب تک وہ گھر کس کا ہے
ظلم شبیر کی ہیبت سے نہ لرزے کیونکر
کس نبی کا نواسہ ہے پسر کس کا ہے؟
جس طرح محسن نقوی کی زندگی کے کئی پہلو ہیں اسی طرح سے ان کی شاعری کے بھی کئی رنگ ہیں۔ محسن صرف ہر فن مولا شخصیت تھے۔ انہوں نے جو بھی لکھا کمال لکھا۔ غزل اور نظم کے قادر الکلام شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ انکی نثری تحریریں بھی فن تخلیق کا انمول نمونہ ہیں۔ صنف سخن یعنی قطعہ نگاری کی تو ناقدین نے اسے ایک نئے باب کا آغاز کہا۔
سید محسن نقوی کو بطور ایک شاعر دیکھیں یا ایک بلند پایہ خطیب کے طور پرا سٹڈی کریں، ان کی شخصیت کو ایک ادیب کے طور پر سامنے رکھیں یا ایک مداح اہلبیت ؑ کے طور پر، انہیں ایک قومی رہنما کے طور پہ دیکھا جائے یا ایک سیاستدان کے طور پہ، محسن نقوی کئی حوالوں سے منفرد شناخت رکھتے تھے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کی شاعری انہیں ان سب حیثیتوں سے ممتاز کرتی ہے، وہ شاعر تھے، غزل گو تھے، مگر ان کی نظمیں بھی لافانی ہیں، وہ شاعری میں منفرد حیثیت و مقام کے حامل تھے، انہیں آپ جب جب پڑھیں گے، ان کے کلام سے نئی ضوفشانیاں پائیں گے، وہ ادب کے ہر رنگ اور شاعری کی ہر صنف پر ناصرف خوبصورتی سے پورے اترتے نظر آتے ہیں، بلکہ ہر ایک صنف کو اپنا رنگ دیتے دکھائی دینگے۔ ان کی شاعری میں آپ کو مقتل، قتل، مکتب، خون، گواہی، کربلا، ریت، فرات، پیاس، وفا، اشک، صحرا، دشت، لہو، عہد، قبیلہ، نسل، چراغ، خیمہ جیسے الفاظ، جن کا تعلق کسی نا کسی طرح کربلا اور اس سرزمین پر لکھی گئی ان کے اجداد کی حریت و آزادی کی بے مثال داستان سے ہے، بدرجہ اتم نظر آتا ہے۔ کربلا کی تپتی زمین پر قربانی کی جتنی داستانیں لکھی گئی ہیں، محسن نقوی نے ان کو کسی نا کسی رنگ و آہنگ میں اپنا موضوع بنایا ہے اور انہیں اپنے تئیں زندہ کرنے اور نئے پہلو اجاگر کرنے کی سعی کی ہے۔
ذیل میں جس کلام کو پیش کر رہا ہوں ،اُسی میں دیکھیں کتنے استعارے اور الفاظ ایسے ہیں ،جن کا تعلق صحرائے کربلا پر لکھی تاریخ کی عظیم ترین داستان عشق سے ہے ۔
چاہت کا رنگ تھا نہ وفا کی لکیر تھی
قاتل کے ہاتھ میں تو حنا کی لکیر تھی
خوش ہوں کہ وقت قتل مرا رنگ سرخ تھا
میرے لبوں پہ حرف دعا کی لکیر تھی
میں کارواں کی راہ سمجھتا رہا جسے
صحرا کی ریت پر وہ ہوا کی لکیر تھی
اگرچہ مقتل اور قتل سے متعلق ان کے بے انتہا خوبصورت اشعار ملتے ہیں، مگر اس کلام میں جو پیغام ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔۔۔۔
یہ رونقیں، یہ لوگ، یہ گھر چھوڑ جاؤں گا
اک دن میں روشنی کا نگر چھوڑ جاؤں گا
اور قاتل مرا نشاں مٹانے پہ ہے بضد
میں بھی سناں کی نوک پہ سر چھوڑ جاؤں گا
محسن نقوی نے غزل میں علامتوں اور نئی معنویت اور نئی جہتوں کو پیش کیا ہے ۔ جس میں ایک طرف زندگی کی تازگی، اپنی زمین سے قربت اور اس کی سوندھی خوشبو ہے تو دوسری طرف جہادِ زندگی کی وہ تصویر بھی ہے جو ہجرت، کربلا، آفتاب، مشک، پیاس، نیزے، تیر، سپاہِ شام وغیرہ کے تلازمات اور علامتوں سے سامنے آتے ہیں اور فکر و اظہا ر کی نئی بصیرت کو پیش کرتے ہیں۔
