9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
حفیظ نعمانی
یادش بخیر 1967 ء کے آس پاس ایک جماعت مسلم مجلس بھی ہوا کرتی تھی جو اپنا جلوہ دکھاکر برسوں ہوگئے صرف نام اور آفس تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ اگر حافظہ غلطی نہیں کررہا ہے تو 1969 ء یا اس کے بعد اس کی سرگرمیاں بس نام کی حد تک رہ گئی تھیں لیکن یہ ہمیشہ ہوا ہے کہ الیکشن صوبائی ہو یا مرکزی اس کا ڈھول بجتے ہی مسلم مجلس کے وارثوں کو اپنے وجود کا ثبوت دینے کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے۔
اور تازہ ثبوت وہ ہے جو دارالشفاء کے اے بلاک کے کامن ہال میںایک سیمینار کرکے دیا گیا جس کی صدارت چیئرمین پالیمنٹری بورڈ سید توفیق علی جعفری نے کی۔ یہ بھی خبر ہے کہ مسلم مجلس کا کوئی پارلیمنٹری بورڈ بھی ہے جس کا چیئرمین بھی ہوا کرتا ہے۔ جہاں تک ہم نے دیکھا ہے پارٹیوں کا پارلیمنٹری بورڈ اس وقت ہوا کرتا تھا جب بورڈ غور و فکر کے بعد فیصلہ کرتا تھا کہ کس حلقہ سے کسے ٹکٹ دیا جاے کیونکہ ہر حلقہ سے ایک ایک درجن اُمیدوار ہوتے تھے لیکن اب برسوں سے کسی پارٹی کا پارلیمنٹری بورڈ نہیں ہے۔ اور یہ بات ہم دعوے کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ مسلم مجلس کو بھی اس آزمائش میں مبتلا نہیں ہونا پڑا کہ ایک انار اور سو بیمار۔ ہوسکتا ہے اب وہ منزل آگئی ہو اور ٹکٹ لینے والوں کی لائن تکیہ پیر جلیل سے قیصر باغ تک چلی گئی ہو۔
یہ بات چیئرمین توفیق علی صاحب خوب جانتے ہیں کہ مسلم مجلس مشاورت جب بنی تھی تو اترپردیش کی صدارت کے لئے مشاورت کے بانی ڈاکٹر سید محمود صاحب نے مولانا علی میاں اور مولانا منظور نعمانی سے کہا تھا کہ صدر آپ دونوں میں سے کوئی بنے۔ اور دونوں نے یہ کہا تھا کہ ہماری زندگی کی دوسری دینی اور علمی مصروفیات ایسی ہیں کہ ہم اس سے جوڑ نہ لگا سکیں گے اور آپ ڈاکٹر فریدی صاحب کو بنا دیجئے ڈاکٹر محمود صاحب کسی صورت میں بھی اس کے لئے تیار نہیں تھے لیکن مولانا علی میاں نے پوری ذمہ داری لی کہ وہ کوئی فیصلہ ہمارے مشورہ کے بغیر نہیں کریں گے۔ لیکن جب یہ فیصلہ ہوا کہ مجلس مشاورت اپنے امیدوار کھڑے نہیں کرے گی اور سیکولر غیرکانگریسی پارٹیوں کے نیک نام اُمیدواروں کی حمایت کا اعلان کرے گی۔ ابتدا میں ڈاکٹر صاحب اسی پر کاربند رہے لیکن بعد میں جب صوبائی الیکشن آئے تو ڈاکٹر صاحب نے اپنے امیدوار لڑانے کا فیصلہ کرلیا۔
تازہ سیمینار میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی اپنے تجربات کی بناء پر اس نتیجہ پر پہونچے کہ بغیر مسلم سیاسی جماعت کے مسلم مسائل کے حل کیلئے جدوجہد نہیں کی جاسکتی اور بہت غور و فکر کے اوراہل الرائے سے مشورہ کرے مسلم مجلس نام سے سیاسی جماعت کو قائم کیا۔ جبکہ ڈاکٹر صاحب کے اس فیصلہ کے بعد کہ وہ مشاورت کے اُمیدوار لڑائیں گے ڈاکٹر محمود صاحب نے مولانا علی میاں سے کہا کہ میں اسی لئے ان کو صدر نہیں بنانا چاہتا تھا۔ اور توفیق صاحب کو یاد ہونا چاہئے کہ مولانا علی میاں آئے اور انہوں نے اپنی شخصیت کا پورا دبائو ڈال کر ڈاکٹر فریدی صاحب کو اس پر آمادہ کیا کہ وہ مسلم مجلس مشاورت کے بجائے اپنی الگ جماعت مسلم مجلس بنالیں۔ اگر ڈاکٹر صاحب کو یہ خطرہ نہ ہوتا کہ وہ اگر نہیں مانیں گے تو علی میاں مخالفت میں کھل کر بیان دیں گے تو وہ نہ مانتے۔ انہوںنے مسلم مجلس بنانا قبول کرلیا نہ اس پر غور ہوا نہ اہل الرائے سے مشورہ ہوا یہ صرف ایک جذباتی فیصلہ تھا۔
