9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
حفیظ نعمانی
یہ بات ہنس کر ٹال دینے یا رشتہ سے جوڑکر ختم کرنے کی نہیں ہے بلکہ اس لئے سنجیدگی سے لینے کی ہے کہ نہ نریندر مودی نے کچی گولیاں کھیلی ہیں اور نہ ملائم سنگھ، شیوپال کو دودھ میں گری مکھی کی طرح نکال کر پھینکنے والے ہیں۔ 2017 ء کے صوبائی الیکشن میں بار بار یہ بات کہی گئی کہ ملائم سنگھ کا دل اکھلیش کی طرف سے صاف ہوگیا اب وہ پارٹی کا الیکشن لڑائیں گے۔ لیکن اکھلیش آخر آخر تک ان کا راستہ دیکھتے رہے اور ان کو جس نے نہیں آنے دیا وہ آج بھی ملائم سنگھ کے دل پر قبضہ کئے بیٹھی ہے۔
اترپردیش کی 80 سیٹیں جس کی مٹھی میں آجائیں وہ بادشاہ نہیں تو بادشاہ گر ضرور بن جائے گا۔ بی جے پی کے خلاف اگر ملک گیر محاذ بنا تو، یا الگ الگ صوبوں میں الگ الگ محاذ بنے تو اکھلیش یادو اور مایاوتی کا محاذ سب سے زیادہ طاقتور ہوگا۔ اور اسے ختم کرنے یا منتشر کرنے کے لئے ہزار دو ہزار کروڑ بھی خرچ کئے جاسکتے ہیں اور اسے ختم کرنے والے کو نائب وزیراعظم بھی بنایا جاسکتا ہے۔
اب اس خبر پر غور کیجئے کہ ملائم سنگھ 30 اکتوبر کو 11 بجے شیوپال کی پرگتی شیل سماج وادی پارٹی کے دفتر 11 بجے گئے اور ایک گھنٹہ سے زیادہ دیر تک رُکے اور وہاں ملائم سنگھ زندہ باد کے نعرے لگے اور انہیں وزیراعظم بنانے کا عہد کیا گیا اور شیوپال نے کہا کہ انہوں نے نیتاجی (ملائم سنگھ) کے آشیرواد سے ہی نئی پارٹی کی تشکیل دی ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ اترپردیش کی 80 سیٹوں پر ہم الیکشن لڑیں گے اور نیتاجی کو مین پوری سے الیکشن لڑایا جائے گا۔ واضح رہے کہ ملائم سنگھ نے سوا گھنٹہ میں ایک بار بھی اور ایک بات کی بھی تردید نہیں کی۔ اور سب سے زیادہ اہم ایک اور بات ہے کہ شیوپال کو ایم ایل اے کی حیثیت سے وہ بنگلہ الاٹ کیا گیا ہے جس میں بی ایس پی کی سربراہ مس مایاوتی رہتی تھیں۔
یہ بات تو اب راز نہیں ہے کہ امرسنگھ اکھلیش کے کھلے دشمن کے طور پر سامنے آگئے ہیں۔ اور امرسنگھ نہ ملائم سنگھ سے ناراض ہیں اور نہ شیوپال سے اور یہ بات سب سے اہم ہے کہ ملائم سنگھ کی بیگم سے ان کے تعلقات امرسنگھ کی معرفت میں ہوئے تھے۔ اور بیگم کو شادی پر راضی یہی کہہ کر کیا ہوگا کہ وہ ملکہ بننے جارہی ہیں۔ ملائم سنگھ اگر اترپردیش کے وزیراعلیٰ نہیں بنے تو مرکز میں وزیر بن جائیں گے ورنہ پارلیمنٹ کے ممبر تو ہر حال میں رہیں گے جن کا دہلی میں بنگلہ ہوگا اور آپ ہوائی جہاز میں اُڑا کریں گی۔
جو بات 2017 ء میں تھی وہی آج ہے اور اسے اکھلیش کی خوش قسمتی کہنا چاہئے کہ ملائم سنگھ سات مہینے پہلے کھل گئے۔ اس بات کو اکھلیش بابو ہم سے بہت زیادہ جانتے ہوں گے کہ 2009 ء میں جب امریکی صدر بش جارہے تھے تو انہوں نے ہندوستان کے وزیراعظم کو کسی ڈیل کے لئے بلایا تھا۔ اس وقت بائیں بازو کی حمایت سے حکومت چل رہی تھی۔ بائیں بازو نے سخت مخالفت کی حد یہ کہ حمایت واپس لینے کی دھمکی دی لیکن امرسنگھ نے ملائم سنگھ کو حمایت پر آمادہ کرلیا اور کانگریس بچانے کی قیمت اسی حساب سے لے لی جس حساب سے منموہن سنگھ امریکہ سے کرنے گئے تھے۔