ان نئی علامتوں نے اپنے گرد نئی فکری جہتوں اور جدید شعری اطراف کا ایک حلقہ بنالیا ہے جو برابر فانوسِ خیال کی طرح گردش میں رہتا ہے اور دیکھنے والی نگاہوں کو محوِ تماشائے دماغ رکھتا ہے”۔ یوں غزل اب ایک سطح پر اپنے دور کی “تصویری کہانی” بھی پیش کرتی ہے۔ یہ تصویریں ایسی ہیں جن میں رمزیت اور تجرید کے رنگ نمایاں ہیں جن کی معنیاتی سطحیں پرت در پرت کھلتی چلی جاتی ہیں۔
یہ سارا تخلیق عمل محسن نقوی کی فنی پختگی اور تکنیکی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انہوں نے عام فہم اور مانوس لفظیات کو نیا مفہومی منظر نامہ عطا کیا ہے جو عہدِ جدید سے غزل کی ہم آہنگی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔محسن نقوی نے غزل کی روایت کو استحکام اور توانائی عطا کی ہے۔ فنی اعتبار سے جدید تر غزل نے اظہار کے جن قرینوں کو رواج دیا ہے وہ غزل کی تابانی کو بہت دیر تک قائم رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
شاعری کے علاوہ محسن نقوی ایک اعلی پائے کے مقرر اور ذاکر کے طور پر بھی جانے جاتے تھے اور اہل بیعت کی محفلوں میں اپنے انداز خطابت اور مرثیوں سے ایک رقت آمیز ماحول طاری کر دیتے تھے۔محسن نقوی آج بھی اپنی شاعری کی صورت میں ہم میں موجود ہیں اور اس امر کا ثبوت بھی کہ امن و محبت کے نام لیواوں کو نفرت یا جہالت کے اندھیرے کبھی بھی نہیں مٹا سکتے۔ البتہ ادبی دنیا کی بے حسی اور من پسند افراد کو سراہنے کی عادت کا تدارک ضرور ہونا چاہیے۔ جہاں بہت سے سستے شاعر شاعری کی صنف کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہوئے ایک ڈیڈھ اینٹ کی مسجد بنائے بیٹھے ہیں۔محسن نقوی کی شاعری کا محور معاشرہ، انسانی نفسیات، رویے، واقعۂ کربلا اور دنیا میں ازل سے جاری معرکہ حق و باطل ہے۔محسن نقوی کی شاعری کا محور معاشرہ، انسانی نفسیات، رویے، واقعۂ کربلا اور دنیا میں ازل سے جاری معرکہ حق و باطل ہے۔
ہم تھے تو اجالوں کا بھرم بھی تھا ہمیں سے
کہتے ہیں کہ پھر چاند نہ ابھرا سر مقتل
قاتل کی جبیں شرم سے پیوستِ زمیں ہے
کس دھج سے میرا قافلہ اترا سر مقتل
جتنی شہرت آپ کو ملنی چاہیے تھی اس کی عشر عشیر بھی آپ کو نہ مل سکی۔ کمال تخیل اور بلندی فکر آپ کا طرہ امتیاز ہے۔ آپ نے در اہل بیتؑ کی چوکھٹ پر اپنا وقت گزارنے کو خوبصورت محلوں میں زندگی گزارنے پر ترجیح دی۔ درخت فضیلت کی شاخوں پر چڑھ کر اہل بیت اطہار ؑکی مدح سرائی کرتے رہنا آپ کا شیوہ تھا۔ واقعہ کربلا کی جس انداز سے آپ نے منظر کشی کی ہے شاید عالم ارواح میں میر انیس و میرزا دبیر بھی اس پر آپ کو داد تحسین دے رہے ہوں۔
وہ سنگ ہے تو گرے بھی دل پر وہ آئینہ ہے تو چبھ ہی جائے
کہیں تو میرا یقین بکھرے کہیں‌ تو میرا گمان ٹوٹے
اجاڑ بن کی اداس رت میں غزل تو محسن نے چھیڑ دی ہے
کسے خبر ہے کہ کس کے معصوم دل پہ اب کہ یہ تان ٹوٹے