جعفری صاحب خوب جانتے ہیں کہ اس زمانہ میں ہمارا کتنا آنا جانا تھا اور ہم معاملات سے کتنا واقف ہیں۔ یہ کوئی الزام نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے کہ ڈاکٹر صاحب جب مریضوں کو دیکھتے دیکھتے تھک جاتے تھے تو دل بہلانے کے لئے سیاست کرلیا کرتے تھے۔ یہ خدا کا عطیہ تھا کہ جتنا کام لوگ دن بھر میں کرتے تھے وہ ایک گھنٹہ میںکرلیا کرتے تھے۔ توفیق صاحب کو یاد ہوگا کہ جب سیاسی ماحول عروج پر تھا تب بھی ڈاکٹر صاحب اتنے ہی مریض دیکھتے تھے سب کو دیکھنے کے بعد درمیانی کمرہ میں آتے تھے۔ پہلا جملہ ہوتا تھا کہ توفیق صاحب کو چائے پلائی۔ اچھا ہماری چائے لائو اور جتنی دیر وہاں ضرورت ہوتی تھی بیٹھتے تھے اور پھر گھر روانہ ہوجاتے تھے۔ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ آچاریہ کرپلانی کے الیکشن میں 15 دن وہ سنبھل میں رہے اور ہمیں اپنے ساتھ ہی رکھا یہ ان کا وہ روپ تھا جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا سنبھل، حسن پور اور امروہہ میں پھیلی ہوئی سیٹ کے چپہ چپہ پر خود بھی تقریر کی اور ہم سے کہا تمہارا علاقہ ہے کوئی کسر نہ اٹھانا۔ اس وقت آچاریہ کرپلانی اور بابو ترلوکی سنگھ ہر وقت اس فکر میں رہتے تھے کہ ان کی طبیعت ٹھیک رہے۔ اس وقت وہ ایسے سیاسی لیڈر تھے کہ کتنے ہی قریبی تعلق والے نے کہا کہ ایک مریض کو صرف دیکھ لیجئے اسے تسلی ہوجائے گی وہ تیار نہیں ہوئے۔
انہوں نے جو سیکولر پارٹی مسلم مجلس بنائی اس میں نائب صدر ایک سردار جی کو اور سکریٹری ایک دلت ساتھی جی کو بنا دیا وہ کہتے تھے کہ بس ہوگئی جمہوریت آج بھی جو مسلم اور بیک ورڈ پارٹی بنانا چاہتا ہے وہ نقشہ اسی طرح بناتا ہے کہ صدر اور خازن مسلمان رہے گا اور ڈولی دوسرے اٹھائیں۔ مس مایاوتی کے ساتھ لاکھوں مسلمان لگے ہوئے ہیں لیکن نسیم الدین صدیقی کا انجام سامنے ہے۔ اویسی صاحب بھی یہی ڈھول گلے میں ڈالے گھوم رہے ہیں۔ ہندوستان میں بچے ہوئے مسلمان اب اس قابل نہیں ہیں کہ وہ قیادت کریں اور دوسرے ان کی ڈولی اٹھائیں آزادی کے بعد سے اب تک سب تجربے کرچکے ہیں۔ ان کے لئے صرف اور صرف ایک راستہ ہے کہ وہ کسی ایک سیاسی سیکولر پارٹی سے وابستہ ہوجائیں جو مسلمان آج بڑھ بڑھ کر بات کرتے ہیں وہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جب 13 اگست 1947 ء کو کراچی جاتے وقت مسلم لیگ کے سب سے زیادہ شاندار لیڈر سے اخباری رپورٹروں نے پوچھا کہ ان تین کروڑ مسلمانوں کا کیا ہوگا جن کو آپ چھوڑے جارہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا تھا کہ مندر میں جائیں گے گھنٹا بجائیں گے، تلک لگائیں گے تو کیا ہوا ہم نے چھ کروڑ مسلمانوں کا ایمان بچا لیا اور یہ سودا مہنگا نہیں ہے۔ خدا کا احسان ہے کہ وہ تو نہیں ہوا جو نشتر نے کہا تھا اور ڈولی اٹھانا شریعت میں حرام نہیں ہے۔ اس وقت جو مسلم پارٹی کی بات کرتا ہے وہ سب سے بڑا مسلم دشمن ہے اللہ اسے ہدایت دے۔ آمین۔
Mobile No. 9984247500
خخخ