امرسنگھ کے پاس ملائم سنگھ کی کئی کمزوریوں کے ثبوت ہیں۔ اس رشتہ کے علاوہ اور بھی رشتوں کی شہرت ہوچکی ہے۔ اور جس زمانہ میں انہیں ظل الٰہی اور جہاں پناہ بناکر امرسنگھ نے اندر بٹھا دیا تھا۔ اور جگ جیون رام یا امرسنگھ بڑے بڑے معاملات کے فیصلے باہر ہی کردیا کرتے تھے اس وقت بھی ملائم سنگھ کے بہت سے چاہنے والے ہی شکایت کرتے سنے گئے کہ وہ کسی سے ملتے ہی نہیں۔ اس زمانہ کی کہانیاں سب امرسنگھ کے پاس ہیں اور امرسنگھ پر جس نے بھروسہ کرکے ملائم سنگھ کا ہاتھ پکڑا ان کا افسردہ چہرہ امرسنگھ نہیں دیکھ سکتے اور جب تک ملائم سنگھ پارٹی کے قومی صدر اور مختار نہیں بنیں گے یہ خواب پورا نہیں ہوسکتا اور اس خواب کے لئے شیوپال تو سب کچھ کرسکتے ہیں اس لئے کہ خود زیرو ہیں لیکن اکھلیش یادو کیسے کرسکتے ہیں جنہوں نے پانچ سال جیسی بے داغ اور صاف ستھری حکومت کی ہے اس نے سب سے لوہا منوالیا۔
اس پونے دو سال کے عمر میں جو کچھ اترپردیش نے دیکھا ہے۔ ضرورت ہے کہ لوک سبھا کے الیکشن میں وہ سب اکھلیش یادو کی زبانی سامنے آجائے۔ موجودہ حکومت کے نزدیک ایودھیا میں دیوالی، دسہرہ یا اردھ کمبھ کا میلہ اور صبح سے شام تک رام مندر کے قصیدے یا وزیراعظم کی تعریف و تحسین کے علاوہ کوئی کام نہیں ہے آدتیہ ناتھ یوگی سمجھتے ہیں کہ اس لئے انہیں وزیراعلیٰ بنایا گیا ہے۔ اکھلیش بابو اب اپنی پارٹیوں کو اس جھولے میں نہ جھولنے دیں جس میں ان کے باپ ملائم سنگھ جھلا رہے ہیں۔ وہ ایک بات لوہے کے قلم سے لکھ کر گلے میں ڈال لیں کہ جب تک ان کی چھوٹی ماں گھر میں موجود ہیں ملائم سنگھ اکھلیش کو وزیراعلیٰ اور ڈمپل کو خاتونِ اوّل نہیں ہونے دیں گے۔ ہر طرف سے کہا جائے گا کہ جو باپ اور چچا کا نہ ہوا وہ قوم کا کیا ہوگا؟ اس کا وہی جواب ہے جو اورنگ زیب نے اپنے باپ کو دیا تھا اور ان کی بات اگر مان لیتا تو جو حکومت 50 برس چلی وہ 5 برس میں ایسے ہی ختم ہوجاتی جیسے اورنگ زیب کے بعد ختم ہوگئی۔ بیشک باپ اور چچا پر اولاد کو قربان ہوجانا چاہئے لیکن بات اگر ملک اور قوم کی آجائے تو اور مرض معلوم ہو تو علاج نہ کرنا جرم ہے۔
اکھلیش یادو کے لئے ضروری ہے کہ اپنے آزمودہ ساتھیوں کو بند کمرے میں بلاکر ان سے بات کریں اور انہیں سمجھا دیں کہ اب نیتاجی نہ سماج واد کے ہیں نہ کسانوں اور غریبوں کے وہ صرف ان کے ہیں جن کو چھوٹی ماں پسند کریں اور چھوٹی ماں انہیں پسند کریں گی جن کو امرسنگھ پسند کریں۔ سماج وادی پارٹی کے لوگ اندھے نہیں ہیں جن کو یہ نظر نہ آتا ہو کہ ایک آدمی جو ملائم سنگھ کی وجہ سے پانچ بار ایم ایل اے بنا اسے نہ ملائم سنگھ نے کوٹھی دی نہ مایاوتی نے۔ اس بی جے پی نے دی جس کے خلاف اس نے پارٹی بنائی ہے۔ یہ اکھلیش کی خوش قسمتی ہے کہ ان کے چچا کے پاس اتنی عقل نہیں ہے کہ وہ بی جے پی کے اشاروں کو سمجھیں۔ وہ ابھی سے انہیں وزیراعظم بنانے کا وعدہ کررہے ہیں جبکہ نریندر مودی کو تارے نظر آرہے ہیں۔ ذراسا ماحول اور گرم ہوگا تو بھانڈا پھوٹ جائے گا۔ اس لئے اکھلیش کو پہلے کھل کر باپ سے بات کرنا چاہئے وہ اگر دونوں کشتیوں پر سواری کرنے کی ضد کریں تو صاف کہہ دیں کہ پرگتی شیل میں ہی جایئے اور ہمیں بھول جائیے۔ یا ان سے صاف کہہ دیجئے کہ آج کے بعد میرا نام نہ لینا۔
Mobile No. 9984247500
خخخ