آپ ببانگ دہل ظلم کے خلاف ایک فی البدیہ شاعر کی حیثیت سے ظالموں کے دلوں کو چیرنے والے اشعار کہتے رہے۔ جس طرح معاشرتی مسائل کو ایک بہترین شاعر الفاظ کا جامہ پہناکر قارئین کی خدمت میں پیش کرسکتا ہے شاید ہی ایک بہت بڑے دانشور میں بھی اتنی مہارت پائی جاتی ہو۔ محسن نقوی جیسے شاعر صدیوں بعد خال خال ہی پیدا ہوتے ہیں۔عذاب دید، طلوع اشک، خیمہ جاں، رخت شب، فرات فکر، ریزہ حرف، موج ادراک، برگ صحرا اور بند قبا آپ کی مشہور کتابیں ہیں۔
محسن نقوی شاعری کے علاوہ مرثیہ نگاری میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں واقعہ کربلا کے استعارے جابجا استعمال کیے۔ ان کی تصانیف میں عذاب دید، خیمہ جان، برگ صحرا، طلوع اشک، حق عالیہ، رخت صاحب اور دیگر شامل ہیں۔ محسن نقوی کی شاعری میں رومان اور درد کا عنصر نمایاں تھا۔ ان کی رومانوی شاعری نوجوانوں میں بھی خاصی مقبول تھی۔ ان کی کئی غزلیں اور نظمیں آج بھی زبان زد عام ہیں اور اردو ادب کا سرمایہ سمجھی جاتی ہیں۔ محسن نے بڑے نادر اور نایاب خیالات کو اشعار کا لباس اس طرح پہنایا ہے کہ شاعری کی سمجھ رکھنے والا دنگ رہ جاتا ہے۔
اِک ”جلوہ“ تھا، سو گُم تھا حجاباتِ عدم میں
اِک ”عکس“ تھا، سو منتظرِ چشمِ یقیں تھا
محسن نقوی کے غزل اور نظم کے قادر الکلام شاعر ہونے کے بارے میں دو آراء نہیں ہو سکتیں۔ محسن کی نثر جو اُن کے شعری مجموعوں کے دیباچوں کی شکل میں محفوظ ہو چکی ہے بلا شبہ تخلیق تحریروں کی صفِ اوّل میں شمار کی جا سکتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک اور صنفِ سخن یعنی قطعہ نگاری کے بھی بادشاہ ہیں۔ اِن کے قطعا ت کے مجموعے ” ردائے خواب” کو ان کے دیگر شعری مجموعوں کی طرح بے حد پزیرائی حاصل ہوئی۔ نقادانِ فن نے اسے قطعہ نگاری میں ایک نئے باب کا اِضافہ قرار دیا۔ مذہبی نوعیت کے قطعات ” میراثِ محسن ” میں پہلے ہی درج کیے جا چکے ہیں۔ محسن نے اخبارات کے لیے جو قطعات لکھے ان کی زیادہ تر نوعیت سیاسی تھی لیکن ان کا لکھنے والا بہر حال محسن تھا –محسن نقوی شاعر اہلِ بیت کے طور پر بھی جانے جاتے تھے ۔
شہر کے سب لوگ ٹھہرے اجنبی
زندگی تو کب مجھے راس آئے گی
اب تو صحرا میں بھی جی لگتا نہیں
دل کی ویرانی کہاں لے جائے گی
اردو غزل کو ہر دور کے شعرا نے نیا رنگ اور نئے رجحانات عطا کیے۔ محسن نقوی کا شمار بھی انہی شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے غزل کی کلاسیکی اٹھان کا دامن تو نہیں چھوڑا تاہم اسے نئی شگفتگی عطا کی۔ محسن نقوی کے کلام میں صرف موضوعات کا تنوع ہی موجود نہیں بلکہ زندگی کی تمام کیفیتوں کو انہوں نے جدید طرز احساس عطا کیا۔ محسن نقوی کی
شاعری کا ایک بڑا حصہ اہل بیت سے منسوب ہے۔ انہوں نے کربلا پر جو شاعری لکھی وہ دنیا بھر میں پڑھی اور پسند کی جاتی ہے۔ ان کے مذہبی کلام کے بھی کئی مجموعے ہیں جن میں بندِ قبا، برگِ صحرا، ریزہ حرف، عذابِ دید، طلوعِ اشک، رختِ شب، خیمہ جاں، موجِ ادراک اور فراتِ فکر زیادہ مقبول ہیں۔
اُس رحمتِ عالم کا قصیدہ کہوں کیسے؟
جو مہرِ عنایات بھی ہو ، ابرِ کرم بھی
کیا اُس کے لیے نذر کروں ، جس کی ثنا میں
سجدے میں الفاظ بھی ، سطریں بھی ، قلم بھی
ایک مرتبہ محسن نقوی اپنے ماموں زاد سید علی شاہ نقوی کے ہمراہ اکٹھے گاڑی میں لاہور جا رہے تھے راستے میں ماچس کو انگلیوں سے بجاتے جاتے اور شعر کہتے جاتے اور لاہور تک انہوں نے ایک ایسی غزل کہہ ڈالی جو آج بھی زبان زد عام ہے وہ غزل تھی”
یہ دل یہ باگل دل میرا کیوں بجھ گیا آوارگی”
یہ دل یہ پاگل دل میرا کیوں بجھ گیا! آوارگی
اس دشت میں اک شہر تھا، وہ کیا ہوا؟ آوارگی
کل شب مجھے بے شکل کی آواز نے چونکا دیا
میں نے کہا! تُو کون ہے؟ اُس نے کہا! آوارگی
جسے پاکستان کے ہر دلعزیز گلوکار غلام علی نے گا کر ہمیشہ کے لیئے امر کر دیا۔
انیس سو انہتر میں انہوں پیپلزپارٹی کے باقاعدہ رکن کی حیثیت سے پی ایس ایف میں شمولیت اختیار کر کے سیاست میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا اس حوالے سے انہوں نے کئی نظمیں اور مضامین بھی لکھے۔ انہوں نے پاکستان کی سابقہ وزیراعظم بے نظیر بھٹو شہید کے لیے ایک نظم ” یااللہ یارسول ، بے نظیر بے قصور” لکھی جس پر انہیں 1994 ء میں صدراتی تمغہ برائے حسن کارکردگی (پرائیڈ آف پرفارمنس ) سے نوازا گیا
ایک پل میں زندگی بھر کی اداسی دے گیا
وہ جدا ہوتے ہوئے کچھ پھول باسی دے گیا
نوچ کر شاخوں کے تن سے خشک پتوں کا لباس
زرد موسم بانجھ رت کو بے لباسی دے گیا

محسن نقوی نے شاعری کا آغاز زمانہ طالب علمی سے کیا ان کا سب سے اہم حوالہ تو شاعری ہے۔ لیکن ان کی شخصیت کی اور بھی بہت سی جہتیں ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری صرف الف- لیلٰی کے موضوع تک ہی محدود نہ رکھی بلکہ انہوں نے دینا کے حکمرانوں کے بارے میں بھی بہت کچھ لکھا جنہیں اپنے لوگوں کی کوئی فکر نہ تھی۔ ان کی شاعری کا محور معاشرہ، انسانی نفسیات، رویے، واقعۂ کربلا اور دنیا میں ازل سے جاری معرکہ حق و باطل ہے۔

یہ جاں گنوانے کی رُت یونہی رائیگاں نہ جائے
سر سناں، کوئی سر سجاؤ ! اُداس لوگو
محسن نقوی نے اپنے کلام میں دہشت گردی اور دہشت گردوں کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا۔ان کی تصانیف میں عذاب دید، خیمہ جان، برگ سحرا، طلوع اشک، حق عالیہ اور دیگر شامل ہیں۔محسن نے اپنی شاعری کے ذریعہ نوجوانوں میں بھی مقبولیت حاصل کی۔
!میں نے اس طور سے چاہا تجھے اکثر جاناں
!!جیسے مہتاب کو بے انت سمندر چاہے
جیسے سورج کی کرن سیپ کے دل میں اترے
جیسے خوشبو کو ہِوا رنگ سے ہٹ کر چاہے
،،محسن نقوی نے اپنی شاعری میں روایتی محبوب اور محبت یا ہجر و فراق کے نشیب و فراز بیان کرنے کے علاہ سماجی زیادتی، معاشرتی بے حسی اور عالم انسانیت کے امن کو بھی موضوع سخن بنایا۔
میرا ماتم اسی چپ چاپ فضا میں ہوگا
میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی

پاکستان کے فن گائیکی کے بے تاج بادشاہ انٹرنیشنل ایوارڈ یافتہ نصرت فتح علی خان نے عظیم
شاعر محسن نقوی کی غزل ” کب تک تواونچی آواز میں بولے گا، تیری خاطر کون دریچہ کھولے گا” گن گنائی جو نصرت فتح علی خاں کو شہرت کے ساتویں آسماں پر لے گئی اور انہیں برطانیہ حکومت نے تمغہء حسن کارکردگی سے نوازا۔محسن نقوی نے فلم ساز سرداربھٹی کی بھر پور فرمائش پرفلم ” بازار حسن” کے لیئے ایک گیت ” لہروں کی طرح تجھے بکھرنے نہیں دیں گے” تحریر کیا جس پر انہیں نیشنل فلم ایوارڈ بھی ملا یوں محسن نقوی کا شمار دنیا کے بڑے گیت نگاروں میں ہونے لگا۔محسن نقوی کا کہنا ہے کہ میں میر، غالب، انیس سے روایتی شعور کا سہارا لے کر علامہ اقبال، جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، فراق گورکھپوری اور احمد ندیم قاسمی تک استفادہ کرتا ہوں انہیں مسلسل پڑھتا ہوں اور ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
محسن نقوی نے 1980 ء میں علامہ اقبال ٹائون لاہور میں ایک خوبصورت گھر تعمیر کروایا جس کا نام نجف ریزہ رکھا۔ نشتر بلاک میں تعمیر شدہ گھر سیاسی ، ادبی، فلمی اور علمی شخصیات کا مسکن بن گیا۔
قتل چھپتے تھے کبھي سنگ کي ديوار کے بيچ
اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بيچ
اپني پوشاک کے چھن جانے پہ افسوس نہ کر
سر سلامت نہيں رہتے يہاں دستار کے بيچ

محسن نقوی کو ہم سے بچھڑے ہوئے کئی برس بیت چکے ہیں لیکن محسن نقوی آج بھی اپنے کلام کی وجہ سے عوام کے دلوں میں زندہ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ جب بھی دنیائے ادب کی تاریخ رقم کی جائیگی محسن نقوی کا نام سنہری حروف سے لکھا جائیگا۔ محسن نقوی کی وفات کے بعداردو ادب اپنے ایک خدمتگار اور محسن سے محروم ہو گیا۔ یوں لکھوں تو بے جا نہ ہوگا کہ محسن نقوی ایک عہد کا نام ہے۔ محسن نقوی کا ایک لازوال شعر
عمر اتنی توعطا کر میرے فن کو خالق
میرا دشمن میرے مرنے کی خبر کو ترسے

محسن نقوی کی شاعری کا محور معاشرہ، انسانی نفسیات، رویے، واقعۂ کربلا اور دنیا میں ازل سے جاری معرکہ حق و باطل ہے۔اپنے عروج کی انتہا کو پہنچ کر محسن نقوی نے کالعدم تحریکیوں اور ان کے مکروہ سوچ کو اپنی شاعری کے ذریعے بے نقاب کرناشروع کیا تو پھر وہی ہوا جو اس ملک میں ہر حق گو کا مقدر ہے۔ اردو ادب کا یہ دمکتا چراغ 15 جنوری 1996 کو مون مارکیٹ لاہور میں اپنے دفتر کے باہر دہشت گردوں کی فائرنگ سے بجھ گیا تھا تاہم اس کی روشنی ان کی شاعری کی صورت میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق 45 گولیاں محسنؔ کے جسم میں لگیں۔یوں عالمی دبستان ادب کے افق پر چمکنے والا ستارہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو گیا ۔

بعد ازوصال ان کے دو مجموعے خیمۂ جاں اور حق ایلیاء کے ناموں سے زیور طباعت سے آراستہ ہوئے۔
اپنی مثال آپ رکھنے والے شاعر اور عاشق آل عبا ؑ ہیں انکی اپنے مولاعلیؑ سے والہانہ عقیدت اور ان کا ایمان کامل ان کے اس کلام سے ظاہر ہوتا ہے جو کہ وقت شہادت زندگی کےآخری لمحات میں انکے لبوں کی زینت تھا ،کہتے ہیں۔

بعض جگہوں پر یہ اشعاران کے آخری لمحات سے منسوب کیا جا تا ہے ۔
لے زندگی کا خمس علیؑ کے غلام سے
اے موت آ ضرور مگر احترام سے
عاشق ہوں گر ذرا بھی اذیت ہوئی مجھے
شکوہ کروں گا تیرا میں اپنے امامؑ سے
شہادت سے چند لمحے قبل محسن نقوی نے ایک لازوال شعر کہا تھا کہ
سفر تو خیر کٹ گیا
میں کرچیوں میں بٹ گیا۔
تحریر آفتاب احمد
کراچی پاکستان

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here